Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
اعظم خان ناظم دراوڑ فورٹ نے ھمیں چائے پلائی اور وہ چولستان جانے کی تیاری کرنے لگ گئے اور ھم نے دراوڑ فورٹ کی فوٹوگرافی شروع کر دی بڑا دروازہ راھداریاں، کچھ حصہ گرا ھوا تھا کچھ قائم تھا، کہیں بھی ایسے اثار نہیں تھے کہ کوئی اس کی دیکھ بھال کر رھا ھے، فورٹ کی چھت سے اردگرد بہت خوبصورت مناظر ھیں، ایک طرف خوبصورت مسجد ھے اس کے گنبد اور محراب مسجد کو اور خوبصورت بنارھے تھے۔ پھر ھمیں نواب صاحب کی فیملی کا قبرستان نظر آگیا، ریاض بلوچ سر یہ ھے بہت شاندار پر اندر جانے کی اجازت نہیں ھے، کوئی بات نہیں آپ قلعہ دیکھیں میں باھر سے ایک تصویر بنا کر آیا، آگے آیا تو ایک بابا جی بطور گارڈ تالہ لگائے بیٹھے تھے حال احوال پوچھا۔
بابا جی یہاں کوئی چائے کا انتظام ھے چائے تو پلائیں سو روپے ان کو پیش کئے وہ چائے کیلئے جانے لگے تو پوچھا اس دروازے کے اندر نواب خاندان کی قبریں ھیں۔ بابا جی کیا دیکھ سکتے ھیں ، جی ضرور پر تصویر بنانے کی اجازت نہیں کوئی بات نہیں دکھا دیں بابا جی نے تالا کھولا خود چائے لینے چلے گئے پھر میں تھا اور خوبصورت قبریں، مزار، بچوں کی قبریں بڑوں کی قبریں ان پر بہت خوبصورت کام ھوا ھوا تھا اندر ھال میں بہت ساری قبریں تھیں جن پر گولڈن رنگ نمایاں تھا اور باھر اکیلی اکیلی قبریں تھی جن کی عمارات اینٹ اور نیلی ٹائل سے بنی ھوئیں تھیں۔ اگر آپ کا جانا دراوڑ فورٹ ھو تو فورٹ بے شک نہ دیکھیں پر یہ قبرستان دیکھنا بہت ضروری ھے۔ جلدی جلدی کام کیا اور باھر آگیا بابا جی چائے لے آئے ، بابا جی آپ چائے پیئں مجھے اجازت دیں، صاب تسی بہت اچھے ھو فوٹو بنادے تے بڑی سختی ھونی سی اور اب ھم اعظم خان صاحب کی ڈبل کیبن گاڑی میں چولستان کے اندر داخل ھورھے تھے فوجی چوکی سے اجازت لی اور اندر چولستان میں بے شمار اونٹ ھمارے انتظار میں تھے۔
مختلف خاندانوں سے ملے فوٹوگرافی کی اونٹوں کے ساتھ سفر کیا ٹوبہ پر انکی تصاویر اتاریں، چولستان کی دنیا مختلف ھے۔ھر گھر نے اونٹنی کے دودھ کی کھیر کی دعوت دی ساتھ بتایا اونٹنی کا دودھ تھوڑا نمکیں ھوتا ھے۔ چولستان کی خوبصورتی اور زندگی کو عکس بند کیا اور واپس دراوڑ فورٹ کو چل پڑے، کھانا تیار تھا۔ اندھیرا ھوچکا تھا دو طرح کے سالن تھے جو کہ اعظم خان صاحب کے پاس پڑے تھے مکمل اندھیرا تھا، ایک خشک روٹی میں نے کھائی ایک بٹ صاحب نے ھم دونوں مسکرا رھے تھے کیونکہ سالن ھماری پہنچ سے باھر تھا، اعظم خان صاحب اظہر بھائی اور روٹی لیں بھائی بغیر سالن مشکل ھورھی ھے کیوں سالن ختم ھوگیا جی پتہ نہیں رکھا کہاں ھے پھر اندر سے لالٹین منگوائی گئی اور نئے سرے سے کھانا کھانا شروع کیا، اب ریاض بلوچ گاڑی چلا رھا تھا اور ھم بہاولپور واپس جارھے تھے۔ صبح اٹھے بہاولپور لائبریری، میوزیم، بازار، وکٹوریہ ھسپتال سب کی فوٹوگرافی کی اور رات کا کھانا کھایا۔ قاضی صاحب جو کہ میوزیم کے انچارچ بھی تھے اور بہت ادبی انسان تھے انکے گھر پر کھایا، اور واپسی کی راہ لی۔
جھنگ روڈ پر رک کر بلوچستان ھوٹل سے روش اور نمکین گوشت کھایا شدید لذیذ چیز ھے واقعی بلوچستان کی یاد دلوا دی، اور پھر میوزک تھا بٹ صاحب تھے اور لانگ ڈرائیو، ایک نابھولنے والا سفر، تیس سال سے فوٹوگرافی کے سفر میں ھوں اس سفر میں پہلا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اس کو زیادہ اھمیت نہیں دی۔ بلکہ اھمیت بنتی بھی نہیں تھی۔ شکریہ پاکستان اور عوام پاکستان ھمیشہ خلوص، محبت اور چاھت سے پیش آنے کا۔ ھم نے تو ایف آئی آر بھی درج نہیں کرائی۔ کیونکہ پہلے سب اچھی مسافتوں کا شکریہ بھی تو ادا نہیں کیا تھا،
بٹ صاحب سے دوستی اور گہری ھوگئی کیونکہ موت کو آتے اور جاتے ایک ساتھ دیکھا تھا۔
کبھی کبھی بٹ صاحب کا فون آتا ھے آقا کوئی باریک جلیبیاں کھانی ھیں تو آجائیں۔ دیدار ھی کرادیں۔ یوں یہ ایک سفر اختتام پذیر ھوا اور الحمدللہ اگلے سفر برائے فوٹوگرافی کی تیاری ھے۔