Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اس سے زیادہ اداس عید شائدہی ھم میں سےکسی نے اپنی زندگی میں دیکھی ھو۔گزشتہ تین ماہ سے کورونا نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ھے۔ اس کورونا کی وجہ سے زندگی میں بیکاری، بیروزگاری، بیماری، بوریت، پریشانی، جھنجھلاہٹ،چپقلش، غصہ، ٠٠٠٠٠جب جیب خالی ھواور روزگارنہ ھو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔
بہت سے لوگ ملازمت سے فارغ کر دیے گئے، کسی کو تنخواہ نہ ملی، کوئی کورونا کے ڈر سے گھر سے ہی نہ نکلا، کوئی کورونا کے مریض کی تیمارداری کرتا رہا، ہر فرد ایک غیر یقینی اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار تھا اور اب بھی ھے، یہ صورتحال کب تک رھے گی ، کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔
لوگ عید مناتے بھی تو کیسے مناتے۔ملازمت نہیں ۔گھر میں کھانے کو نہیں۔مکان کا کرایہ نہیں۔بجلی اور گیس کے بلوں کے پیسے نہیں۔حتی کہ دوا لینےتک کے پیسے نہیں۔ ایک طرف جیب میں پیسے نہیں اور دوسری طرف مہنگائی کا طوفان۔۔۔۔۔۔۔لوگ تھک گئے۔ اس ساری صورتحال سے۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ھے اب ھمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ھو گا۔ھمیں کرونا کے ساتھ رہنا ھو گا٠٠٠اس کا کیا مطلب ھے؟ کیا ھمیں بے روزگار رہنا ھو گا؟ کیا اب کارخانے اور فیکٹریاں نہیں کھلیں گی؟ کیا ھوٹل اور ریسٹورنٹ نہیں کھلیں گے؟ کیا بسیں ، منی بسیں اور دیگر ذرائع آمدورفت ھمیشہ بند رھیں گے؟ کیا اب اسکول نہیں کھلیں گے؟ کیا بچے اب اسکول نہیں جائیں گے؟ کیا لاکھوں ٹیچرز بھی بے روزگاری کی زندگی گزاریں گے؟
اگر کورونا ایک حقیقت ھے اور ھمیں کورونا کے ساتھ رہنا ھے تو پھر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو مل کر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنا ھو گی۔ کیونکہ اس وقت سارا زور کورونا کے مریضوں کو بچانے پر ھے، اور تمام تر توانائیاں اور وسائل اس بات پر خرچ کیے جا رہیں ہیں کہ اگر کورونا کے مریض بڑھتے ہیں تو ان سے کیسے نمٹا جاۓ گا، ارے جو لوگ کورونا سے متاثر نہیں ان کی تعداد 99 فیصد سے بھی زیادہ ھے، انھیں کیسے زندہ رکھنا ھے، ان کے روزگار کیسے کھولے جائیں؟ حکومتوں کو فوری طور پر کوئ جامع پالیسی وضع کرنا چاہیے۔ کیونکہ حکومت کا کام صرف یہ نہیں کہ لاک ڈاؤن کے اوقات کا اعلان کرے۔ بلکہ اصل کام یہ ھے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ھونے والی صورت حال سے کیسے نمٹا جاۓ۔
اگر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے کروڑوں Corona Negative لوگوں کو بچانے کے لیےفوری اقدامات نہ کیے تو معاشرے میں مزید بے چینی پھیلے گی، مزید لوگ بے روزگار ھوں گے، جرائم کی شرح بڑھے گی، خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ھوگا، شائد خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ھو جاۓ اور دو ماہ بعد آنے والی عیدالاضحی بھی لوگوں کے لیے گزارنا مشکل ھو جاۓ اور وہ عیدالفطر سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ھو گی۔
اس سے زیادہ اداس عید شائدہی ھم میں سےکسی نے اپنی زندگی میں دیکھی ھو۔گزشتہ تین ماہ سے کورونا نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ھے۔ اس کورونا کی وجہ سے زندگی میں بیکاری، بیروزگاری، بیماری، بوریت، پریشانی، جھنجھلاہٹ،چپقلش، غصہ، ٠٠٠٠٠جب جیب خالی ھواور روزگارنہ ھو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔
بہت سے لوگ ملازمت سے فارغ کر دیے گئے، کسی کو تنخواہ نہ ملی، کوئی کورونا کے ڈر سے گھر سے ہی نہ نکلا، کوئی کورونا کے مریض کی تیمارداری کرتا رہا، ہر فرد ایک غیر یقینی اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار تھا اور اب بھی ھے، یہ صورتحال کب تک رھے گی ، کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔
لوگ عید مناتے بھی تو کیسے مناتے۔ملازمت نہیں ۔گھر میں کھانے کو نہیں۔مکان کا کرایہ نہیں۔بجلی اور گیس کے بلوں کے پیسے نہیں۔حتی کہ دوا لینےتک کے پیسے نہیں۔ ایک طرف جیب میں پیسے نہیں اور دوسری طرف مہنگائی کا طوفان۔۔۔۔۔۔۔لوگ تھک گئے۔ اس ساری صورتحال سے۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ھے اب ھمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ھو گا۔ھمیں کرونا کے ساتھ رہنا ھو گا٠٠٠اس کا کیا مطلب ھے؟ کیا ھمیں بے روزگار رہنا ھو گا؟ کیا اب کارخانے اور فیکٹریاں نہیں کھلیں گی؟ کیا ھوٹل اور ریسٹورنٹ نہیں کھلیں گے؟ کیا بسیں ، منی بسیں اور دیگر ذرائع آمدورفت ھمیشہ بند رھیں گے؟ کیا اب اسکول نہیں کھلیں گے؟ کیا بچے اب اسکول نہیں جائیں گے؟ کیا لاکھوں ٹیچرز بھی بے روزگاری کی زندگی گزاریں گے؟
اگر کورونا ایک حقیقت ھے اور ھمیں کورونا کے ساتھ رہنا ھے تو پھر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو مل کر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنا ھو گی۔ کیونکہ اس وقت سارا زور کورونا کے مریضوں کو بچانے پر ھے، اور تمام تر توانائیاں اور وسائل اس بات پر خرچ کیے جا رہیں ہیں کہ اگر کورونا کے مریض بڑھتے ہیں تو ان سے کیسے نمٹا جاۓ گا، ارے جو لوگ کورونا سے متاثر نہیں ان کی تعداد 99 فیصد سے بھی زیادہ ھے، انھیں کیسے زندہ رکھنا ھے، ان کے روزگار کیسے کھولے جائیں؟ حکومتوں کو فوری طور پر کوئ جامع پالیسی وضع کرنا چاہیے۔ کیونکہ حکومت کا کام صرف یہ نہیں کہ لاک ڈاؤن کے اوقات کا اعلان کرے۔ بلکہ اصل کام یہ ھے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ھونے والی صورت حال سے کیسے نمٹا جاۓ۔
اگر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے کروڑوں Corona Negative لوگوں کو بچانے کے لیےفوری اقدامات نہ کیے تو معاشرے میں مزید بے چینی پھیلے گی، مزید لوگ بے روزگار ھوں گے، جرائم کی شرح بڑھے گی، خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ھوگا، شائد خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ھو جاۓ اور دو ماہ بعد آنے والی عیدالاضحی بھی لوگوں کے لیے گزارنا مشکل ھو جاۓ اور وہ عیدالفطر سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ھو گی۔
اس سے زیادہ اداس عید شائدہی ھم میں سےکسی نے اپنی زندگی میں دیکھی ھو۔گزشتہ تین ماہ سے کورونا نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ھے۔ اس کورونا کی وجہ سے زندگی میں بیکاری، بیروزگاری، بیماری، بوریت، پریشانی، جھنجھلاہٹ،چپقلش، غصہ، ٠٠٠٠٠جب جیب خالی ھواور روزگارنہ ھو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔
بہت سے لوگ ملازمت سے فارغ کر دیے گئے، کسی کو تنخواہ نہ ملی، کوئی کورونا کے ڈر سے گھر سے ہی نہ نکلا، کوئی کورونا کے مریض کی تیمارداری کرتا رہا، ہر فرد ایک غیر یقینی اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار تھا اور اب بھی ھے، یہ صورتحال کب تک رھے گی ، کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔
لوگ عید مناتے بھی تو کیسے مناتے۔ملازمت نہیں ۔گھر میں کھانے کو نہیں۔مکان کا کرایہ نہیں۔بجلی اور گیس کے بلوں کے پیسے نہیں۔حتی کہ دوا لینےتک کے پیسے نہیں۔ ایک طرف جیب میں پیسے نہیں اور دوسری طرف مہنگائی کا طوفان۔۔۔۔۔۔۔لوگ تھک گئے۔ اس ساری صورتحال سے۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ھے اب ھمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ھو گا۔ھمیں کرونا کے ساتھ رہنا ھو گا٠٠٠اس کا کیا مطلب ھے؟ کیا ھمیں بے روزگار رہنا ھو گا؟ کیا اب کارخانے اور فیکٹریاں نہیں کھلیں گی؟ کیا ھوٹل اور ریسٹورنٹ نہیں کھلیں گے؟ کیا بسیں ، منی بسیں اور دیگر ذرائع آمدورفت ھمیشہ بند رھیں گے؟ کیا اب اسکول نہیں کھلیں گے؟ کیا بچے اب اسکول نہیں جائیں گے؟ کیا لاکھوں ٹیچرز بھی بے روزگاری کی زندگی گزاریں گے؟
