Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قائد اعظم انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے جناح ٹرمنل کے قریب پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز پی آئی اے کا ایک مسافر بردار طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ۔ طیارے پر 99 افراد سوار تھے جن میں عملے کے آٹھ ارکان اور 91 مسافر شامل تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو جب کی ایک اطلاع کے مطابق بینک آف پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر ظفر مسعود کے زندہ بچ جانے کی اطلاع ملی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں کئی دیگر مسافر بھی بچ سکتے ہیں۔ طیارے میں ممتاز صحافی انصار نقوی ھی سوار تھے ۔ یہ طیارہ لاہور سے کراچی آرہا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ ایئر بس 320 قسم کا تھا جو آج دن ایک بجے لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا تھا۔ حادثہ لینڈنگ سے فوری قبل پیش آیا۔پی آئی اے کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کی فوری طور پر یہی سامنے آسکی ہے کہ بدقسمتی طیارے کا لینڈنگ گیئر نہیں کھل سکا جس کی وجہ سے لینڈنگ کرنے میں ناکام رہا۔
حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ کراچی کی ایک گنجان آباد بستی ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن نامی آبادی پر گرا جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے متعدد مکانات کو شدید نقصان پہنچا۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد پاکستان میں فضائی سفر کا سلسلہ دو ماہ تک معطل تھا ۔ یہ سروس حال ہی میں بحال ہوا ہے۔
طیارہ حادثے پر صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کراچی میں پی آئی اے مسافر طیارے کے حادثے کے نتیجے میں قیمتی جانی نقصان پر گہرے رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ریلیف، ریسکیو اور زخمیوں کو فوری طبی امداد کی ہدایت کر دی ہے۔ عمران خان نے طیارہ حادثے کی فوری تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک کئی فضائی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور ان میں درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ملکی تاریخ کے کچھ ایسے فضائی حادثے بھی ہیں جنہیں کئی سال گزر جانے کے باوجود عوام آج تک نہیں بھلا پایا۔پاکستان کے لیے 22 مئی کا دن بھی کچھ اسی طرح کی بری خبر سامنے لایا جب کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے سندھ کے دارالحکومت کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔لیکن اس واقعے سے قبل بھی پاکستان میں متعدد فضائی حادثات ہوچکے ہیں لاہور سے کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا۔پی آئی اے کے ترجمان عبد الستار نے واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ طیارہ اے-320 میں 90 مسافر سوار تھے جو لاہور سے کراچی آرہے تھے
پہلا فضائی حادثہ
پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہوائی حادثہ بیرون ملک 20 مئی 1965 ء کو پیش آیا ۔ اس حادثے کا شکاوہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 705 بوئنگ 720 براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی ۔ یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا ۔ اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے ، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے ۔
چھ اگست 1970
دوسرا حادثہ فوکر طیارے F27 کا تھا جو 6 اگست 1970 کو جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا، طوفان میں گھر گیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور ”راوت“ کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ اس حادثے میں تمام 30 افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔
دسمبر 1972
آٹھ دسمبر 1972 کو فوکر طیارہ F27 (فلائٹ نمبر 631) اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا ۔ جہاز میں سوار 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے ۔
حاجیوں کے طیارے میں آگ لگ گئی
26 نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آ رہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے ۔
فوکر طیارہ تباہ
23 اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا ۔ جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے ۔
صدر مملکت اور فوجی قیادت جاں بحق
17 اگست 1988 کو امریکی ساختہ ہرکولیس C-130 فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیال الحق، مزید 30 فوجی جرنیل اور امریکی سفیر ہلاک ہو گئے تھے۔
سالوں بعد بھی لاشیں نہ مل سکیں
25 اگست 1989 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ PK-404 گلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو گیا ۔ 21 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکی ہیں ۔ جہاز کی تلاش میں 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے ۔
واضح رہے کہ طیاروں کے ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا۔
بیرون ملک سب سے بڑا حادثہ
28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے صرف چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکراکر تباہ ہو گئی ۔ عملے کے بارہ افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے کی وجہ جہاز کی مقرر کردہ بلندی سے تقریبا 1600 فٹ نیچی پرواز تھی ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بیرون ملک مسافر بردار ہوائی جہاز کا سب سے بڑا حادثہ تھا ۔
پاک فضائیہ کے سربراہ جاں بحق
پاک فضائیہ کا فوکر طیارہF27 کوہاٹ کے قریب دھند کے سبب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے سبب پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر، ان کی بیوی اور دیگر 15 افراد جاں بحق ہو گئے تھے.
