Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ہر وہ شخص جو کبھی نہ کبھی۔۔۔کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی ادارے میں ملازمت کر چکا ہے یا کررہا ہے۔۔وہ بوس (Boss) سے اچھی طرح واقف ہے۔۔یا تو وہ خود بوس رہا ہے یا بوس کا ماتحت۔۔دونوں صورتوں میں اسے بوس کے روئیے مزاج اور سلوک کا اندازہ ہوگا۔۔یا تو اس نے بوس کو بھگتا ہوگا یا لوگوں نے اسے بحیثیت بوس برداشت کیا ہوگا۔۔
عام طور پر لوگوں کے ذہن میں بوس کا تصور ایک بہت ہی سخت مزاج کھردرے روئیے اور ماتحتوں پر رعب جھاڑنے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے والی شخصیت کا سا ہوتا ہے۔۔بہت کم لوگ ایسے ہونگے جن کو اس کے بر خلاف بوس سے واسطہ پڑا ہو۔۔وہ بڑے خوش قسمت ماتحت ہونگے جن کا بوس انسانیت۔۔محبت۔۔شفقت اور پدرانہ اور برادرانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہوگا۔جو کام کے ساتھ ساتھ ماتحتوں کے زاتی مسائل اور ان کی زاتی زندگی اور مشکلات سے واقف ہو اور اس حوالے سے ان سے تعاون کرتا ہو۔۔
ہم بھی ایسے ہی خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں۔۔جن کا بوس ان تمام خوبیوں سے مالامال تھا۔اور جس نے ہمیشہ ماتحتوں کے مسائل کو اہمیت اور ترجیح دی۔۔یہاں میں اپنے ایسے ہی ایک بوس کا زکر خیر کروں گا جو اب اس دنیا میں نہی رہے۔۔۔اور اپنی خوش گوار یادیں چھوڑ گئے ہیں۔۔
۔۔۔جناب مرحوم و مغفور اسلم یار خان صاحب۔۔
آپ ایک بڑے بنک کے بڑے آئی ٹی (کمپیوٹر) ڈویژن کے سینیئر ایگزیکیو ٹیو تھے۔۔اور پاکستان میں کمپیوٹر کے پائنیر میں سے تھے۔۔آپ نے 60s کے زمانے سے اپنے کام کی شروعات کی۔۔ہمیں ان کے ساتھ بیس سال تک کام کرنے کا شرف حاصل رہا۔۔ہم نے ہمیشہ انہیں محبت اور شفقت کرنے والا پایا۔ نہ تو دوسرے بہت سے باسز کی طرح ان کی گردن میں سریہ آیا۔۔اور نہ ہی انہوں نے ہمیں انسان کے بجائے مشین سمجھا۔۔۔
۔۔۔ ہے دل کیلیے موت مشینوں کی حکومت
۔۔۔ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ہم ان کے زیر سایہ کمپیوٹر پروگرامنگ۔۔سسٹمز ڈیزائننگ۔۔اور بڑے بڑے آئی ٹی پروجیکٹس پر کام کرتے رہے۔۔کبھی ٹیم ممبر بن کر اور کبھی ٹیم لیڈر بن کر۔۔جب کبھی موڈ میں ہوتے تو کہتے کہ یہ لوگ ہمارے شہزادے ہیں اور ہمیشہ شہزادوں والا سلوک روا رکھا۔۔اگر انہیں اندازہ ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی پریشان ہے۔تو وہ پریشانی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔۔کہتے تھے کہ کمپیوٹر پروگرامنگ کا کام چونکہ بہت ہی مغز ماری کا کام ہے۔۔لہٰذا اس کیلیے ذہنی سکون اور یک سوئی بہت ضروری ہے۔۔اگر کوئی زہنی پریشانی میں ہو تو وہ کبھی بھی اس کام کو دل سے نہی کرسکتا اور اس سے اچھے نتائج کی امید نہیں کی جاسکتی۔
اکثر ایسا ہوتا تو وہ ہمیں ریلیف دیتے کہ میاں کام تو چلتا رہے گا پہلے جاکر اپنے مسئلے حل کرو۔۔فرماتے کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے چھپانے کے بجائے سب سے پہلے مجھے آکر بتائیں۔اور بے فکر ہوجائیں۔۔باقی معاملات کو میں سنبھال لوں گا۔۔کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے۔۔
