سماجی فاصلے اور دوری رکھی، ہم نے شاید ہاتھ۔ نہیں ملائے گلے نہیں ملے، باقی بہت دوریاں تو اب بھی کسی سے نہ تھیں۔ دفتر کے کام بھی ویسے ہی چل رہے ہیں اور گھر،بازار میں بھی کسی کو غیر ضروری چھوئے بغیر معاملات نمٹائے جارہے ہیں۔
کورونا کا ٹیسٹ مثبت آنا کچھ حیرت میں ڈال گیاکیونکہ بہت زیادہ بداحتیاطی بھی نہیں کی گئی، صرف اتنی تسلی تھی کہ جنہیں ہورہا ہے ان میں سے اکثریت بھی محتاط لوگوں کی ہے۔
قرنطینہ کے عمل سے گزرے، اس سے متعلق دوسروں سے سنا اور پڑھا بھی تھا، اگر درست انداز میں انجام دیں تو بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے، ظاہر بات ہم لوگ تنہائی پسند نہیں رہے، ایک دوسرے سے میل ملاپ گپ شپ کا کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر موبائل فون اور انٹرنیٹ نے انسان کی تنہائی بلکہ پرائیویسی ذاتی زندگی کی مصروفیات بھی کسی حد تک ختم کردی ہے۔
مجھے بھی دو تین باتوں کا تجربہ ہوا، اس میں دوست عزیز احباب کے تیمار داری اور خیریت دریافت کرنے کیلئے فون کالز تھیں، جن میں تقریباً سب نے مفید مشورے دیئے، ایک بار پھر احتیاطیں بتائیں اور صحت یابی کی دعائیں دیں۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ کچھ کا اصرار ہوتا کہ فلاں شے ضرور کھانا ہے، فلاں بوٹی کا قہوہ پینا مفید ہے، اگر یہ نہیں کرتے تو علاج میں حرج ہوگا، یعنی وارننگ ساتھ ہوتی۔
کورونا مثبت کے ساتھ قرنطینہ میں تھوڑا سا آدمی پہلے ہی نروس ہوتا ہے، اپنے اعصاب مضبوط کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے، اس میں حوصلہ بڑھانے کی تدابیر بعض اوقات پریشانی میں اضافہ کردیتی ہیں۔
آپ کسی کو مسترد نہیں کرسکتے لوگوں کے بتائے ممکنات کو خارج ازامکان نہیں کرپاتے، کیونکہ وہ بڑی چاہت اور احساس کرتے ہوئے یہ سب کررہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وقت گزاری کے لیے چلے جائیں تو وہاں بھی مشوروں، وڈیو کلپس اور ٹوٹکوں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے، کسی دوست کے علم میں آجائے کہ آپ کورونا مریض ہیں، پھر وہاں آپ کے لیے دعاوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
اس میں کچھ حیرت ہوئی کہ ہر پوسٹ پر کمنٹ کرنے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے آپ کے بے حد قریبی دوست یا عزیز بالکل لاعلم ہوتے یا اُن کے پاس وقت نہیں کہ کورونا مریض سے بات کرنے میں کیا رکھا ہے، کیونکہ انہوں نے دیگر اہم سیاسی، سماجی، ملکی مسائل پر نئی نئی بحثوں کو آگے لے کر چلنا ہوتا ہے۔
میں نے دیکھا کہ دوست احباب کے پاس سوشل میڈیا کے لیے اچھا خاصا وقت ہوتا ہے، ظاہر ہے جب آپ کسی کو بھی دیکھتے ہیں، وہ اکثر اپنے فون کے ساتھ مصروف دکھائی دیتا ہے، وہ چاہے نمازی ہو یا کوئی طالبعلم، یا مزدور ہو، وہ فون کی سکرین پر بہت غور سے کچھ نہ کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے، اس کی دلچسپی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ سامنے کھانا بھی پڑا ہو مگر وہ توجہ نہیں دیتا۔
میں نے قرنطینہ کے دوران کچھ دن گزرنے کے بعد خود سے دوستوں اور رشتہ داروں کو فون ملانے شروع کردیئے کیونکہ میں بور ہونے لگا تھا، میرے پاس بہت کچھ کرلینے کے بعد بھی وقت ہوتا، جن لوگوں نے میرے کورونا مثبت کی اطلاع پر محض چند الفاظ کے پیغام بھیجے، انہیں بھی فون کیا۔
