پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پہ ”ات مچانے “ والے واقعے کی گرد اب کافی حدتک بیٹھ چکی ہے ۔ من حیث القوم ہمارا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ کوئی بھی واقعہ رونما ہوجائے تو جذباتی انداز میں اس پر یوں بحث شروع کردی جاتی ہے کہ اصل حقائق ہی دب جاتے ہیں ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد جب جذباتیت کابخار اترتاہے تواپنی خامیاں ہی ہمارامنہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔کرنل کی بیوی ، کے نام سے سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی ۔ ایک عورت کے انفرادی رویے کو فوج جیسے اعلیٰ ادارے سے منسوب کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور بھی بہت کچھ کہاگیاکہ اشرافیہ قانون سے بالاترہے ، وغیرہ وغیرہ۔ میں کئی دنوں سے باقاعدگی سے اس موضوع کو سوشل میڈیا پہ دیکھ رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ واقعہ توخیر اپنی جگہ، من حیث القوم ہمارا سوچنے اور ردعمل دینے کا انداز کیاہے ؟پچھلے کئی واقعات کی طرح اس بار بھی مجھے مایوسی ہی ہوئی ۔ ماسوائے جذباتیت کے اورکچھ نظر نہ آیا۔ ہمار ا بڑامسئلہ ہی یہ جذباتیت ہے ۔ اگر ہم جذباتیت سے نکل کر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو بہت کچھ سامنے آتاہے ۔ موزوں ردعمل کے لیے واقعہ کے تمام حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہوتاہے ۔اس واقعے کو تھوڑی دیر ہم جذباتیت سے نکل کر دیکھتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ اس عورت کے طرزِعمل کوکسی طور بھی قابل تحسین نہیں گردانا جاسکتا۔ اس نے جوکیا وہ کسی مہذب سماج کے باشندوں کا طرزعمل نہیں ہے ۔ اس کی مذمت کرتاہوں ۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب آتے ہیں قانون کی طرف جس کے بارے میں ہمارے دانشوریہ راگ الاپ رہے ہیں کہ اونچے طبقے کے لوگ خود کوقانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
قانون نافذکرنے والے اداروں میں پولیس اہم ادارہ ہے ۔ اس ادارے نے اب تک اپنی جو ساکھ بنائی ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے ۔ اسی واقعے کے تناظر میں دیکھیں تو کیایہ ادارہ جو قانون کے نفاذ کے نام پر بنایاگیایہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکا؟ یقینا نہیں۔ کیوں۔ اس واقعے کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں ۔ ایک ایسی جگہ ناکا لگاہے جہاں سے گزرنے کی کسی اعلیٰ طبقے کی باشندے کوبھی اجازت نہیں ۔ تو کیا وہ ناکا لگانے میں ہی قانون کے اس ادارے نے اپنافرض ادا کیا۔ ایک ڈنڈا نما رکاوٹ، ایک ڈرم اور دوتین سپاہی کھڑے کر دیے ۔ بھائی اگر یہ ناکا اتنا ہی ضروری تھاتو اسے مضبوط کیوں نہ کیاگیا۔ ایک عورت جو بالکل نہتی ہے وہ اس ناکے سے خودگاڑی چلاکرزبردستی نکل جاتی ہے اور ناکے سے نکلتے ہی ساتھ والے نوجوان کو بھی گاڑی میں بٹھا لیتی ہے قانون اس دوران کیاکرتارہا؟قانون نافذ کرنے والے اہلکار کیا وہاں صرف تماشا لگانے کوکھڑے تھے؟ کیا انھوں نے اس عورت سے کوئی دستاویزی ثبوت مانگا۔جس ناکے پہ وہ ایک نہتی عورت کوروک نہ سکے کیاوہ مسلح دہشت گردوں سے نپٹنے کے اہل تھے ۔ اگر یہاں کوئی تخریب کارعورت ہوتی ۔ او رخود کوکسی کرنل کی بیوی کہہ کر ناکا توڑتی تو بھی یہ اہلکا ر ایسے ہی بے بسی کاتماشا بنے رہتے ؟ اس طرح کے اور بہت سے سوال ہیں جو اس ناکے پر مامور اہلکاروں کی غفلت اور نااہلی کو ثابت کرتے ہیں۔