• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home تبادلہ خیال

کالج اساتذہ کے دیرینہ مسائل

پروفیسرعمر فاروق

آوازہ ڈیسک by آوازہ ڈیسک
May 23, 2020
in تبادلہ خیال
0
کالج اساتذہ کے دیرینہ مسائل
244
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

معاشرے کا سب سے بڑا پڑھا لکھا طبقہ بلا شبہ اساتذہ ہیں اور ان میں بھی کالج اساتذہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے کہ وہ ان طلبا کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں جو اپنے کیرئیر کے آغاز پر ہوتے ہیں۔ایسے طلبا کے ذہنوں کی آبیاری کرنا ایک اہم اور منفرد فریضہ ہے جو یہ کمیونٹی خلوص سے ادا کر رہی ہے۔
کالج اساتذہ کی بھرتی کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کم سے کم تعلیم ایم اے ہے جو کسی بھی دوسری سروسز کے معیار سے زیادہ ہے۔یاد رہےفوج میں بطور آفیسر بھرتی کی اہلیت انٹرمیڈیٹ اور سول سروس میں گریجوایشن ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی ہے جو بغیر کسی ٹیچنگ الاؤنس اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
کالج سیکٹر اس وقت تین طرح کی تقسیم سے دوچار ہے ایک وہ جہاں ایم اے،ایم ایس سی کی کلاسز جاری ہیں دوسرا وہ جہاں بی ایس پروگرامز ہو رہے ہیں جبکہ تیسرا وہ جہاں اے ڈی پی اور انٹر میڈیٹ کی کلاسز جاری ہیں۔انتظامی طور پر بھی انتہائی عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔
ایک طرف ڈائریکوریٹ اور ڈی پی آئی آفس ہے تو دوسری طرف بیوروکریسی کے زیر نگرانی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔انتظامی معاملات بیوروکریسی کے سپرد ہیں اور جہاں کالج کمیونٹی کا کوئی نمائندہ فیصلہ سازی میں شریک نہیں۔ڈی پی آئی اور ڈویژنل ڈائریکٹر ز کی حیثیت بلحاظ اختیارات ایک سیکشن آفیسر سے بھی کم ہے۔دوسرے لفظوں میں فقط ڈاک کے نظام کے لئے یہ برائے نام عہدے موجود ہیں۔
اکیسویں صدی کے درپیش چیلنجز میں سے ایک پبلک سیکٹر کالجز کو پرائیویٹ سیکٹر کالجز سے مسابقت کا سامنا ہے۔پرائیویٹ سیکٹرز پہ خاطر خواہ ریگولیشن کا نظام نہ ہونے سے ان نجی کالجز نے نمودو نمائش اور لالچ کی بنیاد پر طلبا کو اپنے اداروں میں داخل کر رکھا ہے۔طلبا کی تعداد اور ان کالجز میں موجود تعلیمی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں کہ ان کے پاس سائنسی لیبارٹریز نہ ہونے کے مترادف ہیں ۔سائنسی تجربات کے لئے سامان تک میسر نہیں۔کھیلنے کے لئے گراؤنڈ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں۔فقط رٹہ سسٹم کی بنیاد پہ یہ کاروباری پلازوں کی مانند ہیں۔
پبلک سیکٹر کالجز کے اساتذہ ناکافی سہولیات کے باوجود تعلیمی،تجرباتی اور غیر نصابی سرگرمیاں محدود تر وسائل کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر ان اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ دباؤ میں رکھا ہوا ہے جن میں سر فہرست چند مسائل ملاحظہ ہوں۔
21۔2020ء سے کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے ان کامعاشی استحصال ہوا۔ان اساتذہ کو سات سال بعد ریگولر کر دیا گیا مگر ان کی سات سال کی مراعات یکلخت ختم کر دی گئیں۔یہی حال 2009ء۔ 2013ء میں بھرتی ہونے والے کالج اساتذہ کے ساتھ بھی کیا گیا۔جنھیں چار چار سال بعد ریگولر کیا گیا مگر ان کی پچھلی سروس کو بمعہ مراعات ختم کر دیا گیا۔اس ظلم کی بدولت اساتذہ کا مورال گر گیا۔ان کی زندگی کے تابناک سال دریا برد کر دئیے گئے ہیں۔یہ مسئلہ پے پروٹیکشن کے نام سے مشہور ہے۔
۲۔کالج اساتذہ کے لئے ترقی کا عمل بھی انتہائی سست ہے ۔جو پندرہ سے بیس سال بعد اگلے گریڈ میں منتقل ہوتا ہے۔جبکہ سول سروس اور دیگر اداروں میں ہر پانچ سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی لازم ہے۔یہ رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ہر دس سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی ہونا لازم امر ہونا چاہئیے کہ آخر ایک شاندار مستقبل کے لئے ترقی کالج اساتذہ کا بنیادی حق ہے۔جبکہ انہی صلاحیتوں کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ ون سٹیپ اپ گریڈیشن کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔جو امتیازی طور پر درست نہیں۔
