Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے”جو شخص کسی کا گھر برباد کرے،شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسائے اور دونوں میں پھوٹ یا جدائی ڈالے،وہ ہم(مسلمانوں )میں سے نہیں اور جو عورت شرعی عذر کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے ،جہنمی اور منافقہ ہے جس پر جنت کی خوشبو حرام کر دی گئی”۔
دنیا میں ہوئی ٹیکنالوجی کی ترقی ہماری زندگی کو آسان سے آسان تر کر رہی ہے آپسی رابطے اب چٹکی کی سی دوری پر ہیں مگر کہا جاتا ہے جہاں آسائشیں انسان کی دسترس میں آجائیں وہاں سہولت پسند انسان اس کی زیادتی سے اس سہولت سے زیادتی کر بیٹھتا ہے
اب دیکھئے ! مختلف ایپس اور ویب سائٹس سے ہم نے جہاں مشکلات کو آسانی میں بدلنا تھا اسکا بھرپور اچھا استعمال کرنا تھا وہیں معاشرے میں ہوئی خرابیوں کے پس منظر میں انہیں کے استعمال سے متعلق شکایات ہر انسان کے زبان زد عام ہے
بچوں کی کتابوں سے دوری اور گیمز اور کارٹونز پر زیادہ وقت دینے پر والدین کی شکایات اب عام سے بات بن چکی ہے انفارمیشن کے ناقابل کنٹرول بہتے دریا کے آگے اب کوئی بھی بند کارآمد نہیں رہا۔ جبکہ اس با ت کا تعین کرنے میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے آیا واٹس ایپ پر ملنے والی معلومات کی بہتات واقعی سچائی کے میزان کے سیدھے پلڑے پر سے آئی ہے یا غیر ضروری معلومات کا یہ آگ کا دریا ہمیں اپنی تپش سے ہلاک نہ کردے
تمہید کے لئے تو یہ باتیں اپنی جگہ مگر اس ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ میرے خیال سے ازدواجی تعلقات ہیں جو پورے خاندان پر اثر انداز ہوکر معاشرے کو مکمل طور پر بیمار کر رہا ہے جیسے کرونا ایک وبائی بیماری ہے جس سے ساری دنیا متاثر ہے وہیں سوشل میڈیا دوسری جانب وبائی ذہر سے کم نہیں جسکا اثر آہستہ مگر مکمل طور پر زندگیاں اجاڑ رہا ہے
رشتے ختم کرنا یا توڑ دینا یقینا بہت تکلیف دہ عمل ہے۔شاید ہم خود بھی ذمہ دار ہیں اپنی بربادی کے۔ہمارا سب سے بڑا اور خطرناک نظریہ چیزوں کی نمائش ہے خواہ وہ کپڑے ہوں جوتے ہوں تصویریں ہوں یا رشتے ہوں۔ہم نمائش اور دوغلے پن کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بس ۔۔۔ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا ۔اور ہم نے اس دوہرے معیار کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔پاکستان میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔۔آخر کیوں؟؟؟
خاوند بیوی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے بیوی خاوند کو یہاں تک کہ معصوم بچوں تک کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔1970 میں پاکستان میں طلاق کی شرح 13 فیصد تھی جس میں اب تک 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔دوشادی شدہ افراد میں قربانی دینے کے عزم میں کمی ،عدم برداشت ،دو خاندانوں میں بغاوت سماجی اسٹیٹس،حرص وہوس اور میاں بیوی کے درمیان شک پیدا ہونا بھی اک بڑی وجہ ہے۔اور دوسری طرف آئے دن سوشل میڈیا پر اپنی پرسنل لائف کو شیئر کرنا کھانا کھانے کی تصویریں اٹھنے کی، بیٹھنے کی، کپلز کی ،بچوں کی، خوشی کی، غمی کی یہاں تک کے فیملی ایشوز تک شیئر کیے جاتے۔
