ہمیں کورونا سے بچنے کے لیے احتیاط کرنے کی پُرزور تلقین کی جارہی ہے، اس ضمن میں ہدایات جاری اور احکامات نافذ کیے گئے ہیں، حکومتوں کی طرف سے لوگوں کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے مختلف تدابیر کی گئی ہیںلیکن میں، آپ، ہم سب کورونا کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہماری زندگی، سماج سے معیشت اور تعلیم تک ہر شعبہ اس ننھے سے جرثومے کا نشانہ بن چکا ہے۔ سب کچھ بدل چکا ہے، بدل رہا ہے۔ اس وبا کے دامن میں ہمارے لیے صرف خسارہ اور تباہی نہیں، افادیت بھی ہے۔ اس وبا نے ہماری شب وروز کی مصروفیات کا تار توڑ کر اور وقت کا تیزرفتار پہیا روک کر ہمیں فرصت کے دور تک پھیلے لمحات، سوچنے کی مہلت اور لگی بندھی زندگی کو نئے زاویوں سے دیکھنے کا موقع عطا کیا ہے۔ تعلیم اس بندھی ہوئی زندگی کے ان شعبوں میں سرفہرست ہے جو قواعد، ضوابط اور پابندیوں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ تعلیمی نظام کی اس جکڑبندی میں ایک طرف استاد مشقت کے بوجھ تلے دبا ہے، دوسری طرف طالب علم بھاری بستے، مضامین کی بہتات، اسائنمنٹس اور زیادہ سے زیادہ نمبر لانے کی دوڑ سے ہلکان ہے، اس تکون کا تیسرا فریق والدین ہیں، جو تعلیمی اداروں کی فیسوں، دیگر مدوں میں وصولی اور اسکول وین کے خرچے کا بار اٹھائے اٹھائے کمر دہری کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد بھی بچوں کو ہوم ورک کے نام پر دیے جانے والے بکھیڑوں کو حل کرنے اور اسکول کو بھاری فیسیں دینے کے باوجود ٹیوشن کے سہارے بچوں کی تعلیمی بنیاد پختہ کرنے میں اپنا وقت اور پیسہ صرف کیے جاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ والدین اب کماتے ہی بچوں کو پڑھانے کے لیے ہیں، انھیں کہیں آنا جانا ہو، سیروتفریح کے لیے شہر سے باہر جانا چاہیں یا شہر میں ہی عزیزواقارب کے ہاں ٹھہرنے کی خواہش ہو، بچوں کا تعلیمی شیڈول پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ گویا بچوں کی تعلیم زندگی کا محور بن گئی ہے، جس کے گرد دن اور رات کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں۔ چناں چہ اولاد کی پڑھائی کی خاطر اتنے کشٹ اٹھانے کے بعد والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی پوزیشن لائے یا کم ازکم بہت اچھے نمبر اور گریڈ تو لے ہی آئے، دوسری صورت میں ایک طرف رقم اور وقت کے زیاں کا احساس مارے ڈالتا ہے تو دوسری طرف رشتے داروں، محلے والوں اور دوستوں کے بچوں کے پوزیشن لینے اور شان دار نمبروں سے پاس ہونے کا ”سانحہ“ صدمہ اور سبکی بن کر جینا دوبھر کردیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں کو اتنے طعنوں تشنوں اور بعض اوقات مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان میں سے کچھ حساس طبیعت کے طلبہ خودکشی تک کرلیتے ہیں۔ یہ سارا گورکھ دھندا تعلیم کے نام پر پھیلایا گیا ہے، وہ تعلیم جو صنعتوں، کمپنیوں اور سرکاری اداروں کے لیے اچھے اور تابعدار ملازمین پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا اجنبی سرزمینوں کے کارخانوں، دفاتر، تجارتی اداروں وغیرہ کے لیے اہل کارکن تیار کرتی ہے۔ ذہنوں کی تربیت، علم وآگاہی کا شوق پیدا کرنے اور جاننے کی لگن جگانے سے اسے کوئی سروکار نہیں، کیوں کہ یہ تدریسی نظام سرمایہ داری کے عفریت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا کے، یہ سرمایہ داری کے مقاصد کو آگے بڑھاتا اور اس کے لیے پڑھی لکھی، ہنرمند لیکن اعلیٰ انسانی اقدار کے تصورات سے عاری افرادی قوت مہیا کرتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کا بنیادی وصف یہ ہے کہ وہ بڑی مہارت اور چابک دستی سے اپنا جبر ہماری خواہش بنا دیتا ہے۔ اس نظام کی ریشمی سنہری ڈوریوں کو ہم زیب وزینت سمجھ کر خود ان میں بندھتے چلے جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ نرم ملائم دیدہ زیب ڈوریاں آہنی زنجیریں اور بیڑیاں بن کر ہمیں جکڑتی اور ہمارے گوشت پوست میں پیوست ہوجاتی ہیں۔ یہی سرمایہ دارانہ تیکنیک شعبہ¿ تعلیم کی ہماری زندگیوں پر گرفت کی صورت میں بروئے کار لائی گئی ہے۔ تعلیم وتدریس کے نام پر زرگری اور تعلیمی اداروں سے نمبروں اور گریڈوں تک پھیلا یہ جال اب تک تو بڑی کام یابی سے ہمیں جکڑے ہوئے تھا، لیکن کورونا کے باعث اس کی پکڑ ڈھیلی پڑی ہے اور اس تصور پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے کہ علم کا حصول اور کام یابی کے لیے تعلیمی اداروں کے در کھٹکٹانا، داخلے کے لیے سفارشیں ڈھونڈنا، ان اداروں کے مالکان کی ہر شرط پر سر جھکادینا ایسی مجبوری ہے جس کے تقاضے پورے کیے بغیر چارہ نہیں۔ وبا کے اس دور میں اسکول سے لے کر جامعات تک کے طلبہ ”ہوم ایجوکیشن“ کے ذریعے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یا تو نام نہاد آن لائن کلاسیں ہورہی ہیں یا طلبہ ٹیوٹر کی مدد سے اور خود پڑھ کر خود کو تعلیم سے جوڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان گزرتے ایام کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور نچلے متوسط اور غریب طبقے کے والدین اور بچوں کی زندگی آسان بنانے کی خاطر ہم ”ہوم ایجوکیشن“ یا ”گھریلو تعلیم“ یا ”غیررسمی تدریس“ کا مستقل سلسلہ شروع نہیں کرسکتے؟ ایسا سلسلہ جسے ریاست کی اعانت اور تعاون حاصل ہو۔ گھریلو تعلیم کیا ہے؟ ویکیپیڈیا کی تعریف کے مطابق،”گھریلو درس (انگریزی: Homeschooling)، جسے گھریلو تدریس، گھر کی تعلیم یا خانگی تدریس بھی کہا جاتا ہے، بچوں کی گھر پر یا اسکول سے ہٹ کر کسی اور مقام پر تعلیم کو کہا جاتا ہے۔ گھریلو درس اکثر والدین، اتالیق یا کسی آن لائن درس دینے والے کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ کئی خاندان کم تر رسمی تعلیمی طریقوں کو اپناتے ہیں۔ شمالی امریکا میں اس کے لیے ہوم اسکولنگ کی اصطلاح عام ہے، جب کہ یورپ اور کئی دولت مشترکہ ممالک میں اسے ہوم ایجوکیشن کہا جاتا ہے۔“ کئی ترقی یافتہ ممالک میں گھریلو درس کو نجی اسکولوں کے قانونی متبادل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں تفصیل دینا اس بلاگ کو بوجھل اور طویل کردے گا، چناں چہ میں اختصار کے ساتھ ”گھریلو تعلیم“ کے نظام کا خاکہ پیش کر رہا ہوں۔ اگر ایک مرتبہ یہ نظام تعلیم یا اس سے ملتا جُلتا تدریسی سلسلہ رائج ہوگیا تو نجی اسکولوں کے نام پر قائم دکانیں یا تو بند ہوجائیں گی یا مجبور والدین کو بلیک میل کرکے مال بٹورنے سے باز آجائیں گی۔ ابتدا میں یہ نظام میٹرک تک استوار ہو۔ اس نظام کے تحت والدین گروہوں یا کمیونٹی کی صورت میں اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا اہتمام کریں۔ یہ کمیونٹی، محلے، خاندان، گاﺅں، قبیلے سمیت کسی بھی بنیاد پر تشکیل پاسکتی ہے۔ کمیونٹی کسی بھی جگہ پر جو کوئی احاطہ، پارک یا میدان بھی ہوسکتا ہے، کمیونٹی میں شامل خاندانوں کے بچوں کے لیے روزانہ کی بنیاد پر تعلیم کا بندوبست کرے۔ اس مقصد کے لیے گروہ میں شامل خاندانوں میں سے تعلیم یافتہ افراد رضاکارانہ طور پر یا معاوضہ لے کر بچوں کا تعلیم دے سکتے ہیں یا ٹیوٹرز کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ صرف چند اہم ترین مضامین نصاب کا حصہ ہوں جیسے میں ریاضی، سائنس، انگریزی اور اردو۔ اسلامیات، مطالعہ پاکستان، معاشرتی علوم، جغرافیے کے موضوعات کو اردو اور انگریزی تدریس اور نصاب کا حصہ بنایا جاسکتا ہے اور میٹرک تک سائنس فزکس، کیمسٹری اور بائیلوجی تینوں مضامین کی نہایت ضروری اور بنیادی معلومات پر مشتمل ہوسکتی ہیں۔ یوں بچوں پر نصاب کا بوجھ کم ہوگا اور وہ مذکورہ مضامین میں زیادہ سے زیادہ دسترس حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ان تعلیم گاہوں میں آٹھ سال یا زیادہ عمر کے بچوں کو داخلہ دیا جائے، اس سے کم عمر کے بچوں کو نہیں۔ بچے جب آٹھ دس سال کی عمر میں پڑھنا شروع کریں گے تو نرسری اور پری نرسری کی ضرورت خود ہی ختم ہوجائے گی۔ دوسرے، ان بچوں کو ابتدا میں صرف زبان، انگریزی، اردو (یا کمیونٹی علاقائی زبان پڑھانا چاہے) اور بنیادی ریاضی پڑھائی جائے۔ اس طرح پرائمری تعلیم کی طوالت پانچ سال کے بجائے کم کرکے دو سال کردی جائے۔ ہر کلاس کی تدریس کے لیے دورانیے (پورے سال) کی کوئی پابندی نہ ہو، نہ امتحان لیا جائے۔ بس ماہانہ بنیادوں پر ٹیسٹ لیے جاتے رہیں۔ جب متعلقہ کمیونٹی سمجھے کہ اس کے بچے تدریسی نظام کے تحت پڑھنے والے تمام طلبہ جماعت کے نصاب کے مطابق علم حاصل کرچکے ہیں تو ان کے لیے اگلی کلاس شروع کردی جائے۔ جب مضامین کم ہوں گے، تو کلاسوں کا دورانیہ بھی گھٹ جائے گا، اس طرح ایک ہی مقام پر مختلف اوقات میں الگ الگ مضامین کی دو سے تین گھنٹے کی کلاسیں لینا ممکن ہوگا۔ ہر کمیونٹی کے اسکول کی تعلیمی بورڈز ان اسکولوں کی باقاعدہ رجسٹریشن کریں۔ ان میں پڑھنے والے طلبہ کا ایک ساتھ میٹرک کا امتحان لیا جائے اور کام یاب طلبہ کو وہ تمام مواقع ملیں جو روایتی اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو میسر آتے ہیں۔ یہ گھریلو تعلیمی نظام ملک میں تعلیم کے حقیقی معنوں میں فروغ کا باعث بنے گا۔ اس کے ذریعے ان والدین کو بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کا موقع ملا گا جو تنگ دستی کے باعث اپنے بچوں کو نہیں پڑھا پاتے، یہ طریقہ تدریس ان بچوں کے لیے بھی حصول تعلیم کا در وا کرے گا جو محنت مشقت کرکے اپنے خاندانوں کا سہارا بنے ہوئے ہیں اور یہ تدریسی سلسلہ ان والدین کی زندگی آسان کرے گا جو بچوں کی بھاری فیسوں اور دیگر تعلیمی اخراجات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس طرح جو پیسہ نجی اسکول کے مالکان کی جیب میں جاتا ہے اسے بچاکر گھریلوتعلیم کے ذریعے پڑھنے والے نوجوانوں کو کاروبار کروایا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے یہ تصور آپ کو احمقانہ لگے، لیکن ایک بار دل کھول کر ہنسنے کے بعد اس بلاگ کو دوبارہ پڑھےے گا، شاید رائے بدل جائے۔
ADVERTISEMENT