Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اکہتر کھرب چھتیس ارب روپے پر مشتمل وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے۔ حکومت نے نیے مالی سال کے بجٹ میں میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ جمعے کی شام وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا. اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کی۔
وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 1290 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے‘نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے‘این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے‘وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ‘اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے‘مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے‘وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے‘سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے‘پنشن کی مد میں 470 ارب روپے ‘صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے‘دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے‘آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے ‘نیا پاکستان ہاﺅسنگ کے لیے 30 ارب روپے ‘احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے اورسول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے.
قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے ’آٹا چور‘، ’چینی چور‘ اور ’علی بابا چالیس چور‘ کے نعرے بھی لگائے بجٹ تقریر کے دوران واک آﺅٹ کرنے والے اپوزیشن ارکان نے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا، اپوزیشن راہنماﺅں کا کہنا تھا بجٹ میں عام آدمی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھا گیا.
اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ 9 جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ‘پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا‘گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھا.
علاوہ ازیں مالی سال 20-2019میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 19-2018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھی.
اکہتر کھرب چھتیس ارب روپے پر مشتمل وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے۔ حکومت نے نیے مالی سال کے بجٹ میں میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ جمعے کی شام وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا. اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کی۔
وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 1290 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے‘نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے‘این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے‘وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ‘اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے‘مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے‘وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے‘سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے‘پنشن کی مد میں 470 ارب روپے ‘صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے‘دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے‘آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے ‘نیا پاکستان ہاﺅسنگ کے لیے 30 ارب روپے ‘احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے اورسول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے.
قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے ’آٹا چور‘، ’چینی چور‘ اور ’علی بابا چالیس چور‘ کے نعرے بھی لگائے بجٹ تقریر کے دوران واک آﺅٹ کرنے والے اپوزیشن ارکان نے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا، اپوزیشن راہنماﺅں کا کہنا تھا بجٹ میں عام آدمی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھا گیا.
اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ 9 جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ‘پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا‘گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھا.
علاوہ ازیں مالی سال 20-2019میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 19-2018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھی.
اکہتر کھرب چھتیس ارب روپے پر مشتمل وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے۔ حکومت نے نیے مالی سال کے بجٹ میں میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ جمعے کی شام وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا. اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کی۔
وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 1290 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے‘نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے‘این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے‘وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ‘اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے‘مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے‘وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے‘سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے‘پنشن کی مد میں 470 ارب روپے ‘صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے‘دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے‘آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے ‘نیا پاکستان ہاﺅسنگ کے لیے 30 ارب روپے ‘احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے اورسول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے.
قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے ’آٹا چور‘، ’چینی چور‘ اور ’علی بابا چالیس چور‘ کے نعرے بھی لگائے بجٹ تقریر کے دوران واک آﺅٹ کرنے والے اپوزیشن ارکان نے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا، اپوزیشن راہنماﺅں کا کہنا تھا بجٹ میں عام آدمی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھا گیا.
اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ 9 جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ‘پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا‘گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھا.
علاوہ ازیں مالی سال 20-2019میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 19-2018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھی.
اکہتر کھرب چھتیس ارب روپے پر مشتمل وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے۔ حکومت نے نیے مالی سال کے بجٹ میں میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ جمعے کی شام وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا. اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کی۔
وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 1290 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے‘نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے‘این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے‘وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ‘اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے‘مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے‘وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے‘سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے‘پنشن کی مد میں 470 ارب روپے ‘صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے‘دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے‘آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے ‘نیا پاکستان ہاﺅسنگ کے لیے 30 ارب روپے ‘احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے اورسول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے.
قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے ’آٹا چور‘، ’چینی چور‘ اور ’علی بابا چالیس چور‘ کے نعرے بھی لگائے بجٹ تقریر کے دوران واک آﺅٹ کرنے والے اپوزیشن ارکان نے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا، اپوزیشن راہنماﺅں کا کہنا تھا بجٹ میں عام آدمی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھا گیا.
اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ 9 جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ‘پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا‘گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھا.
علاوہ ازیں مالی سال 20-2019میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 19-2018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھی.