Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
شکار کے نام پر ہماری خوراک کے محافظ پرندوں کا جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اس سے دردناک بات اور کیا ہوگی؟ سائبریا سے آئے مہمان پرندے ہمارے لیے خدا کی رحمت سے کم نہیں ہیں۔ یہ نا صرف ماحول میں قدرتی طور پر ایک خوشگوار احساس ہیں بلکہ یہ ہماری فصلوں کی مختلف حشرات سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر پرندوں کی خوراک ٹڈیاں اور دیگر حشرات ہیں جو فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
فصلوں میں موجود یہ پرندے ہمارے اناج کے لیے گارڈز سے کم نہیں۔ ایک مادہ ٹڈی 200 سے 1200 انڈے دیتی ہے۔ اور یہ ایک سال میں اپنی تین نسلیں پروان چڑھا سکتی ہے۔ سائبریا سے آئے مہمان پرندے اور مقامی پرندے ناصرف اس ٹڈی کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ٹڈیوں کی تعداد بڑھنے کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی جنوری 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ میں ٹڈی دل صرف ایک دن میں 2500 لوگوں کی خوراک ہڑپ کر رہی تھی۔ شمالی افریقہ میں 2003 اور 2005 کے ٹڈی دل کے حملے سے افریقہ قحط زدہ علاقہ بن گیا تھا۔ اس حملے پر قابو پانے کے لیے 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ کے اخراجات آئے تھے اور 2.5 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھگتنا پڑا تھا۔
ٹڈی دل صرف چند منٹوں میں سبزہ چٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسکی رفتار 90 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں یہ 160 کلومیٹر تک کے فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ اسوقت تک سب سے بڑا ٹڈی دل افریقہ میں دیکھا گیا جسکی لمبائی 60 کلومیٹر اور چوڑائی 40 کلو میٹر تک تھی۔
پاکستان میں ٹڈی دل افریقہ سے براستہ ایران آئی ہے گو کہ اسکا حجم افریقہ کی طرح بڑا نہیں مگر اس چھوٹے سے لشکر نے بھی پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
شکار کے نام پر پاکستان میں عرصہ دراز سے مہمان اور مقامی پرندوں کا قتل عام جاری ہے۔ غیر قانونی اقدام کے باوجود پاکستان کے اکثر علاقوں خاص طور پہ بلوچستان اور کوہ سلیمان رینج میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ موثر قانون اس پر عمل درآمد اور سخت سزائیں نا ہونے کی وجہ سے معصوم پرندوں کا شکار کر کہ ماحول کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ہم اپنی خوراک کے محافظ پرندوں کو اپنی خوراک بنا کر ایسی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کے نتائج خوفناک ہوں گے۔ یہ غلطی ہمارے زراعت کے شعبہ کو ختم کر سکتی ہے۔ اور جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی زراعت سے منسلک ہو تو یہ بات سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
یہ وقت حکومت کے لیے موثر اقدامات کرنے کا ہے۔ صرف ٹڈی مار سپرے کرنا کافی نہیں۔ بلکہ معصوم پرندوں کے قاتلوں کو کڑی سزائیں دینے کے ساتھ پرندوں کی افزائش کے اقدامات کرنے کے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر ابھی بھی ہم نے ہوش سے کام نا لیا تو آنے والے چند سالوں میں بھوک افلاس ہمارا انتظار کر رہی ہے جس پر ناچتی ٹڈی ہمارا منہ چڑائے گی۔ اور ہمارے احمق ہونے کی گواہی دے گی۔
شکار کے نام پر ہماری خوراک کے محافظ پرندوں کا جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اس سے دردناک بات اور کیا ہوگی؟ سائبریا سے آئے مہمان پرندے ہمارے لیے خدا کی رحمت سے کم نہیں ہیں۔ یہ نا صرف ماحول میں قدرتی طور پر ایک خوشگوار احساس ہیں بلکہ یہ ہماری فصلوں کی مختلف حشرات سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر پرندوں کی خوراک ٹڈیاں اور دیگر حشرات ہیں جو فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
فصلوں میں موجود یہ پرندے ہمارے اناج کے لیے گارڈز سے کم نہیں۔ ایک مادہ ٹڈی 200 سے 1200 انڈے دیتی ہے۔ اور یہ ایک سال میں اپنی تین نسلیں پروان چڑھا سکتی ہے۔ سائبریا سے آئے مہمان پرندے اور مقامی پرندے ناصرف اس ٹڈی کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ٹڈیوں کی تعداد بڑھنے کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی جنوری 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ میں ٹڈی دل صرف ایک دن میں 2500 لوگوں کی خوراک ہڑپ کر رہی تھی۔ شمالی افریقہ میں 2003 اور 2005 کے ٹڈی دل کے حملے سے افریقہ قحط زدہ علاقہ بن گیا تھا۔ اس حملے پر قابو پانے کے لیے 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ کے اخراجات آئے تھے اور 2.5 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھگتنا پڑا تھا۔
ٹڈی دل صرف چند منٹوں میں سبزہ چٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسکی رفتار 90 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں یہ 160 کلومیٹر تک کے فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ اسوقت تک سب سے بڑا ٹڈی دل افریقہ میں دیکھا گیا جسکی لمبائی 60 کلومیٹر اور چوڑائی 40 کلو میٹر تک تھی۔
پاکستان میں ٹڈی دل افریقہ سے براستہ ایران آئی ہے گو کہ اسکا حجم افریقہ کی طرح بڑا نہیں مگر اس چھوٹے سے لشکر نے بھی پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
شکار کے نام پر پاکستان میں عرصہ دراز سے مہمان اور مقامی پرندوں کا قتل عام جاری ہے۔ غیر قانونی اقدام کے باوجود پاکستان کے اکثر علاقوں خاص طور پہ بلوچستان اور کوہ سلیمان رینج میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ موثر قانون اس پر عمل درآمد اور سخت سزائیں نا ہونے کی وجہ سے معصوم پرندوں کا شکار کر کہ ماحول کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ہم اپنی خوراک کے محافظ پرندوں کو اپنی خوراک بنا کر ایسی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کے نتائج خوفناک ہوں گے۔ یہ غلطی ہمارے زراعت کے شعبہ کو ختم کر سکتی ہے۔ اور جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی زراعت سے منسلک ہو تو یہ بات سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
یہ وقت حکومت کے لیے موثر اقدامات کرنے کا ہے۔ صرف ٹڈی مار سپرے کرنا کافی نہیں۔ بلکہ معصوم پرندوں کے قاتلوں کو کڑی سزائیں دینے کے ساتھ پرندوں کی افزائش کے اقدامات کرنے کے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر ابھی بھی ہم نے ہوش سے کام نا لیا تو آنے والے چند سالوں میں بھوک افلاس ہمارا انتظار کر رہی ہے جس پر ناچتی ٹڈی ہمارا منہ چڑائے گی۔ اور ہمارے احمق ہونے کی گواہی دے گی۔
شکار کے نام پر ہماری خوراک کے محافظ پرندوں کا جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اس سے دردناک بات اور کیا ہوگی؟ سائبریا سے آئے مہمان پرندے ہمارے لیے خدا کی رحمت سے کم نہیں ہیں۔ یہ نا صرف ماحول میں قدرتی طور پر ایک خوشگوار احساس ہیں بلکہ یہ ہماری فصلوں کی مختلف حشرات سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر پرندوں کی خوراک ٹڈیاں اور دیگر حشرات ہیں جو فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
فصلوں میں موجود یہ پرندے ہمارے اناج کے لیے گارڈز سے کم نہیں۔ ایک مادہ ٹڈی 200 سے 1200 انڈے دیتی ہے۔ اور یہ ایک سال میں اپنی تین نسلیں پروان چڑھا سکتی ہے۔ سائبریا سے آئے مہمان پرندے اور مقامی پرندے ناصرف اس ٹڈی کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ٹڈیوں کی تعداد بڑھنے کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی جنوری 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ میں ٹڈی دل صرف ایک دن میں 2500 لوگوں کی خوراک ہڑپ کر رہی تھی۔ شمالی افریقہ میں 2003 اور 2005 کے ٹڈی دل کے حملے سے افریقہ قحط زدہ علاقہ بن گیا تھا۔ اس حملے پر قابو پانے کے لیے 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ کے اخراجات آئے تھے اور 2.5 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھگتنا پڑا تھا۔
ٹڈی دل صرف چند منٹوں میں سبزہ چٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسکی رفتار 90 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں یہ 160 کلومیٹر تک کے فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ اسوقت تک سب سے بڑا ٹڈی دل افریقہ میں دیکھا گیا جسکی لمبائی 60 کلومیٹر اور چوڑائی 40 کلو میٹر تک تھی۔
پاکستان میں ٹڈی دل افریقہ سے براستہ ایران آئی ہے گو کہ اسکا حجم افریقہ کی طرح بڑا نہیں مگر اس چھوٹے سے لشکر نے بھی پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