ہم یہ راگ الاپ کرفارغ ہوجاتے ہیں کہ اونچا طبقہ قانو ن سے بالاتر سمجھتاہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر اونچا طبقہ واقعی ایسا ہے توقانون نے اس اونچے طبقے کے لیے کیالائحہ عمل اختیار کیاہے؟ پولیس جیسا اداراہ جس کا عوام سے براہ راست تعلق ہوتاہے اس نے خود کو قانون کامحافظ کس حد تک ثابت کیاہے؟ اگر کہا جائے کہ اس اعلیٰ طبقے کو قانون کے حکمرانی تسلیم کرنی چاہیے خود کو قانون کے تابع سمجھناچاہئے ، تویہ بات بھی غلط نہیں ہے ۔ اسی اعلی طبقے میں بہت سے بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو قانون کااحترام کرنے والے ہیں ۔ مسئلہ قانون نافذکرنے والے ادارے کاہے ۔جناب اگر سماج کے تمام باشندوں نے خود ہی قانون کی پیروی کرنی ہے تو پھر اس ادارے کا کیاکام ؟قانون بناﺅ اور عوام کوبتادو بس۔اس ادارے کے قیام کامقصدقانون کانفاذہے ۔ اس نفاذ میں اس کو اپنی ذمہ داریاں غیرجانب دار ہوکر پوری کرنا ہوں گی ۔ اگر یہ ایک شخص کی کار کے پہیوں سے ہوا نکالے گا اور دوسرے کے سامنے ڈرم رکھنے پر ہی اکتفا کرے گا تو قانون کی بے حرمتی کا ذمہ دار یہی ہوگا۔
اس ادارے کاسماج میں مجموعی تاثر اس کی اپنی کوتاہیوں اور تساہل پسندی کی وجہ سے اچھا نہیں بن پارہا۔ پولیس کے ہی ایک ادارے ٹریفک پولیس کودیکھ لیں ۔صورت حال ہمارے سامنے ہے ۔ قانون کے یہ محافظ آپ کوجگہ جگہ خود ہی قانون کی بے حرمتی کرتے نظر آئیں گے۔ اندرون شہر کی معروف شاہراﺅں پہ چلے جائیں ۔آپ کوبہت سے ایسے ”یو ٹرن “ملیں گے جو شاہراہ تعمیر کرتے وقت انجینئیرز نے لوگوں کے رش او رسہولت کومدنظر رکھتے ہوئے سڑ ک میں دیے ہوں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چند دن بعد ہی یہ یوٹرن اس ادارے کی طرف سے بند کردیے جاتے ہیں ۔اس کی وجہ کیاہے؟کیا وہ انجینئر پاگل تھا جس نے یوٹرن رکھوائے ۔ ان کو بند کرنے کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ آخری یوٹرن پہ گھنٹوں رش لگا رہتاہے ۔ ایک گاڑی جس نے سو میٹر بعد واپس مڑکر سڑک خالی کرنا ہوتی ہے وہ پانچ سومیٹر تک اس سڑک پہ رش بناتی چلی جاتی ہے ۔بازار میں چلے جائیں تو بہت سے ایسے راستے ہوں گے جو بند ہونے کی وجہ سے رش کاسبب بن رہے ہوتے ہیں۔ قانون کے اس ادارے کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ راستے کسی تخریبی سرگرمی سے بچنے کے لیے بند کیے جاتے ہیں تو کیا ان پر وہ انتظام کیے جاتے ہیں جو تخریب کاروں کوروک سکیں ۔ جواب یقینا نفی میں ہے ۔اس طرح کی کئی مثالیں ہمیں اپنے ارد گرد ملیں گی ۔ہم روز ان کاسامنا کرتے ہیں ۔اس ادارے کواپناآپ بدلنا ہوگا۔ قانون کے نفاذ کے نام پربنے اس ادارے کوقانون کی حکمرانی کو بلاتفریق لازم بنانا ہوگا۔ محض یہ کہہ دیناکہ اس طبقے پہ بس نہیں چلتا ۔ یہ طبقہ بات نہیں مانتا۔یہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتاہے ۔ قانون کے نفاذ کے تقاضے پورا نہیں کرتا۔ جب قانون سب کے لیے یکسا ں ہے تو اس کے نفاذ کے ادارے کو بھی سب کے لیے یکساں قانونی طرزعمل اختیارکرناہوگا ورنہ سوال اٹھتے رہیں گے ۔ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے ، لاقانونیت بڑھتی رہے گی ۔ اس ادارے سے دست بستہ عرض ہے کہ اب اس میں جوان خون کافی شامل ہوچکاہے ۔اس سے کام لیں ۔ ادارے کی ساکھ بحال کریں اور ساکھ بحال کرنے میں یہ اصول سامنے رکھیں کہ:
عصا نہ ہوتوکلیمی ہے کارِ بے بنیاد