ایک دن شادی کے فنکشن کی نمائش دوسرے دن پریس کانفرنس انٹرویوز تیسرے دن ہنی مون کی تصویریں ویڈیوز اور چوتھے دن روایتی شوہر نے اپنا رنگ ڈھنگ دکھایا بیوی نے نے بھی حصہ ڈالا اور کچھ ہی پل میں قسمیں وعدے سب ختم منہ ماری تک نوبت آئی اور پھر طلاق کروا کے دم لیا ۔ بات ختم کہانی ختم۔بس اتنی سی مدت تھی ۔؟؟؟کیا تمہیں اک دوسرے کا لباس قرار نہیں دیا تھا ؟؟؟کیا نکاح جیسے خوبصورت بندھن کا یہی اختتام تھا؟؟ہمارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا”اے ایمان نوجوانو تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کر لینا چاہئیے “۔
اور یہاں نکاح کے بعد شادی کے بعد یہاں تک کے بچوں کی پیدائش کے بھی بعد لوگ کہتے ہیں ہم ایک دوسرے کیلے بہتر نہ تھے۔۔۔ہمیں کوئی اور پسند ہے جو زیادہ بہتر ہے۔جب ذمہ داری اٹھانے کی رشتہ نبھانے کی طاقت نہ تھی؟ تو ظلم کیوں کیا؟؟کیوں رسوا کیا ؟؟
یہ وہ شکایات ہیں جو آج ہر زبان زد عام ہیں، مختلف ٹرینرز اس پر سیمینارز منعقد کر رہے ہیں اور ایکسپرٹس کے آرٹیکلز اپنی آراء سے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں مگر بہت ضروری ہے اس معاملے پر ہر عام و خاص بات کرے
آیا کہ یہ وبائی مرض نہیں کہ جس کے لئے حکومتی سطح پر ہونے والی پیش رفت نظرآئے مگر منظر نامہ بتاتا ہے معاشرے میں موجود سوشل ایشوز کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا تعین کرتے ہیں
جس کی مثال یورپی ممالک میں نوجوان نسل کی سوشل میڈیا سے ہوئی تباہ کاریوں کے پیش نظر بڑی تعداد میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونا ہمیں اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے پر زور دیتا ہے کہ وہ وقت جب ہماری نوجوان نسل اس کے اچھے اور بری استعمال کو سمجھ لے اور اس سے لاحق مسائل کو قبل از وقت تعین سے ہم ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ لے سکیں گے
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے”جو شخص کسی کا گھر برباد کرے،شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسائے اور دونوں میں پھوٹ یا جدائی ڈالے،وہ ہم(مسلمانوں )میں سے نہیں اور جو عورت شرعی عذر کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے ،جہنمی اور منافقہ ہے جس پر جنت کی خوشبو حرام کر دی گئی”۔
دنیا میں ہوئی ٹیکنالوجی کی ترقی ہماری زندگی کو آسان سے آسان تر کر رہی ہے آپسی رابطے اب چٹکی کی سی دوری پر ہیں مگر کہا جاتا ہے جہاں آسائشیں انسان کی دسترس میں آجائیں وہاں سہولت پسند انسان اس کی زیادتی سے اس سہولت سے زیادتی کر بیٹھتا ہے
اب دیکھئے ! مختلف ایپس اور ویب سائٹس سے ہم نے جہاں مشکلات کو آسانی میں بدلنا تھا اسکا بھرپور اچھا استعمال کرنا تھا وہیں معاشرے میں ہوئی خرابیوں کے پس منظر میں انہیں کے استعمال سے متعلق شکایات ہر انسان کے زبان زد عام ہے
بچوں کی کتابوں سے دوری اور گیمز اور کارٹونز پر زیادہ وقت دینے پر والدین کی شکایات اب عام سے بات بن چکی ہے انفارمیشن کے ناقابل کنٹرول بہتے دریا کے آگے اب کوئی بھی بند کارآمد نہیں رہا۔ جبکہ اس با ت کا تعین کرنے میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے آیا واٹس ایپ پر ملنے والی معلومات کی بہتات واقعی سچائی کے میزان کے سیدھے پلڑے پر سے آئی ہے یا غیر ضروری معلومات کا یہ آگ کا دریا ہمیں اپنی تپش سے ہلاک نہ کردے
تمہید کے لئے تو یہ باتیں اپنی جگہ مگر اس ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ میرے خیال سے ازدواجی تعلقات ہیں جو پورے خاندان پر اثر انداز ہوکر معاشرے کو مکمل طور پر بیمار کر رہا ہے جیسے کرونا ایک وبائی بیماری ہے جس سے ساری دنیا متاثر ہے وہیں سوشل میڈیا دوسری جانب وبائی ذہر سے کم نہیں جسکا اثر آہستہ مگر مکمل طور پر زندگیاں اجاڑ رہا ہے
