Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سیٹھ ہمارے علاقے کا امیر ترین آدمی تھا،وہ مجھ سمیت کئی نو جوان کا آئیڈیل تھا،دو گز پر رکھی ایک مشین سے اس نے چھوٹاسا کارخانہ شروع کیا اور تر قی کرتے کر تے وہ ہمارے علاقے کا سیٹھ بن گیا،گارمنٹس کا کاروبار چل نکلا تو وہ کپڑوں کا بیوپاری بن گیا،ہر کسی میں خامیاں ہوتی ہیں سیٹھ میں بھی تین خامیاں تھیں،اس کی پہلی کمزوری شراب تھی، دوسری کم عمر لڑکیاں، تیسری اور آخری خامی دولت کی نمو دو نما ئش۔غریب ماں باپ اپنی کلیوں کی طرح کھلتی بچیاں اس کے نکاح میں ہنسی خوشی دے جاتے اور یہ چند ہی روز میں اِنہیں بری طرح مسل دیتا۔
میں اورمیرے محلے کے دوست احسن اورفیصل بارہویں میں پہنچے تو سیٹھ نے چوتھی دلہن کو اپنے نکاح میں لیا،لڑکی کی عمر اٹھا رہ برس سے زائد نہ ہوگی،اس کی معصوم صورت ہم جیسے کئی نوجوانوں کے سینوں کو چیرتی ہوئی دل کے کسی نہاں خانے میں کھب گئی تھی،گلاب کی طرح کھلتا چہرہ، دودھ میں نہائے حنا مالیدہ ہاتھ، حیا میں ڈوبی پُر کشش آنکھیں۔۔۔!اسے دیکھتے ہی کتنے بد نصیب نوجوانوں نے سوچاہوگا:”کیاحسن بھی برائے فروخت ہے”مگریہ قیمتی موتی سیٹھ کی جھولی میں گر چکا تھا، اب لکیر پیٹنے سے کوئی فا ئد ہ نہ تھا،سیٹھ تقریباًستاون سال کاتھا،اس کی سرخ آنکھیں،سیاہ چہرہ اورسفید کاٹن کا سوٹ ناقابل برداشت امتزاج پیداکررہے تھے،وہ ہم جیسے نوجوانوں کی آنکھوں میں چب رہا تھا، اس کی شادی میں ہر عام وخاص کے لئے کھانا ہوتا، بچپن میں ہم بھی اس کی شادی کی دعائیں کرتے مگر اب ہم بڑے ہو چکے تھے،سیٹھ کی یہ حرکت ہمیں کھٹکنے لگی تھی،شادی ہورہی تھی، نکا ح پڑھا یا جا چکا تھا،چھوارے با نٹے جارہے تھے اور ہم تینوں دوست گلی کے چبوترے پربیٹھے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے،ماحول سادہ تھا، ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا اور تینوں نے عہدکیا، ہم کبھی شراب اور سیگریٹ نہیں پئیں گے، کسی لڑکی کی نتھ نہیں اتاریں گے اور اگر اللہ نے دولت دی تو اس پرہماری گردن کبھی نہیں اکڑے گی۔ہم جس چو ک پر بیٹھتے تھے اس کا نام شریف چوک اس لئے رکھاکیونکہ ہم خود کو شریف سمجھتے تھے،ہماری سب سے بڑی شرارت یہ ہوتی کہ اگرراہ چلتے کسی بہت خوبصورت لڑکی کودیکھ لیتے تو ساتھ چلنے والے دوست کے کان میں جا کر آہستہ سے کہہ دیتے “دیکھو!تمہاری بھابی جا رہی ہیں “یہ ہمارا سب سے بڑا چھچور پن تھا،ہماری سب سے بڑی عیاشی تھی۔
سیٹھ کو اپنی دولت پر بہت ناز تھا،اگرچہ وہ گلی میں دھوتی پہن کر بیٹھتا مگر اس کا ہر عمل اس کے جذ بات کی تر جمانی کر تا،لوگ حیران تھے کہ اس نے ایک گلی میں اٹھا رہ گھر کیوں خرید لئے؟پر کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ ریاکاری اس کے خون میں گر دش کر رہی ہے،گلی کا آخری مکان اس نے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کرا یا تھا،یہ مکا ن خوبصور تی،مینا کاری،شیشہ کاری اور رنگ کاری کے اعتبار سے ہمارے علا قے کا تا ج محل تھا،محلے میں کئی بار لوگوں کی زبان سے میں نے سنا کہ سیٹھ نے اپنی دولت کا پچاس فیصدحصہ اس مکان پر صر ف کر دیا ہے لیکن سیٹھ بہت ہو شیار آدمی تھا،وہ اپنے اس محل نما مکان کو مختلف ٹی وی چینلز کو کچھ گھنٹوں کی شوٹنگ کے لئے دے دیتا،خبریں تھیں کہ اس مکان کے کرا ئے کی مد میں اس نے بہت پیسہ بنایا تھا،مکان کی خا ص بات اس کا ٹیرس تھا،ٹیرس پر جو ایک نظر پڑے توآنکھ پھیرنے کو روح نہ کرے،کشتی نما ٹیرس دیکھنے والوں پرسحرطاری کردیتا،اُن پر سکتا طاری کر دیتا،ٹیرس اس خط پر تعمیر کیا گیا تھا کہ راہ چلتا ہر فرد اسے باآسانی دیکھ سکے،رمضان میں جب نماز تراویح کے لئے میں مسجد جاتا تو واپس آتے ہوئے میر ی نظریں اس پر ضرور پڑتیں،اکثر سیٹھ ٹیرس کے اوپر بیٹھاا پنی کسی بیگم کے ساتھ محو ِگفتگو ہو تایا کبھی اُس کے دوستوں کی بارونق محفل لگی ہوتی،میں سو چتا کیا خوش نصیب بندہ ہے کیا زندگی گز ارتا ہے۔
بچپن میں بارہ ربیع الاول،شبِ بارات،ستائس ویں شب،نو،دس محرم اور ایسے ہی تہواروں کی بڑی راتوں میں ہم دوست باہر رہتےہماری یہ مستی بہت پرانی تھی،سب اپنے گھروں پر کہہ کر نکلتے کہ عبا دت کرنے مسجد جا رہے ہیں مگر رات بھر ہم گھو متے پھر تے،کرکٹ کی باتیں کرتے اور سیٹھ جیسی زندگی گزار نے کا عزم کرتے اگرچہ ان بڑی راتوں میں ہم کچھ عبادت بھی کر تے مگر جلد تھکاوٹ ہوجاتی اورپھر ہم باہر گھو منے نکل جاتے،سیٹھ کی گلی سے گزر ہو تا تو ہمیشہ وہ ہمیں حسا ب کتاب کر تا نظر آتا،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت محنتی تھا،پو ری رات عرق ریزی کرتا اور صبح پھر کیلکو لیٹر تھام لیتا، ہر مسلمان کی طرح سیٹھ نے بھی بڑھاپے میں عمرہ کیا،نمازیں پڑیں، داڈھی رکھی اور دھوتی کی جگہ سفید کپڑے پہنے، ٹوپی پہنی،کیا پتا شراب،عورت بازی اور ریاری بھی چھوڑ دی ہو۔ ویسے مسلمانوں میں قدرت نے کیسا لاجواب عنصر رکھا ہے،ہم کتنے ہی گناہ گار کیوں نہ ہوں زندگی کے آخری دنوں میں اللہ ہمیں بہت یاد آتا ہے،کتنے ہی ایسے مسلمان جنت میں جاتے ہونگے جو زندگی کے آخری آیام میں سچے دل سے معافی ما نگ کر بخشش کر ا لیتے ہونگے۔ خیربڑھتی عمر کے ساتھ سیٹھ کاذکرہماری گفتگوسے کم ہو تا گیا،ہم تینوں اپنے راستے ٹھیک جا رہے تھے،میں ماسٹرز میں تھا،یو نیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا،احسن کا فون آیا،میں باہر نکلا،فون اٹھا یا اور اس کاحال پوچھا،سیٹھ کا انتقال ہو گیا ہے،احسن نے کہا۔مجھے اتنا صد مہ تو نہیں ہوامگر دکھ ضرور ہوا۔بچپن کی یا دیں تازہ ہونے لگیں،دوستوں کے ساتھ اس کا ٹیرس پر محفل لگا نا،گلی میں بیٹھنا،آخری آیام میں مسجد جانا،ٹوپی پہننا یہ سارے منا ظر ایک ساتھ میری آنکھوں میں فلم کی طرح چلنے لگے،میں نے احسن سے کہایار کل تو مسجد میں دیکھا ہے اسے عشأکی نماز میں،بالکل ٹھیک تھا۔موت ہے بتا کر تھو ڑی آتی ہے،احسن نے وضا حت کی۔نماز ِجنا زہ میں چلے گا؟مغرب میں ہے،احسن نے پوچھا۔۔۔!میں آرہاہو ں!تم فیصل کو بتا دو۔۔۔!میں گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔
وہ شخص جو عالی شان گھروں کی تعمیر کا خو گر تھا،زمین کی مٹی سے بہتر ین عمارتیں بنانے کا جسے نشہ تھا آج ہم اس کے اوپر مٹی ڈال رہے تھے،وہ شراب،وہ عورت،وہ دکھا وا سب کچھ اس مٹی تلے دبا جا رہا تھا،کوئی اپنا مرتا ہے تو آنسو نکلتے ہیں، غیر وں کی فوتگی پر دکھ کم ہو تا ہے مگر میری آنکھوں میں اس وقت ہلکی سی نمی اُتر آئی جب میں نے سوچا،کاش انسان اس دھرتی پر اپنی حیثیت جان لے،کاش اسے پتا چل جائے کہ وہ چند گندے قطروں سے بنا ہواصرف گوشت کا ایک لوتھڑاہے۔۔۔!
