ڈاکٹر عبد السلام خورشید ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ،جنھوں نے اپنی نثری تحریروں سے ادب کو مستفید کیا۔انھیں علمی وادبی ذوق اپنے گھرسے ملا۔ان کے والد (عبدالمجید سالک) کی وجہ سے ان کے گھر کا ماحول صحافتی تھا۔ بچپن سے ہی “نونہال”، “پریم”، “پھول”، “انقلاب”، “نیرنگ خیال” او ر “عالمگیر”جیسے رسائل کاگہرا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے سے ان میں سیاسی اور صحافتی ذوق پیدا ہونے لگا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی انھوں نے کئی کتب کا مطالعہ کیا جن میں انھیں “گدگدی” اور “پھلجھڑی” جیسی کتب خصوصی پسند آئیں۔یہی وجہ ہے کہ چھوٹی عمر میں مطالعہ کی عادت نے ان کے اندر فہم اور شعور بیدار کیا اور جب روزنامہ”انقلاب” جاری ہوا اسی دوران ان میں اخبار نویس بننے کی خواہش جاگی اور یہ عادت ان پرتمام عمر حاوی رہی۔ انھوںنے ہفتہ وار کالم “واقعاتِ عالم” اور”افکاروحوادث” کے نام سے روزنامہ “مشرق “میں کالم لکھے۔ یہ روزنامہ 16ستمبر1963ءکو لاہور سے جاری ہوا۔”واقعاتِ عالم” میں بین الاقومی موضوعات پر مبنی کالم کو زیر بحث لایا گیا ہے جب کہ”افکار وحوادث” میں علمی، ادبی ، سیاسی، ثقافتی موضوعات کومو ضوع بنایا گیا ہے۔ انھوں نے تیسرا کالم” گردو پیش” کے نام سے اسی اخبار کے ہفت روزہ ایڈیشن” اخبارِخواتین” میں لکھنا شروع کیا۔ علاوہ ازیں روزنامہ “انجام ” میں بھی انھوں نے “افکار وحوادث” کے نام سے کالم تحریر کیے۔ان کی شہرت کا بنیادی حوالہ صحافت کو سمجھا جاتا ہے مگر ان کی ادبی تحریریں بھی اپنی معنویت کا ایک دفینہ رکھتی ہیں۔ادب میں تنقید،ادبی تاریخ،خاکہ نگاری ،تراجم اور خودنوشت سوانح حیات؛ ان کے اظہار کا وسیلہ بنے۔علاوہ ازیں انھوں نے ڈیڑھ سو کے قریب تدریسی موضوعات پر کتب تصنیف و تالیف کیں۔انھوں نے اپنی زندگی میں کئی ممالک کے سفر کیے لیکن وہ باقاعدہ طور پر اپنی سیاحت اور سفر ناموں کو کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں لاتے بلکہ اپنے تمام اسفار کو یکجا کرکے اپنی خودنوشت سوانح حیات “رو میں ہے رخش عمر۱” میں قلم بند کرتے ہیں ۔ان کی خودنوشت سوانح حیات “رو میں ہے رخش عمر ” جزوی سفر نامے کے زمرے میں آتی ہے۔جس میں پیرس، ایمسڑڈیم، لندن، پرتگال اور سپین ،سری لنکا،تہران، سنگا پور ، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ، ملائیشیا، فلپائن ، ہانگ گانگ ، جنوبی کوریا اور جاپان کے سفر کا ذکر ملتا ہے۔انھوں نے ان تمام اسفار کو چار ابواب میں تقسیم کرکے ہر باب کو ایک عنوان دیا۔پہلا سفرنامہ “دیارِ فرنگ میں” ، دوسرا سفرنامہ “آگ، پھول اور رقص” ، تیسرا سفرنامہ”جب تہران نوروسرور میںغرق تھا” اور چوتھا سفرنامہ ” سنگاپور سے ٹوکیو تک ” کے نام سے ان کی خودنوشت سوانح حیات”رو میں ہے رخش عمر ” میںدرج ہیں۔اس ضمن میں عبدالسلام خورشید آپ بیتی کے دیباچہ (پیش گفتار) میں لکھتے ہیں:
