Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
معاشرے کا سب سے بڑا پڑھا لکھا طبقہ بلا شبہ اساتذہ ہیں اور ان میں بھی کالج اساتذہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے کہ وہ ان طلبا کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں جو اپنے کیرئیر کے آغاز پر ہوتے ہیں۔ایسے طلبا کے ذہنوں کی آبیاری کرنا ایک اہم اور منفرد فریضہ ہے جو یہ کمیونٹی خلوص سے ادا کر رہی ہے۔
کالج اساتذہ کی بھرتی کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کم سے کم تعلیم ایم اے ہے جو کسی بھی دوسری سروسز کے معیار سے زیادہ ہے۔یاد رہےفوج میں بطور آفیسر بھرتی کی اہلیت انٹرمیڈیٹ اور سول سروس میں گریجوایشن ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی ہے جو بغیر کسی ٹیچنگ الاؤنس اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
کالج سیکٹر اس وقت تین طرح کی تقسیم سے دوچار ہے ایک وہ جہاں ایم اے،ایم ایس سی کی کلاسز جاری ہیں دوسرا وہ جہاں بی ایس پروگرامز ہو رہے ہیں جبکہ تیسرا وہ جہاں اے ڈی پی اور انٹر میڈیٹ کی کلاسز جاری ہیں۔انتظامی طور پر بھی انتہائی عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔
ایک طرف ڈائریکوریٹ اور ڈی پی آئی آفس ہے تو دوسری طرف بیوروکریسی کے زیر نگرانی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔انتظامی معاملات بیوروکریسی کے سپرد ہیں اور جہاں کالج کمیونٹی کا کوئی نمائندہ فیصلہ سازی میں شریک نہیں۔ڈی پی آئی اور ڈویژنل ڈائریکٹر ز کی حیثیت بلحاظ اختیارات ایک سیکشن آفیسر سے بھی کم ہے۔دوسرے لفظوں میں فقط ڈاک کے نظام کے لئے یہ برائے نام عہدے موجود ہیں۔
اکیسویں صدی کے درپیش چیلنجز میں سے ایک پبلک سیکٹر کالجز کو پرائیویٹ سیکٹر کالجز سے مسابقت کا سامنا ہے۔پرائیویٹ سیکٹرز پہ خاطر خواہ ریگولیشن کا نظام نہ ہونے سے ان نجی کالجز نے نمودو نمائش اور لالچ کی بنیاد پر طلبا کو اپنے اداروں میں داخل کر رکھا ہے۔طلبا کی تعداد اور ان کالجز میں موجود تعلیمی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں کہ ان کے پاس سائنسی لیبارٹریز نہ ہونے کے مترادف ہیں ۔سائنسی تجربات کے لئے سامان تک میسر نہیں۔کھیلنے کے لئے گراؤنڈ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں۔فقط رٹہ سسٹم کی بنیاد پہ یہ کاروباری پلازوں کی مانند ہیں۔
پبلک سیکٹر کالجز کے اساتذہ ناکافی سہولیات کے باوجود تعلیمی،تجرباتی اور غیر نصابی سرگرمیاں محدود تر وسائل کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر ان اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ دباؤ میں رکھا ہوا ہے جن میں سر فہرست چند مسائل ملاحظہ ہوں۔
21۔2020ء سے کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے ان کامعاشی استحصال ہوا۔ان اساتذہ کو سات سال بعد ریگولر کر دیا گیا مگر ان کی سات سال کی مراعات یکلخت ختم کر دی گئیں۔یہی حال 2009ء۔ 2013ء میں بھرتی ہونے والے کالج اساتذہ کے ساتھ بھی کیا گیا۔جنھیں چار چار سال بعد ریگولر کیا گیا مگر ان کی پچھلی سروس کو بمعہ مراعات ختم کر دیا گیا۔اس ظلم کی بدولت اساتذہ کا مورال گر گیا۔ان کی زندگی کے تابناک سال دریا برد کر دئیے گئے ہیں۔یہ مسئلہ پے پروٹیکشن کے نام سے مشہور ہے۔
