پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان حکومت میں آنے سے قبل مغربی جمھوریت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ اور مختلف حادثات کی صورت میں ان کے سربراہان کے مستعفی ہونے کو خوب سراہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھی روایت ہے جس کی پاکستان میں بھی پیروی کی جانی چاہئے۔
جمعہ کے مبارک دن ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دار الحکومت کراچی میں ھونے والے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کے بعد کم از کم دو افراد کو اپنی جماعت اور اس کے سربراہ کے فلسفے کے تحت اخلاقی طور پر فی الفور مستعفی ھو جانا چاھیے تھا، جن دو افراد کو مستعفی ہو جانا چاہئے تھا ان میں ایک وزیر ھوا بازی جناب غلام سرور خان ھیں اور دوسرے ملک کی قومی ایئر لائن پا کستان انٹر نیشنل ایئر لائینز (پی آئی اے) کے چیئر مین جناب ارشد ملک شامل ھیں کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اگر صاحبان معاملہ اپنے منصب پر ہو تو اس کے نتیجے میں تحقیقات مناب طریقے سے نہیں ہو پاتیں، اس لئے میرے خیال میں ان دونوں حضرات کے اپنے عہدوں پر رہتے ھوۓ تحقیقات کا شفاف ھونا ممکن نہیں۔ ان دونوں صاحبان کو اپنے عہدوں سے فی الفور الگ ھو کر تحقیقات کے مکمل ھونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ تحقیقات سے اگر یہ دونوں افراد بے گناہ ثابت ھو جائیں تو انھیں ان کے عہدوں پر بحال کر دیا جاۓ اور اگر یہ لوگ کسی غفلت کے مرتکب پاۓ جائیں تو انھیں قانون کے مطابق سزا دی جاۓ اگر ایسا نہ کیا گیا تو رفتہ رفتہ تحریک انصاف اپنی مقبولیت مزید کھوتی چلی جاۓ گی۔ اور PTI بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایک روایتی سیاسی جماعت بن کر رہ جاۓ گی۔ اور یوں انصاف اور خود احتسابی کا نعرہ ھمیشہ کے لیے دفن ھو جاۓ گا۔