“اس کتاب میں چار سفر نامے بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بھی آپ بیتی کا جزو ہیں۔ ان کی تحریر میں یہ خیال رکھا ہے کہ دیس دیس کی سیاحت میں قاری کو ہم رکابی اور شرکت کا احسا س دلاؤں اور تاریخی آثار کے تذکرے کی جگہ جیتے جاگتے انسانوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کا آنکھوں دیکھا حال سناؤں۔”
ڈاکٹرعبدالسلام خورشید کسی مقام پر سفر نامہ نگار اور کسی جگہ پر مسافر دکھائی دینے سے “رو میں ہے رخش عمر ” خودنوشت سوانح حیات ہونے کے ساتھ سفرنامہ نگاری اورسیاست نامہ کا حسین امتزاج بن کر سامنے آتی ہے ۔ مسافر اور سیاح مختلف حیثیت کے لوگ ہونے سے مختلف مزاج کے مالک ہوتے ہیں۔ امجد علی شاکر سیاح اور مسافر کے فرق کو یوں بیان کرتے ہیں :
” سیاح آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور مسافر جتنا آگے بڑھتا ہے ، اتنا ہی پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے۔۔۔ سیاح اپنی چشمِ بصیرت سے تہذیبوں کی تھاہ تک میں جھانک لیتا ہے مگر مسافر کی آنکھ زمین کی اوپری سطح تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔سیاح تازہ زمینوں کے ساتھ نئے زمانوں کے خلق ہوتے ہوئے بھی دیکھ لیتا ہے مگر مسافر کر داروں کے انفرادی یا اجتماعی باطن تک رسائی حاصل کرے میں ناکام رہتاہے اورمحض پرانی ملاقاتوں کو دہراتے ہوئے واپس چلا آتا ہے۔لہٰذا یہ طے ہے کہ سفرنامہ لکھنا سیاح کا حق ہے۔”
عبدالسلام خورشید “رو میں ہے رخش عمر ” میں اپنے پہلے سفرنامہ کو”دیارِ فرنگ میں “کا نام دیتے ہیں۔ جس میں یکم اپریل 1956ء میں یورپ میں کیے گئے سفر کا احوال ملتا ہے۔ انھوں نے جزئیات نگاری سے کام لے کر سفر کو دل چسپ انداز سے پیش کیاہے۔ کہیں کہیں خوبصورت فقرے استعمال کیے جو قاری کی توجہ کا مرکز بنے۔ اس سفر نامہ میں پیرس کی نائٹ کلبیں،یورپ کے ریستوران ، کھانے ، پرتگال اور سپین کے نوجوانوں کے اظہارِ محبت، سفید فام کے نسلی تعصب ، یورپی معاشرت ، ان کے رہن سہن کے طریقے اور یورپی عورت کے خدوخال جیسے موضوعات کو بھر پور اندازسے پیش کیا گیا ہے ۔ انھوں نے سفرنامے میں پیرس کے نائٹ کلبوں کا ذکر دلکش انداز سے کیاہے۔ جن میں مہذ ب نائٹ کلب کے علاوہ ایسی بھی نائٹ کلبیں موجود تھیں جہاں شرفا کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ ایسی کلبوں میں ایک نائٹ کلب”کاسینودی پاری ” کے نام سے ہے ،یہاں دکھائے جانے والے رقص کے متعلق عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں :
” وہاں مختلف قسم کے رقص دکھائے گئے۔عریاں، نیم عریاں اور کاسیٹوم ناچ پچیس پچیس عورتیں بیک وقت ناچتی تھیں۔ زیر جامے کے ایک ربن کے سوا تن پر کچھ نہیں تھا جنسی علامت کے مشترکہ ناچ بھی ہوئے لیکن سب سے زیادہ روح پرور اور پرکشش رقص وہ تھے جن میں لباس مکمل تھا۔ ان میں ایک ناچ ورسائی کے امن کا مظہر تھا۔ یوں معلوم ہوتاتھا جیسے رنگ رنگ کی اپسرائیں آکاش سے اتر کر دھرتی کو بسیرا بنائے ہوئے ہیں اس رقص کے مقابلے پر عریاں رقص ہیچ نظر آنے لگے۔”
