Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
دھان پان سے پتلے دبلے اختر شیرانی ، عمر شریف کی ٹیم کے اہم رکن ، جو اسٹیج پر آتے تو اوٹ پٹانگ حرکتوں کی وجہ سے تماشائیوں کے چہروں پر مسکراہٹوں کی بہار لے آتے۔ کوئی انہیں’ ربڑ کا آدمی ‘ کہتا کیونکہ بدن میں غیر معمولی لچک ہوتی، جو اسٹیج پر آنے کے بعد کسی فٹ بال کی طرح اچھل کود کرنے کے ساتھ ساتھ بے ساختہ جملوں کی ادائیگی بھی کما ل مہارت سے کرتے ۔اختر شیرانی کا اسٹیج سے ناطہ کوئی انچاس برس پر مبنی رہا۔ انیس سو اکہتر میںجب کراچی میںاسٹیج پروگراموں کا عروج تھا ۔ اختر شیرانی مختلف ورائٹی پروگراموں میں شرکت کرتے اور بھارتی اور پاکستانی گیت گا کر مہمانوں کے بوجھل لمحات کو خوشگوار بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ گلوکاروں سے زیادہ اداکاروں کو پذیرائی ملتی ہے ۔ اسٹیج پر آنے کے بعد اداکاروں کا استقبال فلک شگاف تالیوں سے کیا جاتا ۔ اور ایسی ہی ’ انٹری ‘ کی آرزو اختر شیرانی کی تھی ۔اسی بنا پر انہوں نے گلوکاری چھوڑ کرتھیٹر اداکار بننے کی خواہش اسٹیج اداکار نذر حسین پر ظاہر کی تو انہوں نے اختر شیرانی کو مایوس نہیں کیا ۔ بلکہ ان کی ہر سطح پر رہنمائی کی ۔ انہیں اسٹیج اداکاری کے بنیادی گُر اور باریکیاں سکھائیں ۔ نذر حسین کی کوششوں سے ہی اختر شیرانی کو پہلا اسٹیج ڈراما ’ پردے کے پیچھے ‘ میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ جس میں انہوں نے نوکر کا کردار ادا کیا ۔ طنز و مزاح اوربے ساختہ اداکاری کی بنا پر یہ کردار خاصا مقبول ہوا ۔ اس ڈرامے کے بعد تو جیسے اختر شیرانی نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ کراچی کے فلیٹ کلب میں ہونے والے اسٹیج ڈراموں کی وہ جان سمجھے جانے لگے ۔
اختر شیرانی کی شہرت کا اصل سفر تو اس وقت شروع ہو اجب انہیں عمرشریف کا ساتھ ملا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیج ہدایتکار فرقان حیدر ، ’ بکرا قسطوں پے ‘ کی تیاری کررہے تھے اور اسی دوران انہوں نے اختر شیرانی کا تماشائی بن کر نظارہ کیا تو انہیں اپنے ڈرامے میں موقع دینے کا سوچ لیا ۔ ’ بکرا قسطوں پے ‘ میں ’ مرزا ‘ کا کردار ، اختر شیرانی نے ایسا جم کر کیا کہ بعد میں یہی کردار ان کی پہچان بن گیا ۔ اور پھر وہ عمر شریف کے ہر ڈرامے کا حصہ سمجھے جانے لگے ۔ جن کے ساتھ انہوں نے ہم سا ہو تو سامنے آئے ، بڈھا گھر پے ہے ، ماموں مذاق نہ کرو ، ون ڈے عید میچ ، یہ ہے نیا تماشا ، آو سچ بولیںجیسے ڈراموں میں مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے ۔یہاں تک کہ جب عمر شریف لاہور میں اپنی پوری ٹیم کو لے کر اسٹیج شوز کرتے تو اختر شیرانی بھی اس میں شامل رہے ۔ نجی زندگی میں ’ مرزا ‘ کے نام سے پکارے جانے والے اختر شیرانی نے کوئی ہزار کے قریب اسٹیج ڈراموں کے علاوہ ٹی وی اور فلم میں بھی کام کیا ۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ہونے والے مختلف ثقافتی پروگراموں میں شرکت کرنے کا اعزاز بھی ان کے پاس رہا ۔
ایسے وقت میںجب شکیل صدیقی ، امان اللہ ، رو ف لالہ سمیت کئی پاکستانی اسٹیج فنکار ، بھارت کے مختلف رائلٹی شوز میں اپنا نام کما رہے تھے ، اختر شیرانی کو کالج میں ملازمت کی بنا پر ان میں شرکت کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنا کام کرچکے ہیں کہ اب ایسے شوز میں شامل نہ بھی ہوسکیں تو کوئی افسوس نہیں۔ اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ معین اختر اور شہزاد رضاکی طرح وہ بھی سنئیر فنکار ہیں لیکن اس بات کا احساس اور قدر کوئی نہیں کرتا ، ممکن ہے کہ وہ یہ سب اس لیے بھی کہتے ہو کیونکہ اسٹیج ڈراموں میں عمر شریف کے ہاتھوں ان کو سب سے زیادہ مار کھانی پڑتی تھی لیکن تماشائیوں کی تالیاں بھی خوب بجتیں ۔
کراچی جہاں عمر شریف کی علالت کے باعث تھیٹر اور اسٹیج سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں ۔ اس تناظر میں اختر شیرانی کو مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ، بالخصوص مسلسل تین مہینے سے جاری لاک ڈاو ن کی بندش نے اسٹیج فنکاروں سے بھی روزگار چھین لیا ہے ۔ ایسے میں ہنستے مسکراتے اختر شیرانی ، گزشتہ کئی روز سے سانس کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ کورونا وائرس کے خطر ے کے پیش نظر خود کو گھر میں ہی قرنطینہ میں رکھے ہوئے تھے لیکن پیر کی شب جب سانس لینے میں دشواری ہوئی تو اہل خانہ اسپتال لے کر بھاگے لیکن کہیں بھی کوئی بیڈ خالی نہ ملا اوریوں دوسروں کی زندگیوں میں خوشیوں اور مسکراٹوں کے رنگ بھرنے والا یہ متوالا فن کار ، زندگی سے منہ موڑ گیا ۔اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ انسان زندگی میں دو بار مرتا ہے ، ایک بار تب جب وہ لوگوں سے پیار کرنا چھوڑ دیتا ہے اور دوسری مرتبہ اس وقت جب لوگ ‘ اُسے پیار کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔
دھان پان سے پتلے دبلے اختر شیرانی ، عمر شریف کی ٹیم کے اہم رکن ، جو اسٹیج پر آتے تو اوٹ پٹانگ حرکتوں کی وجہ سے تماشائیوں کے چہروں پر مسکراہٹوں کی بہار لے آتے۔ کوئی انہیں’ ربڑ کا آدمی ‘ کہتا کیونکہ بدن میں غیر معمولی لچک ہوتی، جو اسٹیج پر آنے کے بعد کسی فٹ بال کی طرح اچھل کود کرنے کے ساتھ ساتھ بے ساختہ جملوں کی ادائیگی بھی کما ل مہارت سے کرتے ۔اختر شیرانی کا اسٹیج سے ناطہ کوئی انچاس برس پر مبنی رہا۔ انیس سو اکہتر میںجب کراچی میںاسٹیج پروگراموں کا عروج تھا ۔ اختر شیرانی مختلف ورائٹی پروگراموں میں شرکت کرتے اور بھارتی اور پاکستانی گیت گا کر مہمانوں کے بوجھل لمحات کو خوشگوار بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ گلوکاروں سے زیادہ اداکاروں کو پذیرائی ملتی ہے ۔ اسٹیج پر آنے کے بعد اداکاروں کا استقبال فلک شگاف تالیوں سے کیا جاتا ۔ اور ایسی ہی ’ انٹری ‘ کی آرزو اختر شیرانی کی تھی ۔اسی بنا پر انہوں نے گلوکاری چھوڑ کرتھیٹر اداکار بننے کی خواہش اسٹیج اداکار نذر حسین پر ظاہر کی تو انہوں نے اختر شیرانی کو مایوس نہیں کیا ۔ بلکہ ان کی ہر سطح پر رہنمائی کی ۔ انہیں اسٹیج اداکاری کے بنیادی گُر اور باریکیاں سکھائیں ۔ نذر حسین کی کوششوں سے ہی اختر شیرانی کو پہلا اسٹیج ڈراما ’ پردے کے پیچھے ‘ میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ جس میں انہوں نے نوکر کا کردار ادا کیا ۔ طنز و مزاح اوربے ساختہ اداکاری کی بنا پر یہ کردار خاصا مقبول ہوا ۔ اس ڈرامے کے بعد تو جیسے اختر شیرانی نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ کراچی کے فلیٹ کلب میں ہونے والے اسٹیج ڈراموں کی وہ جان سمجھے جانے لگے ۔
