Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

عزیز بچوں سے کچھ ضروری باتیں
پیارے بچو! یہ کتاب جو ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے آپ کے ہاتھوں میں ہے، بڑی مشہور اور دلچسپ کتاب ہے۔ یہ سیکڑوں سال پہلے لکھی گئی۔ روایت ہے کہ یہ شاید پہلی بار ہندوستان میں لکھی گئی مگر اب یہ اصل کتاب نہیں ملتی۔ ہاں، آج سے کئی صدیاں پہلے اس کا ایک نسخہ پرانی ایرانی زبان میں جسے ”پہلوی“ کہتے تھے، موجود تھا۔ اسے بعد میں سامانی بادشاہ نوح بن منصور کے حکم سے اس زمانے کے ایک مشہور ادیب عمید قناوزی نے سادہ فارسی میں لکھا۔ یہ آج سے تقریباً ایک ہزار برس سے کُچھ زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ پھر تقریباً ساڑھے آٹھ سو، پونے نو سو برس پہلے ایک شاعر ازرقی نے جو ہرات کا رہنے والا تھا، اسی ترجمے کو نظم کی صورت میں لکھا۔ بعد میں ایک ممتاز اور بڑے ذہین فارسی ادیب ظہیری سمرقندی نے اسے ”سندبادنامہ“ کے عنوان سے ادبی اور آرائشی زبان میں لکھا۔ ”سندباد نامہ“ سات وزیروں کی کہانیوں کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ کتاب اتنی معروف ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے کئی عرب لکھنے والوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا بہت سی مغربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔
ظہیری سمرقندی نے اپنی کتاب ”سندباد نامہ“ میں پینتیس بڑی دلچسپ کہانیاں درج کی ہیں۔ یہ کہانیاں بہت حیران کن اور دلکش ہیں مگر ان کی زبان مشکل ہے۔ ظہیری نے اس میں کئی دلچسپ کہاوتیں، شعر اور قول بھی موتیوں کی طرح ٹانک دیے ہیں۔ یہ کتاب بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے تو توجہ کے قابل ہے مگر بچوں کو اس کے سمجھنے میں بڑی دشواری پیش آسکتی تھی۔ لہٰذا اسے مہدی آذریزدی نے بہت آسان اور جدید فارسی زبان میں لکھا۔ ان کی یہ کتاب ایرانی بچوں اور بڑوں میں بہت مقبول ہوئی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کہانیوں کا ترجمہ اردو زبان میں کردوں تاکہ پاکستان کی قومی زبان میں ڈھل کر یہ کتاب آپ کے مطالعے میں آئے اور آپ اسے پڑھ کر خوش بھی ہوں اور ان کہانیوں کے اندر موجود اچھی اور دانائی اور عقل کی باتیں بھی سیکھ جائیں__ایسی باتیں جو آئندہ پوری زندگی آپ کے کام آئیں۔ سو میں نے اِنھیں آپ کے لیے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔میں نے ترجمے کی زبان آسان رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کہیں کہیں مشکل لفظ اور کلمات آگئے ہیں تو حاشیوں میں ان کے معنی بھی لکھ دیے ہیں تاکہ مفہوم کے سمجھنے میں آپ کو دِقّت نہ ہو۔
اچھا یہ تو آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ یہ مہدی آذریزدی کون ہیں؟ بھئی! یہ ایران کے بڑے لائق ادیب تھے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں۔ انھوں نے لمبی عمر پائی۔ وہ 1922ءمیں یزد کے ایک محلّے خرّمشاہ میں پیدا ہوئے اور جولائی 2009ءمیں اسی شہر میں انتقال کیا۔ ایرانی انھیں ادب اور احترام سے ”استاد مہدی آذریزدی“ کہتے تھے۔ آج سے تیرہ چودہ برس پہلے جب میں ایران کے دارالحکومت تہران میں تھا تو ان سے کبھی کبھی ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں رہتا تھا۔ میں نے اُن دنوں اُن کی کہانیوں کے دو مجموعوں کے اردو میں ترجمے کیے تھے جو ”بے زبانوں کی زبانی حکمت بھری کہانیاں“ اور ”اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں“ کے نام سے مشہور ہیں۔ امید ہے کہ یہ کہانیاں آپ کی نظر سے بھی گزری ہوں گی اور آپ کو پسند آئی ہوں گی۔ ان میں سے ایک کتاب بعد میں ”رنگیلا گیدڑ“ کے نام سے بھی شائع ہوئی۔ اور ہاں، مہدی آذریزدی مجھ سے اپنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔ افسوس اب وہ اِس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی روح یقینا یہ جان کر خوش ہوگی کہ اب ان کی ایک اور کتاب ”سند باد نامہ“ کا اردو ترجمہ بھی ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔
بچو! مہدی آذریزدی نے ”سند بادنامہ“ کی پینتیس کہانیوں میں سے آپ کی دلچسپی کے پیشِ نظر صرف تیرہ کہانیاں چن کر انھیں ”قصہ ہای خوب برای بچہ ہای خوب“ (اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں) کے سلسلے کی تیسری کتاب کے طور پر شائع کیا تھا۔ انھوں نے اس تیسری کتاب میں ایک اور مشہور کتاب ”قابوس نامہ“ کی گیارہ کہانیاں بھی شامل کی تھیں۔ افسوس فرصت نہ ہونے کی وجہ سے میں ان کا اردو میں ترجمہ نہیں کرسکا۔ اگر خدا نے چاہا تو آئندہ کبھی ترجمہ کرکے اسے بھی آپ کے مطالعے کے لیے شائع کردوں گا۔
مہدی آذریزدی نے ”سند باد نامہ“ کی کہانیوں کا مِن و عَن ترجمہ نہیں کیا بلکہ ان سے بعض حصّے حذف کرکے اور بعض اپنی طرف سے اضافہ کیے ہیں۔ اسی طرح اصل کہانیوں کے بعض حصوں میں کچھ کچھ تبدیلیاں بھی کردی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ تیرہ کہانیاں پہلے سے بڑھ کر دلچسپ، پُرکشش اور مفید ہوگئی ہیں اور ان میں شامل مکالمے پہلے سے زیادہ دلچسپ اور تیکھے ہوگئے ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور جانوروں کے کرداروں پر مبنی کہانیاں بھی ہیں۔ یوں تو یہ ساری ہی کہانیاں مطالعے کے قابل ہیں مگر ان میں سے لومڑی کی پیش گوئی، خوددار اونٹ، ہاتھی کی تربیت، آتش بازی، ذہین نابینا، فضول بندر، لومڑی کا صبر اور قاضی کا فرمان آپ کو خصوصاً پسند آئیں گی۔ مگر عزیز بچو! اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ باقی کہانیاں پڑھیں ہی نہیں۔ امید ہے آپ ساری کی ساری کہانیاں پڑھیں گے اور جب آپ یہ سب پڑھ چکیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ان کے مطالعے سے نہ صرف آپ کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے بلکہ آپ پہلے سے بڑھ کر دانا اور سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ یقین ہے کہ آپ ان کہانیوں کو یاد رکھیں گے اور کبھی کبھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی سنایا کریں گے تاکہ فکر اور خیال کی جو دودھیا مٹھاس اِن کہانیوں کے ذریعے آپ تک پہنچی، اسے آپ نے اپنے عزیزوں اور دوستوں تک پہنچانے کی کوشش بھی کی۔ اور ہاں ایک بات اور۔ اگرچہ یہ کہانیاں سیکڑوں سال پرانی ہیں مگر یہ آج بھی نئی ہیں اور آپ اور ہم سب کے لیے اُتنی ہی دلچسپ اور کارآمد ہیں جتنی یہ اپنے زمانے میں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد سچائی اور دانائی پر رکھی گئی ہے اور جس تحریر کی بنیاد سچائی اور دانائی پر ہو وہ ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے۔ ایسا ادب سچے اور دانا دوست کی طرح آپ کا ہمدرد اور رازدار بن جاتا ہے اور زندگی کی اونچ نیچ سے آپ کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ آپ سب کو توانا اور تروتازہ رکھے۔

عزیز بچوں سے کچھ ضروری باتیں
پیارے بچو! یہ کتاب جو ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے آپ کے ہاتھوں میں ہے، بڑی مشہور اور دلچسپ کتاب ہے۔ یہ سیکڑوں سال پہلے لکھی گئی۔ روایت ہے کہ یہ شاید پہلی بار ہندوستان میں لکھی گئی مگر اب یہ اصل کتاب نہیں ملتی۔ ہاں، آج سے کئی صدیاں پہلے اس کا ایک نسخہ پرانی ایرانی زبان میں جسے ”پہلوی“ کہتے تھے، موجود تھا۔ اسے بعد میں سامانی بادشاہ نوح بن منصور کے حکم سے اس زمانے کے ایک مشہور ادیب عمید قناوزی نے سادہ فارسی میں لکھا۔ یہ آج سے تقریباً ایک ہزار برس سے کُچھ زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ پھر تقریباً ساڑھے آٹھ سو، پونے نو سو برس پہلے ایک شاعر ازرقی نے جو ہرات کا رہنے والا تھا، اسی ترجمے کو نظم کی صورت میں لکھا۔ بعد میں ایک ممتاز اور بڑے ذہین فارسی ادیب ظہیری سمرقندی نے اسے ”سندبادنامہ“ کے عنوان سے ادبی اور آرائشی زبان میں لکھا۔ ”سندباد نامہ“ سات وزیروں کی کہانیوں کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ کتاب اتنی معروف ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے کئی عرب لکھنے والوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا بہت سی مغربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔
ظہیری سمرقندی نے اپنی کتاب ”سندباد نامہ“ میں پینتیس بڑی دلچسپ کہانیاں درج کی ہیں۔ یہ کہانیاں بہت حیران کن اور دلکش ہیں مگر ان کی زبان مشکل ہے۔ ظہیری نے اس میں کئی دلچسپ کہاوتیں، شعر اور قول بھی موتیوں کی طرح ٹانک دیے ہیں۔ یہ کتاب بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے تو توجہ کے قابل ہے مگر بچوں کو اس کے سمجھنے میں بڑی دشواری پیش آسکتی تھی۔ لہٰذا اسے مہدی آذریزدی نے بہت آسان اور جدید فارسی زبان میں لکھا۔ ان کی یہ کتاب ایرانی بچوں اور بڑوں میں بہت مقبول ہوئی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کہانیوں کا ترجمہ اردو زبان میں کردوں تاکہ پاکستان کی قومی زبان میں ڈھل کر یہ کتاب آپ کے مطالعے میں آئے اور آپ اسے پڑھ کر خوش بھی ہوں اور ان کہانیوں کے اندر موجود اچھی اور دانائی اور عقل کی باتیں بھی سیکھ جائیں__ایسی باتیں جو آئندہ پوری زندگی آپ کے کام آئیں۔ سو میں نے اِنھیں آپ کے لیے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔میں نے ترجمے کی زبان آسان رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کہیں کہیں مشکل لفظ اور کلمات آگئے ہیں تو حاشیوں میں ان کے معنی بھی لکھ دیے ہیں تاکہ مفہوم کے سمجھنے میں آپ کو دِقّت نہ ہو۔
اچھا یہ تو آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ یہ مہدی آذریزدی کون ہیں؟ بھئی! یہ ایران کے بڑے لائق ادیب تھے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں۔ انھوں نے لمبی عمر پائی۔ وہ 1922ءمیں یزد کے ایک محلّے خرّمشاہ میں پیدا ہوئے اور جولائی 2009ءمیں اسی شہر میں انتقال کیا۔ ایرانی انھیں ادب اور احترام سے ”استاد مہدی آذریزدی“ کہتے تھے۔ آج سے تیرہ چودہ برس پہلے جب میں ایران کے دارالحکومت تہران میں تھا تو ان سے کبھی کبھی ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں رہتا تھا۔ میں نے اُن دنوں اُن کی کہانیوں کے دو مجموعوں کے اردو میں ترجمے کیے تھے جو ”بے زبانوں کی زبانی حکمت بھری کہانیاں“ اور ”اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں“ کے نام سے مشہور ہیں۔ امید ہے کہ یہ کہانیاں آپ کی نظر سے بھی گزری ہوں گی اور آپ کو پسند آئی ہوں گی۔ ان میں سے ایک کتاب بعد میں ”رنگیلا گیدڑ“ کے نام سے بھی شائع ہوئی۔ اور ہاں، مہدی آذریزدی مجھ سے اپنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔ افسوس اب وہ اِس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی روح یقینا یہ جان کر خوش ہوگی کہ اب ان کی ایک اور کتاب ”سند باد نامہ“ کا اردو ترجمہ بھی ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔
بچو! مہدی آذریزدی نے ”سند بادنامہ“ کی پینتیس کہانیوں میں سے آپ کی دلچسپی کے پیشِ نظر صرف تیرہ کہانیاں چن کر انھیں ”قصہ ہای خوب برای بچہ ہای خوب“ (اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں) کے سلسلے کی تیسری کتاب کے طور پر شائع کیا تھا۔ انھوں نے اس تیسری کتاب میں ایک اور مشہور کتاب ”قابوس نامہ“ کی گیارہ کہانیاں بھی شامل کی تھیں۔ افسوس فرصت نہ ہونے کی وجہ سے میں ان کا اردو میں ترجمہ نہیں کرسکا۔ اگر خدا نے چاہا تو آئندہ کبھی ترجمہ کرکے اسے بھی آپ کے مطالعے کے لیے شائع کردوں گا۔
مہدی آذریزدی نے ”سند باد نامہ“ کی کہانیوں کا مِن و عَن ترجمہ نہیں کیا بلکہ ان سے بعض حصّے حذف کرکے اور بعض اپنی طرف سے اضافہ کیے ہیں۔ اسی طرح اصل کہانیوں کے بعض حصوں میں کچھ کچھ تبدیلیاں بھی کردی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ تیرہ کہانیاں پہلے سے بڑھ کر دلچسپ، پُرکشش اور مفید ہوگئی ہیں اور ان میں شامل مکالمے پہلے سے زیادہ دلچسپ اور تیکھے ہوگئے ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور جانوروں کے کرداروں پر مبنی کہانیاں بھی ہیں۔ یوں تو یہ ساری ہی کہانیاں مطالعے کے قابل ہیں مگر ان میں سے لومڑی کی پیش گوئی، خوددار اونٹ، ہاتھی کی تربیت، آتش بازی، ذہین نابینا، فضول بندر، لومڑی کا صبر اور قاضی کا فرمان آپ کو خصوصاً پسند آئیں گی۔ مگر عزیز بچو! اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ باقی کہانیاں پڑھیں ہی نہیں۔ امید ہے آپ ساری کی ساری کہانیاں پڑھیں گے اور جب آپ یہ سب پڑھ چکیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ان کے مطالعے سے نہ صرف آپ کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے بلکہ آپ پہلے سے بڑھ کر دانا اور سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ یقین ہے کہ آپ ان کہانیوں کو یاد رکھیں گے اور کبھی کبھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی سنایا کریں گے تاکہ فکر اور خیال کی جو دودھیا مٹھاس اِن کہانیوں کے ذریعے آپ تک پہنچی، اسے آپ نے اپنے عزیزوں اور دوستوں تک پہنچانے کی کوشش بھی کی۔ اور ہاں ایک بات اور۔ اگرچہ یہ کہانیاں سیکڑوں سال پرانی ہیں مگر یہ آج بھی نئی ہیں اور آپ اور ہم سب کے لیے اُتنی ہی دلچسپ اور کارآمد ہیں جتنی یہ اپنے زمانے میں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد سچائی اور دانائی پر رکھی گئی ہے اور جس تحریر کی بنیاد سچائی اور دانائی پر ہو وہ ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے۔ ایسا ادب سچے اور دانا دوست کی طرح آپ کا ہمدرد اور رازدار بن جاتا ہے اور زندگی کی اونچ نیچ سے آپ کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ آپ سب کو توانا اور تروتازہ رکھے۔