سیٹھ ہمارے علاقے کا امیر ترین آدمی تھا،وہ مجھ سمیت کئی نو جوان کا آئیڈیل تھا،دو گز پر رکھی ایک مشین سے اس نے چھوٹاسا کارخانہ شروع کیا اور تر قی کرتے کر تے وہ ہمارے علاقے کا سیٹھ بن گیا،گارمنٹس کا کاروبار چل نکلا تو وہ کپڑوں کا بیوپاری بن گیا،ہر کسی میں خامیاں ہوتی ہیں سیٹھ میں بھی تین خامیاں تھیں،اس کی پہلی کمزوری شراب تھی، دوسری کم عمر لڑکیاں، تیسری اور آخری خامی دولت کی نمو دو نما ئش۔غریب ماں باپ اپنی کلیوں کی طرح کھلتی بچیاں اس کے نکاح میں ہنسی خوشی دے جاتے اور یہ چند ہی روز میں اِنہیں بری طرح مسل دیتا۔
میں اورمیرے محلے کے دوست احسن اورفیصل بارہویں میں پہنچے تو سیٹھ نے چوتھی دلہن کو اپنے نکاح میں لیا،لڑکی کی عمر اٹھا رہ برس سے زائد نہ ہوگی،اس کی معصوم صورت ہم جیسے کئی نوجوانوں کے سینوں کو چیرتی ہوئی دل کے کسی نہاں خانے میں کھب گئی تھی،گلاب کی طرح کھلتا چہرہ، دودھ میں نہائے حنا مالیدہ ہاتھ، حیا میں ڈوبی پُر کشش آنکھیں۔۔۔!اسے دیکھتے ہی کتنے بد نصیب نوجوانوں نے سوچاہوگا:”کیاحسن بھی برائے فروخت ہے”مگریہ قیمتی موتی سیٹھ کی جھولی میں گر چکا تھا، اب لکیر پیٹنے سے کوئی فا ئد ہ نہ تھا،سیٹھ تقریباًستاون سال کاتھا،اس کی سرخ آنکھیں،سیاہ چہرہ اورسفید کاٹن کا سوٹ ناقابل برداشت امتزاج پیداکررہے تھے،وہ ہم جیسے نوجوانوں کی آنکھوں میں چب رہا تھا، اس کی شادی میں ہر عام وخاص کے لئے کھانا ہوتا، بچپن میں ہم بھی اس کی شادی کی دعائیں کرتے مگر اب ہم بڑے ہو چکے تھے،سیٹھ کی یہ حرکت ہمیں کھٹکنے لگی تھی،شادی ہورہی تھی، نکا ح پڑھا یا جا چکا تھا،چھوارے با نٹے جارہے تھے اور ہم تینوں دوست گلی کے چبوترے پربیٹھے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے،ماحول سادہ تھا، ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا اور تینوں نے عہدکیا، ہم کبھی شراب اور سیگریٹ نہیں پئیں گے، کسی لڑکی کی نتھ نہیں اتاریں گے اور اگر اللہ نے دولت دی تو اس پرہماری گردن کبھی نہیں اکڑے گی۔ہم جس چو ک پر بیٹھتے تھے اس کا نام شریف چوک اس لئے رکھاکیونکہ ہم خود کو شریف سمجھتے تھے،ہماری سب سے بڑی شرارت یہ ہوتی کہ اگرراہ چلتے کسی بہت خوبصورت لڑکی کودیکھ لیتے تو ساتھ چلنے والے دوست کے کان میں جا کر آہستہ سے کہہ دیتے “دیکھو!تمہاری بھابی جا رہی ہیں “یہ ہمارا سب سے بڑا چھچور پن تھا،ہماری سب سے بڑی عیاشی تھی۔
سیٹھ کو اپنی دولت پر بہت ناز تھا،اگرچہ وہ گلی میں دھوتی پہن کر بیٹھتا مگر اس کا ہر عمل اس کے جذ بات کی تر جمانی کر تا،لوگ حیران تھے کہ اس نے ایک گلی میں اٹھا رہ گھر کیوں خرید لئے؟پر کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ ریاکاری اس کے خون میں گر دش کر رہی ہے،گلی کا آخری مکان اس نے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کرا یا تھا،یہ مکا ن خوبصور تی،مینا کاری،شیشہ کاری اور رنگ کاری کے اعتبار سے ہمارے علا قے کا تا ج محل تھا،محلے میں کئی بار لوگوں کی زبان سے میں نے سنا کہ سیٹھ نے اپنی دولت کا پچاس فیصدحصہ اس مکان پر صر ف کر دیا ہے لیکن سیٹھ بہت ہو شیار آدمی تھا،وہ اپنے اس محل نما مکان کو مختلف ٹی وی چینلز کو کچھ گھنٹوں کی شوٹنگ کے لئے دے دیتا،خبریں تھیں کہ اس مکان کے کرا ئے کی مد میں