اگر کورونا ایک حقیقت ھے اور ھمیں کورونا کے ساتھ رہنا ھے تو پھر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو مل کر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنا ھو گی۔ کیونکہ اس وقت سارا زور کورونا کے مریضوں کو بچانے پر ھے، اور تمام تر توانائیاں اور وسائل اس بات پر خرچ کیے جا رہیں ہیں کہ اگر کورونا کے مریض بڑھتے ہیں تو ان سے کیسے نمٹا جاۓ گا، ارے جو لوگ کورونا سے متاثر نہیں ان کی تعداد 99 فیصد سے بھی زیادہ ھے، انھیں کیسے زندہ رکھنا ھے، ان کے روزگار کیسے کھولے جائیں؟ حکومتوں کو فوری طور پر کوئ جامع پالیسی وضع کرنا چاہیے۔ کیونکہ حکومت کا کام صرف یہ نہیں کہ لاک ڈاؤن کے اوقات کا اعلان کرے۔ بلکہ اصل کام یہ ھے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ھونے والی صورت حال سے کیسے نمٹا جاۓ۔
اگر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے کروڑوں Corona Negative لوگوں کو بچانے کے لیےفوری اقدامات نہ کیے تو معاشرے میں مزید بے چینی پھیلے گی، مزید لوگ بے روزگار ھوں گے، جرائم کی شرح بڑھے گی، خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ھوگا، شائد خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ھو جاۓ اور دو ماہ بعد آنے والی عیدالاضحی بھی لوگوں کے لیے گزارنا مشکل ھو جاۓ اور وہ عیدالفطر سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ھو گی۔
اس سے زیادہ اداس عید شائدہی ھم میں سےکسی نے اپنی زندگی میں دیکھی ھو۔گزشتہ تین ماہ سے کورونا نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ھے۔ اس کورونا کی وجہ سے زندگی میں بیکاری، بیروزگاری، بیماری، بوریت، پریشانی، جھنجھلاہٹ،چپقلش، غصہ، ٠٠٠٠٠جب جیب خالی ھواور روزگارنہ ھو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔
بہت سے لوگ ملازمت سے فارغ کر دیے گئے، کسی کو تنخواہ نہ ملی، کوئی کورونا کے ڈر سے گھر سے ہی نہ نکلا، کوئی کورونا کے مریض کی تیمارداری کرتا رہا، ہر فرد ایک غیر یقینی اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار تھا اور اب بھی ھے، یہ صورتحال کب تک رھے گی ، کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔
لوگ عید مناتے بھی تو کیسے مناتے۔ملازمت نہیں ۔گھر میں کھانے کو نہیں۔مکان کا کرایہ نہیں۔بجلی اور گیس کے بلوں کے پیسے نہیں۔حتی کہ دوا لینےتک کے پیسے نہیں۔ ایک طرف جیب میں پیسے نہیں اور دوسری طرف مہنگائی کا طوفان۔۔۔۔۔۔۔لوگ تھک گئے۔ اس ساری صورتحال سے۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ھے اب ھمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ھو گا۔ھمیں کرونا کے ساتھ رہنا ھو گا٠٠٠اس کا کیا مطلب ھے؟ کیا ھمیں بے روزگار رہنا ھو گا؟ کیا اب کارخانے اور فیکٹریاں نہیں کھلیں گی؟ کیا ھوٹل اور ریسٹورنٹ نہیں کھلیں گے؟ کیا بسیں ، منی بسیں اور دیگر ذرائع آمدورفت ھمیشہ بند رھیں گے؟ کیا اب اسکول نہیں کھلیں گے؟ کیا بچے اب اسکول نہیں جائیں گے؟ کیا لاکھوں ٹیچرز بھی بے روزگاری کی زندگی گزاریں گے؟
اگر کورونا ایک حقیقت ھے اور ھمیں کورونا کے ساتھ رہنا ھے تو پھر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو مل کر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنا ھو گی۔ کیونکہ اس وقت سارا زور کورونا کے مریضوں کو بچانے پر ھے، اور تمام تر توانائیاں اور وسائل اس بات پر خرچ کیے جا رہیں ہیں کہ اگر کورونا کے مریض بڑھتے ہیں تو ان سے کیسے نمٹا جاۓ گا، ارے جو لوگ کورونا سے متاثر نہیں ان کی تعداد 99 فیصد سے بھی زیادہ ھے، انھیں کیسے زندہ رکھنا ھے، ان کے روزگار کیسے کھولے جائیں؟ حکومتوں کو فوری طور پر کوئ جامع پالیسی وضع کرنا چاہیے۔ کیونکہ حکومت کا کام صرف یہ نہیں کہ لاک ڈاؤن کے اوقات کا اعلان کرے۔ بلکہ اصل کام یہ ھے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ھونے والی صورت حال سے کیسے نمٹا جاۓ۔
اگر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے کروڑوں Corona Negative لوگوں کو بچانے کے لیےفوری اقدامات نہ کیے تو معاشرے میں مزید بے چینی پھیلے گی، مزید لوگ بے روزگار ھوں گے، جرائم کی شرح بڑھے گی، خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ھوگا، شائد خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ھو جاۓ اور دو ماہ بعد آنے والی عیدالاضحی بھی لوگوں کے لیے گزارنا مشکل ھو جاۓ اور وہ عیدالفطر سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ھو گی۔