Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
30 مئی بروز ھفتہ سال 2020 کا وہ دن تھا جب وقت رکا بھی، واپس بھی گیا اور پتہ نہیں کیا کیا یاد دلا دیا۔ھنسے بھی بہت اور رو بھی دیئے حال ھمارا وھی تھا جو چھٹی جماعت کے بچے کا ھوتا ھے یا پھر اس عمر کے حصے کا جو بندہ پھر چھٹی جماعت میں واپس چلا جاتا ھے۔
مدرسہ ملیہ اسلامیہ ھائی سکول سٹیلائٹ ٹاون راولپنڈی ھیڈماسٹر فرقان احمد غازی کی سربراھی میں چلنے والا وہ سکول تھا۔ جہاں ھر طرح کی دینی اور دنیوی تعلیم دی جاتی تھی، اچھے سے اچھے اساتذہ کا گلدستہ غازی صاحب نے جمع کیا ھوا تھا ایک سے بڑھ کر ایک استاد اور اسی طرح تمام شعبہ جات میں سکول کو سنوارا ھوا تھا۔ چھٹی جماعت 1981 سے یہاں شروع ھونے والی تعلیم کا سفر ابھی بھی جاری ھے۔ ھمارے دو دوستوں شعیب یوسف جوکہ آجکل کوریا میں ھوتے ھیں اور سعید کیانی جو کہ انگلینڈ لندن میں مقیم ھیں۔ نے ملینز گروپ کے نام سے واٹس ایپ گروپ بنایا۔ اور سارے کلاس فیلوز کو جمع کرنا شروع کردیا۔ ھمارے میٹرک میں دو سیکشن تھے ان میں سے جو بھی رابطے میں آیا اس کو گروپ کا حصہ بناتے گئے اور یوں ایک کاروان زندگی اکٹھا ھوگیا۔
سارا رمضان سب گروپ ممبرز نے عبادت کی طرح اس گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ بہت کچھ یاد کیا گیا بہت کچھ یاد دلایا گیا۔ اور طے یہ پایا کہ ھم ایک دن کھانے پر اکٹھے ھوتے ھیں، ابرار خان ھمارے دوست نے یہ ذمہ داری لی اور بہت احسن طریقے سے نبھائی، ابرار ایک شاعر ھونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی ھیں۔ پہلی میٹنگ استاد پرویز کے گھر طے پائی جو کہ ھمارے کلاس فیلو ھیں اور آجکل استاد کے طور پر خدمات سرانجام دے رھے ھیں۔ کھانے کا مینیو فائنل ھوا، کرونا کی وجہ سے احتیاطی تدابیر طے ھوئیں، لیکن چونتیس سال بعد کی ملاقات میں ھم سب اس احتیاط کو بھول گئے، راجہ اظہر اقبال کیانی کا شادی ھال اس کام کیلئے منتخب کیا گیا، اور یوں اللہ اللہ کرکے 30 مئی 2020 کا تاریخی دن آگیا، اساتذہ کرام میں سے استاد محترم اشفاق صاحب خصوصا چکوال سے شرکت کیلئے تشریف لائے، استاد محترم کرامت صاحب انتہائی بزرگی کے باوجود ھمیں عزت بخشنے تشریف لائے استاد محترم شبیر صاحب نے بھی ھم پر خصوصی شفقت کا اظہار کیا ۔ دعوت ھم نے تمام اساتذہ کو دی تھی لیکن انکی بزرگی اور بیماری نے ھمیں ان کے دیدار سے محروم رکھا، اللہ انھیں صحت کاملہ عطا فرمائیں، صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی دیں آمین۔ تقریب کا آغاز ھمارے فوت ھونے والے ساتھیوں کیلئے دعا سے شروع ھوا اور تقریب کا اختتام وفات پاجانے والے اساتذہ کیلئے دعا پر ھوا، باقی تقریب کی طرف چلتے ھیں۔ ماسک، پہنے سب دوست پہنچے اور چھٹی کلاس سے سلسلہ شروع ھوا، استاد جی اشفاق صاحب اظہر حفیظ ادھر آ میرے پاس بیٹھ ۔ چونیس سالہاسال کے ساتھ میں شاید میری ھمت اور اوقات نہیں تھی کہ میں اپنے استاد محترم کے برابر بیٹھ سکوں ان کی شفقت کہ انہوں نے کندھے سے پکڑ کر بٹھا لیا، ایک طرف استاد جی اشفاق صاحب اور دوسری طرف استاد جی کرامت صاحب تشریف فرما تھے۔یہ ان کے پاس بیٹھنا ھی شاید اس محفل کا حاصل تھا۔ نہ ختم ھونے والی باتیں شروع ھوگئیں۔ سب کا ھی پوچھا، میرے بتانے پر کہ پڑھاتا بھی ھوں بہت خوش ھوئے، اچھا ھے اس سلسلے کو جاری رکھے ھوئے ھو۔ اب سب آچکے تھے اور کرسیوں کو کلاس کی ترتیب سے لگایا گیا اساتذہ سٹیج پر تشریف فرما تھے اور ھم کلاس سامنے۔ تعارف شروع ھوئے، ابرار خان ، ملک ذولفقار، اظہر عباسی، اظہر حفیظ، ضیاءالاسلام، حاجی طارق امین، عادل، اظہر اقبال کیانی، آصف ثقلین کیانی، شوکت کیانی، خواجہ عنصر، معظم علی، طارق درانی، وحید، سید شاھین، شہزاد رضا، اشفاق، آصف بھٹی، شاھد، ظفرستی، نادر خان، شکیل عباسی، صلاح الدین، مقصود نمبردار، سجاد کشور، عابد رشید، اطہر، حسین نینا، ساجد وسیم، طاھر حسین، ندیم لطیف چوھدری برادران اور بہت سے دوسرے دوست۔ ویڈیو کال پر سعید کیانی، شعیب یوسف اور ملک افتخار، صدیق، اکرم ھمہ وقت ساتھ شامل رھے۔ سب اپنی اپنی آب بیتی سنا رھے تھے۔حاضری ھوچکی تھی، کوئی جی ایچ کیو میں ھے، کوئی بینک میں کوئی ٹھیکیدار ھے، سب نے اپنے اپنے شعبے بتائے۔ کچھ دوستوں نے استاد جی اشفاق صاحب کو الٹے ھاتھ پر ڈنڈے یاد کرا دیئے، جب استاد محترم تقریر فرمارھے تھے تو کہنے لگے یار یوم حساب ھمارے اعمال نام اکٹھے ھوں گے کوئی کوتاھی کمی بیشی ھو تو معاف کردیجئے گا ماحول آبدیدہ ھوگیا دوست جاکر انکے احتراما گھٹنے چھو کر، استاد جی ایسی بات نہ کریں۔ ھم سب آپ کی دعاوں اور تعلیم سے یہاں تک پہنچے ھیں استاد جی بھی فرمانے لگے مجھے اس بات کو یہیں چھوڑنا ھوگا۔ ورنہ آپ سب کی محبت، عزت اور احترام دیکھ کر میں بھی اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکوں گا۔ استاد ھم سے خوش تھے ان کے الفاظ اور آنکھوں کی چمک سب کہہ رھی تھی۔ سب اساتذہ کی تقاریر کے بعد گروپ فوٹو بنے اور اساتذہ کو تحائف پیش کئے، اس کے بعد کھانے کا انتظام تھا اور پھر ملنے کے وعدے تھے ارادے تھے کچھ آنکھیں نم تھیں اور کچھ مسکرا رھیں تھیں۔ بہت دنوں بعد نم آنکھوں سے مسکراتے اتنے سارے چہرے دیکھے ۔ ماشاءاللہ
