Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کورونا وائرس نے صرف بیمار جسموں اور ان کی قوت مدافعت کی پول ہی نہیں کھولی بلکہ ہماری بیمار زدہ معیشت، معاشرت اور سیاست کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ اگر اس بحث میں پڑ جائیں کہ کیونکر ہم اچھی معیشت نہ بن پائے یا اعلی اقدار کی معاشرت نہ ترتیب دی پائے یا کیوں اچھی سیاست نہ کر پائے تو بے شمار وجوہات کہی سنی جا چکی ہیں۔
تیسری دنیا کی آزادی سے مغربی استعمار کا اختتام ہوا اور اس دنیا میں طاقت کا ایک خلا چھوڑ گیا وہ خلا اس دنیا میں موجود عمومی طور پر اور بالخصوص پاکستان میں جاگیردارانہ نظام نے پر کیا برائے نام جمہوریت کے نعرے نے جاگیردارانہ نظام کو شکست دی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی مگر یہ تبدیلی انگریزی کی کہاوت new bottles old wine سے ذرا مختلف نہ تھی۔
ہمارے موجودہ مسائل اسی سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں کوئی یہ بھی دلیل دے سکتا ہے کے سرمایہ دارانہ نظام اگر برا ہے تو مغرب میں تو مثبت نتائج پیدا کیے ہیں تھرڈ ورڈ میں کیوں نہیں؟
اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں مگر تھوڑا پیچیدہ ہے۔ نشاۃ ثانیہ سے مغرب کی علمی وادبی ترقی نے اور پے در پے انقلابات نے مضبوط سیاسی و سماجی نظام ترتیب دیا۔ اس طاقت کے بل بوتے پر دنیا پر حکومت کی اور لوٹ کھسوٹ کے مال سے اپنی معیشت بہتر کرلی۔ مطلب اگر یہ کہا جائے موجودہ مغربی عمارتیں ایشیائی معدنیات اور افریقی ہاتھی دانتوں سے بنی ہیں تو قطعی غلط نہ ہوگا۔
انیسویں صدی اور بالخصوص جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد مغرب کو اچانک ملی جمہوریت، برابری اور حقوق کے نعرے نے استعمار سے یکدم متنفر کردیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ پھر نہ صرف خود اس نظام کو اپنایا بلکہ پوری دنیا پر اسے لاگو کرنے کی دوڑ میں لگ گیا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی تھرڈ ورلڈ میں کامیابی کے لیے جن مہروں کی ضرورت تھی وہ آزادی سے قبل بھی مغرب کے تابع فرمان رہے چکے تھے۔ پھر غلام ابن غلام کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
تھرڈ ورلڈ کو قرض برائے سود اور اس کے حکمرانوں کو قرض حسنہ دینے والے مالیاتی ادارے جیسے کہ آئی ایم آئی ایف، ورلڈ بینک بھاری سود کے عوض قرضے دیتے ہیں جو ان حکمرانوں کی بدعنوانی کے باعث کالا دھن بن کر پھر ان تک پہنچ جاتا ہے اور پھر وہی کالادھن سفید کر کے ہمیں قرض برائے سود دے دیا جاتا ہے اور یہ پہیہ یوں ہی چلتا جاتا ہے۔ تھرڈ ورلڈ کے حکمران کبھی کبھار اپنے ملکوں کے حکمران کم اور ان سودی مالیاتی اداروں کے سفیر زیادہ لگتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے ان اداروں کے پالیسی احکامات مان لیتے ہیں۔
تعلیم، صحت اور روزگار کے سبھی ادارے، ان میں کتنا پیسہ لگانا ہے کتنا نکالنا ہے سبھی ان مالیاتی اداروں کی من مانی سے ہوتا ہے۔ جب ہمیں تعلیم صحت اور روزگار ان اداروں کی مشاورت سے ملے گی تو کیا خاک آزاد ہوگی ۔آخر میں رہ جاتے ہیں تہی دست عوام جو اربوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں اور یہ حکمران اگر غلطی سے کوئی گلی پکی کروا دیں یا پینے کا صاف پانی دے دیں تو اپنے نام کی تختی لگانا نہیں بھولتے۔