۲۔کالج اساتذہ کے لئے ترقی کا عمل بھی انتہائی سست ہے ۔جو پندرہ سے بیس سال بعد اگلے گریڈ میں منتقل ہوتا ہے۔جبکہ سول سروس اور دیگر اداروں میں ہر پانچ سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی لازم ہے۔یہ رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ہر دس سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی ہونا لازم امر ہونا چاہئیے کہ آخر ایک شاندار مستقبل کے لئے ترقی کالج اساتذہ کا بنیادی حق ہے۔جبکہ انہی صلاحیتوں کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ ون سٹیپ اپ گریڈیشن کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔جو امتیازی طور پر درست نہیں۔
۳۔کالج اساتذہ کے لئے تنخواہ کے علاوہ کوئی اضافی سہولت جیسے میڈیکل،رہائش اور ان کے بچوں کے لئے مختلف تعلیمی و دیگر اداروں میں کوٹہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نام کی بھی کوئی چیز نہیں کہ جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر تو دور کی بات ایک پلاٹ ہی میسر ہو سکے۔
۴۔کالج اساتذہ کو جب کسی کالج کا پرنسپل لگایا جاتا ہے تو ان کے پاس اختیارات برائے نام ہوتے ہیں۔مالی لحاظ سے بھی کالجز کی حالت بہت پتلی ہے۔سرکاری گرانٹ بالکل نہیں دی جارہی ہیں۔اور کالجز کے روزمرہ کے مسائل کے لئے بھی واجبی سا بجٹ دیا جاتا ہے جس سے بمشکل آفس سٹیشنری کا کام چل پاتا ہے۔کوئی بھی تعلیمی و علمی ریسرچ ورک فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔ایک اچھی کانفرنس کے لئے بھی فنڈز درکار ہوتے ہیں جن سے کالجز محروم ہیں۔
۵۔کالجز میں تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ بے تحاشا دوسری ڈیوٹیاں بھی تفویض کی جاتی ہیں جیسے اینٹی ڈینگی مہم،اینٹی کرونا کیمپین اور دیگر سماجی شعور جیسے کہ اینٹی ڈرگ کیمپین کروائی جاتی ہیں جن کی تشہیر و دیگر اخراجات کے لئے ایک پیسہ تک نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اساتذہ کو اضافی الاؤنس دیا جاتا ہے۔اساتذہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں دیگر تمام بین الاقوامی اداروں کے اضافی آوورز کے اصولوں کے مطابق ادائیگیاں ان کا بنیادی حق ہے۔
ایک ایسا شخص جو تعلیمی مراحل سر کر رہا ہوتا ہے وہ اس پیشے کو انتہائی معزز سمجھتے ہوئے اس کا حصہ بنتا ہے اور پھر عمر بھر ان ناانصافیوں کے بوجھ تلے زندگی بسر کر کے بھی نئی نسل کو پروان چڑھاتا ہے۔کبھی اہل اقتدار اس تکلیف کو سمجھیں تو انھیں پتا چلے کہ کرب کے یہ لمحے کالج اساتذہ کے لیے کتنے بھاری ہیں۔عمر بھر کی جمع پونجی بھی ایک استاد کو اس قابل نہیں بناتی کہ وہ اپنے بچوں کا سر چھپانے کے لئے ایک سائبان بنا سکے۔جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس عہدے کو عزت اور مراعات کے لحاظ سےاعلیٰ درجہ حاصل ہے جس کے فوائد بھی وہ معاشرے سمیٹ رہے ہیں۔معاشی طور پر ایک مطمئن اور آسودہ حال معلم نئے آبگینوں کو تراش کر ہیرا بنا سکتا ہے نیز تحقیقی عمل کے نتیجے میں ہونے والی نئی ایجادات سے روشناس کرا سکتا ہے ۔اس سب کے لئے یکسوئی اور لگن درکار ہے جو کہ ایک معاشی طور پر مطمئن اور آسودہ حال معلم کے لئے ازحد ضروری ہے۔
لہذا کالجز اور کالج اساتذہ کی اس کشتی کو بھنور سے نکالئے اور انھیں دیگر اقوام کی طرح عزت کے اعلیٰ معیار پر بٹھائیے کہ یہی پیشہ پیغمبری کا تقاضابھی ہے۔