اختر شیرانی کی شہرت کا اصل سفر تو اس وقت شروع ہو اجب انہیں عمرشریف کا ساتھ ملا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیج ہدایتکار فرقان حیدر ، ’ بکرا قسطوں پے ‘ کی تیاری کررہے تھے اور اسی دوران انہوں نے اختر شیرانی کا تماشائی بن کر نظارہ کیا تو انہیں اپنے ڈرامے میں موقع دینے کا سوچ لیا ۔ ’ بکرا قسطوں پے ‘ میں ’ مرزا ‘ کا کردار ، اختر شیرانی نے ایسا جم کر کیا کہ بعد میں یہی کردار ان کی پہچان بن گیا ۔ اور پھر وہ عمر شریف کے ہر ڈرامے کا حصہ سمجھے جانے لگے ۔ جن کے ساتھ انہوں نے ہم سا ہو تو سامنے آئے ، بڈھا گھر پے ہے ، ماموں مذاق نہ کرو ، ون ڈے عید میچ ، یہ ہے نیا تماشا ، آو سچ بولیںجیسے ڈراموں میں مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے ۔یہاں تک کہ جب عمر شریف لاہور میں اپنی پوری ٹیم کو لے کر اسٹیج شوز کرتے تو اختر شیرانی بھی اس میں شامل رہے ۔ نجی زندگی میں ’ مرزا ‘ کے نام سے پکارے جانے والے اختر شیرانی نے کوئی ہزار کے قریب اسٹیج ڈراموں کے علاوہ ٹی وی اور فلم میں بھی کام کیا ۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ہونے والے مختلف ثقافتی پروگراموں میں شرکت کرنے کا اعزاز بھی ان کے پاس رہا ۔
ایسے وقت میںجب شکیل صدیقی ، امان اللہ ، رو ف لالہ سمیت کئی پاکستانی اسٹیج فنکار ، بھارت کے مختلف رائلٹی شوز میں اپنا نام کما رہے تھے ، اختر شیرانی کو کالج میں ملازمت کی بنا پر ان میں شرکت کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنا کام کرچکے ہیں کہ اب ایسے شوز میں شامل نہ بھی ہوسکیں تو کوئی افسوس نہیں۔ اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ معین اختر اور شہزاد رضاکی طرح وہ بھی سنئیر فنکار ہیں لیکن اس بات کا احساس اور قدر کوئی نہیں کرتا ، ممکن ہے کہ وہ یہ سب اس لیے بھی کہتے ہو کیونکہ اسٹیج ڈراموں میں عمر شریف کے ہاتھوں ان کو سب سے زیادہ مار کھانی پڑتی تھی لیکن تماشائیوں کی تالیاں بھی خوب بجتیں ۔
کراچی جہاں عمر شریف کی علالت کے باعث تھیٹر اور اسٹیج سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں ۔ اس تناظر میں اختر شیرانی کو مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ، بالخصوص مسلسل تین مہینے سے جاری لاک ڈاو ن کی بندش نے اسٹیج فنکاروں سے بھی روزگار چھین لیا ہے ۔ ایسے میں ہنستے مسکراتے اختر شیرانی ، گزشتہ کئی روز سے سانس کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ کورونا وائرس کے خطر ے کے پیش نظر خود کو گھر میں ہی قرنطینہ میں رکھے ہوئے تھے لیکن پیر کی شب جب سانس لینے میں دشواری ہوئی تو اہل خانہ اسپتال لے کر بھاگے لیکن کہیں بھی کوئی بیڈ خالی نہ ملا اوریوں دوسروں کی زندگیوں میں خوشیوں اور مسکراٹوں کے رنگ بھرنے والا یہ متوالا فن کار ، زندگی سے منہ موڑ گیا ۔اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ انسان زندگی میں دو بار مرتا ہے ، ایک بار تب جب وہ لوگوں سے پیار کرنا چھوڑ دیتا ہے اور دوسری مرتبہ اس وقت جب لوگ ‘ اُسے پیار کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔
دھان پان سے پتلے دبلے اختر شیرانی ، عمر شریف کی ٹیم کے اہم رکن ، جو اسٹیج پر آتے تو اوٹ پٹانگ حرکتوں کی وجہ سے تماشائیوں کے چہروں پر مسکراہٹوں کی بہار لے آتے۔ کوئی انہیں’ ربڑ کا آدمی ‘ کہتا کیونکہ بدن میں غیر معمولی لچک ہوتی، جو اسٹیج پر آنے کے بعد کسی فٹ بال کی طرح اچھل کود کرنے کے ساتھ ساتھ بے ساختہ جملوں کی ادائیگی بھی کما ل مہارت سے کرتے ۔اختر شیرانی کا اسٹیج سے ناطہ کوئی انچاس برس پر مبنی رہا۔ انیس سو اکہتر میںجب کراچی میںاسٹیج پروگراموں کا عروج تھا ۔ اختر شیرانی مختلف ورائٹی پروگراموں میں شرکت کرتے اور بھارتی اور پاکستانی گیت گا کر مہمانوں کے بوجھل لمحات کو خوشگوار بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ گلوکاروں سے زیادہ اداکاروں کو پذیرائی ملتی ہے ۔ اسٹیج پر آنے کے بعد اداکاروں کا استقبال فلک شگاف تالیوں سے کیا جاتا ۔ اور ایسی ہی ’ انٹری ‘ کی آرزو اختر شیرانی کی تھی ۔اسی بنا پر انہوں نے گلوکاری چھوڑ کرتھیٹر اداکار بننے کی خواہش اسٹیج اداکار نذر حسین پر ظاہر کی تو انہوں نے اختر شیرانی کو مایوس نہیں کیا ۔ بلکہ ان کی ہر سطح پر رہنمائی کی ۔ انہیں اسٹیج اداکاری کے بنیادی گُر اور باریکیاں سکھائیں ۔ نذر حسین کی کوششوں سے ہی اختر شیرانی کو پہلا اسٹیج ڈراما ’ پردے کے پیچھے ‘ میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ جس میں انہوں نے نوکر کا کردار ادا کیا ۔ طنز و مزاح اوربے ساختہ اداکاری کی بنا پر یہ کردار خاصا مقبول ہوا ۔ اس ڈرامے کے بعد تو جیسے اختر شیرانی نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ کراچی کے فلیٹ کلب میں ہونے والے اسٹیج ڈراموں کی وہ جان سمجھے جانے لگے ۔
اختر شیرانی کی شہرت کا اصل سفر تو اس وقت شروع ہو اجب انہیں عمرشریف کا ساتھ ملا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیج ہدایتکار فرقان حیدر ، ’ بکرا قسطوں پے ‘ کی تیاری کررہے تھے اور اسی دوران انہوں نے اختر شیرانی کا تماشائی بن کر نظارہ کیا تو انہیں اپنے ڈرامے میں موقع دینے کا سوچ لیا ۔ ’ بکرا قسطوں پے ‘ میں ’ مرزا ‘ کا کردار ، اختر شیرانی نے ایسا جم کر کیا کہ بعد میں یہی کردار ان کی پہچان بن گیا ۔ اور پھر وہ عمر شریف کے ہر ڈرامے کا حصہ سمجھے جانے لگے ۔ جن کے ساتھ انہوں نے ہم سا ہو تو سامنے آئے ، بڈھا گھر پے ہے ، ماموں مذاق نہ کرو ، ون ڈے عید میچ ، یہ ہے نیا تماشا ، آو سچ بولیںجیسے ڈراموں میں مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے ۔یہاں تک کہ جب عمر شریف لاہور میں اپنی پوری ٹیم کو لے کر اسٹیج شوز کرتے تو اختر شیرانی بھی اس میں شامل رہے ۔ نجی زندگی میں ’ مرزا ‘ کے نام سے پکارے جانے والے اختر شیرانی نے کوئی ہزار کے قریب اسٹیج ڈراموں کے علاوہ ٹی وی اور فلم میں بھی کام کیا ۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ہونے والے مختلف ثقافتی پروگراموں میں شرکت کرنے کا اعزاز بھی ان کے پاس رہا ۔