مساوات کا درس دیتا مغرب اور قانون کی بالادستی کا شور ڈالتے ہمارے ایوان کس قدر ان اصولوں پر کاربند ہیں یہ تو ہمیں معلوم ہی ہے۔ موجودہ حکومت بھی لوکل اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کے ہاتھوں بے بس ہے۔ یہ سرمایہ دار پالیسی میکر بھی ہیں جو مرضی کی پروڈکشن سپلائی اور ڈسٹریبیوشن پالیسی بناتے ہیں پھر چاہے وہ چینی ہو آٹا ہو ہو یا پیٹرول ہو سب ان کے اختیار کی بات ہے یہ چاہیں تو غریب عوام کو کچھ دیں نہ چاہیں تو نہ دیں۔ ملکی ادارے ترقی میں عدم توازن کا شکار ہیں کچھ ادارے اس قدر ترقی یافتہ ہیں کہ وہ دوسرے اداروں کو پھلنے پھولنے تک نہیں دیتے۔ کچھ ادارے اس قدر فرسودہ ہے کہ پھلنے پھولنے کا سوچتے تک نہیں۔ ایسی صورتحال میں اچھی معیشت، معاشرت اور سیاست کی امید رکھنا سمندر میں قطرہ تلاشنے کے مترادف ہے مگر بات وہی ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کورونا وائرس نے صرف بیمار جسموں اور ان کی قوت مدافعت کی پول ہی نہیں کھولی بلکہ ہماری بیمار زدہ معیشت، معاشرت اور سیاست کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ اگر اس بحث میں پڑ جائیں کہ کیونکر ہم اچھی معیشت نہ بن پائے یا اعلی اقدار کی معاشرت نہ ترتیب دی پائے یا کیوں اچھی سیاست نہ کر پائے تو بے شمار وجوہات کہی سنی جا چکی ہیں۔
تیسری دنیا کی آزادی سے مغربی استعمار کا اختتام ہوا اور اس دنیا میں طاقت کا ایک خلا چھوڑ گیا وہ خلا اس دنیا میں موجود عمومی طور پر اور بالخصوص پاکستان میں جاگیردارانہ نظام نے پر کیا برائے نام جمہوریت کے نعرے نے جاگیردارانہ نظام کو شکست دی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی مگر یہ تبدیلی انگریزی کی کہاوت new bottles old wine سے ذرا مختلف نہ تھی۔
ہمارے موجودہ مسائل اسی سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں کوئی یہ بھی دلیل دے سکتا ہے کے سرمایہ دارانہ نظام اگر برا ہے تو مغرب میں تو مثبت نتائج پیدا کیے ہیں تھرڈ ورڈ میں کیوں نہیں؟
اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں مگر تھوڑا پیچیدہ ہے۔ نشاۃ ثانیہ سے مغرب کی علمی وادبی ترقی نے اور پے در پے انقلابات نے مضبوط سیاسی و سماجی نظام ترتیب دیا۔ اس طاقت کے بل بوتے پر دنیا پر حکومت کی اور لوٹ کھسوٹ کے مال سے اپنی معیشت بہتر کرلی۔ مطلب اگر یہ کہا جائے موجودہ مغربی عمارتیں ایشیائی معدنیات اور افریقی ہاتھی دانتوں سے بنی ہیں تو قطعی غلط نہ ہوگا۔
انیسویں صدی اور بالخصوص جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد مغرب کو اچانک ملی جمہوریت، برابری اور حقوق کے نعرے نے استعمار سے یکدم متنفر کردیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ پھر نہ صرف خود اس نظام کو اپنایا بلکہ پوری دنیا پر اسے لاگو کرنے کی دوڑ میں لگ گیا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی تھرڈ ورلڈ میں کامیابی کے لیے جن مہروں کی ضرورت تھی وہ آزادی سے قبل بھی مغرب کے تابع فرمان رہے چکے تھے۔ پھر غلام ابن غلام کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