اس نے بہت پیسہ بنایا تھا،مکان کی خا ص بات اس کا ٹیرس تھا،ٹیرس پر جو ایک نظر پڑے توآنکھ پھیرنے کو روح نہ کرے،کشتی نما ٹیرس دیکھنے والوں پرسحرطاری کردیتا،اُن پر سکتا طاری کر دیتا،ٹیرس اس خط پر تعمیر کیا گیا تھا کہ راہ چلتا ہر فرد اسے باآسانی دیکھ سکے،رمضان میں جب نماز تراویح کے لئے میں مسجد جاتا تو واپس آتے ہوئے میر ی نظریں اس پر ضرور پڑتیں،اکثر سیٹھ ٹیرس کے اوپر بیٹھاا پنی کسی بیگم کے ساتھ محو ِگفتگو ہو تایا کبھی اُس کے دوستوں کی بارونق محفل لگی ہوتی،میں سو چتا کیا خوش نصیب بندہ ہے کیا زندگی گز ارتا ہے۔
بچپن میں بارہ ربیع الاول،شبِ بارات،ستائس ویں شب،نو،دس محرم اور ایسے ہی تہواروں کی بڑی راتوں میں ہم دوست باہر رہتےہماری یہ مستی بہت پرانی تھی،سب اپنے گھروں پر کہہ کر نکلتے کہ عبا دت کرنے مسجد جا رہے ہیں مگر رات بھر ہم گھو متے پھر تے،کرکٹ کی باتیں کرتے اور سیٹھ جیسی زندگی گزار نے کا عزم کرتے اگرچہ ان بڑی راتوں میں ہم کچھ عبادت بھی کر تے مگر جلد تھکاوٹ ہوجاتی اورپھر ہم باہر گھو منے نکل جاتے،سیٹھ کی گلی سے گزر ہو تا تو ہمیشہ وہ ہمیں حسا ب کتاب کر تا نظر آتا،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت محنتی تھا،پو ری رات عرق ریزی کرتا اور صبح پھر کیلکو لیٹر تھام لیتا، ہر مسلمان کی طرح سیٹھ نے بھی بڑھاپے میں عمرہ کیا،نمازیں پڑیں، داڈھی رکھی اور دھوتی کی جگہ سفید کپڑے پہنے، ٹوپی پہنی،کیا پتا شراب،عورت بازی اور ریاری بھی چھوڑ دی ہو۔ ویسے مسلمانوں میں قدرت نے کیسا لاجواب عنصر رکھا ہے،ہم کتنے ہی گناہ گار کیوں نہ ہوں زندگی کے آخری دنوں میں اللہ ہمیں بہت یاد آتا ہے،کتنے ہی ایسے مسلمان جنت میں جاتے ہونگے جو زندگی کے آخری آیام میں سچے دل سے معافی ما نگ کر بخشش کر ا لیتے ہونگے۔ خیربڑھتی عمر کے ساتھ سیٹھ کاذکرہماری گفتگوسے کم ہو تا گیا،ہم تینوں اپنے راستے ٹھیک جا رہے تھے،میں ماسٹرز میں تھا،یو نیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا،احسن کا فون آیا،میں باہر نکلا،فون اٹھا یا اور اس کاحال پوچھا،سیٹھ کا انتقال ہو گیا ہے،احسن نے کہا۔مجھے اتنا صد مہ تو نہیں ہوامگر دکھ ضرور ہوا۔بچپن کی یا دیں تازہ ہونے لگیں،دوستوں کے ساتھ اس کا ٹیرس پر محفل لگا نا،گلی میں بیٹھنا،آخری آیام میں مسجد جانا،ٹوپی پہننا یہ سارے منا ظر ایک ساتھ میری آنکھوں میں فلم کی طرح چلنے لگے،میں نے احسن سے کہایار کل تو مسجد میں دیکھا ہے اسے عشأکی نماز میں،بالکل ٹھیک تھا۔موت ہے بتا کر تھو ڑی آتی ہے،احسن نے وضا حت کی۔نماز ِجنا زہ میں چلے گا؟مغرب میں ہے،احسن نے پوچھا۔۔۔!میں آرہاہو ں!تم فیصل کو بتا دو۔۔۔!میں گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔
وہ شخص جو عالی شان گھروں کی تعمیر کا خو گر تھا،زمین کی مٹی سے بہتر ین عمارتیں بنانے کا جسے نشہ تھا آج ہم اس کے اوپر مٹی ڈال رہے تھے،وہ شراب،وہ عورت،وہ دکھا وا سب کچھ اس مٹی تلے دبا جا رہا تھا،کوئی اپنا مرتا ہے تو آنسو نکلتے ہیں، غیر وں کی فوتگی پر دکھ کم ہو تا ہے مگر میری آنکھوں میں اس وقت ہلکی سی نمی اُتر آئی جب میں نے سوچا،کاش انسان اس دھرتی پر اپنی حیثیت جان لے،کاش اسے پتا چل جائے کہ وہ چند گندے قطروں سے بنا ہواصرف گوشت کا ایک لوتھڑاہے۔۔۔!