عزیز بچوں سے کچھ ضروری باتیں
پیارے بچو! یہ کتاب جو ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے آپ کے ہاتھوں میں ہے، بڑی مشہور اور دلچسپ کتاب ہے۔ یہ سیکڑوں سال پہلے لکھی گئی۔ روایت ہے کہ یہ شاید پہلی بار ہندوستان میں لکھی گئی مگر اب یہ اصل کتاب نہیں ملتی۔ ہاں، آج سے کئی صدیاں پہلے اس کا ایک نسخہ پرانی ایرانی زبان میں جسے ”پہلوی“ کہتے تھے، موجود تھا۔ اسے بعد میں سامانی بادشاہ نوح بن منصور کے حکم سے اس زمانے کے ایک مشہور ادیب عمید قناوزی نے سادہ فارسی میں لکھا۔ یہ آج سے تقریباً ایک ہزار برس سے کُچھ زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ پھر تقریباً ساڑھے آٹھ سو، پونے نو سو برس پہلے ایک شاعر ازرقی نے جو ہرات کا رہنے والا تھا، اسی ترجمے کو نظم کی صورت میں لکھا۔ بعد میں ایک ممتاز اور بڑے ذہین فارسی ادیب ظہیری سمرقندی نے اسے ”سندبادنامہ“ کے عنوان سے ادبی اور آرائشی زبان میں لکھا۔ ”سندباد نامہ“ سات وزیروں کی کہانیوں کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ کتاب اتنی معروف ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے کئی عرب لکھنے والوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا بہت سی مغربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔
ظہیری سمرقندی نے اپنی کتاب ”سندباد نامہ“ میں پینتیس بڑی دلچسپ کہانیاں درج کی ہیں۔ یہ کہانیاں بہت حیران کن اور دلکش ہیں مگر ان کی زبان مشکل ہے۔ ظہیری نے اس میں کئی دلچسپ کہاوتیں، شعر اور قول بھی موتیوں کی طرح ٹانک دیے ہیں۔ یہ کتاب بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے تو توجہ کے قابل ہے مگر بچوں کو اس کے سمجھنے میں بڑی دشواری پیش آسکتی تھی۔ لہٰذا اسے مہدی آذریزدی نے بہت آسان اور جدید فارسی زبان میں لکھا۔ ان کی یہ کتاب ایرانی بچوں اور بڑوں میں بہت مقبول ہوئی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کہانیوں کا ترجمہ اردو زبان میں کردوں تاکہ پاکستان کی قومی زبان میں ڈھل کر یہ کتاب آپ کے مطالعے میں آئے اور آپ اسے پڑھ کر خوش بھی ہوں اور ان کہانیوں کے اندر موجود اچھی اور دانائی اور عقل کی باتیں بھی سیکھ جائیں__ایسی باتیں جو آئندہ پوری زندگی آپ کے کام آئیں۔ سو میں نے اِنھیں آپ کے لیے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔میں نے ترجمے کی زبان آسان رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کہیں کہیں مشکل لفظ اور کلمات آگئے ہیں تو حاشیوں میں ان کے معنی بھی لکھ دیے ہیں تاکہ مفہوم کے سمجھنے میں آپ کو دِقّت نہ ہو۔
اچھا یہ تو آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ یہ مہدی آذریزدی کون ہیں؟ بھئی! یہ ایران کے بڑے لائق ادیب تھے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں۔ انھوں نے لمبی عمر پائی۔ وہ 1922ءمیں یزد کے ایک محلّے خرّمشاہ میں پیدا ہوئے اور جولائی 2009ءمیں اسی شہر میں انتقال کیا۔ ایرانی انھیں ادب اور احترام سے ”استاد مہدی آذریزدی“ کہتے تھے۔ آج سے تیرہ چودہ برس پہلے جب میں ایران کے دارالحکومت تہران میں تھا تو ان سے کبھی کبھی ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں رہتا تھا۔ میں نے اُن دنوں اُن کی کہانیوں کے دو مجموعوں کے اردو میں ترجمے کیے تھے جو ”بے زبانوں کی زبانی حکمت بھری کہانیاں“ اور ”اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں“ کے نام سے مشہور ہیں۔ امید ہے کہ یہ کہانیاں آپ کی نظر سے بھی گزری ہوں گی اور آپ کو پسند آئی ہوں گی۔ ان میں سے ایک کتاب بعد میں ”رنگیلا گیدڑ“ کے نام سے بھی شائع ہوئی۔ اور ہاں، مہدی آذریزدی مجھ سے اپنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔ افسوس اب وہ اِس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی روح یقینا یہ جان کر خوش ہوگی کہ اب ان کی ایک اور کتاب ”سند باد نامہ“ کا اردو ترجمہ بھی ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔
بچو! مہدی آذریزدی نے ”سند بادنامہ“ کی پینتیس کہانیوں میں سے آپ کی دلچسپی کے پیشِ نظر صرف تیرہ کہانیاں چن کر انھیں ”قصہ ہای خوب برای بچہ ہای خوب“ (اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں) کے سلسلے کی تیسری کتاب کے طور پر شائع کیا تھا۔ انھوں نے اس تیسری کتاب میں ایک اور مشہور کتاب ”قابوس نامہ“ کی گیارہ کہانیاں بھی شامل کی تھیں۔ افسوس فرصت نہ ہونے کی وجہ سے میں ان کا اردو میں ترجمہ نہیں کرسکا۔ اگر خدا نے چاہا تو آئندہ کبھی ترجمہ کرکے اسے بھی آپ کے مطالعے کے لیے شائع کردوں گا۔
مہدی آذریزدی نے ”سند باد نامہ“ کی کہانیوں کا مِن و عَن ترجمہ نہیں کیا بلکہ ان سے بعض حصّے حذف کرکے اور بعض اپنی طرف سے اضافہ کیے ہیں۔ اسی طرح اصل کہانیوں کے بعض حصوں میں کچھ کچھ تبدیلیاں بھی کردی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ تیرہ کہانیاں پہلے سے بڑھ کر دلچسپ، پُرکشش اور مفید ہوگئی ہیں اور ان میں شامل مکالمے پہلے سے زیادہ دلچسپ اور تیکھے ہوگئے ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور جانوروں کے کرداروں پر مبنی کہانیاں بھی ہیں۔ یوں تو یہ ساری ہی کہانیاں مطالعے کے قابل ہیں مگر ان میں سے لومڑی کی پیش گوئی، خوددار اونٹ، ہاتھی کی تربیت، آتش بازی، ذہین نابینا، فضول بندر، لومڑی کا صبر اور قاضی کا فرمان آپ کو خصوصاً پسند آئیں گی۔ مگر عزیز بچو! اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ باقی کہانیاں پڑھیں ہی نہیں۔ امید ہے آپ ساری کی ساری کہانیاں پڑھیں گے اور جب آپ یہ سب پڑھ چکیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ان کے مطالعے سے نہ صرف آپ کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے بلکہ آپ پہلے سے بڑھ کر دانا اور سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ یقین ہے کہ آپ ان کہانیوں کو یاد رکھیں گے اور کبھی کبھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی سنایا کریں گے تاکہ فکر اور خیال کی جو دودھیا مٹھاس اِن کہانیوں کے ذریعے آپ تک پہنچی، اسے آپ نے اپنے عزیزوں اور دوستوں تک پہنچانے کی کوشش بھی کی۔ اور ہاں ایک بات اور۔ اگرچہ یہ کہانیاں سیکڑوں سال پرانی ہیں مگر یہ آج بھی نئی ہیں اور آپ اور ہم سب کے لیے اُتنی ہی دلچسپ اور کارآمد ہیں جتنی یہ اپنے زمانے میں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد سچائی اور دانائی پر رکھی گئی ہے اور جس تحریر کی بنیاد سچائی اور دانائی پر ہو وہ ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے۔ ایسا ادب سچے اور دانا دوست کی طرح آپ کا ہمدرد اور رازدار بن جاتا ہے اور زندگی کی اونچ نیچ سے آپ کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ آپ سب کو توانا اور تروتازہ رکھے۔

عزیز بچوں سے کچھ ضروری باتیں
