Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہمارے مُرشد اور سینیر صحافی جناب شفقت سومرو نے چند ماہ قبل بتایا تھا کہ ایک سینئر ہیلتھ رپورٹر کے بقول اگر صورتحال خدانخواستہ بگڑی تو کراچی کے اسپتالوں کی ایمرجنسی میں لوگ مریض اور بندوق ساتھ لے کر جائیں گے اور ڈاکٹروں کو یرغمال بنا کر کہیں گے کہ پہلے ہمارے مریض کو دیکھو۔
کل جب ہمارے ایک پیارے بھائی نے اپنے کورونا مثبت ہونے کی اطلاع دی تو میں نے گھر پر آئسولیشن کے مشورے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنا خیال رکھیں پھر بھی اگر ضرورت پیش آئے گی تو ہمارے حلقہ احباب میں اتنے ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کہ بہ وقت ضرورت ہسپتال میں داخلہ کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔
لیکن آج ہمارے دوست ڈاکٹر فیاض عالم نے ایک فیس بُکی پوسٹ میں اطلاع دی کہ انکے ایک دوست فیض الرحمن کے والد محترم مولانا عبدالرحمن ( رکن جماعت اسلامی) کا قضائے الہی سے انتقال ہوگیا ہے-
فیض کے والد کورونا کے وبائی مرض کا شکار ہوگئے تھے- باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی جیسے ہسپتالوں میں داخلہ نہیں مل سکا تھا- لیاری جنرل ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل رہے۔
یہ پوسٹ اس لحاظ سے دل دہلانے والی ہے کہ بیماری کے خوف کے باوجود میں سوچتا تھا کہ ہمارے حلقہ احباب میں ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کسی مشکل وقت میں کہیں نہ کہیں علاج کا انتظام ہو جائے گا۔
اب ایک ایسا شخص جس کے حلقہ احباب میں ڈاکٹر فیاض جیسا متحرک اور ہسپتالوں سے متعلق شخص موجود ہو اسے اپنے موذی مرض میں مبتلا والد کے لئے باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی میں داخلہ نہ مل سکا تو ہماشما کا کیا حال ہوگا۔
کراچی کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف 55 کورونا کے مریضوں کے لیے مختص وینٹیلیٹر موجود ہیں جو لگ بھگ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کے اس شھر میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابربھی نہیں ہے۔
پرائیوٹ اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ کورونا کے ایک مریض کا علاج ۱۰ سے بیس لاکھ تک میں پڑ رہا ہے۔ ان کے پاس بھی جگہیں کم پڑ رہی ہیں۔ غریب کیا درمیانی طبقہ بھی اب ان اسپتالوں کے قریب بھی پھٹکنے کے لائق نہیں ہے۔
اب حال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں پر تشدد تو پہلے بھی ہوتا تھا، لیکن اگر بیماری کا دباؤ بڑہتا چلا گیا تو واقعتاً وہ وقت دور نظر نہیں آرہا جس کے بارے میں مُرشد شفقت سومرو نے اشارہ کیا تھا۔
اب وقت آتا جارہا ہے کہ (حسب استطاعت ) لوگ نوٹوں کے بریف کیس یا بندوق لیکر آئی سی یو وارڈ اور وینٹیلیٹروں میں اپنے مریضوں کے لئے جگہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔ بدترین صورتحال یہ ہوگی کہ طاقتور کمزور اور غریب کو وینٹیلیٹر یا آئی سی یو بیڈ سے اُٹھا کر پھینک کر اپنے مریض کو ڈالنا شروع کرے گا۔