تھرڈ ورلڈ کو قرض برائے سود اور اس کے حکمرانوں کو قرض حسنہ دینے والے مالیاتی ادارے جیسے کہ آئی ایم آئی ایف، ورلڈ بینک بھاری سود کے عوض قرضے دیتے ہیں جو ان حکمرانوں کی بدعنوانی کے باعث کالا دھن بن کر پھر ان تک پہنچ جاتا ہے اور پھر وہی کالادھن سفید کر کے ہمیں قرض برائے سود دے دیا جاتا ہے اور یہ پہیہ یوں ہی چلتا جاتا ہے۔ تھرڈ ورلڈ کے حکمران کبھی کبھار اپنے ملکوں کے حکمران کم اور ان سودی مالیاتی اداروں کے سفیر زیادہ لگتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے ان اداروں کے پالیسی احکامات مان لیتے ہیں۔
تعلیم، صحت اور روزگار کے سبھی ادارے، ان میں کتنا پیسہ لگانا ہے کتنا نکالنا ہے سبھی ان مالیاتی اداروں کی من مانی سے ہوتا ہے۔ جب ہمیں تعلیم صحت اور روزگار ان اداروں کی مشاورت سے ملے گی تو کیا خاک آزاد ہوگی ۔آخر میں رہ جاتے ہیں تہی دست عوام جو اربوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں اور یہ حکمران اگر غلطی سے کوئی گلی پکی کروا دیں یا پینے کا صاف پانی دے دیں تو اپنے نام کی تختی لگانا نہیں بھولتے۔
مساوات کا درس دیتا مغرب اور قانون کی بالادستی کا شور ڈالتے ہمارے ایوان کس قدر ان اصولوں پر کاربند ہیں یہ تو ہمیں معلوم ہی ہے۔ موجودہ حکومت بھی لوکل اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کے ہاتھوں بے بس ہے۔ یہ سرمایہ دار پالیسی میکر بھی ہیں جو مرضی کی پروڈکشن سپلائی اور ڈسٹریبیوشن پالیسی بناتے ہیں پھر چاہے وہ چینی ہو آٹا ہو ہو یا پیٹرول ہو سب ان کے اختیار کی بات ہے یہ چاہیں تو غریب عوام کو کچھ دیں نہ چاہیں تو نہ دیں۔ ملکی ادارے ترقی میں عدم توازن کا شکار ہیں کچھ ادارے اس قدر ترقی یافتہ ہیں کہ وہ دوسرے اداروں کو پھلنے پھولنے تک نہیں دیتے۔ کچھ ادارے اس قدر فرسودہ ہے کہ پھلنے پھولنے کا سوچتے تک نہیں۔ ایسی صورتحال میں اچھی معیشت، معاشرت اور سیاست کی امید رکھنا سمندر میں قطرہ تلاشنے کے مترادف ہے مگر بات وہی ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کورونا وائرس نے صرف بیمار جسموں اور ان کی قوت مدافعت کی پول ہی نہیں کھولی بلکہ ہماری بیمار زدہ معیشت، معاشرت اور سیاست کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ اگر اس بحث میں پڑ جائیں کہ کیونکر ہم اچھی معیشت نہ بن پائے یا اعلی اقدار کی معاشرت نہ ترتیب دی پائے یا کیوں اچھی سیاست نہ کر پائے تو بے شمار وجوہات کہی سنی جا چکی ہیں۔
تیسری دنیا کی آزادی سے مغربی استعمار کا اختتام ہوا اور اس دنیا میں طاقت کا ایک خلا چھوڑ گیا وہ خلا اس دنیا میں موجود عمومی طور پر اور بالخصوص پاکستان میں جاگیردارانہ نظام نے پر کیا برائے نام جمہوریت کے نعرے نے جاگیردارانہ نظام کو شکست دی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی مگر یہ تبدیلی انگریزی کی کہاوت new bottles old wine سے ذرا مختلف نہ تھی۔
ہمارے موجودہ مسائل اسی سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں کوئی یہ بھی دلیل دے سکتا ہے کے سرمایہ دارانہ نظام اگر برا ہے تو مغرب میں تو مثبت نتائج پیدا کیے ہیں تھرڈ ورڈ میں کیوں نہیں؟
اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں مگر تھوڑا پیچیدہ ہے۔ نشاۃ ثانیہ سے مغرب کی علمی وادبی ترقی نے اور پے در پے انقلابات نے مضبوط سیاسی و سماجی نظام ترتیب دیا۔ اس طاقت کے بل بوتے پر دنیا پر حکومت کی اور لوٹ کھسوٹ کے مال سے اپنی معیشت بہتر کرلی۔ مطلب اگر یہ کہا جائے موجودہ مغربی عمارتیں ایشیائی معدنیات اور افریقی ہاتھی دانتوں سے بنی ہیں تو قطعی غلط نہ ہوگا۔
