Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
کورونا نے کم وبیش دنیا کے تمام ممالک کی معیشتوں پر کاری ضرب لگائی ھے۔ کروڑوں لوگ یا تو بیروزگار ھو گۓ یا پھر غربت کی سطح سے نیچےآ گۓ۔ کورونا کے ان گنت منفی پہلو ہیں۔ اکثر لوگ کورونا کے منفی پہلوؤں ہی سے واقف ہیں اور وہ اس کے منفی پہلوؤں کے بارے میں گفتگو کرتے نظرآتے ہیں۔
بہت کم لوگ کورونا کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں جانتے ھوں گے۔کورونا کا سب سے مثبت پہلو لاک ڈاؤن شادیاں ہیں۔اور یہ کہنا غلط نہ ھو گا کہ کورونا بہت سے خاندانوں کے لیے رحمت بن کر آیا ھے۔ لاکھوں خاندان ایسے تھے جن میں جوان لڑکیاں اپنی شادی کی منتظر تھیں۔ ان لڑکیوں کے والدین بے بس اور مجبور تھے کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہ تھے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرسکتے۔ والدین قرضہ لے کر اپنی ایک بیٹی کی شادی کرتے، ابھی وہ قرض اترا بھی نہ ھوتا کہ دوسری بیٹی کی شادی کے لیے پھر قرض لینا پڑتا۔ اس طرح بوڑھا باپ اپنی بقیہ عمر قرض اتارنے میں صرف کر دیتا۔ یہ اس معاشرے کا ایک المیہ ھے۔
یہ کورونا ہی ھے جس نے ایسے خاندانوں کو ایک موقع فراھم کیا کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی بیٹیوں کوسادگی سے رخصت کریں۔
لاک ڈآؤن کی وجہ سے شادی کے اخراجات میں تقریباً 50 سے 60 فیصد کمی آ چکی ھے اور اس کا بھر پور فائدہ ایسے تمام خاندان اٹھا رھے ہیں جو ہر بات پر کہتے تھے کہ اگر یہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔ اور اگر وہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔
کورونا کے نتیجے میں ھونے والی لاک ڈآؤن شادیوں میں تمام غیر ضروری تقریبات کا عارضی طور پر خاتمہ ھو چکا ھے۔ اور والدین کی بڑی تعداد نے سکھ کا سانس لیا ھے۔
لڑ کے والوں کی مہندی، لڑکی والوں کی مہندی، بارات اور پھر ولیمہ۔ یہ چار بڑی دعوتیں تھیں جو ہر شادی میں لازم وملزوم سمجھی ھاتی تھیں۔ ان دعوتوں کے لیے شادی ہالز کے اخراجات اور پھر کھانے پینے کے اخراجات سفید پوش والدین پر بہت بڑا بوجھ تھے ۔
ان دعوتوں کے menu کا انتخاب بھی ایک بڑا مسئلہ تھا، کہ menu میں یہ بھی ھونا چاہیے اور وہ بھی شامل ھونا چاہیے۔ فلاں کی بیٹی کی شادی میں یہ بھی تھا ، اور فلاں کی بیٹی کی شادی میں وہ dish بھی شامل تھی۔ھمیں بھی menu میں فلاں فلاں آئٹم رکھنے چاہیں ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔
پھر ایک اور مسئلہ دعوت دینے کا تھا کہ کس کو بلایا جاۓ اور کس کو نہ بلایا جاۓ۔ کیا دو افراد کو دعوت دی جاۓ یا پورے گھر والوں کو بلایا جاۓ۔ انھوں نے تو ھمارے پورے گھر والوں کو بلایا تھا، اگر ہم نے صرف دو افراد کو بلایا تو وہ لوگ کیا سوچیں گے۔
غرض یہ کہ ہر بات کہ ساتھ یہ بات جڑی ھوتی کہ لوگ کیا کہیں گے یا یہ کہ لوگ کیا سوچیں گے۔
لاک ڈآؤن شادی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھے کہ ایسی شادی میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ھوتی ھے۔ دولہا اپنے چند انتہائ قریبی عزیز واقارب کے ساتھ آتا ھے جن کی تعداد آٹھ سے دس ھوتی ھے۔ شادی کی یہ سادہ تقریب چند گھنٹوں میں ختم ھو جاتی ھے۔ اس شادی میں بنیادی اہمیت نکاح کو حاصل ھوتی ھے۔
ایسی شادیوں نے دکھاوے کی لعنت کا بھی خاتمہ کر دیا ھے۔ جب لوگ ہی نہیں ھوتے تو دکھاوہ کس کے لیے۔
اسی طرح لاک ڈآؤن شادی کے نتیجہ میں مختلف قسم کی فضول رسموں کا بھی خاتمہ ھو گیا ھے جن کا نہ سر تھا نہ پیر۔ اور جو ہماری ثقافت کا بالکل بھی حصہ نہ تھیں۔
ایک طرف تو کورونا نے کروڑوں لوگوں کو بیروزگار کیا ھے تو دوسری طرف کورونا نے بہت سے والدین کے معاشی مسئلہ کو حل کرنے میں اھم کردار ادا کیا ھے اور انھیں سادگی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ لاکھوں والدین نے موقع کو غنیمت جان کر اپنی بچیوں کی شادی کی اور سکھ کا سانس لیا۔ اگر کورونا نہ آتا اور لاک ڈآؤن نہ ھوتا تو بہت سے والدین آج بھی اپنی بچیوں کی شادی کے لیے وسائل کی کوششوں میں پریشان رہتے۔ اور وسائل کے بندوبست کا انتظار کرتے۔