شکار کے نام پر پاکستان میں عرصہ دراز سے مہمان اور مقامی پرندوں کا قتل عام جاری ہے۔ غیر قانونی اقدام کے باوجود پاکستان کے اکثر علاقوں خاص طور پہ بلوچستان اور کوہ سلیمان رینج میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ موثر قانون اس پر عمل درآمد اور سخت سزائیں نا ہونے کی وجہ سے معصوم پرندوں کا شکار کر کہ ماحول کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ہم اپنی خوراک کے محافظ پرندوں کو اپنی خوراک بنا کر ایسی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کے نتائج خوفناک ہوں گے۔ یہ غلطی ہمارے زراعت کے شعبہ کو ختم کر سکتی ہے۔ اور جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی زراعت سے منسلک ہو تو یہ بات سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
یہ وقت حکومت کے لیے موثر اقدامات کرنے کا ہے۔ صرف ٹڈی مار سپرے کرنا کافی نہیں۔ بلکہ معصوم پرندوں کے قاتلوں کو کڑی سزائیں دینے کے ساتھ پرندوں کی افزائش کے اقدامات کرنے کے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر ابھی بھی ہم نے ہوش سے کام نا لیا تو آنے والے چند سالوں میں بھوک افلاس ہمارا انتظار کر رہی ہے جس پر ناچتی ٹڈی ہمارا منہ چڑائے گی۔ اور ہمارے احمق ہونے کی گواہی دے گی۔
شکار کے نام پر ہماری خوراک کے محافظ پرندوں کا جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اس سے دردناک بات اور کیا ہوگی؟ سائبریا سے آئے مہمان پرندے ہمارے لیے خدا کی رحمت سے کم نہیں ہیں۔ یہ نا صرف ماحول میں قدرتی طور پر ایک خوشگوار احساس ہیں بلکہ یہ ہماری فصلوں کی مختلف حشرات سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر پرندوں کی خوراک ٹڈیاں اور دیگر حشرات ہیں جو فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
فصلوں میں موجود یہ پرندے ہمارے اناج کے لیے گارڈز سے کم نہیں۔ ایک مادہ ٹڈی 200 سے 1200 انڈے دیتی ہے۔ اور یہ ایک سال میں اپنی تین نسلیں پروان چڑھا سکتی ہے۔ سائبریا سے آئے مہمان پرندے اور مقامی پرندے ناصرف اس ٹڈی کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ٹڈیوں کی تعداد بڑھنے کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی جنوری 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ میں ٹڈی دل صرف ایک دن میں 2500 لوگوں کی خوراک ہڑپ کر رہی تھی۔ شمالی افریقہ میں 2003 اور 2005 کے ٹڈی دل کے حملے سے افریقہ قحط زدہ علاقہ بن گیا تھا۔ اس حملے پر قابو پانے کے لیے 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ کے اخراجات آئے تھے اور 2.5 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھگتنا پڑا تھا۔
ٹڈی دل صرف چند منٹوں میں سبزہ چٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسکی رفتار 90 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں یہ 160 کلومیٹر تک کے فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ اسوقت تک سب سے بڑا ٹڈی دل افریقہ میں دیکھا گیا جسکی لمبائی 60 کلومیٹر اور چوڑائی 40 کلو میٹر تک تھی۔
پاکستان میں ٹڈی دل افریقہ سے براستہ ایران آئی ہے گو کہ اسکا حجم افریقہ کی طرح بڑا نہیں مگر اس چھوٹے سے لشکر نے بھی پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
شکار کے نام پر پاکستان میں عرصہ دراز سے مہمان اور مقامی پرندوں کا قتل عام جاری ہے۔ غیر قانونی اقدام کے باوجود پاکستان کے اکثر علاقوں خاص طور پہ بلوچستان اور کوہ سلیمان رینج میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ موثر قانون اس پر عمل درآمد اور سخت سزائیں نا ہونے کی وجہ سے معصوم پرندوں کا شکار کر کہ ماحول کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ہم اپنی خوراک کے محافظ پرندوں کو اپنی خوراک بنا کر ایسی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کے نتائج خوفناک ہوں گے۔ یہ غلطی ہمارے زراعت کے شعبہ کو ختم کر سکتی ہے۔ اور جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی زراعت سے منسلک ہو تو یہ بات سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
یہ وقت حکومت کے لیے موثر اقدامات کرنے کا ہے۔ صرف ٹڈی مار سپرے کرنا کافی نہیں۔ بلکہ معصوم پرندوں کے قاتلوں کو کڑی سزائیں دینے کے ساتھ پرندوں کی افزائش کے اقدامات کرنے کے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر ابھی بھی ہم نے ہوش سے کام نا لیا تو آنے والے چند سالوں میں بھوک افلاس ہمارا انتظار کر رہی ہے جس پر ناچتی ٹڈی ہمارا منہ چڑائے گی۔ اور ہمارے احمق ہونے کی گواہی دے گی۔