بحیرہ عرب میں طیارہ گر کر تباہ
اس واقعے کے پانچ دن بعد افغانستان کی کانوں اور صنعتوں کے وزیر جمعہ محمد محمدی، چار افغان آفیشلز، چین کے کان کنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو لے جانے والا چارٹرڈ جہاز کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا تھا.
41 مسافر جاں بحق
دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 فضا میں بلند ہونے کے دس منٹ بعد ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا ۔ لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے تھے ۔ حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی ۔
مارگلہ کی پہاڑیوں میں تباہی
28 جولائی 2010 کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ میں پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے ۔
20 اپریل 2012
20 اپریل 2012 کو پاکستان کا بھوجا ایئر بوئنگ طیارہ 737 کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں 121 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
غیر ملکی سفیروں کی ہلاکت
پاک فوج کا ہیلی کاپٹر وادی گلگت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ملائیشین اور انڈونیشین سفیروں کی بیگمات سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ حادثے کے نتیجے میں وادی کے ایک اسکول کی عمارت میں آگ لگ گئی تھی.
07 دسمبر 2016
چار سال قبل دسمبر 2016 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
جاں بحق ہونے والے افراد میں معروف نعت خواں اور سابق گلوکار جنید جمشید بھی شامل تھے۔گزشتہ 4 سال میں اسی حادثے کو سب سے بڑا فضائی حادثہ قرار دیا جا رہا تھا۔
30 جولائی 2019
گزشتہ برس 30 جولائی کو پاک فوج کا طیارہ راولپنڈی کے علاقے موہڑہ کالو میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں 2 فوجی افسران سمیت عملے کے 5 افراد بھی شامل تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق پاکستان آرمی ایوی ایشن کا طیارہ تربیتی پرواز پر تھا کہ حادثے کا شکار ہوا اور راولپنڈی میں شہری آبادی والے علاقے موہڑہ کالو میں گر گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق طیارے کے حادثے میں 2 پائلیٹ سمیت عملے کے 5 اہلکار شہید ہوگئے۔
ضائی حادثات کے علاوہ بھی پاکستان میں متعدد حادثات ہوئے، تاہم ان میں اموات کم ہوئیں اور وہ حادثات چھوٹے پیمانے کے تھے۔پاکستان میں فوجی اور تربیتی طیاروں کے تباہ ہونے کے بھی متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، تاہم ایسے حادثات میں 2 سے 5 افراد کی اموات ہوتی رہی ہیں۔پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فضائی حادثات ہوتے رہتے ہیں اور عام طور پر تکنیکی خرابی یا پھر خراب موسم کے باعث طیاروں کے تباہ ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قائد اعظم انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے جناح ٹرمنل کے قریب پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز پی آئی اے کا ایک مسافر بردار طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ۔ طیارے پر 99 افراد سوار تھے جن میں عملے کے آٹھ ارکان اور 91 مسافر شامل تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو جب کی ایک اطلاع کے مطابق بینک آف پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر ظفر مسعود کے زندہ بچ جانے کی اطلاع ملی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں کئی دیگر مسافر بھی بچ سکتے ہیں۔ طیارے میں ممتاز صحافی انصار نقوی ھی سوار تھے ۔ یہ طیارہ لاہور سے کراچی آرہا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ ایئر بس 320 قسم کا تھا جو آج دن ایک بجے لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا تھا۔ حادثہ لینڈنگ سے فوری قبل پیش آیا۔پی آئی اے کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کی فوری طور پر یہی سامنے آسکی ہے کہ بدقسمتی طیارے کا لینڈنگ گیئر نہیں کھل سکا جس کی وجہ سے لینڈنگ کرنے میں ناکام رہا۔
حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ کراچی کی ایک گنجان آباد بستی ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن نامی آبادی پر گرا جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے متعدد مکانات کو شدید نقصان پہنچا۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد پاکستان میں فضائی سفر کا سلسلہ دو ماہ تک معطل تھا ۔ یہ سروس حال ہی میں بحال ہوا ہے۔