انھوں نے یورپ کے ریستوان اور کھانوں کو جزئیات کا سہار ا لیتے ہوئے دل چسپ انداز سے پیش کرنے کے ساتھ پاکستانی کھانے اور یورپی کھانے کے فرق کو بھی واضح کیا ہے ،کھانے کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی کھانا دنیا میں بہترین کھانا ہے لیکن انڈو نیشنی کھانا کھانے کے بعدمیں اس نتیجے پر پہنچا کہ اولیت کا شرف اسی کا ملنا چاہیے کیوں کہ اس کی سب سے بڑی خوبی تنوع ہے۔ صرف ایک آدمی کے لئے تقریباً بیس چھوٹی چھوٹی ڈشیں ہوتی ہیں۔ ساری کی ساری بیک وقت میز پر رکھ دی جاتی ہیں۔ ہر میز پر ایک چولھا ہوتا ہے تاکہ سالن گرم رکھے جاسکیں۔پرتگال اور سپین کی نوجوان نسل نے پیار کے اظہار کرنے کے لیے جو طریقہ کار اپنا رکھا تھا اسے عبدالسلام خورشید دلکش انداز سے سامنے لاتے ہیں مثلاً نوجوان کا گٹار بجا کر پیار کا اظہار کرنا ، دوشیزہ کا دریچہ کھول کر گیت سنتے رہنا یعنی پیارکا جواب پیار سے دینا اور نوجوان کا کامیاب عاشق قرار پانا۔ لیکن اس عمل کے دوران دوشیزہ کا دریچہ بند رکھنا ،اس صورت میںعاشق نامراد کہلاتا ہے۔ وہ اپنے پہلے سفرنامہ”دیارِ فرنگ میں” کے دوران جنوبی افریقہ کی سیاست ، شخصیت اور نسلی امتیاز کی پالیسی کے ماضی ، حال اور مستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کو کھل کر بیان کرتے ہیں۔یورپی باشندے اپنے سفید فام ہونے پر فخر محسوس کرنے کے ساتھ نسلی تعصب پر غیر متز لزل ایمان رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں سیاہ فام باشندوں کے درمیان مخلوط نسل کی شادیاں نسلی تعصب کے مسئلے کا واحد حل ہے جس سے ایک نئی جنوبی افریقائی قوم وجود میں آنے سے رنگ اور نسل کا امتیاز ختم ہو جائے گا مگر سفید فام باشندے ان کی پیشکش سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے اپنی ناگواری کا یوں اظہار کرتے ہیں:
” اگرتم مخلوط شادیوں کی تجویز جنوبی افریقہ میں جاکر پیش کروتو یورپی باشندے سر عام تمہارے جسم کی تکابوٹی کر دیں گے۔”
عبدالسلام خورشید کو موسیقیت سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا مگر بیرون ملک سیر کے دوران پاکستانی موسیقی سننے سے ان کی طبیعت لطف اندوز ہوئی۔ مغرب میں پاکستانی موسیقی کو اہمیت حاصل ہے جس میں منور سلطانہ او راقبال بانو کے گانے شامل ہیں۔ انھوں نے برطانیہ ، ہالینڈ ، فرانس اور سوئٹزر لینڈ کا گہرا مشاہدہ کیا۔وہ یورپی معاشرت کے چند اچھے پہلوؤں کو موضوع بناتے ہوئے وہاں کی سڑکوں اور گلیوں کی صفائی کا حال بیان کرنے کے ساتھ وہاں کے امیراور غریب گھرانوں کی زندگی کے رہن سہن کے احوال کا مشرقی اور مغربی تمدن کے ساتھ موازنہ کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یورپین لوگوں کے ظاہر اور باطن کے گہرے مشاہد ے کے بعد اس نتائج پر پہنچتے ہیں کہ ان لوگوں میں اندرونی پاکیزگی اور طہارت کا وہ معیار نہیں جو ہمارے ہاں طبقات میں موجود ہے مگر ان میں ظا ہر حسن ہماری نسبت بے شمار ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
” میں اونچے گھرانوں میں گیا ہوں اور غریب گھرانوں میں بھی اور میں نے دیکھا ہے کہ مکانوں میں رنگ وروغن اور سفید ی کا معیار اعلیٰ ہے۔اندرونی آرائش سلیقے سے کی جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اعلیٰ درجے کا فرنیچر ہو ، قالین ہو ں یارئیسیانہ ٹھاٹھ ہو ں۔ فرنیچر سادہ ہوتا ہے۔۔۔ اور اکثر متوسط درجے کے لوگ باروچی خانے کے ایک کونے میں کھانا کھالیتے ہیں۔ گھروں میں اندورنی صفائی ، حسن ترتیب اور سلیقے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سوائے رؤ سا کے اور کسی کو یہ توفیق نہیں کہ نوکر رکھے۔۔۔ہمارے ہاں کے گھروں کی گندگی یا بے قاعدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس گھر میں نوکر ہوتے ہیں وہاں ہر بات میں نوکر ہی پر تکیہ کیا جاتا ہے۔”
صفائی کے حوالے سے انھوں نے یورپین ہوٹلز اور پاکستانی ہوٹلز کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” میں یورپ کے بڑے ہوٹلوں میں بھی رہا ہوں اور چھوٹے سے چھوٹے ہوٹلوں میں سے بھی صفائی کا معیار ہر جگہ یکساں ہے ہمارے ملک کے بہت اعلی ہوٹل توصفائی کااعلیٰ معیار پیش کرتے ہیں لیکن ان کے علاوہ جتنے ہوٹل ہیں ان میں صفائی کا معیار اتنا پست ہے کہ داخل ہونے سے وحشت ہوتی ہے۔”
عبدالسلام خورشید غیر ملکی سیاحوں کا پاکستا ن میں کم سیاحت کرنے کی وجہ ہوٹلوں میں ناقص صفائی کو قرار دیتے ہیں کیوں کہ غیر ملکی سیاح امیر بھی ہوسکتے ہیں ، درمیانے بھی اور غریب بھی۔اسی لیے وہ بڑے ہوٹلوں کے اخراجات برداشت نہیں کر پاتے اور چھوٹے ہوٹلوں میں صفائی کا معیار پست ہونے سے وہاں رہنا مشکل ہوتا ہے حالاں کہ ہمارے ملک میں دیکھنے کی چیزیں کم نہیں یہاں ریگستان مرغزار ، خشک چٹانیں ،برفانی چوٹیاں ، دریا، جھلیں ، موہن جوڑو ، ہڑپہ کے آثار اور خاندان مغلیہ کی شان دارتاریخی عمارات و باغات موجود ہیں۔بہر حال غریب سے غریب ملکی سیاح بھی صفائی کو پسند کرتا ہے ۔انھوں نے یورپی عورت کے خدوخال اور پاکستان میں عورتوں کے مقام کو موضوع بناتے ہوئے ان کی عنفوان شباب سے لے کرشادی تک کے مراحل کو موازنے کی صورت پیش کیا ہے ۔وہ پاکستانی عورت کو یورپی عورت سے خو ش نصیب سمجھتے تھے کیوں کہ پاکستانی لڑکیاںیورپین لڑکیوں کی طرح کٹھن زندگی نہیں گزارتی اور وہ عنفوان شباب سے لے آخر تک ان مسائل اور خطرات سے بہت حد تک محفوظ ہیں۔جن کا سامنا یورپین خواتین کو کرناپڑتا ہے ۔چو ں کہ یورپی لڑکیوں کو کٹھن زندگی گزارنے کے باوجود والدین کی سرپرستی مہیا نہیں ہوتی اور وہ خود اپنی شادی کے لیے لڑکا تلاش کرتی ہیں جب کہ پاکستان میں والدین اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت کے بعد اپنی نگرانی میں رشتہ طے کرتے ہیں اور پھر جہیز دیتے ہیں تاکہ علیحدہ زندگی بسر کرنے کے لیے کوئی وقت پیش نہ آئے،ان(عبدالسلام خورشید )کے خیال میں پاکستان میں جہیز کے لیے اتنا تکلف کرنا نا مناسب بات ہے۔ وہ پاکستان اور یورپ میں دیئے جانے والے جہیز کے فرق کو یوں بیان کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے :
“اس نے بتایا کہ بہت اونچے طبقے میں جہیز کا رواج موجود ہے جہاں تک درمیانہ طبقے کا تعلق ہے ،بچوں کی شادی ماں باپ شریک کے بغیر ہی ہوجاتی ہے ایسے میں جہیز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ماں باپ کی شریک ہوں تو چند چیزیں دے د یتے ہیں۔۔۔اس طرح شادی کسی کیلئے مالی بوجھ ثابت نہیں ہوتی اس پر انہوں نے پاکستان میں جہیز کی کیفیت پوچھی۔۔۔ اکثر خاندانوں میں لڑکی پیدا ہوتے ہی اس کے جہیز کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ یہ نہ ہو تو لڑکی جوان ہونے پر والدین اخراجات میں کفایت کر کے جہیز کے لیے پونجی جمع کرتے ہیں اکثر مقروض بھی ہوجاتے ہیں لیکن شادی دھوم دھام سے کرتے ہیں اور جو نہیں کرتا معاشرے کی نظروں میں گر جاتا ہے۔
ان(عبدالسلام خورشید) کے دوسرے سفرنامہ “آگ، پھول اور رقص ” میں سری لنکا کے سفر کا احوال ملتا ہے۔جس میں سری لنکا کے مختلف علاقوں کا ذکر ، ان کے جغرافیہ ، زرعی پیداوار ،قومی ثقافت اور شادی بیاہ کی تقریبات کاذکر دل چسپ پیر یہ انداز سے بیان کیا گیا ہے۔سری لنکا میں تقریباًبارہ لاکھ ایکڑ رقبے میں دھان بونے کے باوجود ملک کی ضروریات پوری نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہرسال کروڑوں روپے کے چاول درآمد کیے جاتے ہیں ، چاول ان کی سب سے بڑی غذا ہے۔دھان ، چائے اور ناریل ان کی پسندیدہ خوراک ہے،جن میں ناریل دودھ ، ناریل کا پانی ، ناریل کا رس، ناریل کی کھانڈ، ناریل کی شراب اور ناریل کا تیل شامل ہیں۔حتی کہ وہاں پر ناریل کے چھلکوں سے بنائے ہوئے رسے اور گتے مشہور ہیں۔علاوہ ازیں ناریل کے کھوپوں میں نکلنے والے رس سے اصل ربڑ بنایا جاتا ہے۔ جس سے ربڑ کے گدّے ، چٹائیاں ، کھلونے ، غبارے اور جوتوں کے تلے بنائے جاتے ہیں۔انھوں نے سری لنکا کی محفلِ رقص کی تقریبات میں کنکریا نامی ایک کلاسیکی بیلے یعنی رقصی تمثیل کو بیا ن کیا گیا ہے۔ یہ رقص نحوست کو دور کرنے اور مبارک شکون کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔عبدالسلام خورشید نے سری لنکا کی تہذیب و ثقافت کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہوئے رقص کی اپسرائیوں کے پہناوںکو سامنے لاتے ہیں۔رقص میں اپسرائیں پاؤں کے انگوٹھوں اور ٹخنوں میں پازیب ، ایک سفید پشواز ( جو کمر سے ٹخنوں تک پہنتی ہے۔ اس کے اوپر چنٹوں والی پانچ جھالریں، ایک سرخ ٹپکا، ایک پیٹی جس پرموتی جڑے ہوتے ہیں۔ ایک کمر بند جس کے ساتھ ایک پھندنا سا لٹکتا ہے )سینے پر موتیوں کا گول پسیا نماز یور، باہوں میں چوڑیا ں اور کلائی کی پشت پر تتلی کی صورت کا زیورزیب تن کرتی ہیں۔
انھوں(عبدالسلام خورشید) نے اپنے تیسرے سفر نامے کو ” جب تہران نور وسرور میں غرق تھا ” کے نام سے منسوب کیا ہے۔ 1967ء شہنشاہ ایران کی تاج پوشی کے وقت عبدالسلام خورشید کو صحافیوں کے ساتھ تہران جانے کا اتفاق ہوا۔اس لیے وہ تہران کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے معاشرے کی خرابیوں یعنی دفتر ی نظام کی نااہلی ، رشوت ستانی، مہنگائی ، بلیک مارکیٹ ، سمگلنگ ، بد انتظامی وغیرہ سے نپٹنے کے لیے مختلف طریقہ کارکو سامنے لائے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر ایرانی غیر ملکی زبان میں گفتگوکرنے کو سرمایہ افتخار نہیں سمجھتا بل کہ و ہ اپنی قومی زبان کو اہمیت دیتے ہیں مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ غیر ملکی زبانوں سے ناآشناہے۔ ایرانیوں نے بعض انگریزی الفاظ کا ترجمہ کیا جو ہمارے ہاں بجنسہ استعمال کیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر Refrigeratorکا ترجمہ یخ چال، Heater کا ترجمہ آپ گرم کن ، Hospital کا ترجمہ بیمار ستان ،Unbreakable کا ترجمہ نشکن ، Chemist کا ترجمہ داروکاخانہ اور Cleaning- Dry ا ترجمہ خشک شوئی کیا ہے۔
انھوںنے شادی کی تقریبات کو موضوع بنا تے ہوئے دلہن کے بناؤ سنگھار ، خواتین کے فیشن ، ان کے لباس اور طور طریقوں کی وضاحت کرنے کے ساتھ یہ بتا یا گیا ہے کہ رضا شاہ پہلو ی کے تخت نشین ہونے سے پورے تہران میں عورتوں کے لباس میں تبدیلی آئی گئی تھی ،جس کی وجہ سے ان (خواتین )کا لباس یورپی خواتین جیسا ہونے لگا۔اس سفر نامے میں عبدالسلام خورشیدایران میں شادی بیاہ کے روایتی اندازکو سامنے لاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران میں شادی بیاہ کی رسوم پاکستان کی طرح ہی ہوتی ہیں۔ لڑکے کے گھر والے رشتے کا پیغام لے کر جاتے ہیں۔ لڑکی ان کے سامنے چائے رکھتی ہے،رشتہ طے ہوتا ہے اور جہیز کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے سفر نامے میںایرانیوں کے” گھریلو زندگی کے طور طریقے ، گھر سجانے کے انداز اور چھٹی کا د ن کیسے گزار جاتا ہے “ان موضوعات کو جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ گھروں کی آرائش وزیبائش کے متعلق لکھتے ہیں :
” ایرانیوں میں جمالیاتی بہت ہے گھروں کی سجاوٹ بنا کر رکھتے ہیں۔ قالین تقریبا ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ انہیں تالاب اور باغ سے اتنی دلچسپی ہے کہ قریب قریب ہرمکان میں دونوں چیز یں موجود ہوتی ہیں۔ خواہ علامت کے طورپر ہی ہوں مثلاایک چھوٹا سا حوض اور چند پودے یاگملے۔۔۔خوش ذوتی کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ چھٹی کے دن کنبے پکنک پر ضرور جاتے ہیں۔۔۔ کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے ہیں اور سارا دن تفریح میں گزار دیتے ہیں۔”
ان (عبدالسلام خورشید)کے چوتھا سفر نامہ”سنگا پور سے ٹوکیوتک” میں انڈونیشیا ، تھائی لینڈ، ملائیشیا، فلپائن ، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور جاپان کے سفر ی احوال کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سفر نامے میں سنگا پور کا جغرافیہ ، اس شہر کا حسن ، فلپائن میں صحافتی بدعنوانیاں، ان کا جاگیردانہ نظام، ٹوکیو کا ویکس میوزیم، ہانگ کانگ کی تہذیب و تمدن اور انگریزی و چینی اخبارات کا چھاپہ خانہ جیسے موضوعات کو دل چسپ انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ عبدالسلام خورشیددورانِ سیر ٹوکیو میں شاہراہ “گینزا” کو وہی اہمیت دیتے ہیں جو لاہور میں شاہراہ قائد اعظم اور کراچی میں الفنسٹن سٹریٹ کو حاصل ہے،وہ شاہراہ گینز ا کے مناظر کو میلہ قراردیتے ہیں۔ عبدالسلام خورشید فلپائن میں دو اہم موضوعات “قومی زبان کی ناقدری اور بے مہارت صحافت “کو زیر قلم لائے ، فلپائن میں انگریزی زبان کا غلبہ رہا کیوں کہ نصف صدی تک امریکہ اس پر غالب ہونے کی وجہ سے مقامی زبان اور ثقافت کو اپنے طوفان کی زد میں لے لیاتھا۔ فلپائن میں جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ملکوں کی نسبت صحافت آزاد ہے۔ ان کا خیال ہے کہ1970میں ہمارےہاں جو آزاد صحافت دکھائی دیتی ہے ،فلپائن کی صحافت اسی سے میل کھاتی ہے۔ آزادی صحافت کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں :
” ہر اخبار پگڑی اچھال اخبار ہے ، شمشیر برہنہ ہے۔سیاستدانوں ، وزیروں بلکہ فوجی افسروں کے خلاف بھی جو چاہے لکھ دیتا ہے اور صحت معلومات کا کوئی خیال نہیں رکھتا۔ ”
عبدالسلام خورشید نے ملک فلپائن میں صحافتی بدعنوانیوں کو موضوع بناتے ہوئے یہ بتایا کہ صحافیوں کے معاوضے کم ہونے کے باوجود تمام تجربہ کا رصحافی دولت مند ہیں کیوں کہ انھیں کئی ذرائع سے خفیہ تنخوا ہیں لینے کی وجہ سے کئی پروپیگنڈے اور اداروں کی خرایبوں پر پردہ ڈالنے جیسا کام کرنا پڑتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ صحافت کے پیشے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے، وہاں کے اخبار نویسوں کو دوطرح کی تنخواہیں ملتی ہیں۔ایک ظاہر ی تنخواہ اور دوسری پوشیدہ تنخواہ۔پوشیدہ تنخواہ ان کالم نویسوں کو ملتی ہے جواپنے ہاتھ قلم اور ضمیر دونوں بیچ دینے کے ساتھ اپنے خیالات کو نئے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں۔ عبدالسلام خورشید فلپائن کے جاگیردارانہ نظام کے وجود کو زیر بحث لاتے ہوئے “یک” تحریک کا ذکر کر تے ہیں۔ جس کا مقصد جاپانی حملہ آور کو نکا ل کر امریکہ سے آزادی حاصل کرکے ایک عادلانہ معاشی نظام قائم کرنا ہے تاکہ جاگیردارنہ نظام ختم ہو اور زمینیں مزار عین کو مل جائیں۔ عبدالسلام خورشید نے سفرنامے میںہانگ کانگ کے تہذیبی وتمدنی حالات درج کئے ہیں جو بظاہر خوش حال دکھائی دیتے ہیں مگر اندر سے انھیںگھن لگا ہوا ہے۔یہاں چیزیں سستے داموں ملتی ہیں۔اسی لیے دنیا بھر کے سیاح اس جگہ شاپنگ کے لیے آتے ہیں۔عبد السلام خورشید کا خیال ہے کہ ہانگ کانگ کے دکان دار سیاحوں کو آسانی سے جھانسہ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
” دکان داروں کو معلوم ہے کہ سیاحوں کو آسانی کے ساتھ الو بنایا جاسکتا ہے چنانچہ ہر سیاح کو دکاندار پر چیز کا زیادہ بھاؤ بتاتے ہیں پھنس گیا تو فبہا، ورنہ دونوں میں جھگڑا ہوتا ہے۔ اور آخر کار کم قیمت ہر سودا ہو جاتاہے۔ لیکن اس میں بھی دکاندار فائدے میں رہتا ہے۔”