سیٹھ ہمارے علاقے کا امیر ترین آدمی تھا،وہ مجھ سمیت کئی نو جوان کا آئیڈیل تھا،دو گز پر رکھی ایک مشین سے اس نے چھوٹاسا کارخانہ شروع کیا اور تر قی کرتے کر تے وہ ہمارے علاقے کا سیٹھ بن گیا،گارمنٹس کا کاروبار چل نکلا تو وہ کپڑوں کا بیوپاری بن گیا،ہر کسی میں خامیاں ہوتی ہیں سیٹھ میں بھی تین خامیاں تھیں،اس کی پہلی کمزوری شراب تھی، دوسری کم عمر لڑکیاں، تیسری اور آخری خامی دولت کی نمو دو نما ئش۔غریب ماں باپ اپنی کلیوں کی طرح کھلتی بچیاں اس کے نکاح میں ہنسی خوشی دے جاتے اور یہ چند ہی روز میں اِنہیں بری طرح مسل دیتا۔
میں اورمیرے محلے کے دوست احسن اورفیصل بارہویں میں پہنچے تو سیٹھ نے چوتھی دلہن کو اپنے نکاح میں لیا،لڑکی کی عمر اٹھا رہ برس سے زائد نہ ہوگی،اس کی معصوم صورت ہم جیسے کئی نوجوانوں کے سینوں کو چیرتی ہوئی دل کے کسی نہاں خانے میں کھب گئی تھی،گلاب کی طرح کھلتا چہرہ، دودھ میں نہائے حنا مالیدہ ہاتھ، حیا میں ڈوبی پُر کشش آنکھیں۔۔۔!اسے دیکھتے ہی کتنے بد نصیب نوجوانوں نے سوچاہوگا:”کیاحسن بھی برائے فروخت ہے”مگریہ قیمتی موتی سیٹھ کی جھولی میں گر چکا تھا، اب لکیر پیٹنے سے کوئی فا ئد ہ نہ تھا،سیٹھ تقریباًستاون سال کاتھا،اس کی سرخ آنکھیں،سیاہ چہرہ اورسفید کاٹن کا سوٹ ناقابل برداشت امتزاج پیداکررہے تھے،وہ ہم جیسے نوجوانوں کی آنکھوں میں چب رہا تھا، اس کی شادی میں ہر عام وخاص کے لئے کھانا ہوتا، بچپن میں ہم بھی اس کی شادی کی دعائیں کرتے مگر اب ہم بڑے ہو چکے تھے،سیٹھ کی یہ حرکت ہمیں کھٹکنے لگی تھی،شادی ہورہی تھی، نکا ح پڑھا یا جا چکا تھا،چھوارے با نٹے جارہے تھے اور ہم تینوں دوست گلی کے چبوترے پربیٹھے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے،ماحول سادہ تھا، ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا اور تینوں نے عہدکیا، ہم کبھی شراب اور سیگریٹ نہیں پئیں گے، کسی لڑکی کی نتھ نہیں اتاریں گے اور اگر اللہ نے دولت دی تو اس پرہماری گردن کبھی نہیں اکڑے گی۔ہم جس چو ک پر بیٹھتے تھے اس کا نام شریف چوک اس لئے رکھاکیونکہ ہم خود کو شریف سمجھتے تھے،ہماری سب سے بڑی شرارت یہ ہوتی کہ اگرراہ چلتے کسی بہت خوبصورت لڑکی کودیکھ لیتے تو ساتھ چلنے والے دوست کے کان میں جا کر آہستہ سے کہہ دیتے “دیکھو!تمہاری بھابی جا رہی ہیں “یہ ہمارا سب سے بڑا چھچور پن تھا،ہماری سب سے بڑی عیاشی تھی۔
سیٹھ کو اپنی دولت پر بہت ناز تھا،اگرچہ وہ گلی میں دھوتی پہن کر بیٹھتا مگر اس کا ہر عمل اس کے جذ بات کی تر جمانی کر تا،لوگ حیران تھے کہ اس نے ایک گلی میں اٹھا رہ گھر کیوں خرید لئے؟پر کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ ریاکاری اس کے خون میں گر دش کر رہی ہے،گلی کا آخری مکان اس نے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کرا یا تھا،یہ مکا ن خوبصور تی،مینا کاری،شیشہ کاری اور رنگ کاری کے اعتبار سے ہمارے علا قے کا تا ج محل تھا،محلے میں کئی بار لوگوں کی زبان سے میں نے سنا کہ سیٹھ نے اپنی دولت کا پچاس فیصدحصہ اس مکان پر صر ف کر دیا ہے لیکن سیٹھ بہت ہو شیار آدمی تھا،وہ اپنے اس محل نما مکان کو مختلف ٹی وی چینلز کو کچھ گھنٹوں کی شوٹنگ کے لئے دے دیتا،خبریں تھیں کہ اس مکان کے کرا ئے کی مد میں