انیسویں صدی اور بالخصوص جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد مغرب کو اچانک ملی جمہوریت، برابری اور حقوق کے نعرے نے استعمار سے یکدم متنفر کردیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ پھر نہ صرف خود اس نظام کو اپنایا بلکہ پوری دنیا پر اسے لاگو کرنے کی دوڑ میں لگ گیا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی تھرڈ ورلڈ میں کامیابی کے لیے جن مہروں کی ضرورت تھی وہ آزادی سے قبل بھی مغرب کے تابع فرمان رہے چکے تھے۔ پھر غلام ابن غلام کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
تھرڈ ورلڈ کو قرض برائے سود اور اس کے حکمرانوں کو قرض حسنہ دینے والے مالیاتی ادارے جیسے کہ آئی ایم آئی ایف، ورلڈ بینک بھاری سود کے عوض قرضے دیتے ہیں جو ان حکمرانوں کی بدعنوانی کے باعث کالا دھن بن کر پھر ان تک پہنچ جاتا ہے اور پھر وہی کالادھن سفید کر کے ہمیں قرض برائے سود دے دیا جاتا ہے اور یہ پہیہ یوں ہی چلتا جاتا ہے۔ تھرڈ ورلڈ کے حکمران کبھی کبھار اپنے ملکوں کے حکمران کم اور ان سودی مالیاتی اداروں کے سفیر زیادہ لگتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے ان اداروں کے پالیسی احکامات مان لیتے ہیں۔
تعلیم، صحت اور روزگار کے سبھی ادارے، ان میں کتنا پیسہ لگانا ہے کتنا نکالنا ہے سبھی ان مالیاتی اداروں کی من مانی سے ہوتا ہے۔ جب ہمیں تعلیم صحت اور روزگار ان اداروں کی مشاورت سے ملے گی تو کیا خاک آزاد ہوگی ۔آخر میں رہ جاتے ہیں تہی دست عوام جو اربوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں اور یہ حکمران اگر غلطی سے کوئی گلی پکی کروا دیں یا پینے کا صاف پانی دے دیں تو اپنے نام کی تختی لگانا نہیں بھولتے۔
مساوات کا درس دیتا مغرب اور قانون کی بالادستی کا شور ڈالتے ہمارے ایوان کس قدر ان اصولوں پر کاربند ہیں یہ تو ہمیں معلوم ہی ہے۔ موجودہ حکومت بھی لوکل اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کے ہاتھوں بے بس ہے۔ یہ سرمایہ دار پالیسی میکر بھی ہیں جو مرضی کی پروڈکشن سپلائی اور ڈسٹریبیوشن پالیسی بناتے ہیں پھر چاہے وہ چینی ہو آٹا ہو ہو یا پیٹرول ہو سب ان کے اختیار کی بات ہے یہ چاہیں تو غریب عوام کو کچھ دیں نہ چاہیں تو نہ دیں۔ ملکی ادارے ترقی میں عدم توازن کا شکار ہیں کچھ ادارے اس قدر ترقی یافتہ ہیں کہ وہ دوسرے اداروں کو پھلنے پھولنے تک نہیں دیتے۔ کچھ ادارے اس قدر فرسودہ ہے کہ پھلنے پھولنے کا سوچتے تک نہیں۔ ایسی صورتحال میں اچھی معیشت، معاشرت اور سیاست کی امید رکھنا سمندر میں قطرہ تلاشنے کے مترادف ہے مگر بات وہی ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کورونا وائرس نے صرف بیمار جسموں اور ان کی قوت مدافعت کی پول ہی نہیں کھولی بلکہ ہماری بیمار زدہ معیشت، معاشرت اور سیاست کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ اگر اس بحث میں پڑ جائیں کہ کیونکر ہم اچھی معیشت نہ بن پائے یا اعلی اقدار کی معاشرت نہ ترتیب دی پائے یا کیوں اچھی سیاست نہ کر پائے تو بے شمار وجوہات کہی سنی جا چکی ہیں۔
تیسری دنیا کی آزادی سے مغربی استعمار کا اختتام ہوا اور اس دنیا میں طاقت کا ایک خلا چھوڑ گیا وہ خلا اس دنیا میں موجود عمومی طور پر اور بالخصوص پاکستان میں جاگیردارانہ نظام نے پر کیا برائے نام جمہوریت کے نعرے نے جاگیردارانہ نظام کو شکست دی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی مگر یہ تبدیلی انگریزی کی کہاوت new bottles old wine سے ذرا مختلف نہ تھی۔