طیارہ حادثے پر صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کراچی میں پی آئی اے مسافر طیارے کے حادثے کے نتیجے میں قیمتی جانی نقصان پر گہرے رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ریلیف، ریسکیو اور زخمیوں کو فوری طبی امداد کی ہدایت کر دی ہے۔ عمران خان نے طیارہ حادثے کی فوری تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک کئی فضائی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور ان میں درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ملکی تاریخ کے کچھ ایسے فضائی حادثے بھی ہیں جنہیں کئی سال گزر جانے کے باوجود عوام آج تک نہیں بھلا پایا۔پاکستان کے لیے 22 مئی کا دن بھی کچھ اسی طرح کی بری خبر سامنے لایا جب کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے سندھ کے دارالحکومت کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔لیکن اس واقعے سے قبل بھی پاکستان میں متعدد فضائی حادثات ہوچکے ہیں لاہور سے کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا۔پی آئی اے کے ترجمان عبد الستار نے واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ طیارہ اے-320 میں 90 مسافر سوار تھے جو لاہور سے کراچی آرہے تھے
پہلا فضائی حادثہ
پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہوائی حادثہ بیرون ملک 20 مئی 1965 ء کو پیش آیا ۔ اس حادثے کا شکاوہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 705 بوئنگ 720 براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی ۔ یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا ۔ اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے ، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے ۔
چھ اگست 1970
دوسرا حادثہ فوکر طیارے F27 کا تھا جو 6 اگست 1970 کو جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا، طوفان میں گھر گیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور ”راوت“ کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ اس حادثے میں تمام 30 افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔
دسمبر 1972
آٹھ دسمبر 1972 کو فوکر طیارہ F27 (فلائٹ نمبر 631) اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا ۔ جہاز میں سوار 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے ۔
حاجیوں کے طیارے میں آگ لگ گئی
26 نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آ رہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے ۔
فوکر طیارہ تباہ
23 اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا ۔ جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے ۔
صدر مملکت اور فوجی قیادت جاں بحق
17 اگست 1988 کو امریکی ساختہ ہرکولیس C-130 فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیال الحق، مزید 30 فوجی جرنیل اور امریکی سفیر ہلاک ہو گئے تھے۔
سالوں بعد بھی لاشیں نہ مل سکیں
25 اگست 1989 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ PK-404 گلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو گیا ۔ 21 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکی ہیں ۔ جہاز کی تلاش میں 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے ۔
واضح رہے کہ طیاروں کے ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا۔
بیرون ملک سب سے بڑا حادثہ
28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے صرف چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکراکر تباہ ہو گئی ۔ عملے کے بارہ افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے کی وجہ جہاز کی مقرر کردہ بلندی سے تقریبا 1600 فٹ نیچی پرواز تھی ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بیرون ملک مسافر بردار ہوائی جہاز کا سب سے بڑا حادثہ تھا ۔
پاک فضائیہ کے سربراہ جاں بحق
پاک فضائیہ کا فوکر طیارہF27 کوہاٹ کے قریب دھند کے سبب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے سبب پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر، ان کی بیوی اور دیگر 15 افراد جاں بحق ہو گئے تھے.
بحیرہ عرب میں طیارہ گر کر تباہ
اس واقعے کے پانچ دن بعد افغانستان کی کانوں اور صنعتوں کے وزیر جمعہ محمد محمدی، چار افغان آفیشلز، چین کے کان کنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو لے جانے والا چارٹرڈ جہاز کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا تھا.