خدارا اب اس بیماری سے انکار چھوڑ کر اپنی اور اپنے پیاروں کی خاطر اس بیماری سے مقابلے کی ٹھان لیں ۔ لاک ڈاؤن صرف ایک بار دی جانے والی دوا ہوتی ہے اس کے اثر کو ضائع کرنے کے بعد اس کا دوبارہ استعمال مشکل لگتا ہے لیکن پھر بھی جنہیں بھوک کی موت کا خوف ہے یادرکھیں اللہ پاک کسی نہ کسی طرح سے رزق پہنچا ہی دے گا۔
یاد رہے بھوک تو کسی نہ کسی درجے میں آنی ہی ہے، ساری دنیا میں اس بیماری کے شکار ممالک میں کاروبار بند ہوئے ہیں۔ بھوک اور بے روزگاری بڑہی ہے ان میں غریب و دولت مند ممالک کی کوئی تخصیص نہیں ہمارے ہاں تو حال اس سے بھی بُرا ہے۔
بھوک و بیماری کی مصیبت کا ایک ساتھ سامنے کرنے کی بجائے آدھی روٹی پر گذرا کر لیں بیماری کے ساتھ بغیر یا کم از کم نقصان میں بچ نکلیں گے تو ان شاء اللہ اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ کر بھی پائیں گے۔
خدارا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت فرمائیں۔ وقتی طور پر تشکیکی چورن فروشوں سے احتراز کریں کہ یہ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی اور اپنے دوستوں کی زندگیوں سے کھیلنے کو ایمان کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ نادان دوستوں سے بچیں ۔
آخر میں میرے محترم دوست ڈاکٹر اظہر چغتائی کا یہ پیغام ۔
جو ہم نے کرنا تھا وہ کرلیا،
اب مرض پھیل گیا،
وقت شاید اب بھی ہے،
مشنری جذبے سے
کراچی میں سندھ حکومت کے نو اسپتالوں اور حسن اسکوائر کے سینٹر کو اپ گریڈ کریں،
ان اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کو ہنگامی بنیادوں پر تربیت دیں ،
سامان مہیا کریں
تب شاید کچھ بہتر طریقے سے کام کیا جاسکے،
ورنہ اب جو ہونا ہے وہ ہونا ہے۔
ڈوبتے جہاز کی آخری ایس او ایس کال کے مترادف ہے، ہے کوئی سنّنے والا۔
ہمارے مُرشد اور سینیر صحافی جناب شفقت سومرو نے چند ماہ قبل بتایا تھا کہ ایک سینئر ہیلتھ رپورٹر کے بقول اگر صورتحال خدانخواستہ بگڑی تو کراچی کے اسپتالوں کی ایمرجنسی میں لوگ مریض اور بندوق ساتھ لے کر جائیں گے اور ڈاکٹروں کو یرغمال بنا کر کہیں گے کہ پہلے ہمارے مریض کو دیکھو۔
کل جب ہمارے ایک پیارے بھائی نے اپنے کورونا مثبت ہونے کی اطلاع دی تو میں نے گھر پر آئسولیشن کے مشورے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنا خیال رکھیں پھر بھی اگر ضرورت پیش آئے گی تو ہمارے حلقہ احباب میں اتنے ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کہ بہ وقت ضرورت ہسپتال میں داخلہ کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔
لیکن آج ہمارے دوست ڈاکٹر فیاض عالم نے ایک فیس بُکی پوسٹ میں اطلاع دی کہ انکے ایک دوست فیض الرحمن کے والد محترم مولانا عبدالرحمن ( رکن جماعت اسلامی) کا قضائے الہی سے انتقال ہوگیا ہے-
فیض کے والد کورونا کے وبائی مرض کا شکار ہوگئے تھے- باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی جیسے ہسپتالوں میں داخلہ نہیں مل سکا تھا- لیاری جنرل ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل رہے۔
یہ پوسٹ اس لحاظ سے دل دہلانے والی ہے کہ بیماری کے خوف کے باوجود میں سوچتا تھا کہ ہمارے حلقہ احباب میں ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کسی مشکل وقت میں کہیں نہ کہیں علاج کا انتظام ہو جائے گا۔