ایسے وقت میںجب شکیل صدیقی ، امان اللہ ، رو ف لالہ سمیت کئی پاکستانی اسٹیج فنکار ، بھارت کے مختلف رائلٹی شوز میں اپنا نام کما رہے تھے ، اختر شیرانی کو کالج میں ملازمت کی بنا پر ان میں شرکت کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنا کام کرچکے ہیں کہ اب ایسے شوز میں شامل نہ بھی ہوسکیں تو کوئی افسوس نہیں۔ اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ معین اختر اور شہزاد رضاکی طرح وہ بھی سنئیر فنکار ہیں لیکن اس بات کا احساس اور قدر کوئی نہیں کرتا ، ممکن ہے کہ وہ یہ سب اس لیے بھی کہتے ہو کیونکہ اسٹیج ڈراموں میں عمر شریف کے ہاتھوں ان کو سب سے زیادہ مار کھانی پڑتی تھی لیکن تماشائیوں کی تالیاں بھی خوب بجتیں ۔
کراچی جہاں عمر شریف کی علالت کے باعث تھیٹر اور اسٹیج سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں ۔ اس تناظر میں اختر شیرانی کو مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ، بالخصوص مسلسل تین مہینے سے جاری لاک ڈاو ن کی بندش نے اسٹیج فنکاروں سے بھی روزگار چھین لیا ہے ۔ ایسے میں ہنستے مسکراتے اختر شیرانی ، گزشتہ کئی روز سے سانس کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ کورونا وائرس کے خطر ے کے پیش نظر خود کو گھر میں ہی قرنطینہ میں رکھے ہوئے تھے لیکن پیر کی شب جب سانس لینے میں دشواری ہوئی تو اہل خانہ اسپتال لے کر بھاگے لیکن کہیں بھی کوئی بیڈ خالی نہ ملا اوریوں دوسروں کی زندگیوں میں خوشیوں اور مسکراٹوں کے رنگ بھرنے والا یہ متوالا فن کار ، زندگی سے منہ موڑ گیا ۔اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ انسان زندگی میں دو بار مرتا ہے ، ایک بار تب جب وہ لوگوں سے پیار کرنا چھوڑ دیتا ہے اور دوسری مرتبہ اس وقت جب لوگ ‘ اُسے پیار کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔
دھان پان سے پتلے دبلے اختر شیرانی ، عمر شریف کی ٹیم کے اہم رکن ، جو اسٹیج پر آتے تو اوٹ پٹانگ حرکتوں کی وجہ سے تماشائیوں کے چہروں پر مسکراہٹوں کی بہار لے آتے۔ کوئی انہیں’ ربڑ کا آدمی ‘ کہتا کیونکہ بدن میں غیر معمولی لچک ہوتی، جو اسٹیج پر آنے کے بعد کسی فٹ بال کی طرح اچھل کود کرنے کے ساتھ ساتھ بے ساختہ جملوں کی ادائیگی بھی کما ل مہارت سے کرتے ۔اختر شیرانی کا اسٹیج سے ناطہ کوئی انچاس برس پر مبنی رہا۔ انیس سو اکہتر میںجب کراچی میںاسٹیج پروگراموں کا عروج تھا ۔ اختر شیرانی مختلف ورائٹی پروگراموں میں شرکت کرتے اور بھارتی اور پاکستانی گیت گا کر مہمانوں کے بوجھل لمحات کو خوشگوار بنانے کی جستجو میں لگے رہتے ۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ گلوکاروں سے زیادہ اداکاروں کو پذیرائی ملتی ہے ۔ اسٹیج پر آنے کے بعد اداکاروں کا استقبال فلک شگاف تالیوں سے کیا جاتا ۔ اور ایسی ہی ’ انٹری ‘ کی آرزو اختر شیرانی کی تھی ۔اسی بنا پر انہوں نے گلوکاری چھوڑ کرتھیٹر اداکار بننے کی خواہش اسٹیج اداکار نذر حسین پر ظاہر کی تو انہوں نے اختر شیرانی کو مایوس نہیں کیا ۔ بلکہ ان کی ہر سطح پر رہنمائی کی ۔ انہیں اسٹیج اداکاری کے بنیادی گُر اور باریکیاں سکھائیں ۔ نذر حسین کی کوششوں سے ہی اختر شیرانی کو پہلا اسٹیج ڈراما ’ پردے کے پیچھے ‘ میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ جس میں انہوں نے نوکر کا کردار ادا کیا ۔ طنز و مزاح اوربے ساختہ اداکاری کی بنا پر یہ کردار خاصا مقبول ہوا ۔ اس ڈرامے کے بعد تو جیسے اختر شیرانی نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ کراچی کے فلیٹ کلب میں ہونے والے اسٹیج ڈراموں کی وہ جان سمجھے جانے لگے ۔