41 مسافر جاں بحق
دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 فضا میں بلند ہونے کے دس منٹ بعد ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا ۔ لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے تھے ۔ حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی ۔
مارگلہ کی پہاڑیوں میں تباہی
28 جولائی 2010 کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ میں پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے ۔
20 اپریل 2012
20 اپریل 2012 کو پاکستان کا بھوجا ایئر بوئنگ طیارہ 737 کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں 121 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
غیر ملکی سفیروں کی ہلاکت
پاک فوج کا ہیلی کاپٹر وادی گلگت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ملائیشین اور انڈونیشین سفیروں کی بیگمات سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ حادثے کے نتیجے میں وادی کے ایک اسکول کی عمارت میں آگ لگ گئی تھی.
07 دسمبر 2016
چار سال قبل دسمبر 2016 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
جاں بحق ہونے والے افراد میں معروف نعت خواں اور سابق گلوکار جنید جمشید بھی شامل تھے۔گزشتہ 4 سال میں اسی حادثے کو سب سے بڑا فضائی حادثہ قرار دیا جا رہا تھا۔
30 جولائی 2019
گزشتہ برس 30 جولائی کو پاک فوج کا طیارہ راولپنڈی کے علاقے موہڑہ کالو میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں 2 فوجی افسران سمیت عملے کے 5 افراد بھی شامل تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق پاکستان آرمی ایوی ایشن کا طیارہ تربیتی پرواز پر تھا کہ حادثے کا شکار ہوا اور راولپنڈی میں شہری آبادی والے علاقے موہڑہ کالو میں گر گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق طیارے کے حادثے میں 2 پائلیٹ سمیت عملے کے 5 اہلکار شہید ہوگئے۔
ضائی حادثات کے علاوہ بھی پاکستان میں متعدد حادثات ہوئے، تاہم ان میں اموات کم ہوئیں اور وہ حادثات چھوٹے پیمانے کے تھے۔پاکستان میں فوجی اور تربیتی طیاروں کے تباہ ہونے کے بھی متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، تاہم ایسے حادثات میں 2 سے 5 افراد کی اموات ہوتی رہی ہیں۔پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فضائی حادثات ہوتے رہتے ہیں اور عام طور پر تکنیکی خرابی یا پھر خراب موسم کے باعث طیاروں کے تباہ ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قائد اعظم انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے جناح ٹرمنل کے قریب پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز پی آئی اے کا ایک مسافر بردار طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ۔ طیارے پر 99 افراد سوار تھے جن میں عملے کے آٹھ ارکان اور 91 مسافر شامل تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو جب کی ایک اطلاع کے مطابق بینک آف پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر ظفر مسعود کے زندہ بچ جانے کی اطلاع ملی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں کئی دیگر مسافر بھی بچ سکتے ہیں۔ طیارے میں ممتاز صحافی انصار نقوی ھی سوار تھے ۔ یہ طیارہ لاہور سے کراچی آرہا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ ایئر بس 320 قسم کا تھا جو آج دن ایک بجے لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا تھا۔ حادثہ لینڈنگ سے فوری قبل پیش آیا۔پی آئی اے کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کی فوری طور پر یہی سامنے آسکی ہے کہ بدقسمتی طیارے کا لینڈنگ گیئر نہیں کھل سکا جس کی وجہ سے لینڈنگ کرنے میں ناکام رہا۔
حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ کراچی کی ایک گنجان آباد بستی ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن نامی آبادی پر گرا جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے متعدد مکانات کو شدید نقصان پہنچا۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد پاکستان میں فضائی سفر کا سلسلہ دو ماہ تک معطل تھا ۔ یہ سروس حال ہی میں بحال ہوا ہے۔
طیارہ حادثے پر صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کراچی میں پی آئی اے مسافر طیارے کے حادثے کے نتیجے میں قیمتی جانی نقصان پر گہرے رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ریلیف، ریسکیو اور زخمیوں کو فوری طبی امداد کی ہدایت کر دی ہے۔ عمران خان نے طیارہ حادثے کی فوری تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک کئی فضائی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور ان میں درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ملکی تاریخ کے کچھ ایسے فضائی حادثے بھی ہیں جنہیں کئی سال گزر جانے کے باوجود عوام آج تک نہیں بھلا پایا۔پاکستان کے لیے 22 مئی کا دن بھی کچھ اسی طرح کی بری خبر سامنے لایا جب کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے سندھ کے دارالحکومت کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔لیکن اس واقعے سے قبل بھی پاکستان میں متعدد فضائی حادثات ہوچکے ہیں لاہور سے کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا۔پی آئی اے کے ترجمان عبد الستار نے واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ طیارہ اے-320 میں 90 مسافر سوار تھے جو لاہور سے کراچی آرہے تھے