اس نے بہت پیسہ بنایا تھا،مکان کی خا ص بات اس کا ٹیرس تھا،ٹیرس پر جو ایک نظر پڑے توآنکھ پھیرنے کو روح نہ کرے،کشتی نما ٹیرس دیکھنے والوں پرسحرطاری کردیتا،اُن پر سکتا طاری کر دیتا،ٹیرس اس خط پر تعمیر کیا گیا تھا کہ راہ چلتا ہر فرد اسے باآسانی دیکھ سکے،رمضان میں جب نماز تراویح کے لئے میں مسجد جاتا تو واپس آتے ہوئے میر ی نظریں اس پر ضرور پڑتیں،اکثر سیٹھ ٹیرس کے اوپر بیٹھاا پنی کسی بیگم کے ساتھ محو ِگفتگو ہو تایا کبھی اُس کے دوستوں کی بارونق محفل لگی ہوتی،میں سو چتا کیا خوش نصیب بندہ ہے کیا زندگی گز ارتا ہے۔
بچپن میں بارہ ربیع الاول،شبِ بارات،ستائس ویں شب،نو،دس محرم اور ایسے ہی تہواروں کی بڑی راتوں میں ہم دوست باہر رہتےہماری یہ مستی بہت پرانی تھی،سب اپنے گھروں پر کہہ کر نکلتے کہ عبا دت کرنے مسجد جا رہے ہیں مگر رات بھر ہم گھو متے پھر تے،کرکٹ کی باتیں کرتے اور سیٹھ جیسی زندگی گزار نے کا عزم کرتے اگرچہ ان بڑی راتوں میں ہم کچھ عبادت بھی کر تے مگر جلد تھکاوٹ ہوجاتی اورپھر ہم باہر گھو منے نکل جاتے،سیٹھ کی گلی سے گزر ہو تا تو ہمیشہ وہ ہمیں حسا ب کتاب کر تا نظر آتا،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت محنتی تھا،پو ری رات عرق ریزی کرتا اور صبح پھر کیلکو لیٹر تھام لیتا، ہر مسلمان کی طرح سیٹھ نے بھی بڑھاپے میں عمرہ کیا،نمازیں پڑیں، داڈھی رکھی اور دھوتی کی جگہ سفید کپڑے پہنے، ٹوپی پہنی،کیا پتا شراب،عورت بازی اور ریاری بھی چھوڑ دی ہو۔ ویسے مسلمانوں میں قدرت نے کیسا لاجواب عنصر رکھا ہے،ہم کتنے ہی گناہ گار کیوں نہ ہوں زندگی کے آخری دنوں میں اللہ ہمیں بہت یاد آتا ہے،کتنے ہی ایسے مسلمان جنت میں جاتے ہونگے جو زندگی کے آخری آیام میں سچے دل سے معافی ما نگ کر بخشش کر ا لیتے ہونگے۔ خیربڑھتی عمر کے ساتھ سیٹھ کاذکرہماری گفتگوسے کم ہو تا گیا،ہم تینوں اپنے راستے ٹھیک جا رہے تھے،میں ماسٹرز میں تھا،یو نیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا،احسن کا فون آیا،میں باہر نکلا،فون اٹھا یا اور اس کاحال پوچھا،سیٹھ کا انتقال ہو گیا ہے،احسن نے کہا۔مجھے اتنا صد مہ تو نہیں ہوامگر دکھ ضرور ہوا۔بچپن کی یا دیں تازہ ہونے لگیں،دوستوں کے ساتھ اس کا ٹیرس پر محفل لگا نا،گلی میں بیٹھنا،آخری آیام میں مسجد جانا،ٹوپی پہننا یہ سارے منا ظر ایک ساتھ میری آنکھوں میں فلم کی طرح چلنے لگے،میں نے احسن سے کہایار کل تو مسجد میں دیکھا ہے اسے عشأکی نماز میں،بالکل ٹھیک تھا۔موت ہے بتا کر تھو ڑی آتی ہے،احسن نے وضا حت کی۔نماز ِجنا زہ میں چلے گا؟مغرب میں ہے،احسن نے پوچھا۔۔۔!میں آرہاہو ں!تم فیصل کو بتا دو۔۔۔!میں گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔
وہ شخص جو عالی شان گھروں کی تعمیر کا خو گر تھا،زمین کی مٹی سے بہتر ین عمارتیں بنانے کا جسے نشہ تھا آج ہم اس کے اوپر مٹی ڈال رہے تھے،وہ شراب،وہ عورت،وہ دکھا وا سب کچھ اس مٹی تلے دبا جا رہا تھا،کوئی اپنا مرتا ہے تو آنسو نکلتے ہیں، غیر وں کی فوتگی پر دکھ کم ہو تا ہے مگر میری آنکھوں میں اس وقت ہلکی سی نمی اُتر آئی جب میں نے سوچا،کاش انسان اس دھرتی پر اپنی حیثیت جان لے،کاش اسے پتا چل جائے کہ وہ چند گندے قطروں سے بنا ہواصرف گوشت کا ایک لوتھڑاہے۔۔۔!