اختر شیرانی کی شہرت کا اصل سفر تو اس وقت شروع ہو اجب انہیں عمرشریف کا ساتھ ملا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیج ہدایتکار فرقان حیدر ، ’ بکرا قسطوں پے ‘ کی تیاری کررہے تھے اور اسی دوران انہوں نے اختر شیرانی کا تماشائی بن کر نظارہ کیا تو انہیں اپنے ڈرامے میں موقع دینے کا سوچ لیا ۔ ’ بکرا قسطوں پے ‘ میں ’ مرزا ‘ کا کردار ، اختر شیرانی نے ایسا جم کر کیا کہ بعد میں یہی کردار ان کی پہچان بن گیا ۔ اور پھر وہ عمر شریف کے ہر ڈرامے کا حصہ سمجھے جانے لگے ۔ جن کے ساتھ انہوں نے ہم سا ہو تو سامنے آئے ، بڈھا گھر پے ہے ، ماموں مذاق نہ کرو ، ون ڈے عید میچ ، یہ ہے نیا تماشا ، آو سچ بولیںجیسے ڈراموں میں مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے ۔یہاں تک کہ جب عمر شریف لاہور میں اپنی پوری ٹیم کو لے کر اسٹیج شوز کرتے تو اختر شیرانی بھی اس میں شامل رہے ۔ نجی زندگی میں ’ مرزا ‘ کے نام سے پکارے جانے والے اختر شیرانی نے کوئی ہزار کے قریب اسٹیج ڈراموں کے علاوہ ٹی وی اور فلم میں بھی کام کیا ۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ہونے والے مختلف ثقافتی پروگراموں میں شرکت کرنے کا اعزاز بھی ان کے پاس رہا ۔
ایسے وقت میںجب شکیل صدیقی ، امان اللہ ، رو ف لالہ سمیت کئی پاکستانی اسٹیج فنکار ، بھارت کے مختلف رائلٹی شوز میں اپنا نام کما رہے تھے ، اختر شیرانی کو کالج میں ملازمت کی بنا پر ان میں شرکت کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنا کام کرچکے ہیں کہ اب ایسے شوز میں شامل نہ بھی ہوسکیں تو کوئی افسوس نہیں۔ اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ معین اختر اور شہزاد رضاکی طرح وہ بھی سنئیر فنکار ہیں لیکن اس بات کا احساس اور قدر کوئی نہیں کرتا ، ممکن ہے کہ وہ یہ سب اس لیے بھی کہتے ہو کیونکہ اسٹیج ڈراموں میں عمر شریف کے ہاتھوں ان کو سب سے زیادہ مار کھانی پڑتی تھی لیکن تماشائیوں کی تالیاں بھی خوب بجتیں ۔
کراچی جہاں عمر شریف کی علالت کے باعث تھیٹر اور اسٹیج سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں ۔ اس تناظر میں اختر شیرانی کو مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ، بالخصوص مسلسل تین مہینے سے جاری لاک ڈاو ن کی بندش نے اسٹیج فنکاروں سے بھی روزگار چھین لیا ہے ۔ ایسے میں ہنستے مسکراتے اختر شیرانی ، گزشتہ کئی روز سے سانس کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ کورونا وائرس کے خطر ے کے پیش نظر خود کو گھر میں ہی قرنطینہ میں رکھے ہوئے تھے لیکن پیر کی شب جب سانس لینے میں دشواری ہوئی تو اہل خانہ اسپتال لے کر بھاگے لیکن کہیں بھی کوئی بیڈ خالی نہ ملا اوریوں دوسروں کی زندگیوں میں خوشیوں اور مسکراٹوں کے رنگ بھرنے والا یہ متوالا فن کار ، زندگی سے منہ موڑ گیا ۔اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ انسان زندگی میں دو بار مرتا ہے ، ایک بار تب جب وہ لوگوں سے پیار کرنا چھوڑ دیتا ہے اور دوسری مرتبہ اس وقت جب لوگ ‘ اُسے پیار کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