پہلا فضائی حادثہ
پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہوائی حادثہ بیرون ملک 20 مئی 1965 ء کو پیش آیا ۔ اس حادثے کا شکاوہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 705 بوئنگ 720 براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی ۔ یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا ۔ اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے ، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے ۔
چھ اگست 1970
دوسرا حادثہ فوکر طیارے F27 کا تھا جو 6 اگست 1970 کو جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا، طوفان میں گھر گیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور ”راوت“ کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ اس حادثے میں تمام 30 افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔
دسمبر 1972
آٹھ دسمبر 1972 کو فوکر طیارہ F27 (فلائٹ نمبر 631) اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا ۔ جہاز میں سوار 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے ۔
حاجیوں کے طیارے میں آگ لگ گئی
26 نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آ رہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے ۔
فوکر طیارہ تباہ
23 اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا ۔ جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے ۔
صدر مملکت اور فوجی قیادت جاں بحق
17 اگست 1988 کو امریکی ساختہ ہرکولیس C-130 فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیال الحق، مزید 30 فوجی جرنیل اور امریکی سفیر ہلاک ہو گئے تھے۔
سالوں بعد بھی لاشیں نہ مل سکیں
25 اگست 1989 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ PK-404 گلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو گیا ۔ 21 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکی ہیں ۔ جہاز کی تلاش میں 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے ۔
واضح رہے کہ طیاروں کے ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا۔
بیرون ملک سب سے بڑا حادثہ
28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے صرف چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکراکر تباہ ہو گئی ۔ عملے کے بارہ افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے کی وجہ جہاز کی مقرر کردہ بلندی سے تقریبا 1600 فٹ نیچی پرواز تھی ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بیرون ملک مسافر بردار ہوائی جہاز کا سب سے بڑا حادثہ تھا ۔
پاک فضائیہ کے سربراہ جاں بحق
پاک فضائیہ کا فوکر طیارہF27 کوہاٹ کے قریب دھند کے سبب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے سبب پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر، ان کی بیوی اور دیگر 15 افراد جاں بحق ہو گئے تھے.
بحیرہ عرب میں طیارہ گر کر تباہ
اس واقعے کے پانچ دن بعد افغانستان کی کانوں اور صنعتوں کے وزیر جمعہ محمد محمدی، چار افغان آفیشلز، چین کے کان کنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو لے جانے والا چارٹرڈ جہاز کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا تھا.
41 مسافر جاں بحق
دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 فضا میں بلند ہونے کے دس منٹ بعد ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا ۔ لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے تھے ۔ حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی ۔
مارگلہ کی پہاڑیوں میں تباہی
28 جولائی 2010 کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ میں پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے ۔
20 اپریل 2012
20 اپریل 2012 کو پاکستان کا بھوجا ایئر بوئنگ طیارہ 737 کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں 121 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
غیر ملکی سفیروں کی ہلاکت
پاک فوج کا ہیلی کاپٹر وادی گلگت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ملائیشین اور انڈونیشین سفیروں کی بیگمات سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ حادثے کے نتیجے میں وادی کے ایک اسکول کی عمارت میں آگ لگ گئی تھی.