سیٹھ ہمارے علاقے کا امیر ترین آدمی تھا،وہ مجھ سمیت کئی نو جوان کا آئیڈیل تھا،دو گز پر رکھی ایک مشین سے اس نے چھوٹاسا کارخانہ شروع کیا اور تر قی کرتے کر تے وہ ہمارے علاقے کا سیٹھ بن گیا،گارمنٹس کا کاروبار چل نکلا تو وہ کپڑوں کا بیوپاری بن گیا،ہر کسی میں خامیاں ہوتی ہیں سیٹھ میں بھی تین خامیاں تھیں،اس کی پہلی کمزوری شراب تھی، دوسری کم عمر لڑکیاں، تیسری اور آخری خامی دولت کی نمو دو نما ئش۔غریب ماں باپ اپنی کلیوں کی طرح کھلتی بچیاں اس کے نکاح میں ہنسی خوشی دے جاتے اور یہ چند ہی روز میں اِنہیں بری طرح مسل دیتا۔
میں اورمیرے محلے کے دوست احسن اورفیصل بارہویں میں پہنچے تو سیٹھ نے چوتھی دلہن کو اپنے نکاح میں لیا،لڑکی کی عمر اٹھا رہ برس سے زائد نہ ہوگی،اس کی معصوم صورت ہم جیسے کئی نوجوانوں کے سینوں کو چیرتی ہوئی دل کے کسی نہاں خانے میں کھب گئی تھی،گلاب کی طرح کھلتا چہرہ، دودھ میں نہائے حنا مالیدہ ہاتھ، حیا میں ڈوبی پُر کشش آنکھیں۔۔۔!اسے دیکھتے ہی کتنے بد نصیب نوجوانوں نے سوچاہوگا:”کیاحسن بھی برائے فروخت ہے”مگریہ قیمتی موتی سیٹھ کی جھولی میں گر چکا تھا، اب لکیر پیٹنے سے کوئی فا ئد ہ نہ تھا،سیٹھ تقریباًستاون سال کاتھا،اس کی سرخ آنکھیں،سیاہ چہرہ اورسفید کاٹن کا سوٹ ناقابل برداشت امتزاج پیداکررہے تھے،وہ ہم جیسے نوجوانوں کی آنکھوں میں چب رہا تھا، اس کی شادی میں ہر عام وخاص کے لئے کھانا ہوتا، بچپن میں ہم بھی اس کی شادی کی دعائیں کرتے مگر اب ہم بڑے ہو چکے تھے،سیٹھ کی یہ حرکت ہمیں کھٹکنے لگی تھی،شادی ہورہی تھی، نکا ح پڑھا یا جا چکا تھا،چھوارے با نٹے جارہے تھے اور ہم تینوں دوست گلی کے چبوترے پربیٹھے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے،ماحول سادہ تھا، ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا اور تینوں نے عہدکیا، ہم کبھی شراب اور سیگریٹ نہیں پئیں گے، کسی لڑکی کی نتھ نہیں اتاریں گے اور اگر اللہ نے دولت دی تو اس پرہماری گردن کبھی نہیں اکڑے گی۔ہم جس چو ک پر بیٹھتے تھے اس کا نام شریف چوک اس لئے رکھاکیونکہ ہم خود کو شریف سمجھتے تھے،ہماری سب سے بڑی شرارت یہ ہوتی کہ اگرراہ چلتے کسی بہت خوبصورت لڑکی کودیکھ لیتے تو ساتھ چلنے والے دوست کے کان میں جا کر آہستہ سے کہہ دیتے “دیکھو!تمہاری بھابی جا رہی ہیں “یہ ہمارا سب سے بڑا چھچور پن تھا،ہماری سب سے بڑی عیاشی تھی۔
سیٹھ کو اپنی دولت پر بہت ناز تھا،اگرچہ وہ گلی میں دھوتی پہن کر بیٹھتا مگر اس کا ہر عمل اس کے جذ بات کی تر جمانی کر تا،لوگ حیران تھے کہ اس نے ایک گلی میں اٹھا رہ گھر کیوں خرید لئے؟پر کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ ریاکاری اس کے خون میں گر دش کر رہی ہے،گلی کا آخری مکان اس نے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کرا یا تھا،یہ مکا ن خوبصور تی،مینا کاری،شیشہ کاری اور رنگ کاری کے اعتبار سے ہمارے علا قے کا تا ج محل تھا،محلے میں کئی بار لوگوں کی زبان سے میں نے سنا کہ سیٹھ نے اپنی دولت کا پچاس فیصدحصہ اس مکان پر صر ف کر دیا ہے لیکن سیٹھ بہت ہو شیار آدمی تھا،وہ اپنے اس محل نما مکان کو مختلف ٹی وی چینلز کو کچھ گھنٹوں کی شوٹنگ کے لئے دے دیتا،خبریں تھیں کہ اس مکان کے کرا ئے کی مد میں