معاشرے کا سب سے بڑا پڑھا لکھا طبقہ بلا شبہ اساتذہ ہیں اور ان میں بھی کالج اساتذہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے کہ وہ ان طلبا کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں جو اپنے کیرئیر کے آغاز پر ہوتے ہیں۔ایسے طلبا کے ذہنوں کی آبیاری کرنا ایک اہم اور منفرد فریضہ ہے جو یہ کمیونٹی خلوص سے ادا کر رہی ہے۔
کالج اساتذہ کی بھرتی کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کم سے کم تعلیم ایم اے ہے جو کسی بھی دوسری سروسز کے معیار سے زیادہ ہے۔یاد رہےفوج میں بطور آفیسر بھرتی کی اہلیت انٹرمیڈیٹ اور سول سروس میں گریجوایشن ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی ہے جو بغیر کسی ٹیچنگ الاؤنس اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
کالج سیکٹر اس وقت تین طرح کی تقسیم سے دوچار ہے ایک وہ جہاں ایم اے،ایم ایس سی کی کلاسز جاری ہیں دوسرا وہ جہاں بی ایس پروگرامز ہو رہے ہیں جبکہ تیسرا وہ جہاں اے ڈی پی اور انٹر میڈیٹ کی کلاسز جاری ہیں۔انتظامی طور پر بھی انتہائی عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔
ایک طرف ڈائریکوریٹ اور ڈی پی آئی آفس ہے تو دوسری طرف بیوروکریسی کے زیر نگرانی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔انتظامی معاملات بیوروکریسی کے سپرد ہیں اور جہاں کالج کمیونٹی کا کوئی نمائندہ فیصلہ سازی میں شریک نہیں۔ڈی پی آئی اور ڈویژنل ڈائریکٹر ز کی حیثیت بلحاظ اختیارات ایک سیکشن آفیسر سے بھی کم ہے۔دوسرے لفظوں میں فقط ڈاک کے نظام کے لئے یہ برائے نام عہدے موجود ہیں۔
اکیسویں صدی کے درپیش چیلنجز میں سے ایک پبلک سیکٹر کالجز کو پرائیویٹ سیکٹر کالجز سے مسابقت کا سامنا ہے۔پرائیویٹ سیکٹرز پہ خاطر خواہ ریگولیشن کا نظام نہ ہونے سے ان نجی کالجز نے نمودو نمائش اور لالچ کی بنیاد پر طلبا کو اپنے اداروں میں داخل کر رکھا ہے۔طلبا کی تعداد اور ان کالجز میں موجود تعلیمی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں کہ ان کے پاس سائنسی لیبارٹریز نہ ہونے کے مترادف ہیں ۔سائنسی تجربات کے لئے سامان تک میسر نہیں۔کھیلنے کے لئے گراؤنڈ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں۔فقط رٹہ سسٹم کی بنیاد پہ یہ کاروباری پلازوں کی مانند ہیں۔
پبلک سیکٹر کالجز کے اساتذہ ناکافی سہولیات کے باوجود تعلیمی،تجرباتی اور غیر نصابی سرگرمیاں محدود تر وسائل کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر ان اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ دباؤ میں رکھا ہوا ہے جن میں سر فہرست چند مسائل ملاحظہ ہوں۔
21۔2020ء سے کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے ان کامعاشی استحصال ہوا۔ان اساتذہ کو سات سال بعد ریگولر کر دیا گیا مگر ان کی سات سال کی مراعات یکلخت ختم کر دی گئیں۔یہی حال 2009ء۔ 2013ء میں بھرتی ہونے والے کالج اساتذہ کے ساتھ بھی کیا گیا۔جنھیں چار چار سال بعد ریگولر کیا گیا مگر ان کی پچھلی سروس کو بمعہ مراعات ختم کر دیا گیا۔اس ظلم کی بدولت اساتذہ کا مورال گر گیا۔ان کی زندگی کے تابناک سال دریا برد کر دئیے گئے ہیں۔یہ مسئلہ پے پروٹیکشن کے نام سے مشہور ہے۔
۲۔کالج اساتذہ کے لئے ترقی کا عمل بھی انتہائی سست ہے ۔جو پندرہ سے بیس سال بعد اگلے گریڈ میں منتقل ہوتا ہے۔جبکہ سول سروس اور دیگر اداروں میں ہر پانچ سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی لازم ہے۔یہ رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ہر دس سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی ہونا لازم امر ہونا چاہئیے کہ آخر ایک شاندار مستقبل کے لئے ترقی کالج اساتذہ کا بنیادی حق ہے۔جبکہ انہی صلاحیتوں کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ ون سٹیپ اپ گریڈیشن کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔جو امتیازی طور پر درست نہیں۔
۳۔کالج اساتذہ کے لئے تنخواہ کے علاوہ کوئی اضافی سہولت جیسے میڈیکل،رہائش اور ان کے بچوں کے لئے مختلف تعلیمی و دیگر اداروں میں کوٹہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نام کی بھی کوئی چیز نہیں کہ جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر تو دور کی بات ایک پلاٹ ہی میسر ہو سکے۔
۴۔کالج اساتذہ کو جب کسی کالج کا پرنسپل لگایا جاتا ہے تو ان کے پاس اختیارات برائے نام ہوتے ہیں۔مالی لحاظ سے بھی کالجز کی حالت بہت پتلی ہے۔سرکاری گرانٹ بالکل نہیں دی جارہی ہیں۔اور کالجز کے روزمرہ کے مسائل کے لئے بھی واجبی سا بجٹ دیا جاتا ہے جس سے بمشکل آفس سٹیشنری کا کام چل پاتا ہے۔کوئی بھی تعلیمی و علمی ریسرچ ورک فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔ایک اچھی کانفرنس کے لئے بھی فنڈز درکار ہوتے ہیں جن سے کالجز محروم ہیں۔
۵۔کالجز میں تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ بے تحاشا دوسری ڈیوٹیاں بھی تفویض کی جاتی ہیں جیسے اینٹی ڈینگی مہم،اینٹی کرونا کیمپین اور دیگر سماجی شعور جیسے کہ اینٹی ڈرگ کیمپین کروائی جاتی ہیں جن کی تشہیر و دیگر اخراجات کے لئے ایک پیسہ تک نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اساتذہ کو اضافی الاؤنس دیا جاتا ہے۔اساتذہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں دیگر تمام بین الاقوامی اداروں کے اضافی آوورز کے اصولوں کے مطابق ادائیگیاں ان کا بنیادی حق ہے۔
ایک ایسا شخص جو تعلیمی مراحل سر کر رہا ہوتا ہے وہ اس پیشے کو انتہائی معزز سمجھتے ہوئے اس کا حصہ بنتا ہے اور پھر عمر بھر ان ناانصافیوں کے بوجھ تلے زندگی بسر کر کے بھی نئی نسل کو پروان چڑھاتا ہے۔کبھی اہل اقتدار اس تکلیف کو سمجھیں تو انھیں پتا چلے کہ کرب کے یہ لمحے کالج اساتذہ کے لیے کتنے بھاری ہیں۔عمر بھر کی جمع پونجی بھی ایک استاد کو اس قابل نہیں بناتی کہ وہ اپنے بچوں کا سر چھپانے کے لئے ایک سائبان بنا سکے۔جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس عہدے کو عزت اور مراعات کے لحاظ سےاعلیٰ درجہ حاصل ہے جس کے فوائد بھی وہ معاشرے سمیٹ رہے ہیں۔معاشی طور پر ایک مطمئن اور آسودہ حال معلم نئے آبگینوں کو تراش کر ہیرا بنا سکتا ہے نیز تحقیقی عمل کے نتیجے میں ہونے والی نئی ایجادات سے روشناس کرا سکتا ہے ۔اس سب کے لئے یکسوئی اور لگن درکار ہے جو کہ ایک معاشی طور پر مطمئن اور آسودہ حال معلم کے لئے ازحد ضروری ہے۔
لہذا کالجز اور کالج اساتذہ کی اس کشتی کو بھنور سے نکالئے اور انھیں دیگر اقوام کی طرح عزت کے اعلیٰ معیار پر بٹھائیے کہ یہی پیشہ پیغمبری کا تقاضابھی ہے۔
معاشرے کا سب سے بڑا پڑھا لکھا طبقہ بلا شبہ اساتذہ ہیں اور ان میں بھی کالج اساتذہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے کہ وہ ان طلبا کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں جو اپنے کیرئیر کے آغاز پر ہوتے ہیں۔ایسے طلبا کے ذہنوں کی آبیاری کرنا ایک اہم اور منفرد فریضہ ہے جو یہ کمیونٹی خلوص سے ادا کر رہی ہے۔
کالج اساتذہ کی بھرتی کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کم سے کم تعلیم ایم اے ہے جو کسی بھی دوسری سروسز کے معیار سے زیادہ ہے۔یاد رہےفوج میں بطور آفیسر بھرتی کی اہلیت انٹرمیڈیٹ اور سول سروس میں گریجوایشن ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی ہے جو بغیر کسی ٹیچنگ الاؤنس اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
کالج سیکٹر اس وقت تین طرح کی تقسیم سے دوچار ہے ایک وہ جہاں ایم اے،ایم ایس سی کی کلاسز جاری ہیں دوسرا وہ جہاں بی ایس پروگرامز ہو رہے ہیں جبکہ تیسرا وہ جہاں اے ڈی پی اور انٹر میڈیٹ کی کلاسز جاری ہیں۔انتظامی طور پر بھی انتہائی عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔
ایک طرف ڈائریکوریٹ اور ڈی پی آئی آفس ہے تو دوسری طرف بیوروکریسی کے زیر نگرانی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔انتظامی معاملات بیوروکریسی کے سپرد ہیں اور جہاں کالج کمیونٹی کا کوئی نمائندہ فیصلہ سازی میں شریک نہیں۔ڈی پی آئی اور ڈویژنل ڈائریکٹر ز کی حیثیت بلحاظ اختیارات ایک سیکشن آفیسر سے بھی کم ہے۔دوسرے لفظوں میں فقط ڈاک کے نظام کے لئے یہ برائے نام عہدے موجود ہیں۔
اکیسویں صدی کے درپیش چیلنجز میں سے ایک پبلک سیکٹر کالجز کو پرائیویٹ سیکٹر کالجز سے مسابقت کا سامنا ہے۔پرائیویٹ سیکٹرز پہ خاطر خواہ ریگولیشن کا نظام نہ ہونے سے ان نجی کالجز نے نمودو نمائش اور لالچ کی بنیاد پر طلبا کو اپنے اداروں میں داخل کر رکھا ہے۔طلبا کی تعداد اور ان کالجز میں موجود تعلیمی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں کہ ان کے پاس سائنسی لیبارٹریز نہ ہونے کے مترادف ہیں ۔سائنسی تجربات کے لئے سامان تک میسر نہیں۔کھیلنے کے لئے گراؤنڈ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں۔فقط رٹہ سسٹم کی بنیاد پہ یہ کاروباری پلازوں کی مانند ہیں۔
پبلک سیکٹر کالجز کے اساتذہ ناکافی سہولیات کے باوجود تعلیمی،تجرباتی اور غیر نصابی سرگرمیاں محدود تر وسائل کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر ان اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ دباؤ میں رکھا ہوا ہے جن میں سر فہرست چند مسائل ملاحظہ ہوں۔
21۔2020ء سے کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے ان کامعاشی استحصال ہوا۔ان اساتذہ کو سات سال بعد ریگولر کر دیا گیا مگر ان کی سات سال کی مراعات یکلخت ختم کر دی گئیں۔یہی حال 2009ء۔ 2013ء میں بھرتی ہونے والے کالج اساتذہ کے ساتھ بھی کیا گیا۔جنھیں چار چار سال بعد ریگولر کیا گیا مگر ان کی پچھلی سروس کو بمعہ مراعات ختم کر دیا گیا۔اس ظلم کی بدولت اساتذہ کا مورال گر گیا۔ان کی زندگی کے تابناک سال دریا برد کر دئیے گئے ہیں۔یہ مسئلہ پے پروٹیکشن کے نام سے مشہور ہے۔
۲۔کالج اساتذہ کے لئے ترقی کا عمل بھی انتہائی سست ہے ۔جو پندرہ سے بیس سال بعد اگلے گریڈ میں منتقل ہوتا ہے۔جبکہ سول سروس اور دیگر اداروں میں ہر پانچ سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی لازم ہے۔یہ رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ہر دس سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی ہونا لازم امر ہونا چاہئیے کہ آخر ایک شاندار مستقبل کے لئے ترقی کالج اساتذہ کا بنیادی حق ہے۔جبکہ انہی صلاحیتوں کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ ون سٹیپ اپ گریڈیشن کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔جو امتیازی طور پر درست نہیں۔
۳۔کالج اساتذہ کے لئے تنخواہ کے علاوہ کوئی اضافی سہولت جیسے میڈیکل،رہائش اور ان کے بچوں کے لئے مختلف تعلیمی و دیگر اداروں میں کوٹہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نام کی بھی کوئی چیز نہیں کہ جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر تو دور کی بات ایک پلاٹ ہی میسر ہو سکے۔
۴۔کالج اساتذہ کو جب کسی کالج کا پرنسپل لگایا جاتا ہے تو ان کے پاس اختیارات برائے نام ہوتے ہیں۔مالی لحاظ سے بھی کالجز کی حالت بہت پتلی ہے۔سرکاری گرانٹ بالکل نہیں دی جارہی ہیں۔اور کالجز کے روزمرہ کے مسائل کے لئے بھی واجبی سا بجٹ دیا جاتا ہے جس سے بمشکل آفس سٹیشنری کا کام چل پاتا ہے۔کوئی بھی تعلیمی و علمی ریسرچ ورک فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔ایک اچھی کانفرنس کے لئے بھی فنڈز درکار ہوتے ہیں جن سے کالجز محروم ہیں۔
۵۔کالجز میں تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ بے تحاشا دوسری ڈیوٹیاں بھی تفویض کی جاتی ہیں جیسے اینٹی ڈینگی مہم،اینٹی کرونا کیمپین اور دیگر سماجی شعور جیسے کہ اینٹی ڈرگ کیمپین کروائی جاتی ہیں جن کی تشہیر و دیگر اخراجات کے لئے ایک پیسہ تک نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اساتذہ کو اضافی الاؤنس دیا جاتا ہے۔اساتذہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں دیگر تمام بین الاقوامی اداروں کے اضافی آوورز کے اصولوں کے مطابق ادائیگیاں ان کا بنیادی حق ہے۔
ایک ایسا شخص جو تعلیمی مراحل سر کر رہا ہوتا ہے وہ اس پیشے کو انتہائی معزز سمجھتے ہوئے اس کا حصہ بنتا ہے اور پھر عمر بھر ان ناانصافیوں کے بوجھ تلے زندگی بسر کر کے بھی نئی نسل کو پروان چڑھاتا ہے۔کبھی اہل اقتدار اس تکلیف کو سمجھیں تو انھیں پتا چلے کہ کرب کے یہ لمحے کالج اساتذہ کے لیے کتنے بھاری ہیں۔عمر بھر کی جمع پونجی بھی ایک استاد کو اس قابل نہیں بناتی کہ وہ اپنے بچوں کا سر چھپانے کے لئے ایک سائبان بنا سکے۔جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس عہدے کو عزت اور مراعات کے لحاظ سےاعلیٰ درجہ حاصل ہے جس کے فوائد بھی وہ معاشرے سمیٹ رہے ہیں۔معاشی طور پر ایک مطمئن اور آسودہ حال معلم نئے آبگینوں کو تراش کر ہیرا بنا سکتا ہے نیز تحقیقی عمل کے نتیجے میں ہونے والی نئی ایجادات سے روشناس کرا سکتا ہے ۔اس سب کے لئے یکسوئی اور لگن درکار ہے جو کہ ایک معاشی طور پر مطمئن اور آسودہ حال معلم کے لئے ازحد ضروری ہے۔
لہذا کالجز اور کالج اساتذہ کی اس کشتی کو بھنور سے نکالئے اور انھیں دیگر اقوام کی طرح عزت کے اعلیٰ معیار پر بٹھائیے کہ یہی پیشہ پیغمبری کا تقاضابھی ہے۔
معاشرے کا سب سے بڑا پڑھا لکھا طبقہ بلا شبہ اساتذہ ہیں اور ان میں بھی کالج اساتذہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے کہ وہ ان طلبا کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں جو اپنے کیرئیر کے آغاز پر ہوتے ہیں۔ایسے طلبا کے ذہنوں کی آبیاری کرنا ایک اہم اور منفرد فریضہ ہے جو یہ کمیونٹی خلوص سے ادا کر رہی ہے۔
کالج اساتذہ کی بھرتی کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کم سے کم تعلیم ایم اے ہے جو کسی بھی دوسری سروسز کے معیار سے زیادہ ہے۔یاد رہےفوج میں بطور آفیسر بھرتی کی اہلیت انٹرمیڈیٹ اور سول سروس میں گریجوایشن ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی ہے جو بغیر کسی ٹیچنگ الاؤنس اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
کالج سیکٹر اس وقت تین طرح کی تقسیم سے دوچار ہے ایک وہ جہاں ایم اے،ایم ایس سی کی کلاسز جاری ہیں دوسرا وہ جہاں بی ایس پروگرامز ہو رہے ہیں جبکہ تیسرا وہ جہاں اے ڈی پی اور انٹر میڈیٹ کی کلاسز جاری ہیں۔انتظامی طور پر بھی انتہائی عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔
ایک طرف ڈائریکوریٹ اور ڈی پی آئی آفس ہے تو دوسری طرف بیوروکریسی کے زیر نگرانی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔انتظامی معاملات بیوروکریسی کے سپرد ہیں اور جہاں کالج کمیونٹی کا کوئی نمائندہ فیصلہ سازی میں شریک نہیں۔ڈی پی آئی اور ڈویژنل ڈائریکٹر ز کی حیثیت بلحاظ اختیارات ایک سیکشن آفیسر سے بھی کم ہے۔دوسرے لفظوں میں فقط ڈاک کے نظام کے لئے یہ برائے نام عہدے موجود ہیں۔
اکیسویں صدی کے درپیش چیلنجز میں سے ایک پبلک سیکٹر کالجز کو پرائیویٹ سیکٹر کالجز سے مسابقت کا سامنا ہے۔پرائیویٹ سیکٹرز پہ خاطر خواہ ریگولیشن کا نظام نہ ہونے سے ان نجی کالجز نے نمودو نمائش اور لالچ کی بنیاد پر طلبا کو اپنے اداروں میں داخل کر رکھا ہے۔طلبا کی تعداد اور ان کالجز میں موجود تعلیمی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں کہ ان کے پاس سائنسی لیبارٹریز نہ ہونے کے مترادف ہیں ۔سائنسی تجربات کے لئے سامان تک میسر نہیں۔کھیلنے کے لئے گراؤنڈ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں۔فقط رٹہ سسٹم کی بنیاد پہ یہ کاروباری پلازوں کی مانند ہیں۔
پبلک سیکٹر کالجز کے اساتذہ ناکافی سہولیات کے باوجود تعلیمی،تجرباتی اور غیر نصابی سرگرمیاں محدود تر وسائل کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہیں۔مگر ان اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ دباؤ میں رکھا ہوا ہے جن میں سر فہرست چند مسائل ملاحظہ ہوں۔
21۔2020ء سے کالج اساتذہ کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے ان کامعاشی استحصال ہوا۔ان اساتذہ کو سات سال بعد ریگولر کر دیا گیا مگر ان کی سات سال کی مراعات یکلخت ختم کر دی گئیں۔یہی حال 2009ء۔ 2013ء میں بھرتی ہونے والے کالج اساتذہ کے ساتھ بھی کیا گیا۔جنھیں چار چار سال بعد ریگولر کیا گیا مگر ان کی پچھلی سروس کو بمعہ مراعات ختم کر دیا گیا۔اس ظلم کی بدولت اساتذہ کا مورال گر گیا۔ان کی زندگی کے تابناک سال دریا برد کر دئیے گئے ہیں۔یہ مسئلہ پے پروٹیکشن کے نام سے مشہور ہے۔