اب ایک ایسا شخص جس کے حلقہ احباب میں ڈاکٹر فیاض جیسا متحرک اور ہسپتالوں سے متعلق شخص موجود ہو اسے اپنے موذی مرض میں مبتلا والد کے لئے باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی میں داخلہ نہ مل سکا تو ہماشما کا کیا حال ہوگا۔
کراچی کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف 55 کورونا کے مریضوں کے لیے مختص وینٹیلیٹر موجود ہیں جو لگ بھگ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کے اس شھر میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابربھی نہیں ہے۔
پرائیوٹ اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ کورونا کے ایک مریض کا علاج ۱۰ سے بیس لاکھ تک میں پڑ رہا ہے۔ ان کے پاس بھی جگہیں کم پڑ رہی ہیں۔ غریب کیا درمیانی طبقہ بھی اب ان اسپتالوں کے قریب بھی پھٹکنے کے لائق نہیں ہے۔
اب حال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں پر تشدد تو پہلے بھی ہوتا تھا، لیکن اگر بیماری کا دباؤ بڑہتا چلا گیا تو واقعتاً وہ وقت دور نظر نہیں آرہا جس کے بارے میں مُرشد شفقت سومرو نے اشارہ کیا تھا۔
اب وقت آتا جارہا ہے کہ (حسب استطاعت ) لوگ نوٹوں کے بریف کیس یا بندوق لیکر آئی سی یو وارڈ اور وینٹیلیٹروں میں اپنے مریضوں کے لئے جگہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔ بدترین صورتحال یہ ہوگی کہ طاقتور کمزور اور غریب کو وینٹیلیٹر یا آئی سی یو بیڈ سے اُٹھا کر پھینک کر اپنے مریض کو ڈالنا شروع کرے گا۔
خدارا اب اس بیماری سے انکار چھوڑ کر اپنی اور اپنے پیاروں کی خاطر اس بیماری سے مقابلے کی ٹھان لیں ۔ لاک ڈاؤن صرف ایک بار دی جانے والی دوا ہوتی ہے اس کے اثر کو ضائع کرنے کے بعد اس کا دوبارہ استعمال مشکل لگتا ہے لیکن پھر بھی جنہیں بھوک کی موت کا خوف ہے یادرکھیں اللہ پاک کسی نہ کسی طرح سے رزق پہنچا ہی دے گا۔
یاد رہے بھوک تو کسی نہ کسی درجے میں آنی ہی ہے، ساری دنیا میں اس بیماری کے شکار ممالک میں کاروبار بند ہوئے ہیں۔ بھوک اور بے روزگاری بڑہی ہے ان میں غریب و دولت مند ممالک کی کوئی تخصیص نہیں ہمارے ہاں تو حال اس سے بھی بُرا ہے۔
بھوک و بیماری کی مصیبت کا ایک ساتھ سامنے کرنے کی بجائے آدھی روٹی پر گذرا کر لیں بیماری کے ساتھ بغیر یا کم از کم نقصان میں بچ نکلیں گے تو ان شاء اللہ اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ کر بھی پائیں گے۔
خدارا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت فرمائیں۔ وقتی طور پر تشکیکی چورن فروشوں سے احتراز کریں کہ یہ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی اور اپنے دوستوں کی زندگیوں سے کھیلنے کو ایمان کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ نادان دوستوں سے بچیں ۔
آخر میں میرے محترم دوست ڈاکٹر اظہر چغتائی کا یہ پیغام ۔
جو ہم نے کرنا تھا وہ کرلیا،
اب مرض پھیل گیا،
وقت شاید اب بھی ہے،
مشنری جذبے سے
کراچی میں سندھ حکومت کے نو اسپتالوں اور حسن اسکوائر کے سینٹر کو اپ گریڈ کریں،
ان اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کو ہنگامی بنیادوں پر تربیت دیں ،
سامان مہیا کریں
تب شاید کچھ بہتر طریقے سے کام کیا جاسکے،
ورنہ اب جو ہونا ہے وہ ہونا ہے۔