07 دسمبر 2016
چار سال قبل دسمبر 2016 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
جاں بحق ہونے والے افراد میں معروف نعت خواں اور سابق گلوکار جنید جمشید بھی شامل تھے۔گزشتہ 4 سال میں اسی حادثے کو سب سے بڑا فضائی حادثہ قرار دیا جا رہا تھا۔
30 جولائی 2019
گزشتہ برس 30 جولائی کو پاک فوج کا طیارہ راولپنڈی کے علاقے موہڑہ کالو میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں 2 فوجی افسران سمیت عملے کے 5 افراد بھی شامل تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق پاکستان آرمی ایوی ایشن کا طیارہ تربیتی پرواز پر تھا کہ حادثے کا شکار ہوا اور راولپنڈی میں شہری آبادی والے علاقے موہڑہ کالو میں گر گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق طیارے کے حادثے میں 2 پائلیٹ سمیت عملے کے 5 اہلکار شہید ہوگئے۔
ضائی حادثات کے علاوہ بھی پاکستان میں متعدد حادثات ہوئے، تاہم ان میں اموات کم ہوئیں اور وہ حادثات چھوٹے پیمانے کے تھے۔پاکستان میں فوجی اور تربیتی طیاروں کے تباہ ہونے کے بھی متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، تاہم ایسے حادثات میں 2 سے 5 افراد کی اموات ہوتی رہی ہیں۔پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فضائی حادثات ہوتے رہتے ہیں اور عام طور پر تکنیکی خرابی یا پھر خراب موسم کے باعث طیاروں کے تباہ ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قائد اعظم انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے جناح ٹرمنل کے قریب پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز پی آئی اے کا ایک مسافر بردار طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ۔ طیارے پر 99 افراد سوار تھے جن میں عملے کے آٹھ ارکان اور 91 مسافر شامل تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو جب کی ایک اطلاع کے مطابق بینک آف پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر ظفر مسعود کے زندہ بچ جانے کی اطلاع ملی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں کئی دیگر مسافر بھی بچ سکتے ہیں۔ طیارے میں ممتاز صحافی انصار نقوی ھی سوار تھے ۔ یہ طیارہ لاہور سے کراچی آرہا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ ایئر بس 320 قسم کا تھا جو آج دن ایک بجے لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا تھا۔ حادثہ لینڈنگ سے فوری قبل پیش آیا۔پی آئی اے کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کی فوری طور پر یہی سامنے آسکی ہے کہ بدقسمتی طیارے کا لینڈنگ گیئر نہیں کھل سکا جس کی وجہ سے لینڈنگ کرنے میں ناکام رہا۔
حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ کراچی کی ایک گنجان آباد بستی ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن نامی آبادی پر گرا جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے متعدد مکانات کو شدید نقصان پہنچا۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد پاکستان میں فضائی سفر کا سلسلہ دو ماہ تک معطل تھا ۔ یہ سروس حال ہی میں بحال ہوا ہے۔
طیارہ حادثے پر صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کراچی میں پی آئی اے مسافر طیارے کے حادثے کے نتیجے میں قیمتی جانی نقصان پر گہرے رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ریلیف، ریسکیو اور زخمیوں کو فوری طبی امداد کی ہدایت کر دی ہے۔ عمران خان نے طیارہ حادثے کی فوری تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک کئی فضائی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور ان میں درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ملکی تاریخ کے کچھ ایسے فضائی حادثے بھی ہیں جنہیں کئی سال گزر جانے کے باوجود عوام آج تک نہیں بھلا پایا۔پاکستان کے لیے 22 مئی کا دن بھی کچھ اسی طرح کی بری خبر سامنے لایا جب کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے سندھ کے دارالحکومت کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔لیکن اس واقعے سے قبل بھی پاکستان میں متعدد فضائی حادثات ہوچکے ہیں لاہور سے کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا۔پی آئی اے کے ترجمان عبد الستار نے واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ طیارہ اے-320 میں 90 مسافر سوار تھے جو لاہور سے کراچی آرہے تھے
پہلا فضائی حادثہ
پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہوائی حادثہ بیرون ملک 20 مئی 1965 ء کو پیش آیا ۔ اس حادثے کا شکاوہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 705 بوئنگ 720 براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی ۔ یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا ۔ اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے ، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے ۔
چھ اگست 1970
