پاکستان میں بجٹ کے دن کی حقیقی اھمیت اس سے زیادہ نہیں ھے کہ اس دن ھمیں ملک کی معیشت کی سمت اور رفتار جانچنے کا وقت اور خود احتسابی کا ایک موقع مل جاتا ھے۔ بذات خود بجٹ کے اعداد وشمار کبھی بھی اھمیت کے حامل نہیں رھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ھے کہ ھماری حکومتوں کا انداز حکمرانی کم و بیش ایک جیسا ھی رھا ھے اور اس میں کبھی کوئی عنصری تبدیلی نہیں آئی۔ دوسری وجہ یہ ھے کہ اعدادوشمار پیش کرنے میں بھی غلط بیانی سے کام لیا جاتا ھے۔ ھمارے ھاں اسمبلی کے فلور پر جھوٹ بولنے کو نہ اخلاقی طور پر عار سمجھا جاتا ھے اور اور نہ ھی یہ قابل دست اندازئ قانون ھوتا ھے۔ بدقسمتی سے ھم نے اپنی قومی معیشت کو ھمیشہ دریوزہ گری پر استوار رکھا ھے۔ کشکول توڑنے کے دعوے تو کئے گئے مگر عملا کشکول کا حجم وسیع تر ھوتا چلا گیا۔ ھم مسلسل اپنے قومی اخراجات کا ایک تہائی حصہ قرض مانگ کر پورا کرتے چلے آئے ھیں۔ اور اس کے عوض اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی فیصلہ سازی کا اختیار گروی رکھ دیتے ھیں۔ کسی حکومت نے کبھی بیرونی قرضوں سے نجات اور خود انحصاری کی بنیاد رکھنے کی ھمت نہیں کی۔ اور یہ ھمت وہ کر بھی کیسے سکتے ھیں ؟ اپنے اقتصادی فیصلے دوسروں کے سپرد کرنے کا نتیجہ ھے کہ ھماری قومی آمدن کا حجم مسلسل گھٹ رھا ھے۔ ھم فی الوقت ایسی قیادت سے محروم ھیں جو ملک کی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی بصیرت رکھتی ھو۔ ھمارے حکمران خوشنما مستقبل کے سراب دکھا کر عوام کی نظروں میں مقبول رھنما بننا چاھتے ھیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے درپردہ ھاتھ جو خود کو حکو مت سازی کا معمار سمجھتے ھیں، ان کے اھداف بھی مختصر مدت کے ھوتے ھیں۔ اس صورت حال میں معاشی ترقی کا حصول کیسے ھو ؟ معاشی ترقی قومی سلامتی اور خود مختاری کا لازمی تقاضا ھے۔ ایک طویل المدت اور پائیدار پالیسی تشکیل دینے کے لئے ضروری ھے کہ قومی سطح پر اجتماعی فیصلے کئے جائیں، اور ایسے ا صول وضع کئیے جائیں جو حکومت کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل نہ ھوں۔ بنیادی نوعیت کے اھم فیصلے کوئ ایک جماعت تنہا نہ کر سکتی ھے اور نہ ھی اسے کرنے چاھئیں۔ ھمارے معاشی حالات اجتماعی طور پر ایک “میثاق معیشت” پر متفق ھونے کا تقاضا کرتے ھیں۔ بوجوہ اھم فیصلے کرنے میں ھم بہت سا وقت ضائع کر چکے ھیں اور مزید تاخیر تباہ کن نتائج کی حامل ھوگی۔ کیا ھمارے اجتماعی فیصلوں کے نا خدا اس امر کی توفیق رکھتے ھیں ؟