برصغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف لاتعداد تحریکیں چلیں ان میں سے ایک غدر پارٹی کی تحریک بھی ہے جو 1913میں سان فرانسسکو کینیڈا )میں بابا سوہن سنگھ نے بنائی اس پارٹی کے دیگر مشہور لیڈرز میں بھائی پر مانند،لالہ ہر دیال ،کرتار سنگھ سرابھہ اور مولوی برکت اللہ بھوپالی شامل تھے۔
یہ پارٹی بنیادی طور پر پنجابی کسانوں اور سابق فوجیوں پر مشتمل تھی جو بعد ازاں کینیڈا ہجرت کر گئے۔اس پارٹی کے لوگ غدری بابو کہلاتے تھے۔اور نعرہ تھا کہ غدر برپا کرو۔غدر پارٹی کا اپنا ایک اخبار بھی تھا جو غدر کے نام سے مشہور تھا۔اس پارٹی کے لوگوں کے ساتھ اکثریت اشتراکی پسند اور آزادی پسند نوجوانوں کی تھی۔
چند ہی سال میں یہ تحریک بڑھنے لگی اور اخبار غدر کینیڈا، ملایا، جاپان، چین، فلپائن، فجی اور ارجنٹائن جانے لگا، ساتھ ہی ہر جگہ غدر پارٹی کی شاخیں کھلنیں لگیں۔ خود ہندوستان میں اس کا اثر پہنچ چکا تھا۔ چند ہی مہینے میں صرف امریکا اور کینیڈا میں 72 شاخیں کھل گئیں۔ ان نوجوان انقلابیوں نے روس، چین اور آئرلینڈ کی انقلابیوں سے بھی ربط پیدا کر لیا۔ برطانوی حکومت کو غدر پارٹی کارگزاری کا علم ہوچکا تھا۔ اور اس نے پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش شروع کر دیں۔ اس نے اپنے چند جاسوس غدر پارٹی کے اندر بھیجے۔ بہت سارے گرنتھی گردواروں میں بھیجے تاکہ اس کے لیڈروں کے خلاف زہر پھیلائیں۔ مارچ 1914ء میں ہردیال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا اور ناپسند اجنبی قرار دیا جائے تاکہ اسے ملک بدر کر دیا جائے لیکن پارٹی نے اسے ضمانت پر آزاد کر والیااور اسے سوئزرلینڈ بھجوا دیا۔ ہردیال سنگھ اس کے بعد پارٹی سے ربط نہ رکھ سکے اور ان کا تعلق اس تحریک سے باقی نہ رہا۔ لیکن پارٹی تیزی سے بڑھتی گئی۔
اس پارٹی کا بنیادی منشور یہ تھا کہ برطانوی فوج کو یہاں سے نکالا جائے اور برصغیرکو آزادی دلائی جائے۔اس تحریک کے مقاصد میں شامل تھا کہ بڑی تعداد میں اسلحہ ڈپو بنائے جائیں اور پنجابی نوجوانوں کوفوجی تربیت دی جائے تاکہ وہ انگریز حکام کو چن چن کر قتل کر سکیں اور آخر میں پورے ہندوستان کی فوجی چھاؤنیوں میں بغاوت کروا دی جائے۔
یہ پارٹی اپنے جوہر میں غیر فرقہ وارانہ یا سکیولر تھی۔ جیسے غدری بابے مشرقی پنجاب کے بہت بڑے کسان لیڈر سوہن سنگھ نے کہا تھا ’غدری نہ سکھ تھے نہ پنجابی۔ غدر پارٹی کا مذہب فقط حب الوطنی تھا۔
یہ بھی عجب کہانی ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری دہائي کی شروعات میں جب ابھی انٹرنیٹ تھا نہ مواصلات کی جدید ذرائع تو غدر اخبار امریکا میں سان فرانسسکو سے سفر کر کے جالندھر، لدھیانہ، لاہور، ہوشیار پور، امرتسر، فیروز پور یہاں تک کہ لائلپور اور سرگودھا کے چک نمبر چار، سندھ میں میر پور خاص، ٹنڈو جان محمد اور سانگھڑ کے گائوں گوٹھوں تک جا پہنچتا تھا۔اور تو اور اس کی خفیہ ترسیل کی گواہی تب سرگودھا کی فوجی چھاونی میں بھی ملتی ہے۔
اس پارٹی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی حکومت کوان کے لئے ڈیفینس ایکٹ لانا پڑا جس کی رو سے کسی بھی شخص کو بغیر کسی ٹرائل لمبے عرصے تک جیل میں رکھا جا سکتا تھا۔
اسی تحریک کے دوران برطانوی حکومت کوایک زبردست تصادم کا سامنا کرنا پڑا ۔ہوا کچھ یوں کہ اس وقت کی ایک ہوائی کمپنی کوما گاٹا مارو کا جہاز تین سو ستر پنجابیوں کو لے کر سان فرانسسکو جا رہا تھا برطانوی حکومت نے کینیڈین حکومت کو اس جہاز کی لینڈنگ سے روک کر اسے واپس انڈیا بھیجنے کے لئے کہا۔کینیڈین حکام نے اس جہاز کے سب مسافروں کو واپس کلکتہ اتار دیا اور برطانوی حکومت کے حکم پر انھیں زبردستی واپس پنجاب میں بذریعہ ٹرین بھیجنے کا فیصلہ کیا جس پر ان لوگوں نے برطانوی فوجیوں سے ہاتھا پائی کی۔اسی دوران برطانوی فوج نے بائیس لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔تحریک میں شدت آگئی اور برطانوی حکومت نے ڈیفینس ایکٹ آف انڈیا نافذ کر دیا۔
سوہن سنگھ کی یہ غدر پارٹی ملک گیر حمایت نہ حاصل کر سکی نیز اس وقت کی پنجابی اشرافیہ کی انگریز سے وفاداری نے اس تحریک کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم اپنی ناکامی کے باوجود غدر پارٹی اور سوہن سنگھ کا نام برصغیر کی بر طانوی استعمار کے خلاف انقلابی جدو جہد کا ایک زریں باب ہے۔سوہن سنگھ نے اپنی آپ بیتی بھی لکھی جو اردو زبان میں جیون سنگرام کے نام سے چھپ چکی ہے۔