۳۔کالج اساتذہ کے لئے تنخواہ کے علاوہ کوئی اضافی سہولت جیسے میڈیکل،رہائش اور ان کے بچوں کے لئے مختلف تعلیمی و دیگر اداروں میں کوٹہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نام کی بھی کوئی چیز نہیں کہ جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر تو دور کی بات ایک پلاٹ ہی میسر ہو سکے۔
۴۔کالج اساتذہ کو جب کسی کالج کا پرنسپل لگایا جاتا ہے تو ان کے پاس اختیارات برائے نام ہوتے ہیں۔مالی لحاظ سے بھی کالجز کی حالت بہت پتلی ہے۔سرکاری گرانٹ بالکل نہیں دی جارہی ہیں۔اور کالجز کے روزمرہ کے مسائل کے لئے بھی واجبی سا بجٹ دیا جاتا ہے جس سے بمشکل آفس سٹیشنری کا کام چل پاتا ہے۔کوئی بھی تعلیمی و علمی ریسرچ ورک فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔ایک اچھی کانفرنس کے لئے بھی فنڈز درکار ہوتے ہیں جن سے کالجز محروم ہیں۔
۵۔کالجز میں تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ بے تحاشا دوسری ڈیوٹیاں بھی تفویض کی جاتی ہیں جیسے اینٹی ڈینگی مہم،اینٹی کرونا کیمپین اور دیگر سماجی شعور جیسے کہ اینٹی ڈرگ کیمپین کروائی جاتی ہیں جن کی تشہیر و دیگر اخراجات کے لئے ایک پیسہ تک نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اساتذہ کو اضافی الاؤنس دیا جاتا ہے۔اساتذہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں دیگر تمام بین الاقوامی اداروں کے اضافی آوورز کے اصولوں کے مطابق ادائیگیاں ان کا بنیادی حق ہے۔
ایک ایسا شخص جو تعلیمی مراحل سر کر رہا ہوتا ہے وہ اس پیشے کو انتہائی معزز سمجھتے ہوئے اس کا حصہ بنتا ہے اور پھر عمر بھر ان ناانصافیوں کے بوجھ تلے زندگی بسر کر کے بھی نئی نسل کو پروان چڑھاتا ہے۔کبھی اہل اقتدار اس تکلیف کو سمجھیں تو انھیں پتا چلے کہ کرب کے یہ لمحے کالج اساتذہ کے لیے کتنے بھاری ہیں۔عمر بھر کی جمع پونجی بھی ایک استاد کو اس قابل نہیں بناتی کہ وہ اپنے بچوں کا سر چھپانے کے لئے ایک سائبان بنا سکے۔جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس عہدے کو عزت اور مراعات کے لحاظ سےاعلیٰ درجہ حاصل ہے جس کے فوائد بھی وہ معاشرے سمیٹ رہے ہیں۔معاشی طور پر ایک مطمئن اور آسودہ حال معلم نئے آبگینوں کو تراش کر ہیرا بنا سکتا ہے نیز تحقیقی عمل کے نتیجے میں ہونے والی نئی ایجادات سے روشناس کرا سکتا ہے ۔اس سب کے لئے یکسوئی اور لگن درکار ہے جو کہ ایک معاشی طور پر مطمئن اور آسودہ حال معلم کے لئے ازحد ضروری ہے۔
لہذا کالجز اور کالج اساتذہ کی اس کشتی کو بھنور سے نکالئے اور انھیں دیگر اقوام کی طرح عزت کے اعلیٰ معیار پر بٹھائیے کہ یہی پیشہ پیغمبری کا تقاضابھی ہے۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
ADVERTISEMENT
Tags: پے پرو ٹیکشنکالج اساتذہکالجز
Previous Post

عید کب منائی جاۓ ؟

Next Post

پارہ 28، تلخیص : امجد حسین امجد

آوازہ ڈیسک

آوازہ ڈیسک

Next Post
Quraan

پارہ 28، تلخیص : امجد حسین امجد

محشر خیال

استحکام پاکستان کے لیے مریم نواز کا نسخہ
محشر خیال

استحکام پاکستان کے لیے مریم نواز کا نسخہ

میڈیا
محشر خیال

پاکستان میں میڈیا کا بحران

بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار
محشر خیال

بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار

امجد اسلام امجد
فاروق عادل کے خاکے

امجد اسلام امجد کا ورثہ

تبادلہ خیال

دہشت گردی
تبادلہ خیال

دہشت گردی کی آڑ میں درندگی

جمہوریت
تبادلہ خیال

پارٹی ٹکٹ اور جمہوریت کی تقدیر

امجد اسلام امجد
تبادلہ خیال

امجد اسلام امجد کے لیے

پرویز مشرف
تبادلہ خیال

مشرف جیسے کرداروں کی برائی کرنا قرآن سے ثابت ہے

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions