Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
چند ہفتے ہوتے ہیں، حضرت عرفان صدیقی نے ایک غزل کہی جس کا مقطع تھا
کوئی خواب خلق خدا بھی تھا خس و خاک میں جو بکھر گیا
، “آوازہ” نے یہ غزل پڑھی اور محسوس کیا تو اسے درج ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کیا۔ ان کی تازہ غزل بھی کسی حساس دل سے اٹھنے والی ایسی ہی پکار ہے لہٰذا قند مکرر کے طور پر اس پیش لفظ کے ساتھ ان کی تازہ غزل پڑھئے اور لفط اٹھائیے”
“بہادر شاہ ظفر رنگون میں قید ہوئے تو ان کی شاعری میں وہ کیفیت پیدا ہو گئی، ادب میں جسے ماجرا کہتے ہیں، وہ ماجرا جو برصغیر کے کروڑوں لوگوں پر بیت رہا تھا لیکن زبان پر لانے کا یارا ہر کسی کو نہ تھا۔ قید میں پڑے اس مظلوم تاج دار کی غزل رنگون کے قید خانے سے نکل کر نہ جانے کیسے دلی پہنچتی اور زبان زد عام ہو جاتی۔ بہادر شاہ ظفر کے کلام کو یہ عظمت اس لیے حاصل ہوئی کہ برصغیر کے لوگ ان شعروں میں اپنا دل دھڑکتا ہوا محسوس کرتے تھے۔ نہیں معلوم، اس بات پر کیا رد عمل آئے گا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ویسی ہی تاثیر رکھنے والی ایک آواز ان دنوں بھی سنائی دے رہی ہے، یہ آواز ہے عرفان صدیقی صاحب کی۔
پروفیسر عرفان صدیقی اول استاد ہیں، اس مشغلہ نجیب نے قلم و قرطاس سے رشتے کو ایک ایسی شان دار بنیاد فراہم کی کہ جو لکھا، لوح دل پر نقش ہو گیا، یہ نقوش اہل دل کے سامنے آئے تو وہی صورت پیدا ہوئی جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ حضرت عرفان صدیقی کے نوشتوں میں یہ کیفیات اس لیے پیدا ہوئیں کہ انھوں نے اپنے درد میں غم زمانہ کو بھی شامل کردیا۔ ان کی اس غزل کو بھی دیکھئے، اردو غزل کے کلاسیکی رنگ میں مکمل طور پر رنگی ہوئی ہے، اس اعتبار سے یہ روایتی غزل ہے لیکن ان اشعار کی روح میں اتر کر دیکھیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ اشعار اپنے عہد کی آواز ہیں”۔
***
ایک ایک کام دن کا مجھے سوجھنے لگا
سورج افق کے اس طرف جب ڈوبنے لگا
کچھ حسن مستعار کا غازہ بھی دھل گیا
کچھ خلق شہر کا بھی نشہ ٹوٹنے لگا
ہر سو حکیم شہر کی بے حکمتی کا راز
جنگل کی آگ کی طرح اب پھیلنے لگا
شاید خدا بھی صاحب ذوق لطیف ہے
کیا کیا امانتیں وہ کنہیں سونپنے لگا
کچھ اس قدر تھی تشنہء سجدہ مری جبیں
ہر سنگِ خوش تراش سے سر پھوڑنے لگا
کیا راہبری کرے گا وہ راہ طویل میں
دوچار گام چل کے ہی جو ہانپنے لگا
خود سر قرار دے کے قلم کردیا گیا
جو بھی درخت پھلنے لگا پھولنے لگا
دنیا سے کٹ گئے مگر گھر کا ہر ایک فرد
اک دوسرے کو نام سے پہچاننے لگا