ڈوبتے جہاز کی آخری ایس او ایس کال کے مترادف ہے، ہے کوئی سنّنے والا۔
ہمارے مُرشد اور سینیر صحافی جناب شفقت سومرو نے چند ماہ قبل بتایا تھا کہ ایک سینئر ہیلتھ رپورٹر کے بقول اگر صورتحال خدانخواستہ بگڑی تو کراچی کے اسپتالوں کی ایمرجنسی میں لوگ مریض اور بندوق ساتھ لے کر جائیں گے اور ڈاکٹروں کو یرغمال بنا کر کہیں گے کہ پہلے ہمارے مریض کو دیکھو۔
کل جب ہمارے ایک پیارے بھائی نے اپنے کورونا مثبت ہونے کی اطلاع دی تو میں نے گھر پر آئسولیشن کے مشورے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنا خیال رکھیں پھر بھی اگر ضرورت پیش آئے گی تو ہمارے حلقہ احباب میں اتنے ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کہ بہ وقت ضرورت ہسپتال میں داخلہ کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔
لیکن آج ہمارے دوست ڈاکٹر فیاض عالم نے ایک فیس بُکی پوسٹ میں اطلاع دی کہ انکے ایک دوست فیض الرحمن کے والد محترم مولانا عبدالرحمن ( رکن جماعت اسلامی) کا قضائے الہی سے انتقال ہوگیا ہے-
فیض کے والد کورونا کے وبائی مرض کا شکار ہوگئے تھے- باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی جیسے ہسپتالوں میں داخلہ نہیں مل سکا تھا- لیاری جنرل ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل رہے۔
یہ پوسٹ اس لحاظ سے دل دہلانے والی ہے کہ بیماری کے خوف کے باوجود میں سوچتا تھا کہ ہمارے حلقہ احباب میں ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کسی مشکل وقت میں کہیں نہ کہیں علاج کا انتظام ہو جائے گا۔
اب ایک ایسا شخص جس کے حلقہ احباب میں ڈاکٹر فیاض جیسا متحرک اور ہسپتالوں سے متعلق شخص موجود ہو اسے اپنے موذی مرض میں مبتلا والد کے لئے باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی میں داخلہ نہ مل سکا تو ہماشما کا کیا حال ہوگا۔
کراچی کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف 55 کورونا کے مریضوں کے لیے مختص وینٹیلیٹر موجود ہیں جو لگ بھگ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کے اس شھر میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابربھی نہیں ہے۔
پرائیوٹ اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ کورونا کے ایک مریض کا علاج ۱۰ سے بیس لاکھ تک میں پڑ رہا ہے۔ ان کے پاس بھی جگہیں کم پڑ رہی ہیں۔ غریب کیا درمیانی طبقہ بھی اب ان اسپتالوں کے قریب بھی پھٹکنے کے لائق نہیں ہے۔
اب حال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں پر تشدد تو پہلے بھی ہوتا تھا، لیکن اگر بیماری کا دباؤ بڑہتا چلا گیا تو واقعتاً وہ وقت دور نظر نہیں آرہا جس کے بارے میں مُرشد شفقت سومرو نے اشارہ کیا تھا۔
اب وقت آتا جارہا ہے کہ (حسب استطاعت ) لوگ نوٹوں کے بریف کیس یا بندوق لیکر آئی سی یو وارڈ اور وینٹیلیٹروں میں اپنے مریضوں کے لئے جگہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔ بدترین صورتحال یہ ہوگی کہ طاقتور کمزور اور غریب کو وینٹیلیٹر یا آئی سی یو بیڈ سے اُٹھا کر پھینک کر اپنے مریض کو ڈالنا شروع کرے گا۔