دوسرا حادثہ فوکر طیارے F27 کا تھا جو 6 اگست 1970 کو جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا، طوفان میں گھر گیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور ”راوت“ کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ اس حادثے میں تمام 30 افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔
دسمبر 1972
آٹھ دسمبر 1972 کو فوکر طیارہ F27 (فلائٹ نمبر 631) اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا ۔ جہاز میں سوار 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے ۔
حاجیوں کے طیارے میں آگ لگ گئی
26 نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آ رہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے ۔
فوکر طیارہ تباہ
23 اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا ۔ جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے ۔
صدر مملکت اور فوجی قیادت جاں بحق
17 اگست 1988 کو امریکی ساختہ ہرکولیس C-130 فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیال الحق، مزید 30 فوجی جرنیل اور امریکی سفیر ہلاک ہو گئے تھے۔
سالوں بعد بھی لاشیں نہ مل سکیں
25 اگست 1989 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ PK-404 گلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو گیا ۔ 21 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکی ہیں ۔ جہاز کی تلاش میں 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے ۔
واضح رہے کہ طیاروں کے ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا۔
بیرون ملک سب سے بڑا حادثہ
28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے صرف چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکراکر تباہ ہو گئی ۔ عملے کے بارہ افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے کی وجہ جہاز کی مقرر کردہ بلندی سے تقریبا 1600 فٹ نیچی پرواز تھی ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بیرون ملک مسافر بردار ہوائی جہاز کا سب سے بڑا حادثہ تھا ۔
پاک فضائیہ کے سربراہ جاں بحق
پاک فضائیہ کا فوکر طیارہF27 کوہاٹ کے قریب دھند کے سبب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے سبب پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر، ان کی بیوی اور دیگر 15 افراد جاں بحق ہو گئے تھے.
بحیرہ عرب میں طیارہ گر کر تباہ
اس واقعے کے پانچ دن بعد افغانستان کی کانوں اور صنعتوں کے وزیر جمعہ محمد محمدی، چار افغان آفیشلز، چین کے کان کنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو لے جانے والا چارٹرڈ جہاز کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا تھا.
41 مسافر جاں بحق
دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 فضا میں بلند ہونے کے دس منٹ بعد ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا ۔ لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے تھے ۔ حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی ۔
مارگلہ کی پہاڑیوں میں تباہی
28 جولائی 2010 کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ میں پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے ۔
20 اپریل 2012
20 اپریل 2012 کو پاکستان کا بھوجا ایئر بوئنگ طیارہ 737 کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں 121 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
غیر ملکی سفیروں کی ہلاکت
پاک فوج کا ہیلی کاپٹر وادی گلگت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ملائیشین اور انڈونیشین سفیروں کی بیگمات سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ حادثے کے نتیجے میں وادی کے ایک اسکول کی عمارت میں آگ لگ گئی تھی.
07 دسمبر 2016
چار سال قبل دسمبر 2016 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
جاں بحق ہونے والے افراد میں معروف نعت خواں اور سابق گلوکار جنید جمشید بھی شامل تھے۔گزشتہ 4 سال میں اسی حادثے کو سب سے بڑا فضائی حادثہ قرار دیا جا رہا تھا۔
30 جولائی 2019
گزشتہ برس 30 جولائی کو پاک فوج کا طیارہ راولپنڈی کے علاقے موہڑہ کالو میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں 2 فوجی افسران سمیت عملے کے 5 افراد بھی شامل تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق پاکستان آرمی ایوی ایشن کا طیارہ تربیتی پرواز پر تھا کہ حادثے کا شکار ہوا اور راولپنڈی میں شہری آبادی والے علاقے موہڑہ کالو میں گر گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق طیارے کے حادثے میں 2 پائلیٹ سمیت عملے کے 5 اہلکار شہید ہوگئے۔
ضائی حادثات کے علاوہ بھی پاکستان میں متعدد حادثات ہوئے، تاہم ان میں اموات کم ہوئیں اور وہ حادثات چھوٹے پیمانے کے تھے۔پاکستان میں فوجی اور تربیتی طیاروں کے تباہ ہونے کے بھی متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، تاہم ایسے حادثات میں 2 سے 5 افراد کی اموات ہوتی رہی ہیں۔پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فضائی حادثات ہوتے رہتے ہیں اور عام طور پر تکنیکی خرابی یا پھر خراب موسم کے باعث طیاروں کے تباہ ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