ہاں ایک بات بتانا بھول گیا، ابتداء میں پہلے دو دن ایک آدھ چھوڑ کے کسی نے فون نہیں کیا، ایسا لگا جیسے سب گھبرا گئے کہ کہیں فون کرنے سے بھی وائرس منتقل نہ ہوجائے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا خیال ہو، ہم کیا بات کریں ہمدردی کے کون سے الفاظ کا چناو کیا جائے۔
خیر یہ طلسم بھی ٹوٹا، فون آنے شروع ہوئے، مجھے بھی کچھ تسلی سی ہوئی، ہم ایک جگہ بند رہ کر اپنی مصروفیت جاری نہیں رکھ سکتے ، میں کورونا کی معمولی علامات کے ساتھ قرنطینہ میں تھا، جس میں ہلکا بخار، گلے میں درد ، سرچکرانا، تھوڑا ا ہاضمہ خراب ہونا، ایک آدھ بار سانس کا کچھ مسئلہ بنا، مجموعی طور پر تمام وقت ٹھیک گزرا۔ اتنا ضرور تھا کورونا نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، جیسے ہم کسی اور بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ کہ اس معاملے کو چھپانا، کسے بتانا کسے نہیں یہ بھی مسئلہ ہوتا ہے، اردگرد کے پڑوسی، کالونی کے جاننے والے، بعض خاندان کے بزرگ یا کمزور اعصاب کے مالک اور ایسے تمام حضرات جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بات پھیلادیتے ہیں، ان سب کو اس خبر سے دور رکھا گیا۔ گھریلو ملازمہ کو بھی احتیاط کا بہانہ بناکر چھٹی دے دی۔ کسے شک ہوا کسے نہیں کوئی باخبر نہیں۔
کورونا کا مریض اس ساری صورتحال میں کیا کرے، وہ خود کو سنبھالے یا ان ساری باتوں کا خیال رکھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس ثانوی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں اپنے تنہائی کے لمحات کو ایسی سوچوں کے شور میں کیوں خراب کیا جائے، حتی المقدور کوشش کی کہ گھروالوں کو زیادہ تنگ نہ کیا جائے، مطلب زیادہ فرمائشیں نہ کی جائیں۔ پھر بھی وہ کہہ سکتے ہیں نہیں جناب کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی، تو میں انکار کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں۔
اکثر چھوٹی موٹی بیماریوں میں مبتلا رہنے والے کو ایسے مرض کا شکار بننے کا پہلی بار موقع ملا، وہ بے چارہ کیا کرے۔ اسے اعزاز سمجھے یا گھبرا کے اعصاب پر سوار کرلے، نقصان پھر اپنا ہی ہونا ہے۔ یہی طے پایا کہ خوشی خوشی وقت گزاردیں، خاموشی سے مشوروں اور تلقین والے فون سیں، تھوڑا بہت سوشل میڈیا دیکھیں، زیادہ سے اجتناب کریں کیونکہ اس عرصے میں اخذ کیا کہ سنجیدگی سے لینے پر سماجی رابطے بھی صحت پر مجراثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ انسان ایک نئی اور خیالی دنیا میں چلا جاتا ہے، جہاں ہر کوئی مستند تجزیہ کار کے طور پر ملتا ہے۔
اس سب سے بہتر یہ ہے کہ اپنے مطلب کی کتاب پڑھ لیں، خود کلامی کرلیں، وہ زیادہ احسن کام ہے، بظاہر فضول لگتا ہے لیکن میں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اپنے آپ سے نشست کرنا، اندر کی تنہائی ختم کردیتا ہے۔ کیا کچھ کرتے رہے، کہاں غلطی کی، کہاں ٹھیک ہوسکتا تھا، یہ سب باتیں کھل کر ہوتی ہیں۔ تنہائی کی مصروفیات اور ترجیحات بدلنےسے آدمی میں ایک تازگی آجاتی اور نئی لہر دوڑتی ہے، ایسے میں قرنطینہ بھی نعمت ثابت ہوتی ہے۔