ہمارے موجودہ مسائل اسی سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں کوئی یہ بھی دلیل دے سکتا ہے کے سرمایہ دارانہ نظام اگر برا ہے تو مغرب میں تو مثبت نتائج پیدا کیے ہیں تھرڈ ورڈ میں کیوں نہیں؟
اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں مگر تھوڑا پیچیدہ ہے۔ نشاۃ ثانیہ سے مغرب کی علمی وادبی ترقی نے اور پے در پے انقلابات نے مضبوط سیاسی و سماجی نظام ترتیب دیا۔ اس طاقت کے بل بوتے پر دنیا پر حکومت کی اور لوٹ کھسوٹ کے مال سے اپنی معیشت بہتر کرلی۔ مطلب اگر یہ کہا جائے موجودہ مغربی عمارتیں ایشیائی معدنیات اور افریقی ہاتھی دانتوں سے بنی ہیں تو قطعی غلط نہ ہوگا۔
انیسویں صدی اور بالخصوص جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد مغرب کو اچانک ملی جمہوریت، برابری اور حقوق کے نعرے نے استعمار سے یکدم متنفر کردیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ پھر نہ صرف خود اس نظام کو اپنایا بلکہ پوری دنیا پر اسے لاگو کرنے کی دوڑ میں لگ گیا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی تھرڈ ورلڈ میں کامیابی کے لیے جن مہروں کی ضرورت تھی وہ آزادی سے قبل بھی مغرب کے تابع فرمان رہے چکے تھے۔ پھر غلام ابن غلام کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
تھرڈ ورلڈ کو قرض برائے سود اور اس کے حکمرانوں کو قرض حسنہ دینے والے مالیاتی ادارے جیسے کہ آئی ایم آئی ایف، ورلڈ بینک بھاری سود کے عوض قرضے دیتے ہیں جو ان حکمرانوں کی بدعنوانی کے باعث کالا دھن بن کر پھر ان تک پہنچ جاتا ہے اور پھر وہی کالادھن سفید کر کے ہمیں قرض برائے سود دے دیا جاتا ہے اور یہ پہیہ یوں ہی چلتا جاتا ہے۔ تھرڈ ورلڈ کے حکمران کبھی کبھار اپنے ملکوں کے حکمران کم اور ان سودی مالیاتی اداروں کے سفیر زیادہ لگتے ہیں جو آنکھیں بند کر کے ان اداروں کے پالیسی احکامات مان لیتے ہیں۔
تعلیم، صحت اور روزگار کے سبھی ادارے، ان میں کتنا پیسہ لگانا ہے کتنا نکالنا ہے سبھی ان مالیاتی اداروں کی من مانی سے ہوتا ہے۔ جب ہمیں تعلیم صحت اور روزگار ان اداروں کی مشاورت سے ملے گی تو کیا خاک آزاد ہوگی ۔آخر میں رہ جاتے ہیں تہی دست عوام جو اربوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں اور یہ حکمران اگر غلطی سے کوئی گلی پکی کروا دیں یا پینے کا صاف پانی دے دیں تو اپنے نام کی تختی لگانا نہیں بھولتے۔
مساوات کا درس دیتا مغرب اور قانون کی بالادستی کا شور ڈالتے ہمارے ایوان کس قدر ان اصولوں پر کاربند ہیں یہ تو ہمیں معلوم ہی ہے۔ موجودہ حکومت بھی لوکل اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کے ہاتھوں بے بس ہے۔ یہ سرمایہ دار پالیسی میکر بھی ہیں جو مرضی کی پروڈکشن سپلائی اور ڈسٹریبیوشن پالیسی بناتے ہیں پھر چاہے وہ چینی ہو آٹا ہو ہو یا پیٹرول ہو سب ان کے اختیار کی بات ہے یہ چاہیں تو غریب عوام کو کچھ دیں نہ چاہیں تو نہ دیں۔ ملکی ادارے ترقی میں عدم توازن کا شکار ہیں کچھ ادارے اس قدر ترقی یافتہ ہیں کہ وہ دوسرے اداروں کو پھلنے پھولنے تک نہیں دیتے۔ کچھ ادارے اس قدر فرسودہ ہے کہ پھلنے پھولنے کا سوچتے تک نہیں۔ ایسی صورتحال میں اچھی معیشت، معاشرت اور سیاست کی امید رکھنا سمندر میں قطرہ تلاشنے کے مترادف ہے مگر بات وہی ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