30 مئی بروز ھفتہ سال 2020 کا وہ دن تھا جب وقت رکا بھی، واپس بھی گیا اور پتہ نہیں کیا کیا یاد دلا دیا۔ھنسے بھی بہت اور رو بھی دیئے حال ھمارا وھی تھا جو چھٹی جماعت کے بچے کا ھوتا ھے یا پھر اس عمر کے حصے کا جو بندہ پھر چھٹی جماعت میں واپس چلا جاتا ھے۔
مدرسہ ملیہ اسلامیہ ھائی سکول سٹیلائٹ ٹاون راولپنڈی ھیڈماسٹر فرقان احمد غازی کی سربراھی میں چلنے والا وہ سکول تھا۔ جہاں ھر طرح کی دینی اور دنیوی تعلیم دی جاتی تھی، اچھے سے اچھے اساتذہ کا گلدستہ غازی صاحب نے جمع کیا ھوا تھا ایک سے بڑھ کر ایک استاد اور اسی طرح تمام شعبہ جات میں سکول کو سنوارا ھوا تھا۔ چھٹی جماعت 1981 سے یہاں شروع ھونے والی تعلیم کا سفر ابھی بھی جاری ھے۔ ھمارے دو دوستوں شعیب یوسف جوکہ آجکل کوریا میں ھوتے ھیں اور سعید کیانی جو کہ انگلینڈ لندن میں مقیم ھیں۔ نے ملینز گروپ کے نام سے واٹس ایپ گروپ بنایا۔ اور سارے کلاس فیلوز کو جمع کرنا شروع کردیا۔ ھمارے میٹرک میں دو سیکشن تھے ان میں سے جو بھی رابطے میں آیا اس کو گروپ کا حصہ بناتے گئے اور یوں ایک کاروان زندگی اکٹھا ھوگیا۔
سارا رمضان سب گروپ ممبرز نے عبادت کی طرح اس گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ بہت کچھ یاد کیا گیا بہت کچھ یاد دلایا گیا۔ اور طے یہ پایا کہ ھم ایک دن کھانے پر اکٹھے ھوتے ھیں، ابرار خان ھمارے دوست نے یہ ذمہ داری لی اور بہت احسن طریقے سے نبھائی، ابرار ایک شاعر ھونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی ھیں۔ پہلی میٹنگ استاد پرویز کے گھر طے پائی جو کہ ھمارے کلاس فیلو ھیں اور آجکل استاد کے طور پر خدمات سرانجام دے رھے ھیں۔ کھانے کا مینیو فائنل ھوا، کرونا کی وجہ سے احتیاطی تدابیر طے ھوئیں، لیکن چونتیس سال بعد کی ملاقات میں ھم سب اس احتیاط کو بھول گئے، راجہ اظہر اقبال کیانی کا شادی ھال اس کام کیلئے منتخب کیا گیا، اور یوں اللہ اللہ کرکے 30 مئی 2020 کا تاریخی دن آگیا، اساتذہ کرام میں سے استاد محترم اشفاق صاحب خصوصا چکوال سے شرکت کیلئے تشریف لائے، استاد محترم کرامت صاحب انتہائی بزرگی کے باوجود ھمیں عزت بخشنے تشریف لائے استاد محترم شبیر صاحب نے بھی ھم پر خصوصی شفقت کا اظہار کیا ۔ دعوت ھم نے تمام اساتذہ کو دی تھی لیکن انکی بزرگی اور بیماری نے ھمیں ان کے دیدار سے محروم رکھا، اللہ انھیں صحت کاملہ عطا فرمائیں، صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی دیں آمین۔ تقریب کا آغاز ھمارے فوت ھونے والے ساتھیوں کیلئے دعا سے شروع ھوا اور تقریب کا اختتام وفات پاجانے والے اساتذہ کیلئے دعا پر ھوا، باقی تقریب کی طرف چلتے ھیں۔ ماسک، پہنے سب دوست پہنچے اور چھٹی کلاس سے سلسلہ شروع ھوا، استاد جی اشفاق صاحب اظہر حفیظ ادھر آ میرے پاس بیٹھ ۔ چونیس سالہاسال کے ساتھ میں شاید میری ھمت اور اوقات نہیں تھی کہ میں اپنے استاد محترم کے برابر بیٹھ سکوں ان کی شفقت کہ انہوں نے کندھے سے پکڑ کر بٹھا لیا، ایک طرف استاد جی اشفاق صاحب اور دوسری طرف استاد جی کرامت صاحب تشریف فرما تھے۔یہ ان کے پاس بیٹھنا ھی شاید اس محفل کا حاصل تھا۔ نہ ختم ھونے والی باتیں شروع ھوگئیں۔ سب کا ھی پوچھا، میرے بتانے پر کہ پڑھاتا بھی ھوں بہت خوش ھوئے، اچھا ھے اس سلسلے کو جاری رکھے ھوئے ھو۔ اب سب آچکے تھے اور کرسیوں کو کلاس کی ترتیب سے لگایا گیا اساتذہ سٹیج پر تشریف فرما تھے اور ھم کلاس سامنے۔ تعارف شروع ھوئے، ابرار خان ، ملک ذولفقار، اظہر عباسی، اظہر حفیظ، ضیاءالاسلام، حاجی طارق امین، عادل، اظہر اقبال کیانی، آصف ثقلین کیانی، شوکت کیانی، خواجہ عنصر، معظم علی، طارق درانی، وحید، سید شاھین، شہزاد رضا، اشفاق، آصف بھٹی، شاھد، ظفرستی، نادر خان، شکیل عباسی، صلاح الدین، مقصود نمبردار، سجاد کشور، عابد رشید، اطہر، حسین نینا، ساجد وسیم، طاھر حسین، ندیم لطیف چوھدری برادران اور بہت سے دوسرے دوست۔ ویڈیو کال پر سعید کیانی، شعیب یوسف اور ملک افتخار، صدیق، اکرم ھمہ وقت ساتھ شامل رھے۔ سب اپنی اپنی آب بیتی سنا رھے تھے۔حاضری ھوچکی تھی، کوئی جی ایچ کیو میں ھے، کوئی بینک میں کوئی ٹھیکیدار ھے، سب نے اپنے اپنے شعبے بتائے۔ کچھ دوستوں نے استاد جی اشفاق صاحب کو الٹے ھاتھ پر ڈنڈے یاد کرا دیئے، جب استاد محترم تقریر فرمارھے تھے تو کہنے لگے یار یوم حساب ھمارے اعمال نام اکٹھے ھوں گے کوئی کوتاھی کمی بیشی ھو تو معاف کردیجئے گا ماحول آبدیدہ ھوگیا دوست جاکر انکے احتراما گھٹنے چھو کر، استاد جی ایسی بات نہ کریں۔ ھم سب آپ کی دعاوں اور تعلیم سے یہاں تک پہنچے ھیں استاد جی بھی فرمانے لگے مجھے اس بات کو یہیں چھوڑنا ھوگا۔ ورنہ آپ سب کی محبت، عزت اور احترام دیکھ کر میں بھی اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکوں گا۔ استاد ھم سے خوش تھے ان کے الفاظ اور آنکھوں کی چمک سب کہہ رھی تھی۔ سب اساتذہ کی تقاریر کے بعد گروپ فوٹو بنے اور اساتذہ کو تحائف پیش کئے، اس کے بعد کھانے کا انتظام تھا اور پھر ملنے کے وعدے تھے ارادے تھے کچھ آنکھیں نم تھیں اور کچھ مسکرا رھیں تھیں۔ بہت دنوں بعد نم آنکھوں سے مسکراتے اتنے سارے چہرے دیکھے ۔ ماشاءاللہ