اس کے برعکس ایک اور بوس تھے جو ازراہ مذاق کہتے تھے۔۔ کام کروگے تو غلطی ہوگی۔۔غلطی ہوگی تو پکڑ ہوگی۔۔لہٰذا نہ کام کرو۔۔نہ غلطی ہو۔۔نہ پکڑ ہو۔۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔۔
ایک مرتبہ کمپیوٹر سے شیئرز سرٹیفیکیٹس پرنٹ کرنے تھے۔۔اس میں کوئی غلطی رہ گئی۔۔دس ہزار کے لگ بھگ سرٹیفیکیٹس غلط پرنٹ ہوگئے اور کافی نقصان ہوا۔۔۔لیکن اسلم صاحب نے معاملے کو سنبھال لیا اور پروگرامر پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔۔
اکثر ان کے ساتھ سفر کرنے اور ہوٹلوں میں ساتھ رہنے کا موقع بھی ملا۔۔کہتے ہیں کہ انسان کی پہچان سفر میں ہوتی ہے۔۔ہم نے انہیں یہاں بھی ایک اچھا بوس اور شفیق دوست پایا۔۔کبھی لاہور جاتے تو ایک بہت ہی مشہور چائینیز ہوٹل میں ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔۔اور لاہور کی سیر بھی کراتے۔۔اسی طرح ایک مرتبہ اسلام آباد راولپنڈی میں ہمیں دسمبر کی سردیوں میں رات کو ساتھ لیا اور پان کی بہت ہی مشہور دوکان پر لے گئے جس کے ایک سو ایک(101) پان مشہور تھے۔۔اور ایک لمبی سی لسٹ پانوں کی آویزاں تھی۔۔کہنے لگے لو میاں اپنی پسند کا پان کھاو۔۔خود بھی پان کھایا اور ہمیں بھی کھلا یا۔۔خود تو خیر وہ سگریٹ کے بھی عادی تھے۔۔جس سے ہم ہمیشہ گریز اور پرہیز کرتے رہے ورنہ کب کے اللہ کو پیارے ہوگئے ہوتے۔۔
1991-92 کا ذکر ہے ہماری پوسٹنگ مسقط عمان ہوگئی۔۔بنک نے ہمیں کمپیوٹر مینیجر بنا کر بھیجا تھا۔۔ہم نے کمپیو ٹر ڈیپارٹمنٹ بنا دیا اور آپریشنل بھی کردیا مگر آن لائن کمپیوٹرائزیشن سے پہلے ہی کچھ تو اپنی ہوم سکنس کی وجہ سے اور خاص طور پر اپنی والدہ مرحومہ کی وجہ سے جو کہ ہم سے بہت زیادہ ہی لگاو رکھتی تھیں اور ہمارے چلے جانے سے سخت بیمار ہوگئی تھیں۔۔۔ایک دن انہوں نے ہمیں خط لکھا۔۔(واضح رہے کہ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہی تھا۔۔)۔۔ظفر بیٹا میں تمہارے پودوں کا بہت خیال رکھتی ہوں اور روزآنہ پانی دیتی ہوں۔۔جب میں تمہارے پودوں کو پانی دیتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں تمہیں پانی پلا رہی ہوں۔۔
ہم جو پہلے ہی محبت کے مارے لوگ ہیں۔۔اس خط نے ہمارا کلیجہ چیر دیا۔۔وہ دن ہم پر بہت بھاری اور غمگین گزرا۔۔بالآخر ہم نے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔۔کیونکہ پیسہ بہت کچھ تو ہے مگر سب کچھ نہیں۔۔بعض رشتے اور خاص طور پر ماں کا رشتہ ایساہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔۔
مگر واپسی اتنی آسان نہ تھی۔۔لوگ بھی حیران تھے کہ آج تک کسی نے یوں فارن پوسٹنگ نہی چھوڑی۔۔بنک کی ٹاپ منیجمینٹ اور صدر کو قائل کرنا اتنا آسان نہ تھا۔۔ایسے موقع پر اسلم صاحب ہی ہمارے کام آئے اور کسی نہ کسی طرح بنک کے صدر اور بورڈ کو قائل کر ہی لیا۔۔اور یوں ہماری پاکستان واپسی ممکن ہوئ۔۔