پیارے بچو! یہ کتاب جو ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے آپ کے ہاتھوں میں ہے، بڑی مشہور اور دلچسپ کتاب ہے۔ یہ سیکڑوں سال پہلے لکھی گئی۔ روایت ہے کہ یہ شاید پہلی بار ہندوستان میں لکھی گئی مگر اب یہ اصل کتاب نہیں ملتی۔ ہاں، آج سے کئی صدیاں پہلے اس کا ایک نسخہ پرانی ایرانی زبان میں جسے ”پہلوی“ کہتے تھے، موجود تھا۔ اسے بعد میں سامانی بادشاہ نوح بن منصور کے حکم سے اس زمانے کے ایک مشہور ادیب عمید قناوزی نے سادہ فارسی میں لکھا۔ یہ آج سے تقریباً ایک ہزار برس سے کُچھ زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ پھر تقریباً ساڑھے آٹھ سو، پونے نو سو برس پہلے ایک شاعر ازرقی نے جو ہرات کا رہنے والا تھا، اسی ترجمے کو نظم کی صورت میں لکھا۔ بعد میں ایک ممتاز اور بڑے ذہین فارسی ادیب ظہیری سمرقندی نے اسے ”سندبادنامہ“ کے عنوان سے ادبی اور آرائشی زبان میں لکھا۔ ”سندباد نامہ“ سات وزیروں کی کہانیوں کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ کتاب اتنی معروف ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے کئی عرب لکھنے والوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا بہت سی مغربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔
ظہیری سمرقندی نے اپنی کتاب ”سندباد نامہ“ میں پینتیس بڑی دلچسپ کہانیاں درج کی ہیں۔ یہ کہانیاں بہت حیران کن اور دلکش ہیں مگر ان کی زبان مشکل ہے۔ ظہیری نے اس میں کئی دلچسپ کہاوتیں، شعر اور قول بھی موتیوں کی طرح ٹانک دیے ہیں۔ یہ کتاب بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے تو توجہ کے قابل ہے مگر بچوں کو اس کے سمجھنے میں بڑی دشواری پیش آسکتی تھی۔ لہٰذا اسے مہدی آذریزدی نے بہت آسان اور جدید فارسی زبان میں لکھا۔ ان کی یہ کتاب ایرانی بچوں اور بڑوں میں بہت مقبول ہوئی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کہانیوں کا ترجمہ اردو زبان میں کردوں تاکہ پاکستان کی قومی زبان میں ڈھل کر یہ کتاب آپ کے مطالعے میں آئے اور آپ اسے پڑھ کر خوش بھی ہوں اور ان کہانیوں کے اندر موجود اچھی اور دانائی اور عقل کی باتیں بھی سیکھ جائیں__ایسی باتیں جو آئندہ پوری زندگی آپ کے کام آئیں۔ سو میں نے اِنھیں آپ کے لیے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔میں نے ترجمے کی زبان آسان رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کہیں کہیں مشکل لفظ اور کلمات آگئے ہیں تو حاشیوں میں ان کے معنی بھی لکھ دیے ہیں تاکہ مفہوم کے سمجھنے میں آپ کو دِقّت نہ ہو۔
اچھا یہ تو آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ یہ مہدی آذریزدی کون ہیں؟ بھئی! یہ ایران کے بڑے لائق ادیب تھے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں۔ انھوں نے لمبی عمر پائی۔ وہ 1922ءمیں یزد کے ایک محلّے خرّمشاہ میں پیدا ہوئے اور جولائی 2009ءمیں اسی شہر میں انتقال کیا۔ ایرانی انھیں ادب اور احترام سے ”استاد مہدی آذریزدی“ کہتے تھے۔ آج سے تیرہ چودہ برس پہلے جب میں ایران کے دارالحکومت تہران میں تھا تو ان سے کبھی کبھی ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں رہتا تھا۔ میں نے اُن دنوں اُن کی کہانیوں کے دو مجموعوں کے اردو میں ترجمے کیے تھے جو ”بے زبانوں کی زبانی حکمت بھری کہانیاں“ اور ”اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں“ کے نام سے مشہور ہیں۔ امید ہے کہ یہ کہانیاں آپ کی نظر سے بھی گزری ہوں گی اور آپ کو پسند آئی ہوں گی۔ ان میں سے ایک کتاب بعد میں ”رنگیلا گیدڑ“ کے نام سے بھی شائع ہوئی۔ اور ہاں، مہدی آذریزدی مجھ سے اپنی کتابوں کے اردو میں ترجمے کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔ افسوس اب وہ اِس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی روح یقینا یہ جان کر خوش ہوگی کہ اب ان کی ایک اور کتاب ”سند باد نامہ“ کا اردو ترجمہ بھی ”سند باد کی کہانیاں“ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔
بچو! مہدی آذریزدی نے ”سند بادنامہ“ کی پینتیس کہانیوں میں سے آپ کی دلچسپی کے پیشِ نظر صرف تیرہ کہانیاں چن کر انھیں ”قصہ ہای خوب برای بچہ ہای خوب“ (اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں) کے سلسلے کی تیسری کتاب کے طور پر شائع کیا تھا۔ انھوں نے اس تیسری کتاب میں ایک اور مشہور کتاب ”قابوس نامہ“ کی گیارہ کہانیاں بھی شامل کی تھیں۔ افسوس فرصت نہ ہونے کی وجہ سے میں ان کا اردو میں ترجمہ نہیں کرسکا۔ اگر خدا نے چاہا تو آئندہ کبھی ترجمہ کرکے اسے بھی آپ کے مطالعے کے لیے شائع کردوں گا۔
مہدی آذریزدی نے ”سند باد نامہ“ کی کہانیوں کا مِن و عَن ترجمہ نہیں کیا بلکہ ان سے بعض حصّے حذف کرکے اور بعض اپنی طرف سے اضافہ کیے ہیں۔ اسی طرح اصل کہانیوں کے بعض حصوں میں کچھ کچھ تبدیلیاں بھی کردی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ تیرہ کہانیاں پہلے سے بڑھ کر دلچسپ، پُرکشش اور مفید ہوگئی ہیں اور ان میں شامل مکالمے پہلے سے زیادہ دلچسپ اور تیکھے ہوگئے ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں اور جانوروں کے کرداروں پر مبنی کہانیاں بھی ہیں۔ یوں تو یہ ساری ہی کہانیاں مطالعے کے قابل ہیں مگر ان میں سے لومڑی کی پیش گوئی، خوددار اونٹ، ہاتھی کی تربیت، آتش بازی، ذہین نابینا، فضول بندر، لومڑی کا صبر اور قاضی کا فرمان آپ کو خصوصاً پسند آئیں گی۔ مگر عزیز بچو! اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ باقی کہانیاں پڑھیں ہی نہیں۔ امید ہے آپ ساری کی ساری کہانیاں پڑھیں گے اور جب آپ یہ سب پڑھ چکیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ان کے مطالعے سے نہ صرف آپ کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے بلکہ آپ پہلے سے بڑھ کر دانا اور سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ یقین ہے کہ آپ ان کہانیوں کو یاد رکھیں گے اور کبھی کبھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی سنایا کریں گے تاکہ فکر اور خیال کی جو دودھیا مٹھاس اِن کہانیوں کے ذریعے آپ تک پہنچی، اسے آپ نے اپنے عزیزوں اور دوستوں تک پہنچانے کی کوشش بھی کی۔ اور ہاں ایک بات اور۔ اگرچہ یہ کہانیاں سیکڑوں سال پرانی ہیں مگر یہ آج بھی نئی ہیں اور آپ اور ہم سب کے لیے اُتنی ہی دلچسپ اور کارآمد ہیں جتنی یہ اپنے زمانے میں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد سچائی اور دانائی پر رکھی گئی ہے اور جس تحریر کی بنیاد سچائی اور دانائی پر ہو وہ ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے۔ ایسا ادب سچے اور دانا دوست کی طرح آپ کا ہمدرد اور رازدار بن جاتا ہے اور زندگی کی اونچ نیچ سے آپ کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ آپ سب کو توانا اور تروتازہ رکھے۔