آج وہ اپنی تمام تر مصروفیات پس پشت ڈال کر ایک درویش کے پاس پہنچا تھا، جب اُس کی باری آئی تو اُس نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور بالا تمہید درویش سے دُعا کرنے کے لئے کہا۔
درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے جذبے سے دعا دی، اللہ پاک تجھے آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعا لینے والے نے حیرت سے کہا حضرت، الحمداللہ ۔”ہم مال پاک کرنے کے لئے ہرسال وقت پر زکوٰۃ نکالتے ہیں۔”،بلاوں کو ٹالنے کے لئے حسب ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں، اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے کام کرنے والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے”۔ اللہ پاک کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بنٹ چکے ہیں،
درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا، “میرے بچے سانس، کھانا، پیسہ یہ تو سب رزق کی مختلف قسمیں ہیں، اور یاد رکھو کہ رزق اور الرزاق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں، تم جو کررہے ہو اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو اللہ تعالیٰ کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کرسکتی ہے”۔
“اگر تم یہ کررہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کررہے ہو”۔
درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور بولا۔ “میرے بچے آو۔ میں تمہیں سمجھاوں کہ آسانیاں بنٹنا کسے کہتے ہیں”۔
کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر پیشانی پر شکن لائے بغیر ایک گھنٹہ اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا، آسانی ہے۔
اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا، آسانی ہے۔
صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی سکول لے جانے کی ذمہ داری لینا، یہ آسانی ہے۔
اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو، تو خود کو سسرال میں افضل نہ سمجھنا، یہ بھی آسانی ہے۔
غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا یہ بھی آسانی ہے۔
چائے کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بلانا بھی آسانی ہے۔
گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا، یہ آسانی ہے۔
تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور کم آمدن والے ملازمین کو چھوٹا نہ سمجھنا، انہیں سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رُک کر ان سے بچوں کا حال پوچھنا، یہ بھی آسانی ہے۔
ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسلی دینا، یہ بھی آسانی ہے۔
ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا، جس کی موٹرسائیکل بند ہوگئی ہو اور وہ پریشان ہو۔ سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے۔
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کو شفقت سے سرپر ہاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے دوبارہ متوجہ کرتے ہوئے کہا
“بیٹا جی۔ تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے سے کیوں نہیں شروع کرتے”؟
آج واپس جاکر باہر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کھلنے تک انتظار کرنا۔
آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو۔
آج سے ماں کی پہلی آواز پر جہاں کہیں بھی ہو، ان کے پاس پہنچ جایا کرنا، اب انہیں دوسری آواز نہ دینے کی نوبت آئے۔
بہن کی ضرورت، اس کے تقاضے اور شکایت سے پہلے پوری کردیا کرو۔
آئندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرو۔
سالن اچھا نہ ہو تو دستر خوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا۔
کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا۔
“میرے بیٹے، ایک بات یاد رکھنا کہ زندگی تمہاری محتاج نہیں، تم زندگی کے محتاج ہو” منزل کی فکر چھوڑو اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناو، ان شااللہ منزل خود ہی مل جائے گی”۔
دعا کرتا یے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(منقول قصہ )