کورونا نے کم وبیش دنیا کے تمام ممالک کی معیشتوں پر کاری ضرب لگائی ھے۔ کروڑوں لوگ یا تو بیروزگار ھو گۓ یا پھر غربت کی سطح سے نیچےآ گۓ۔ کورونا کے ان گنت منفی پہلو ہیں۔ اکثر لوگ کورونا کے منفی پہلوؤں ہی سے واقف ہیں اور وہ اس کے منفی پہلوؤں کے بارے میں گفتگو کرتے نظرآتے ہیں۔
بہت کم لوگ کورونا کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں جانتے ھوں گے۔کورونا کا سب سے مثبت پہلو لاک ڈاؤن شادیاں ہیں۔اور یہ کہنا غلط نہ ھو گا کہ کورونا بہت سے خاندانوں کے لیے رحمت بن کر آیا ھے۔ لاکھوں خاندان ایسے تھے جن میں جوان لڑکیاں اپنی شادی کی منتظر تھیں۔ ان لڑکیوں کے والدین بے بس اور مجبور تھے کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہ تھے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرسکتے۔ والدین قرضہ لے کر اپنی ایک بیٹی کی شادی کرتے، ابھی وہ قرض اترا بھی نہ ھوتا کہ دوسری بیٹی کی شادی کے لیے پھر قرض لینا پڑتا۔ اس طرح بوڑھا باپ اپنی بقیہ عمر قرض اتارنے میں صرف کر دیتا۔ یہ اس معاشرے کا ایک المیہ ھے۔
یہ کورونا ہی ھے جس نے ایسے خاندانوں کو ایک موقع فراھم کیا کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی بیٹیوں کوسادگی سے رخصت کریں۔
لاک ڈآؤن کی وجہ سے شادی کے اخراجات میں تقریباً 50 سے 60 فیصد کمی آ چکی ھے اور اس کا بھر پور فائدہ ایسے تمام خاندان اٹھا رھے ہیں جو ہر بات پر کہتے تھے کہ اگر یہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔ اور اگر وہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔
کورونا کے نتیجے میں ھونے والی لاک ڈآؤن شادیوں میں تمام غیر ضروری تقریبات کا عارضی طور پر خاتمہ ھو چکا ھے۔ اور والدین کی بڑی تعداد نے سکھ کا سانس لیا ھے۔
لڑ کے والوں کی مہندی، لڑکی والوں کی مہندی، بارات اور پھر ولیمہ۔ یہ چار بڑی دعوتیں تھیں جو ہر شادی میں لازم وملزوم سمجھی ھاتی تھیں۔ ان دعوتوں کے لیے شادی ہالز کے اخراجات اور پھر کھانے پینے کے اخراجات سفید پوش والدین پر بہت بڑا بوجھ تھے ۔
ان دعوتوں کے menu کا انتخاب بھی ایک بڑا مسئلہ تھا، کہ menu میں یہ بھی ھونا چاہیے اور وہ بھی شامل ھونا چاہیے۔ فلاں کی بیٹی کی شادی میں یہ بھی تھا ، اور فلاں کی بیٹی کی شادی میں وہ dish بھی شامل تھی۔ھمیں بھی menu میں فلاں فلاں آئٹم رکھنے چاہیں ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔
پھر ایک اور مسئلہ دعوت دینے کا تھا کہ کس کو بلایا جاۓ اور کس کو نہ بلایا جاۓ۔ کیا دو افراد کو دعوت دی جاۓ یا پورے گھر والوں کو بلایا جاۓ۔ انھوں نے تو ھمارے پورے گھر والوں کو بلایا تھا، اگر ہم نے صرف دو افراد کو بلایا تو وہ لوگ کیا سوچیں گے۔
غرض یہ کہ ہر بات کہ ساتھ یہ بات جڑی ھوتی کہ لوگ کیا کہیں گے یا یہ کہ لوگ کیا سوچیں گے۔
لاک ڈآؤن شادی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھے کہ ایسی شادی میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ھوتی ھے۔ دولہا اپنے چند انتہائ قریبی عزیز واقارب کے ساتھ آتا ھے جن کی تعداد آٹھ سے دس ھوتی ھے۔ شادی کی یہ سادہ تقریب چند گھنٹوں میں ختم ھو جاتی ھے۔ اس شادی میں بنیادی اہمیت نکاح کو حاصل ھوتی ھے۔
ایسی شادیوں نے دکھاوے کی لعنت کا بھی خاتمہ کر دیا ھے۔ جب لوگ ہی نہیں ھوتے تو دکھاوہ کس کے لیے۔
اسی طرح لاک ڈآؤن شادی کے نتیجہ میں مختلف قسم کی فضول رسموں کا بھی خاتمہ ھو گیا ھے جن کا نہ سر تھا نہ پیر۔ اور جو ہماری ثقافت کا بالکل بھی حصہ نہ تھیں۔
ایک طرف تو کورونا نے کروڑوں لوگوں کو بیروزگار کیا ھے تو دوسری طرف کورونا نے بہت سے والدین کے معاشی مسئلہ کو حل کرنے میں اھم کردار ادا کیا ھے اور انھیں سادگی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ لاکھوں والدین نے موقع کو غنیمت جان کر اپنی بچیوں کی شادی کی اور سکھ کا سانس لیا۔ اگر کورونا نہ آتا اور لاک ڈآؤن نہ ھوتا تو بہت سے والدین آج بھی اپنی بچیوں کی شادی کے لیے وسائل کی کوششوں میں پریشان رہتے۔ اور وسائل کے بندوبست کا انتظار کرتے۔