رشتے ختم کرنا یا توڑ دینا یقینا بہت تکلیف دہ عمل ہے۔شاید ہم خود بھی ذمہ دار ہیں اپنی بربادی کے۔ہمارا سب سے بڑا اور خطرناک نظریہ چیزوں کی نمائش ہے خواہ وہ کپڑے ہوں جوتے ہوں تصویریں ہوں یا رشتے ہوں۔ہم نمائش اور دوغلے پن کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بس ۔۔۔ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا ۔اور ہم نے اس دوہرے معیار کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔پاکستان میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔۔آخر کیوں؟؟؟
خاوند بیوی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے بیوی خاوند کو یہاں تک کہ معصوم بچوں تک کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔1970 میں پاکستان میں طلاق کی شرح 13 فیصد تھی جس میں اب تک 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔دوشادی شدہ افراد میں قربانی دینے کے عزم میں کمی ،عدم برداشت ،دو خاندانوں میں بغاوت سماجی اسٹیٹس،حرص وہوس اور میاں بیوی کے درمیان شک پیدا ہونا بھی اک بڑی وجہ ہے۔اور دوسری طرف آئے دن سوشل میڈیا پر اپنی پرسنل لائف کو شیئر کرنا کھانا کھانے کی تصویریں اٹھنے کی، بیٹھنے کی، کپلز کی ،بچوں کی، خوشی کی، غمی کی یہاں تک کے فیملی ایشوز تک شیئر کیے جاتے۔
ایک دن شادی کے فنکشن کی نمائش دوسرے دن پریس کانفرنس انٹرویوز تیسرے دن ہنی مون کی تصویریں ویڈیوز اور چوتھے دن روایتی شوہر نے اپنا رنگ ڈھنگ دکھایا بیوی نے نے بھی حصہ ڈالا اور کچھ ہی پل میں قسمیں وعدے سب ختم منہ ماری تک نوبت آئی اور پھر طلاق کروا کے دم لیا ۔ بات ختم کہانی ختم۔بس اتنی سی مدت تھی ۔؟؟؟کیا تمہیں اک دوسرے کا لباس قرار نہیں دیا تھا ؟؟؟کیا نکاح جیسے خوبصورت بندھن کا یہی اختتام تھا؟؟ہمارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا”اے ایمان نوجوانو تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کر لینا چاہئیے “۔
اور یہاں نکاح کے بعد شادی کے بعد یہاں تک کے بچوں کی پیدائش کے بھی بعد لوگ کہتے ہیں ہم ایک دوسرے کیلے بہتر نہ تھے۔۔۔ہمیں کوئی اور پسند ہے جو زیادہ بہتر ہے۔جب ذمہ داری اٹھانے کی رشتہ نبھانے کی طاقت نہ تھی؟ تو ظلم کیوں کیا؟؟کیوں رسوا کیا ؟؟
یہ وہ شکایات ہیں جو آج ہر زبان زد عام ہیں، مختلف ٹرینرز اس پر سیمینارز منعقد کر رہے ہیں اور ایکسپرٹس کے آرٹیکلز اپنی آراء سے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں مگر بہت ضروری ہے اس معاملے پر ہر عام و خاص بات کرے
آیا کہ یہ وبائی مرض نہیں کہ جس کے لئے حکومتی سطح پر ہونے والی پیش رفت نظرآئے مگر منظر نامہ بتاتا ہے معاشرے میں موجود سوشل ایشوز کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا تعین کرتے ہیں
جس کی مثال یورپی ممالک میں نوجوان نسل کی سوشل میڈیا سے ہوئی تباہ کاریوں کے پیش نظر بڑی تعداد میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونا ہمیں اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے پر زور دیتا ہے کہ وہ وقت جب ہماری نوجوان نسل اس کے اچھے اور بری استعمال کو سمجھ لے اور اس سے لاحق مسائل کو قبل از وقت تعین سے ہم ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ لے سکیں گے
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے”جو شخص کسی کا گھر برباد کرے،شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسائے اور دونوں میں پھوٹ یا جدائی ڈالے،وہ ہم(مسلمانوں )میں سے نہیں اور جو عورت شرعی عذر کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے ،جہنمی اور منافقہ ہے جس پر جنت کی خوشبو حرام کر دی گئی”۔
دنیا میں ہوئی ٹیکنالوجی کی ترقی ہماری زندگی کو آسان سے آسان تر کر رہی ہے آپسی رابطے اب چٹکی کی سی دوری پر ہیں مگر کہا جاتا ہے جہاں آسائشیں انسان کی دسترس میں آجائیں وہاں سہولت پسند انسان اس کی زیادتی سے اس سہولت سے زیادتی کر بیٹھتا ہے
اب دیکھئے ! مختلف ایپس اور ویب سائٹس سے ہم نے جہاں مشکلات کو آسانی میں بدلنا تھا اسکا بھرپور اچھا استعمال کرنا تھا وہیں معاشرے میں ہوئی خرابیوں کے پس منظر میں انہیں کے استعمال سے متعلق شکایات ہر انسان کے زبان زد عام ہے
بچوں کی کتابوں سے دوری اور گیمز اور کارٹونز پر زیادہ وقت دینے پر والدین کی شکایات اب عام سے بات بن چکی ہے انفارمیشن کے ناقابل کنٹرول بہتے دریا کے آگے اب کوئی بھی بند کارآمد نہیں رہا۔ جبکہ اس با ت کا تعین کرنے میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے آیا واٹس ایپ پر ملنے والی معلومات کی بہتات واقعی سچائی کے میزان کے سیدھے پلڑے پر سے آئی ہے یا غیر ضروری معلومات کا یہ آگ کا دریا ہمیں اپنی تپش سے ہلاک نہ کردے
تمہید کے لئے تو یہ باتیں اپنی جگہ مگر اس ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ میرے خیال سے ازدواجی تعلقات ہیں جو پورے خاندان پر اثر انداز ہوکر معاشرے کو مکمل طور پر بیمار کر رہا ہے جیسے کرونا ایک وبائی بیماری ہے جس سے ساری دنیا متاثر ہے وہیں سوشل میڈیا دوسری جانب وبائی ذہر سے کم نہیں جسکا اثر آہستہ مگر مکمل طور پر زندگیاں اجاڑ رہا ہے
رشتے ختم کرنا یا توڑ دینا یقینا بہت تکلیف دہ عمل ہے۔شاید ہم خود بھی ذمہ دار ہیں اپنی بربادی کے۔ہمارا سب سے بڑا اور خطرناک نظریہ چیزوں کی نمائش ہے خواہ وہ کپڑے ہوں جوتے ہوں تصویریں ہوں یا رشتے ہوں۔ہم نمائش اور دوغلے پن کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بس ۔۔۔ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا ۔اور ہم نے اس دوہرے معیار کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔پاکستان میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔۔آخر کیوں؟؟؟
خاوند بیوی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے بیوی خاوند کو یہاں تک کہ معصوم بچوں تک کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔1970 میں پاکستان میں طلاق کی شرح 13 فیصد تھی جس میں اب تک 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔دوشادی شدہ افراد میں قربانی دینے کے عزم میں کمی ،عدم برداشت ،دو خاندانوں میں بغاوت سماجی اسٹیٹس،حرص وہوس اور میاں بیوی کے درمیان شک پیدا ہونا بھی اک بڑی وجہ ہے۔اور دوسری طرف آئے دن سوشل میڈیا پر اپنی پرسنل لائف کو شیئر کرنا کھانا کھانے کی تصویریں اٹھنے کی، بیٹھنے کی، کپلز کی ،بچوں کی، خوشی کی، غمی کی یہاں تک کے فیملی ایشوز تک شیئر کیے جاتے۔
ایک دن شادی کے فنکشن کی نمائش دوسرے دن پریس کانفرنس انٹرویوز تیسرے دن ہنی مون کی تصویریں ویڈیوز اور چوتھے دن روایتی شوہر نے اپنا رنگ ڈھنگ دکھایا بیوی نے نے بھی حصہ ڈالا اور کچھ ہی پل میں قسمیں وعدے سب ختم منہ ماری تک نوبت آئی اور پھر طلاق کروا کے دم لیا ۔ بات ختم کہانی ختم۔بس اتنی سی مدت تھی ۔؟؟؟کیا تمہیں اک دوسرے کا لباس قرار نہیں دیا تھا ؟؟؟کیا نکاح جیسے خوبصورت بندھن کا یہی اختتام تھا؟؟ہمارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا”اے ایمان نوجوانو تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کر لینا چاہئیے “۔
اور یہاں نکاح کے بعد شادی کے بعد یہاں تک کے بچوں کی پیدائش کے بھی بعد لوگ کہتے ہیں ہم ایک دوسرے کیلے بہتر نہ تھے۔۔۔ہمیں کوئی اور پسند ہے جو زیادہ بہتر ہے۔جب ذمہ داری اٹھانے کی رشتہ نبھانے کی طاقت نہ تھی؟ تو ظلم کیوں کیا؟؟کیوں رسوا کیا ؟؟
یہ وہ شکایات ہیں جو آج ہر زبان زد عام ہیں، مختلف ٹرینرز اس پر سیمینارز منعقد کر رہے ہیں اور ایکسپرٹس کے آرٹیکلز اپنی آراء سے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں مگر بہت ضروری ہے اس معاملے پر ہر عام و خاص بات کرے
آیا کہ یہ وبائی مرض نہیں کہ جس کے لئے حکومتی سطح پر ہونے والی پیش رفت نظرآئے مگر منظر نامہ بتاتا ہے معاشرے میں موجود سوشل ایشوز کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا تعین کرتے ہیں
جس کی مثال یورپی ممالک میں نوجوان نسل کی سوشل میڈیا سے ہوئی تباہ کاریوں کے پیش نظر بڑی تعداد میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونا ہمیں اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے پر زور دیتا ہے کہ وہ وقت جب ہماری نوجوان نسل اس کے اچھے اور بری استعمال کو سمجھ لے اور اس سے لاحق مسائل کو قبل از وقت تعین سے ہم ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ لے سکیں گے
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے”جو شخص کسی کا گھر برباد کرے،شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسائے اور دونوں میں پھوٹ یا جدائی ڈالے،وہ ہم(مسلمانوں )میں سے نہیں اور جو عورت شرعی عذر کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے ،جہنمی اور منافقہ ہے جس پر جنت کی خوشبو حرام کر دی گئی”۔
دنیا میں ہوئی ٹیکنالوجی کی ترقی ہماری زندگی کو آسان سے آسان تر کر رہی ہے آپسی رابطے اب چٹکی کی سی دوری پر ہیں مگر کہا جاتا ہے جہاں آسائشیں انسان کی دسترس میں آجائیں وہاں سہولت پسند انسان اس کی زیادتی سے اس سہولت سے زیادتی کر بیٹھتا ہے
اب دیکھئے ! مختلف ایپس اور ویب سائٹس سے ہم نے جہاں مشکلات کو آسانی میں بدلنا تھا اسکا بھرپور اچھا استعمال کرنا تھا وہیں معاشرے میں ہوئی خرابیوں کے پس منظر میں انہیں کے استعمال سے متعلق شکایات ہر انسان کے زبان زد عام ہے
بچوں کی کتابوں سے دوری اور گیمز اور کارٹونز پر زیادہ وقت دینے پر والدین کی شکایات اب عام سے بات بن چکی ہے انفارمیشن کے ناقابل کنٹرول بہتے دریا کے آگے اب کوئی بھی بند کارآمد نہیں رہا۔ جبکہ اس با ت کا تعین کرنے میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے آیا واٹس ایپ پر ملنے والی معلومات کی بہتات واقعی سچائی کے میزان کے سیدھے پلڑے پر سے آئی ہے یا غیر ضروری معلومات کا یہ آگ کا دریا ہمیں اپنی تپش سے ہلاک نہ کردے
تمہید کے لئے تو یہ باتیں اپنی جگہ مگر اس ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ میرے خیال سے ازدواجی تعلقات ہیں جو پورے خاندان پر اثر انداز ہوکر معاشرے کو مکمل طور پر بیمار کر رہا ہے جیسے کرونا ایک وبائی بیماری ہے جس سے ساری دنیا متاثر ہے وہیں سوشل میڈیا دوسری جانب وبائی ذہر سے کم نہیں جسکا اثر آہستہ مگر مکمل طور پر زندگیاں اجاڑ رہا ہے
