تو جناب طے یہ ہوا کہ گھبرا نا نہیں ہے۔ایک ہی دن میں سب سے زیادہ اٹھاسی افراد کی زندگیوں کا چراغ کورونا سے گل ہوجائے لیکن ہمیں اپنی بد احتیاطی کی شمعیں گل نہیں کرنیں۔ اس سے زیادہ اموات تو کسی حادثے میں یا کسی بھی بم دھماکے میں ہوجاتی ہیں تو فکر کی تو کوئی بات نہیں۔۔ اور خیر سے ہم نے کورونا سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے۔ ویسے بھی جناب یہ ’کورونا ورونا‘ تو انگریزو ں کی سازش ٹھہری ہے، اس پر ہی یقین رکھنا ہے۔ جو ہمارے ’جذبہ ایمانی‘ کو ڈگمگانے کے لیے ہمیں عبادت گاہوں سے دور کررہے ہیں۔ جو نہیں چاہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اس کی حمد و ثنا کریں۔ ہمیں تو بغیر دیکھے اور تصدیق کیے اس بات کی بھی تشہیر کرنی ہے کہ دوسری بیماریوں سے آنکھیں بند کرنے والے کو بھی کورونا وائرس کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو ضروری تو نہیں کہ سارے کورونا کے ہی ہوں۔ حکومت تو بس امداد کے نام پر اربوں ڈالر ز بٹو ر کر اپنی تجوریاں بھرنے کے در پے ہے۔ وزیروں اور مشیروں کا ’مثبت ٹیسٹ‘ سن کر ہمیں تو ’منفی خیال‘ ہی آتا ہے۔ ’ہوّا‘ بنا کر رکھ دیا ہے کورونا وائرس کو، چھوٹے بچوں کو ’ ہوُ‘ اور ’اللہ بابا‘ سے ڈرانے کی طرح بڑے بڑھوں کو کورونا سے ڈرایا اور سہمایا جارہا ہے۔مگر یہ’کورونا کا گبر سنگھ‘ اب نہیں ٹک پار ہا۔۔اب جو کرنا ہے کوئی کرلے، ہم تو ایسے ہی سڑکوں پر نکلیں گے، دعوتیں اڑائیں گے، بیٹھکیں لگائیں گے، شادیاں کریں گے، موج میلوں میں پھر گم ہوجائیں گے۔
ڈھائی مہینے سے کورونا کورونا کا پہاڑا پڑھ پڑھ کر کان پک گئے ہیں۔بازار، ایف ایم، نیوز چینلز، کمرشلز سب ابا جی بن کر نصیحتیں کررہے ہیں۔ یہ کرو یہ نہ کرو، کوئی حد ہوتی ہے، ہمارے تو کسی دور دور کے تو کیا آس پڑوس کے بھی کسی کو کورونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی۔ پھر پتا نہیں کیوں ہنگامہ برپا ہے۔ اس وبا کے خوف نے میٹھی عید کے رنگوں کو پھیکا کیا۔ نہ رمضان کی روایتی رونقیں دیکھنے کو نصیب ہوئیں نہ عید کی، بچے بڑے سبھی گھروں کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں۔ عجیب گھن چکر بنا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی ذرا یہ بھی سوچے کہ کیا ہمیں اچھا لگتا ہے کہ آدھا شٹر گری دکان کے سامنے شتر مرغ کی طرح جھک کر ضرورت کی اپنی چیزیں کی خریداری کرنے میں؟ ؟ کہیں سے بھولی بھٹکی پولیس موبائل آجائے تو اس آدھے شٹر سے بھی چلے جاتے ہیں۔ یہی نہیں عید پر لاک ڈاؤن نرم کیا تھا ناں؟ تو کوئی ہمیں یہ بھی سمجھا دے کہ یہ کورونا بہادر کیا چھٹیوں پر نہیں کاٹتے ہمیں تو لگتا ہے کہ کورونا کی رسی لپیٹ پر ہم سب کو لٹو کی طرح خوب گھمایا جارہا ہے۔
ارے سب چھوڑیں اب تو دکانوں پر جراثیم کش ادویات اور ہینڈ سینٹی ٹائزر بھی بڑی آسانی کے ساتھ مل رہے ہیں۔ پھر کل ملا کر یہ سمجھیں کہ ہمیں نہیں خوف زدہ ہونا اس سے۔خدشات اور شہبات کے بادل چاہے کتنے بھی گہرے ہوں، ہم تو انہیں پرے دھکیل چکے ہیں۔ اگر یہ واقعی کوئی سنجیدہ مسئلہ ہوتا تو اب کیوں نہیں لگ رہے جگہ جگہ ناکے، کیوں نہیں پولیس اہلکار پوچھ رہے ، روک روک کر کہ ماسک لگایا کہ نہیں؟ کہاں جارہے ہو؟ کیوں جارہے ہو؟ کیا ہم بھول گئے کہ جب اس وبا نے ہمارے یہاں کا رخ کیا تھا تو کس قدر سخت اقدامات تھے۔ اب ذرا موازنہ کرلیں خود اگر حالات کا یقین نہ ہو۔
ہمارا تو یقین ہے کہ ہوٹلز اور ریستوران میں بھی ’ٹیک اوے‘ کی سہولت ختم کرکے سب کو وہیں مل بیٹھ کر ایک ہی چھت تلے کھانے پینے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ پھر دیکھیں ناں سماجی رابطے میں فاصلوں کی دوریاں بھی آپ دور ہوئیں۔ یقین نہ آئے تو چن چی رکشہ یا کسی پک اپ میں کندھے سے کندھا مل کر بیٹھنے والے مسافر وں کو ہی دیکھ لیں۔پھر جی ٹرینیں اور ہوائی جہازوں کو ہی دیکھ لیں جو اِدھر سے اُدھر منزل تک سفر کررہے ہیں۔ اتنی سی بات ہے جناب سمجھ لینی چاہیے کہ اس منحوس کورونا کا الحمد اللہ صفایا ہوچکا ہے۔ بلکہ ہم سب فخریہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ گڈ بائے کورونا۔
تو جناب اوپر بیان کیے گئے تمام دلائل اگر کوئی آپ سے فرمائے تو کان کھول کر سن لیں کان نہ دھریے گا۔ کیونکہ جناب یہ ’فرمودات‘ اور ’عظیم خیالات‘ آپ کو کسی نہ کسی ایسے شخص کے لبوں سے مل جائیں جو اپنی ایک الگ دنیا کے سحر میں ہیں۔ یہ مان لیں اور جان لیں کہ کورونا ایک تلخ حقیقت ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا اپنے نہیں کسی غیر ملکی میڈیا کی ہی کوئی نیوز دیکھ لیں جس کے ذریعے پتا لگ جائے گا کہ ذرا سی نرمی کیا برتی کہ چند دنوں میں کورونا وائرس کس تیزی کے ساتھ پھیلا ہے اور کتنے موت کی نیند سو گئے ہیں۔ تو دلائل اور توجیحات پیش کرنے والے نادان دوستوں سے دور رہیں، کوئی کچھ ایسا بولے تو وہی کریں جو مصباح الحق ہر گیند کے ساتھ کرتے تھے۔ صرف او ر صرف چپ چاپ اور سیدھے بلے کے ساتھ ’ٹُک ٹُک‘ ۔جبھی تو اتنے لمبے عرصے تک ناصرف کھیل گئے بلکہ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