آصف میرے دوست۔ تمھارا تو دعویٰ تھا کہ ’’میرے دن گزر رہے ہیں۔‘‘پھر تم ’’آتش فشاں پر کھلے گلاب ‘‘ ہاتھ میں لیے کون سے ’’اسم اعظم کی تلاش میں‘‘ نکل کھڑے ہوئے ہو کہ تمھارا ’’عالم ایجاد‘‘ بھی ’’نگاہِ آئینہ ساز میں ‘‘ کھٹکنے لگا ۔ اب کون ہے جوتمھاری طرح ’’شہر بیتی‘‘ لکھے گا اور ’’شہر ماجرا‘‘ کا قصہ ہمیں سنائے گا ۔ ہمارے لیے تمھارے بعد بھی ’’چیزیں اور لوگ‘‘ وہی ہیں مگر ’’ایک آدمی کی کمی ‘‘ہمیں ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی ۔
تم ڈپٹی نذیر احمد، شاہد احمد دہلوی اور اسلم فرخی کی آخری بڑی نشانی تھے۔ اب ہم میں سے کون ہے جو پدرم سلطان بودم کا دعویٰ کر سکے ۔
میرا دل دکھ سے بھر گیا ہے اور مجھے الفاظ نہیں سوجھ رہے سو مجبوراً اسداللہ خاں غالب کے لفظوں کا سہارا لے رہا ہوں۔ وہی غالب جو تمھاری اماں کے پردادا اردو ناول کے سرخیل ڈپٹی نذیر احمد کے سینئر معاصر تھے ۔ ویسے ہی سینئر معاصر جیسے تم میرے تھے ۔
لازم تھاکہ دیکھومرا رستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں ؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’’قیامت کو ملیں گے ‘‘
کیا خوب قیامت کا ہے گو یا کوئی دن اور
ہاں ‘ آئے فلکِ پیر !جواں تھا ابھی ’’آصف‘‘
کیا تیر ا بگڑ تا ‘ جونہ مرتاکوئی دن اور ؟
تم کونسے ایسے تھے کھرے ، دادو ستد کے ؟
کرتا ملک الموت تقاضاکوئی دن اور
(پسِ نوشت)
کورونا وبائی صورتحال کی وجہ سے سفر میں آسانیاں نہیں ورنہ کم از کم تمھارے جنازے کو تو کندھا دے دیتا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھارا
یوسف خشک