رشتے ختم کرنا یا توڑ دینا یقینا بہت تکلیف دہ عمل ہے۔شاید ہم خود بھی ذمہ دار ہیں اپنی بربادی کے۔ہمارا سب سے بڑا اور خطرناک نظریہ چیزوں کی نمائش ہے خواہ وہ کپڑے ہوں جوتے ہوں تصویریں ہوں یا رشتے ہوں۔ہم نمائش اور دوغلے پن کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بس ۔۔۔ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا ۔اور ہم نے اس دوہرے معیار کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔پاکستان میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔۔آخر کیوں؟؟؟
خاوند بیوی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے بیوی خاوند کو یہاں تک کہ معصوم بچوں تک کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔1970 میں پاکستان میں طلاق کی شرح 13 فیصد تھی جس میں اب تک 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔دوشادی شدہ افراد میں قربانی دینے کے عزم میں کمی ،عدم برداشت ،دو خاندانوں میں بغاوت سماجی اسٹیٹس،حرص وہوس اور میاں بیوی کے درمیان شک پیدا ہونا بھی اک بڑی وجہ ہے۔اور دوسری طرف آئے دن سوشل میڈیا پر اپنی پرسنل لائف کو شیئر کرنا کھانا کھانے کی تصویریں اٹھنے کی، بیٹھنے کی، کپلز کی ،بچوں کی، خوشی کی، غمی کی یہاں تک کے فیملی ایشوز تک شیئر کیے جاتے۔
ایک دن شادی کے فنکشن کی نمائش دوسرے دن پریس کانفرنس انٹرویوز تیسرے دن ہنی مون کی تصویریں ویڈیوز اور چوتھے دن روایتی شوہر نے اپنا رنگ ڈھنگ دکھایا بیوی نے نے بھی حصہ ڈالا اور کچھ ہی پل میں قسمیں وعدے سب ختم منہ ماری تک نوبت آئی اور پھر طلاق کروا کے دم لیا ۔ بات ختم کہانی ختم۔بس اتنی سی مدت تھی ۔؟؟؟کیا تمہیں اک دوسرے کا لباس قرار نہیں دیا تھا ؟؟؟کیا نکاح جیسے خوبصورت بندھن کا یہی اختتام تھا؟؟ہمارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا”اے ایمان نوجوانو تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کر لینا چاہئیے “۔
اور یہاں نکاح کے بعد شادی کے بعد یہاں تک کے بچوں کی پیدائش کے بھی بعد لوگ کہتے ہیں ہم ایک دوسرے کیلے بہتر نہ تھے۔۔۔ہمیں کوئی اور پسند ہے جو زیادہ بہتر ہے۔جب ذمہ داری اٹھانے کی رشتہ نبھانے کی طاقت نہ تھی؟ تو ظلم کیوں کیا؟؟کیوں رسوا کیا ؟؟
یہ وہ شکایات ہیں جو آج ہر زبان زد عام ہیں، مختلف ٹرینرز اس پر سیمینارز منعقد کر رہے ہیں اور ایکسپرٹس کے آرٹیکلز اپنی آراء سے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں مگر بہت ضروری ہے اس معاملے پر ہر عام و خاص بات کرے
آیا کہ یہ وبائی مرض نہیں کہ جس کے لئے حکومتی سطح پر ہونے والی پیش رفت نظرآئے مگر منظر نامہ بتاتا ہے معاشرے میں موجود سوشل ایشوز کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا تعین کرتے ہیں
جس کی مثال یورپی ممالک میں نوجوان نسل کی سوشل میڈیا سے ہوئی تباہ کاریوں کے پیش نظر بڑی تعداد میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونا ہمیں اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے پر زور دیتا ہے کہ وہ وقت جب ہماری نوجوان نسل اس کے اچھے اور بری استعمال کو سمجھ لے اور اس سے لاحق مسائل کو قبل از وقت تعین سے ہم ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ لے سکیں گے