عبدالسلام خورشید عوامی جمہوریہ چین کے لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگ بھولے بھالے اور ایمان دار ہوتے ہیں۔ ا ن کی دکانوں پر صرف عوامی چین کی مصنوعات دکھائی دیتی ہیں جن پر پہلے ہی قیمت درج ہوتی ہے۔ دکان دار اعلیٰ کر دار کا ثبوت دیتے ہوئے ابتداہی میں ہر چیز کا ٹھیک دام بتاتے ہیں۔ تب انھیں کوئی کمی پیشی کرنے کے لیے کہیں تو وہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں کیوں کہ وہ خریددار سے سچائی کا تقاضا چاہتے ہیں۔ ان کی سچائی کی بنیاد پر عوامی چین کے مخالفیں بھی ان کے ہاں سے خریدداری کرنا پسند کرتے ہیں۔ چین میں سادگی کا فیشن ہے اسی لیے وہا ں اعلیٰ درجے کا بنائے جانے والاریشمی کپڑا چین کے اندر فروخت نہیں ہوتا بل کہ ملک کے باہر بھیج کر زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیںانھوں نے انگریزی اور چینی اخبارات کے چھاپہ خانے کا ذکر ہوئے کمپوزنگ کے طریقہ کا ر پر بحث کی۔ چینی اخبارات کی کمپوزنگ انگریزی اخبارت کی نسبت مشکل ترین عمل ہے۔ انگریزی اخبار کمپیوٹر کے ذریعے سے کمپوز کیا جاتا ہے مگر چینی اخبار کی کمپوزنگ ابھی تک ہاتھ سے ہوتی ہے۔ان کے خیال میں لکھنے کی اصل چیز چینی اخبار کا چھاپہ خانہ ہے۔وہ چینی اخبار کی ہاتھ سے ہونے والے کمپوزنگ کے طریقہ کار کو یو ں بیان کر تے ہیں:
” گویا چینی ٹائپ کے ساتھ ہزار خانے ہوتے ہیں۔ ایسے کمپوزیڑوں کا کام بہت مشکل ہوتا ہے ایک ہال میں سات ہزار خانے بنے ہوئے تھے۔ جن میں سے چن چن کر کمپوزیڑا لفاظ کی عبادت کمپوز کرتے تھے۔ چینی اخبار کے ایک صفحے پر بائیں ہزار الفاظ ہوتے ہیں اور ایک صفحے کی کمپوزنگ بیس آدمی کرتے ہیں۔”
انھوں نے ٹوکیو کے سیردوران ویکس میوزیم کا نظارہ کیا چوں کہ یہ میوزیم لندن کے مادام تساؤ میوزیم کی تقلید میں بننے سے اس سے کہیں درجے بہتر ہے ،اسی لیے یہاں دنیا بھر کی شخصیات کے قدِ آدم کے برابر مومی بت نصب کیے گئے، جو بالکل اصل معلوم ہوتے ہیں۔ ان شخصیات میں گاندھی ، صدر کینیڈ ی ، چیانگ کائی شیک ماوسی تنگ ،مہاتما بدھ ، ونسٹن چرچل ، آئن سٹائن ، ایڈیسن ، فرینکن سٹائن ، ابراہیم لنکن اور ایلس ان دی ونڈ ر لینڈ وغیر ہ شامل ہیں۔ ویکس میوزیم میںٹوکیو کی تاریخ کے بعض واقعات دل کش انداز سے مجسموں کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔ عبدالسلام خورشید ابراہم لنکن کے قتل ہونے کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے :
” ایک جگہ ابراہم لنکن اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھا تھا پشت پر ان کا قاتل بندوق تانے کھڑا تھا اور پس منظر سے گولی چلنے کی آواز آرہی تھیں۔”
یوں محسوس ہوتا ہے ابراہیم لنکن کی موت کا منظر مذکورہ بیان کی تفہیم میں دیا گیاہے۔عبدالسلام خورشید نے اپنے اسفار میںتخیل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے گہرے مشاہدے اور صداقت سے کام لیا ہے۔وہ جمالیاتی ذوق اور کشادہ نظری سے اپنے اسفار میں تمام ممالک کی تہذیب و ثقافت،وہاں کے رسم ورواج، وہاں کے باشندوں کی عادات واطوار،وہاں کے مشہور کھیل ،لوگوں کے مقامی مکالمے، ادب ، آرٹ ، وہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی اور لین دین کی صورت حال کو زیرِبحث لاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے چاروں سفر نامے خودنوشت سوانح حیات میں درج کیے ہیں اسی لیے ان کی خودنوشت سوانح جزوی سفرنامے کی ذیل میں آتی ہے۔