اس وقت بہت سی وبائیں ہمارے ارد گرد جمع ہو گئی ہیں خود غرضی کی وبا، عدم برداشت کی وبا، سیاسی رواداری کے نہ ہونے کی وبا، کام کوئی کرے کریڈٹ کوئی لے جائے کی وبا، سیاسی اسکورنگ کی وبا، وبا کے ذریعے مال بنانے کی وبا، اور پھر مستحق تک امداد نہ پہنچنے دینے کی وبا، وبا کی امداد کے ذریعے اپنے حلقے میں قدم جمانے کی وبا لاک ڈاون yes اور لاک ڈاون no کی وبا، جب ہم کرونا جیسی وبا کو بار بار ہاتھ دھو کر، فاصلے بڑھا کر اور گھروں میں قید ہو کر بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں تو پھر کیا حرج ہے اگر ہم ایک بہتر مستقبل کے لئے اپنی اپنی اناؤں کو قربان کر کے ایک روشن پاکستان کے لیے کام کریں اور اس کام کے لیے پہل حکومت کو کرنا ہوگی، یاد رہے کہ کرونا ختم ہو گیا اور دلوں کی نفرت ویسی ہی رہی تو پھر ہم نے کچھ بھی نہیں سیکھا مہربان ذات اگر ناراض ہو گئی تو پھر بربادی خود ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جائے گی اور ہاں خاص بات اگر ہم سب نے احتیاط نہ کی تو کرفیو سے بھی مسلہ حل نہیں ہو گا۔ اللہ نہ کرے اگر کرفیو لگانا پڑ جائے تو لوگوں تک راشن پہچانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر علاقے والوں کو ان کے تھانے یا کونسلر جو بہتر لگے ان کا نمبر دے دینا چاہیے جس کو راشن چاہیے ہو امیر غریب کی تفریق کے بغیر وہ ان نمبروں پر فون کرئے اور اس تک راشن پہنچ جائے گا اس میں حکومت کے ساتھ تمام فلاحی اداروں کو ساتھ ملایا جاسکتا ہے تھانے میں یہ نمایندے اپنا آفس بنائیں اور ان کے نمبر علاقے میں تقسیمِ کر دئیے جائیں پولیس اسٹیشن میں آفس ہونے کی وجہ سے فراڈ لوگ امداد کے لئے فون نہیں کریں گے بظاہر یہ ایک مشکل کام لگتا ہے مگر فوج اور رینجرز کی مدد سے اس کو آسان بنایا جا سکتا ہے کرفیو لگانے کا فائدہ یہ ہوگا فقیر اور غیر مستحق لوگوں سے جان چھوٹ جائے گی اور ساتھ میں وبا سے بھی۔