استعارہ ہمیشہ معانی کی قوت پر دلالت کرتا ہے۔ تاریخ میں کئی افراد اپنے اہم کارناموں اور مخصوص مناقب کی بنیاد پر استعاراتی حیثیت کے حامل ہیں۔ دراصل ان افراد کے اہم کارنامے اور نمایاں کردار مسلمہ ہوتا ہے کہ ان کا نام آتے ہی ذہن ان کے کردار اور کارناموں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ تاریخ ایسے افراد کی استعاراتی حیثیت سے بھری پڑی ہے۔ حضرت عمرِ فاروق عدل کا استعارہ ہیں، حضرت علی المرتضی جرات اور بہادری کا استعارہ ہیں، حضرت امام حسین آمرانہ قوت کے خلاف مزاحمت اور حریت کا استعارہ ہیں۔ اس کے برعکس یزید ظلم، سفاکی اور غلاظت کا استعارہ ہے۔
خلافتِ بنو امیہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک ایسی شخصیت ہیں جنھیں عدل و انصاف کے حوالے سے عمرِ ثانی کہا جاتا ہے یعنی عمربن عبدالعزیز اموی سلطنت میں عدل کا ایک استعارہ ہیں۔
عمر بن عبدالعزیز کا شمار ایسے سلاطین میں ہوتا ہے جو نیک شگونی کا استعارہ ہونے کے ناطے زمانے کو ایک قدم ترقی دے کر بہتر انسانی آماجگاہ کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں امور کی باگ پھیر کر خلافتِ راشدہ کے جاں بخش ماحول سے ملا دی یہی وجہ ہے کہ مورخین نے انھیں مجددِ عہدِ خلفائے راشدین سے معنون کیا ہے۔
عمر بن عبدالعزیز اموی بادشاہ عبدالملک کے بھتیجے اور مصر کے گورنر عبدالعزیز کے فرزند تھے۔ ان کی کنیت ابو حفص ہے اور والدہ حضرت عمر خطاب کے بیٹے عاصم کی صاحبزادی ہیں۔ علامہ ابنِ جوزی نے بہ سند لکھا ہے کہ ایک رات حضرت عمر مدینہ کا گشت لگا رہے تھے کہ ایک گھر سے آواز سنی ماں بیٹی کو کہتی ہے کہ دودھ میں پانی ملادو جب کہ بیٹی کا ردعمل یہ تھا کہ امیرالمومنین نے اس فعل کی ممانعت کی ہے اور عالمِ خلوت میں ان کی نافرمانی کا داغ نہیں لگا سکتی۔ اس گفتگو کے بعد اس گھر کے حالات معلوم کیے تو علم ہوا کہ گھر میں صرف ماں بیٹی ہیں ۔ ماں بیوہ ہے اور بیٹی کنواری ہے۔ حضرت عمر نے اپنے تمام بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ اگر مجھے نکاح کی ضرورت ہوتی تو خود اس لڑکی سے نکاح کر لیتا اگر تم میں کوئی نکاح کرنا چاہے تو اس بیٹی کو حقِ زوجیت دے سکتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق کے بیٹے عاصم نے اس لڑکی سے نکاح کر لیا اور اسی لڑکی سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی والدہ امِ عاصم پیدا ہوئیں۔
علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز مدینہ میں پیدا ہوئے، قرآن مجید حفظ کیا اور بعد میں مصر میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ میمون بن مروان کا قول ہے کہ وہ اس قدر حدیث کے ماہر اور مجتہد عالم تھے کہ بڑے بڑے علما ان سے مشکل مسائل کے بارے سوال کرتے تھے
عمر بن عبدالعزیز پہلے خناصرہ کے گورنر تھے بعد میں انھیں مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ مدینہ کی گورنری کے زمانہ میں مسجدِ بنوی کو نئے آب و رنگ سے مزین کیا اور مسجد کے پاس ازواجِ مطہرات کے حجرےاور دوسرے مقدس مقامات کو مسجد میں شامل کیا۔ مسجد نبوی کے چاروں کنارے محراب تعمیر کی اور پرنالے بنوائے۔ اس کے علاوہ اطرافِ مدینہ میں جن مساجد میں حضور اکرم نے نمازیں ادا کی ان کی تعمیر کی طرف توجہ دی۔
جب خلیفہ مقرر ہوئے تو ان کے سامنے دو اہم امور تھے۔ ایک بنوامیہ کی ناجائز کارروائیوں کے ذریعے عوام کی جاگیرات پر قبضہ اور دوسرا حق گوئی اور صداقت کا استحصال تھا۔ امورِ خلافت میں کئی اور اہم کارناموں میں یہ ان دو امور کا خاتمہ سرفہرست ہے۔ سلاطینِ بنو امیہ نے رعایا کے قبضے میں زمینوں کو چھین کر اپنے خاندان کے افراد کو جاگیر میں دے رکھی تھیں۔ عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے یہ تمام مقبوضہ زمینیں عام لوگوں کو دلوائیں جس پر خاندان کے تمام لوگ برہم بھی ہوئے اور شدید ردعمل بھی سامنے آیا۔ اس اجتہادی فعل پر تمام خاندان نے امِ عمر کو جو عمر بن عبدالعزیز کی پھوپھی تھی اپنا سفیر مقرر کر کے بھیجا انھوں نے حضرت عمر کے پاس جا کر بتایا کہ اس کارنامے سے تمام خاندان برہم ہے اور مجھ کو ڈر ہے کہ عام بغاوت نہ ہو جائے اور ہنگامہ برپا ہو جائے اس پر عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ میں قیامت کے سوا کسی اور دن سے نہیں ڈرتا۔ ام عمر مایوس ہو کر واپس چلی گئی۔
عمر بن عبدالعزیز کو تمام خاندان میں ابنِ سلیمان سے محبت تھی۔ وہ اپنی جاگیر کی سند لے کر آئے اور کہا مجھ سے تو نہ چھینیں عمر بن عبدالعزیز نے پوچھا پہلے یہ زمین کس کے قبضہ میں تھی؟ بولے کہ ججاج کے۔ فرمایا تو حجاج کی اولاد کا حق ہے۔ تم کون ہوتے ہو؟ ابن سلیمان نے کہا اصل میں یہ زمین عام مسلمانوں کی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا تو عام مسلمانوان کو ملنی چاہیے۔ ابنِ سلیمان رونے لگے مزاحم نے کہا امیرالمومنین آپ ابنِ سلیمان کے ساتھ یہ برتاو کر رہے ہیں فرمایا ہاں میں ابنِ سلیمان کو اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں اور میں اپنے نفس کے ساتھ بھی یہی برتاو کرنا چاہتا ہوں
عمر بن عبدالعزیز نے اپنی جاگیرات کے حوالے سے اعلان کیا کہ صاحبو ان تمام جاگیرات کو جو لوگوں نے میرے خاندان کو دی تھی واپس کرتا ہوں کیونکہ نہ دینے والوں کو دینے کا حق تھا اور نہ ہمیں لینے کا یہ کہہ کر تمام جاگیرات کی سندیں کتر کتر کر پھینک دیں۔ ان کے غلام مزاحم سے دیکھا نہ گیا اور بولا کہ اولاد کی معاش کا کیا سامان ہو گا اس پر عمر بن عبدالعزیز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ان کو خدا پر چھوڑتا ہوں
جاگیرات کی واپسی میں سب سے اہم معاملہ باغِ فدک کا تھا۔ جو ان کے قبضہ میں تھا۔ خلافت کے بعد انھوں نے فدک کے بارے رسول اللہ اور خلفائے راشدین کے طرزعمل کا پتہ لگایا تو انکشاف ہوا کہ باغِ فدک مروان نے اپنی جاگیر میں شامل کر لیا تھا جو میرے حصے میں آیا ہے لہذا اعلان کیا کہ باغِ فدک کی جو حالت عہدِ رسالت اور خلفائے راشدین کے دور میں تھی اسی حالت میں لوٹا دیا جائے۔ اور اس کے بارے ابوبکر ابن محمد بن عمر بن جزم کو ایک خط میں تفصیلات بھی لکھیں۔
عمر بن عبدالعزیز کہ مالِ غاصبہ کی واپسی پر اپنے ہی خاندان کے لوگ مخالف ہو گئے مگر وہ اپنے مقصد پر قائم رہے اور یہ بات سامنے آنے لگی کہ ان سے پہلے اموی سلطنت کے افراد نے جو روش اختیار کی وہ شرعاً ناجائز تھی اس سے خاندان کے لوگوں کو اپنا دامن داغ دار نظر آنے لگا اور واضح الفاظ میں کہا کہ ہم اپنے آباواجداد کی تکفیر برداشت نہیں کریں گے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ ہے کہ ایک بار عمر بن عبدالعزیز کے سامنے بہت سی لونڈیاں پیش کی گئی جب کوئی دلفریب لونڈی سامنے سے گزرتی تو عباس بن ولید کہتے اے امیر المومنین اس کو لے لیجیے اس پر حضرت عمر نے فرمایا تم مجھے زنا کی ترغیب دیتے ہو اس پر عباس بن ولید وہاں سے اٹھا اور خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا ایسے شخص کے دروازے پر کیوں بیٹھتے ہو جو تمھارے آباواجداد کو زانی کہتا ہے۔