۲۔کالج اساتذہ کے لئے ترقی کا عمل بھی انتہائی سست ہے ۔جو پندرہ سے بیس سال بعد اگلے گریڈ میں منتقل ہوتا ہے۔جبکہ سول سروس اور دیگر اداروں میں ہر پانچ سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی لازم ہے۔یہ رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ہر دس سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی ہونا لازم امر ہونا چاہئیے کہ آخر ایک شاندار مستقبل کے لئے ترقی کالج اساتذہ کا بنیادی حق ہے۔جبکہ انہی صلاحیتوں کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھانے والے اساتذہ ون سٹیپ اپ گریڈیشن کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔جو امتیازی طور پر درست نہیں۔
۳۔کالج اساتذہ کے لئے تنخواہ کے علاوہ کوئی اضافی سہولت جیسے میڈیکل،رہائش اور ان کے بچوں کے لئے مختلف تعلیمی و دیگر اداروں میں کوٹہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نام کی بھی کوئی چیز نہیں کہ جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر تو دور کی بات ایک پلاٹ ہی میسر ہو سکے۔
۴۔کالج اساتذہ کو جب کسی کالج کا پرنسپل لگایا جاتا ہے تو ان کے پاس اختیارات برائے نام ہوتے ہیں۔مالی لحاظ سے بھی کالجز کی حالت بہت پتلی ہے۔سرکاری گرانٹ بالکل نہیں دی جارہی ہیں۔اور کالجز کے روزمرہ کے مسائل کے لئے بھی واجبی سا بجٹ دیا جاتا ہے جس سے بمشکل آفس سٹیشنری کا کام چل پاتا ہے۔کوئی بھی تعلیمی و علمی ریسرچ ورک فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔ایک اچھی کانفرنس کے لئے بھی فنڈز درکار ہوتے ہیں جن سے کالجز محروم ہیں۔
۵۔کالجز میں تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ بے تحاشا دوسری ڈیوٹیاں بھی تفویض کی جاتی ہیں جیسے اینٹی ڈینگی مہم،اینٹی کرونا کیمپین اور دیگر سماجی شعور جیسے کہ اینٹی ڈرگ کیمپین کروائی جاتی ہیں جن کی تشہیر و دیگر اخراجات کے لئے ایک پیسہ تک نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اساتذہ کو اضافی الاؤنس دیا جاتا ہے۔اساتذہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں دیگر تمام بین الاقوامی اداروں کے اضافی آوورز کے اصولوں کے مطابق ادائیگیاں ان کا بنیادی حق ہے۔
ایک ایسا شخص جو تعلیمی مراحل سر کر رہا ہوتا ہے وہ اس پیشے کو انتہائی معزز سمجھتے ہوئے اس کا حصہ بنتا ہے اور پھر عمر بھر ان ناانصافیوں کے بوجھ تلے زندگی بسر کر کے بھی نئی نسل کو پروان چڑھاتا ہے۔کبھی اہل اقتدار اس تکلیف کو سمجھیں تو انھیں پتا چلے کہ کرب کے یہ لمحے کالج اساتذہ کے لیے کتنے بھاری ہیں۔عمر بھر کی جمع پونجی بھی ایک استاد کو اس قابل نہیں بناتی کہ وہ اپنے بچوں کا سر چھپانے کے لئے ایک سائبان بنا سکے۔جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس عہدے کو عزت اور مراعات کے لحاظ سےاعلیٰ درجہ حاصل ہے جس کے فوائد بھی وہ معاشرے سمیٹ رہے ہیں۔معاشی طور پر ایک مطمئن اور آسودہ حال معلم نئے آبگینوں کو تراش کر ہیرا بنا سکتا ہے نیز تحقیقی عمل کے نتیجے میں ہونے والی نئی ایجادات سے روشناس کرا سکتا ہے ۔اس سب کے لئے یکسوئی اور لگن درکار ہے جو کہ ایک معاشی طور پر مطمئن اور آسودہ حال معلم کے لئے ازحد ضروری ہے۔
لہذا کالجز اور کالج اساتذہ کی اس کشتی کو بھنور سے نکالئے اور انھیں دیگر اقوام کی طرح عزت کے اعلیٰ معیار پر بٹھائیے کہ یہی پیشہ پیغمبری کا تقاضابھی ہے۔