واپس آتے ہی ہماری والدہ صاحبہ خوشی سے کھل اٹھیں اور جلد ہی صحتیاب ہوگئیں۔ سب نے کہا ان کو کوئی اور نہیں ظفر کی بیماری تھی۔۔یہی وجہ ہے کہ واپسی کے بعد 1995ء میں ہم نے والدہ کے ساتھ عمرہ کیا۔۔عمرے سے واپسی پر ہم اپنی والدہ کے ساتھ اسلم صاحب کے گھر تبرکات لیکر گئے۔۔اسلم صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ نے ہماری والدہ کا بہت اکرام کیا۔۔ہماری والدہ بھی ان کو ہمیشہ اپنی دعاوں میں یاد رکھتی تھیں۔۔
اسلم صاحب کی انہی باتوں اور حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ جب وہ ہمیں کوئ پروجیکٹ دیتے تھے۔۔۔تو ہم بھی جان مار کے۔۔رات دن ایک کرکے۔۔اور بعض اوقات تو کئی کئی دن گھر چھوڑ کر مسلسل کمپیوٹر پر پروجیکٹ کو حسب منشا مقررہ وقت میں مکمل کرکے دیتے تھے ۔ایسے میں بھی اسلم صاحب کی نوازشیں ہماری ٹیم پر جاری رہتی تھیں۔۔اور وہ ہمارے قیام و طعام اور آرام کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔۔
غرض یہ کہ وہ ہم سب کی ٹینشن اپنے سر لےلیتے تھے اور ہمیں بے فکر ہوکر کام کرنے کا موقع دیتے تھے حالانکہ خود بھی صحت کے مسائل سے دوچار تھے۔۔شوگر کے مریض تھے اور انسولین پر گزارہ تھا ساتھ ہی فشار خون اور دل کے بھی ستائے ہوئے تھے۔۔
ان کی شفقت کا تقاضا تھا کہ 2005ء میں جب ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ حج سے واپس آئے تو ہم لوگ تبرکات لیکر ان کے گھر گئے۔اور یوں ہماری اہلیہ اور اسلم صاحب کی اہلیہ میں ایک تعلق قائم ہوگیا وہ بھی بہت اچھی خاتون ہیں اور آج کل بیماری اور اسلم صاحب کے صدمے سے نڈھال ہیں، اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہوں، آمین۔
ہم نے اپنی 35 سالہ پروفیشنل لائف میں دو بڑے بنکوں کے آئی ٹی ڈویژن میں کام کیا لیکن اسلم صاحب جیسا بوس نہیں دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے گولڈن ہینڈ شیک اور اسلم صاحب نے ریٹائر منٹ لی تو اس کے بعد بھی ہمارا ایک خصوصی تعلق ہمیشہ قائم رہا۔۔
ہم نے بہت سے باسز دیکھے ہیں جن کی گردن میں سریہ آگیا تھا ماتحتوں کو انسان کے بجائے غلام سمجھتے تھے۔۔ان کی بڑی پھوں پھاں تھی۔۔جب آتے تو ایک جلوس ان کے ساتھ ہٹو بچو کی آوازیں لگاتا ہوا چلتا تھا۔۔ان کیلیے لفٹیں روک لی جاتی تھیں۔۔اور آج کل کے وزیروں کی طرح پروٹو کول ہوتا تھا۔۔مگر جب وہ ریٹائر ہوئے تو وہی لوگ ان سے کنی کترانے لگے۔۔
ہم نے انسانیت۔۔محبت اور حسن سلوک کا درس اسلم صاحب سے سیکھا۔۔اسی لیے جب ہمیں بوس بننے کا موقع ملا تو ہم نے بھی اسلم صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی اپنی سی کوشش کی۔۔یہی وجہ ہے کہ اب بھی پرانے بینکوں میں جاتے ہیں تو لوگ محبت اور عزت سے پیش آتے ہیں۔اسلم صاحب کا بھی یہی حال تھا۔۔
اس حوالے سے اگر میں یہاں پی آئی اے کے طیارے کے حالیہ حادثے میں معجزانہ طور بچ جانے والے ایک بینکر کا ذکر خیر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔۔آپ سب کو معلوم ہوگا کہ محترم ظفر مسعود صاحب جو کہ پنجاب بنک کے صدر ہیں۔۔اس حادثے میں معجزانہ طور پر بچ گئے۔۔۔
چونکہ اس کرونہ کی وباء کی وجہ سے لوگ معاشی طور پر پہلے ہی پریشان تھے کہ اوپر سے اداروں نے کرونہ فنڈ کے نام پر تنخواہ میں کٹوتی بھی کردی۔۔جس سے ان کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا۔۔ایسے میں ظفر مسعود صاحب نے اپنے بنک کے ملازمین کیلیے کرونہ وبا کے دوران خدمات انجام دینے پر بونس کا اعلان کردیا۔۔ظاہر ہے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو رمضان اور عید کے موقع پر کافی ریلیف ملا۔۔
یقیناً ان سب نے اور ان کے گھر والوں نے ظفر مسعود صاحب کے حق میں بابرکت ساعتوں میں دعائیں کی ہونگی۔۔اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کا غیبی نظام چلنا شروع ہوجاتا ہے اور ظفر مسعود صاحب بہت ہی حیرت ناک۔۔نا قابل یقین اور معجزانہ طریقے سے بچا لیے جاتے ہیں۔۔
یہ ہے مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کا نتیجہ۔۔
جسے اللہ رکھے۔۔اسے کون چکھے۔۔
چلتے چلتے مزید دو واقعات کا زکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔۔حالانکہ بیس سالوں کی رفاقت میں بیسیوں واقعات ایسے ہیں کہ جو ان کی انسانیت اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔مگر یہ کالم اس بات کا متحمل نہی ہوسکتا کہ سب کا احاطہ کرسکوں۔
عام طور پر بوسز اپنے ماتحت لوگوں کے بچوں کی شادیوں میں کم ہی شریک ہوتے ہیں۔۔مگر اسلم صاحب کا معاملہ مختلف تھا ہمارے تمام کے تمام پانچوں بچوں کی شادیوں میں بنفس نفیس شریک ہوئے۔۔اکثر طبیعت کی خرابی کے باوجود اپنے دونوں صاحبزادوں کے سہارے سے تشریف لائے۔۔اور پرہیز کی وجہ سے کچھ بھی نہ چکھا۔۔بس ہمارے بے حد اصرار پر پان پر اکتفا کیا۔۔حالانکہ اکثر بوسز صرف اپنے ہم پلہ حضرات کی تقریبات میں ہی شرکت پسند کرتے ہیں۔۔
اسی طرح 1983 میں ہمارے والد صاحب کے انتقال پر نہ صرف تعزیت کیلیے گھر تشریف لائے بلکہ جنازہ اور تدفین تک میں ہمارے ساتھ شریک رہے۔۔حالانکہ اکثر بوسز ایسے موقعوں پر صرف فون پر ہی تعزیت کرنا کافی سمجھتے ہیں اور بہت کم گھر پر تعزیت کیلیے آتے ہیں۔مگر جنازے میں شروع سے آخر تک شرکت شاید ہی کوئی بوس کرتا ہو۔۔اسلم صاحب یقیناً ایسے خاص الخاص بوس تھے۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسی رمضان (2020) کے آخری عشرے کی بابرکت ساعتوں میں اسلم صاحب کواپنے پاس بلالیا۔۔ایسی خوش نصیب موت کی تو صرف لوگ تمنا ہی کرسکتے ہیں۔۔مگر یہ نصیب کسی کسی کو ہوتی ہے۔۔یہ صرف خلق خدا کی دعاوں کے طفیل ممکن ہے۔۔کاش کہ لوگ اس بات کو سمجھ جائیں۔۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اسلم صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔۔اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔۔آمین ثمہ آمین۔