اس نے بہت پیسہ بنایا تھا،مکان کی خا ص بات اس کا ٹیرس تھا،ٹیرس پر جو ایک نظر پڑے توآنکھ پھیرنے کو روح نہ کرے،کشتی نما ٹیرس دیکھنے والوں پرسحرطاری کردیتا،اُن پر سکتا طاری کر دیتا،ٹیرس اس خط پر تعمیر کیا گیا تھا کہ راہ چلتا ہر فرد اسے باآسانی دیکھ سکے،رمضان میں جب نماز تراویح کے لئے میں مسجد جاتا تو واپس آتے ہوئے میر ی نظریں اس پر ضرور پڑتیں،اکثر سیٹھ ٹیرس کے اوپر بیٹھاا پنی کسی بیگم کے ساتھ محو ِگفتگو ہو تایا کبھی اُس کے دوستوں کی بارونق محفل لگی ہوتی،میں سو چتا کیا خوش نصیب بندہ ہے کیا زندگی گز ارتا ہے۔
بچپن میں بارہ ربیع الاول،شبِ بارات،ستائس ویں شب،نو،دس محرم اور ایسے ہی تہواروں کی بڑی راتوں میں ہم دوست باہر رہتےہماری یہ مستی بہت پرانی تھی،سب اپنے گھروں پر کہہ کر نکلتے کہ عبا دت کرنے مسجد جا رہے ہیں مگر رات بھر ہم گھو متے پھر تے،کرکٹ کی باتیں کرتے اور سیٹھ جیسی زندگی گزار نے کا عزم کرتے اگرچہ ان بڑی راتوں میں ہم کچھ عبادت بھی کر تے مگر جلد تھکاوٹ ہوجاتی اورپھر ہم باہر گھو منے نکل جاتے،سیٹھ کی گلی سے گزر ہو تا تو ہمیشہ وہ ہمیں حسا ب کتاب کر تا نظر آتا،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت محنتی تھا،پو ری رات عرق ریزی کرتا اور صبح پھر کیلکو لیٹر تھام لیتا، ہر مسلمان کی طرح سیٹھ نے بھی بڑھاپے میں عمرہ کیا،نمازیں پڑیں، داڈھی رکھی اور دھوتی کی جگہ سفید کپڑے پہنے، ٹوپی پہنی،کیا پتا شراب،عورت بازی اور ریاری بھی چھوڑ دی ہو۔ ویسے مسلمانوں میں قدرت نے کیسا لاجواب عنصر رکھا ہے،ہم کتنے ہی گناہ گار کیوں نہ ہوں زندگی کے آخری دنوں میں اللہ ہمیں بہت یاد آتا ہے،کتنے ہی ایسے مسلمان جنت میں جاتے ہونگے جو زندگی کے آخری آیام میں سچے دل سے معافی ما نگ کر بخشش کر ا لیتے ہونگے۔ خیربڑھتی عمر کے ساتھ سیٹھ کاذکرہماری گفتگوسے کم ہو تا گیا،ہم تینوں اپنے راستے ٹھیک جا رہے تھے،میں ماسٹرز میں تھا،یو نیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا،احسن کا فون آیا،میں باہر نکلا،فون اٹھا یا اور اس کاحال پوچھا،سیٹھ کا انتقال ہو گیا ہے،احسن نے کہا۔مجھے اتنا صد مہ تو نہیں ہوامگر دکھ ضرور ہوا۔بچپن کی یا دیں تازہ ہونے لگیں،دوستوں کے ساتھ اس کا ٹیرس پر محفل لگا نا،گلی میں بیٹھنا،آخری آیام میں مسجد جانا،ٹوپی پہننا یہ سارے منا ظر ایک ساتھ میری آنکھوں میں فلم کی طرح چلنے لگے،میں نے احسن سے کہایار کل تو مسجد میں دیکھا ہے اسے عشأکی نماز میں،بالکل ٹھیک تھا۔موت ہے بتا کر تھو ڑی آتی ہے،احسن نے وضا حت کی۔نماز ِجنا زہ میں چلے گا؟مغرب میں ہے،احسن نے پوچھا۔۔۔!میں آرہاہو ں!تم فیصل کو بتا دو۔۔۔!میں گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔
وہ شخص جو عالی شان گھروں کی تعمیر کا خو گر تھا،زمین کی مٹی سے بہتر ین عمارتیں بنانے کا جسے نشہ تھا آج ہم اس کے اوپر مٹی ڈال رہے تھے،وہ شراب،وہ عورت،وہ دکھا وا سب کچھ اس مٹی تلے دبا جا رہا تھا،کوئی اپنا مرتا ہے تو آنسو نکلتے ہیں، غیر وں کی فوتگی پر دکھ کم ہو تا ہے مگر میری آنکھوں میں اس وقت ہلکی سی نمی اُتر آئی جب میں نے سوچا،کاش انسان اس دھرتی پر اپنی حیثیت جان لے،کاش اسے پتا چل جائے کہ وہ چند گندے قطروں سے بنا ہواصرف گوشت کا ایک لوتھڑاہے۔۔۔!