خدارا اب اس بیماری سے انکار چھوڑ کر اپنی اور اپنے پیاروں کی خاطر اس بیماری سے مقابلے کی ٹھان لیں ۔ لاک ڈاؤن صرف ایک بار دی جانے والی دوا ہوتی ہے اس کے اثر کو ضائع کرنے کے بعد اس کا دوبارہ استعمال مشکل لگتا ہے لیکن پھر بھی جنہیں بھوک کی موت کا خوف ہے یادرکھیں اللہ پاک کسی نہ کسی طرح سے رزق پہنچا ہی دے گا۔
یاد رہے بھوک تو کسی نہ کسی درجے میں آنی ہی ہے، ساری دنیا میں اس بیماری کے شکار ممالک میں کاروبار بند ہوئے ہیں۔ بھوک اور بے روزگاری بڑہی ہے ان میں غریب و دولت مند ممالک کی کوئی تخصیص نہیں ہمارے ہاں تو حال اس سے بھی بُرا ہے۔
بھوک و بیماری کی مصیبت کا ایک ساتھ سامنے کرنے کی بجائے آدھی روٹی پر گذرا کر لیں بیماری کے ساتھ بغیر یا کم از کم نقصان میں بچ نکلیں گے تو ان شاء اللہ اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ کر بھی پائیں گے۔
خدارا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت فرمائیں۔ وقتی طور پر تشکیکی چورن فروشوں سے احتراز کریں کہ یہ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی اور اپنے دوستوں کی زندگیوں سے کھیلنے کو ایمان کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ نادان دوستوں سے بچیں ۔
آخر میں میرے محترم دوست ڈاکٹر اظہر چغتائی کا یہ پیغام ۔
جو ہم نے کرنا تھا وہ کرلیا،
اب مرض پھیل گیا،
وقت شاید اب بھی ہے،
مشنری جذبے سے
کراچی میں سندھ حکومت کے نو اسپتالوں اور حسن اسکوائر کے سینٹر کو اپ گریڈ کریں،
ان اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کو ہنگامی بنیادوں پر تربیت دیں ،
سامان مہیا کریں
تب شاید کچھ بہتر طریقے سے کام کیا جاسکے،
ورنہ اب جو ہونا ہے وہ ہونا ہے۔
ڈوبتے جہاز کی آخری ایس او ایس کال کے مترادف ہے، ہے کوئی سنّنے والا۔
ہمارے مُرشد اور سینیر صحافی جناب شفقت سومرو نے چند ماہ قبل بتایا تھا کہ ایک سینئر ہیلتھ رپورٹر کے بقول اگر صورتحال خدانخواستہ بگڑی تو کراچی کے اسپتالوں کی ایمرجنسی میں لوگ مریض اور بندوق ساتھ لے کر جائیں گے اور ڈاکٹروں کو یرغمال بنا کر کہیں گے کہ پہلے ہمارے مریض کو دیکھو۔
کل جب ہمارے ایک پیارے بھائی نے اپنے کورونا مثبت ہونے کی اطلاع دی تو میں نے گھر پر آئسولیشن کے مشورے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنا خیال رکھیں پھر بھی اگر ضرورت پیش آئے گی تو ہمارے حلقہ احباب میں اتنے ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کہ بہ وقت ضرورت ہسپتال میں داخلہ کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔
لیکن آج ہمارے دوست ڈاکٹر فیاض عالم نے ایک فیس بُکی پوسٹ میں اطلاع دی کہ انکے ایک دوست فیض الرحمن کے والد محترم مولانا عبدالرحمن ( رکن جماعت اسلامی) کا قضائے الہی سے انتقال ہوگیا ہے-
فیض کے والد کورونا کے وبائی مرض کا شکار ہوگئے تھے- باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی جیسے ہسپتالوں میں داخلہ نہیں مل سکا تھا- لیاری جنرل ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل رہے۔
یہ پوسٹ اس لحاظ سے دل دہلانے والی ہے کہ بیماری کے خوف کے باوجود میں سوچتا تھا کہ ہمارے حلقہ احباب میں ڈاکٹر حضرات موجود ہیں کسی مشکل وقت میں کہیں نہ کہیں علاج کا انتظام ہو جائے گا۔