عمر بن عبدلعزیز کا ایک اہم کارنامہ سفاک اور خون آشام افراد کی معزولی ہے۔ تاریخِ یعقوبی میں لکھا ہے کہ جب جراح کو خراسان کا گورنر مقرر کیا تو حکم دیا کہ بیڑیاں اس طرح نہ ڈالی جائیں کہ نماز ادا کرنے میں مشکل ہو۔ مزید جب جراح کے ظلم و ستم کے ثبوت جمع ہوئے تو اسے خراسان کی گورنری سے معزول کردیا
بنو امیہ کے دفترِ اعمال میں سب سے زیادہ تباہ کرنے والا واقعہ آزادی اور حق گوئی کا استحصال تھا۔ خلیفہ عبدالمک نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ کوئی بھی شخص ان کے اقوال اور افعال پر زبان نہ چلائے اور جو شخص ایسا کرے گا سزا پائے گا۔ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دورِ خلافت میں اس بدعت کا خاتمہ کیا اور دو نہایت متدین اور راست باز آدمی اس امر پر مقرر کیے کہ جہاں مجھ سے غلطی ہو فوری ٹوک دیا کرو اس سے پورے عرب میں بے باکی اور صداقت کی روش عام ہوئی اور لوگ بلاجھجک خلیفہ کے اقوال و اعمال پر نکتہ چینی کرتے تھے۔
ایک بار مسلمہ بن عبدالملک نے ایک گرجا کے متولی پر دعوی درج کیا۔ فریقِ مقدمہ عیسائی تھی اور اجلاس میں حسبِ قاعدہ کھڑا تھا لیکن مسلمہ خاندانی زعم کی وجہ سے بیٹھ کر بات کرنے لگا۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا تمھارا فریقِ مقدمہ کھڑا ہے تم بیٹھ نہیں سکتے اس کے برابر کھڑے ہو جاؤ یا پھر کسی اور کو مقرر کردو جو تمھاری طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے۔ مقدمے کا فیصلہ بھی عیسائی کے حق میں ہوا یعنی گرجا کی زمین عیسائی کو دلوا دی۔
عمر بن عبدالعزیز عدل کے معاملے میں بہت سخت تھے لیکن ان کے عمومی مزاج میں نرمی اور حلم تھا۔ ایک دفعہ رات کے وقت مسجد گئے تو وہاں ایک شخص لیٹا ہوا تھا اتفاق سے عمر بن عبدالعزیز کے پاوں کی ٹھوکر اس شخص کو لگی۔ اس نے جھلا کر کہا کیا تو پاگل ہے؟ عمر بن عبدالعزیز نے کہا نہیں۔ پولیس کے آدمی موجود تھے انھوں نے اس شخص کو گستاخی کی سزا دینا چاہی۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا کیوں اس نے کیا گناہ کیا؟ اس نے صرف استفسار کیا ہے کیا تو پاگل ہے میں نے کہہ دیا نہیں۔
عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دورِ حکومت میں انتظامی امور کے حوالے سے بہت پیشِ رفت کی۔ ڈاک کے محکمے میں بہتری، عصری علوم کی ترقی، تدوین حدیث اور یونانی علوم کو فروغ دیا۔ جن کا احاطہ ایک نشست میں طوالت اختیار کر جائے گا
ان کی عاجزی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں نے مشورہ دیا کہ مدینہ منورہ میں مدفن کا اہتمام کر لیں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا میں اس قابل کہاں ہوں کہ رسول اللہ کی قربت میں مدفن ہو۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش میں مدینہ کی گلیوں کا تنکا ہوتا یا حجاز کا چرواہا ہوتا۔ عمر بن عبدلعزیز جب مرے تو ترکہ میں کل سترہ دینار چھوڑے۔ کفن دفن کے بعد کل دس دینار بچے جو ورثا میں تقسیم ہوئے جب کہ مدینہ کی گورنری کے لیے روانہ ہوئے تھے توایک سو تیس اونٹوں پر ذاتی سازوسامان لے گئے تھے۔