اب ایک ایسا شخص جس کے حلقہ احباب میں ڈاکٹر فیاض جیسا متحرک اور ہسپتالوں سے متعلق شخص موجود ہو اسے اپنے موذی مرض میں مبتلا والد کے لئے باوجود کوشش کے انڈس، ڈاؤ اور ایس آئی یو ٹی میں داخلہ نہ مل سکا تو ہماشما کا کیا حال ہوگا۔
کراچی کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف 55 کورونا کے مریضوں کے لیے مختص وینٹیلیٹر موجود ہیں جو لگ بھگ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کے اس شھر میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابربھی نہیں ہے۔
پرائیوٹ اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ کورونا کے ایک مریض کا علاج ۱۰ سے بیس لاکھ تک میں پڑ رہا ہے۔ ان کے پاس بھی جگہیں کم پڑ رہی ہیں۔ غریب کیا درمیانی طبقہ بھی اب ان اسپتالوں کے قریب بھی پھٹکنے کے لائق نہیں ہے۔
اب حال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں پر تشدد تو پہلے بھی ہوتا تھا، لیکن اگر بیماری کا دباؤ بڑہتا چلا گیا تو واقعتاً وہ وقت دور نظر نہیں آرہا جس کے بارے میں مُرشد شفقت سومرو نے اشارہ کیا تھا۔
اب وقت آتا جارہا ہے کہ (حسب استطاعت ) لوگ نوٹوں کے بریف کیس یا بندوق لیکر آئی سی یو وارڈ اور وینٹیلیٹروں میں اپنے مریضوں کے لئے جگہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔ بدترین صورتحال یہ ہوگی کہ طاقتور کمزور اور غریب کو وینٹیلیٹر یا آئی سی یو بیڈ سے اُٹھا کر پھینک کر اپنے مریض کو ڈالنا شروع کرے گا۔
خدارا اب اس بیماری سے انکار چھوڑ کر اپنی اور اپنے پیاروں کی خاطر اس بیماری سے مقابلے کی ٹھان لیں ۔ لاک ڈاؤن صرف ایک بار دی جانے والی دوا ہوتی ہے اس کے اثر کو ضائع کرنے کے بعد اس کا دوبارہ استعمال مشکل لگتا ہے لیکن پھر بھی جنہیں بھوک کی موت کا خوف ہے یادرکھیں اللہ پاک کسی نہ کسی طرح سے رزق پہنچا ہی دے گا۔
یاد رہے بھوک تو کسی نہ کسی درجے میں آنی ہی ہے، ساری دنیا میں اس بیماری کے شکار ممالک میں کاروبار بند ہوئے ہیں۔ بھوک اور بے روزگاری بڑہی ہے ان میں غریب و دولت مند ممالک کی کوئی تخصیص نہیں ہمارے ہاں تو حال اس سے بھی بُرا ہے۔
بھوک و بیماری کی مصیبت کا ایک ساتھ سامنے کرنے کی بجائے آدھی روٹی پر گذرا کر لیں بیماری کے ساتھ بغیر یا کم از کم نقصان میں بچ نکلیں گے تو ان شاء اللہ اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ کر بھی پائیں گے۔
خدارا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت فرمائیں۔ وقتی طور پر تشکیکی چورن فروشوں سے احتراز کریں کہ یہ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی اور اپنے دوستوں کی زندگیوں سے کھیلنے کو ایمان کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ نادان دوستوں سے بچیں ۔
آخر میں میرے محترم دوست ڈاکٹر اظہر چغتائی کا یہ پیغام ۔
جو ہم نے کرنا تھا وہ کرلیا،
اب مرض پھیل گیا،
وقت شاید اب بھی ہے،
مشنری جذبے سے
کراچی میں سندھ حکومت کے نو اسپتالوں اور حسن اسکوائر کے سینٹر کو اپ گریڈ کریں،
ان اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کو ہنگامی بنیادوں پر تربیت دیں ،
سامان مہیا کریں
تب شاید کچھ بہتر طریقے سے کام کیا جاسکے،
ورنہ اب جو ہونا ہے وہ ہونا ہے۔
ڈوبتے جہاز کی آخری ایس او ایس کال کے مترادف ہے، ہے کوئی سنّنے والا۔