بیرون ملک جا کر پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن مسئلہ پیسوں کا تھا۔ بڑی مشکل سے آسٹریلیا کے ایک چھوٹے سے شھر Rockhampton کے ایک سستے سے کالج Capricornia College کا انتخاب کیا۔ سنگاپور کے بارے میں سن رکھا تھا کہ بہت ہی خوبصورت ملک ھے اسی لیے آسٹریلیا جانے کے لیے سنگا پور ایئر لائن کا انتخاب کیا۔ اس کا فائدہ یہ ھوا کہ ایئر لائن کی طرف سے مجھے تقریباً آٹھ گھنٹےسنگاپور گھومنے کا موقع بھی مل گیا۔سنگا پور سے تقریبا آٹھ گھنٹے کی طویل فلائیٹ کے بعد میں برسبین ائیر پورٹ پہنچا ۔.ائیر پورٹ پرمیرے سالن کے تمام tin packs کو کھول کر چیک کیا گیا اور وہ سارے سالن الگ الگ تھیلیوں میں ڈال کر مجھے کسٹم حکام نے واپس کیے۔ یہ Tin Packs، میں پاکستان سے ساتھ لے کر چلا تھا ان میں نہاری، قورمہ، کوفتے اور حلیم وغیرہ شامل تھے۔
میری اگلی منزل Rockhampton شھر تھا۔برسبین ریلوے اسٹیشن سے ٹرین لی اور اپنی منزل کی طرف روانہ ھوا۔ بارہ گھنٹے کے ٹرین کے سفر کے بعد میں Rockhampton کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا۔ اسٹیشن پر ایک صاحب میرے نام کا کارڈ اٹھائے کھڑے تھے۔ یہ میر ے Host تھے۔اور ان کا انتظام میرے کالج نے کیا تھا۔ دراصل میں ان کا Paying Guest تھا۔ ان صاحب نے اپنا تعارف شیشا پرشاد کے نام سے کروایا اور بتایا کہ وہ اسی کالج میں شعبہ الیکٹرک انجنئیرنگ کے Head ھیں، جس میں میں نے داخلہ لیا ھے۔ انھوں نے مجھے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ میں ان کا paying guest تو ھوں لیکن مجھے کچھ بھی pay نہیں کرنا اور جب تک چاھوں میں ان کے گھر مفت میں قیام کر سکتا ھوں۔ پندرہ منٹ کی Drive کے بعد ھماری گاڑی ایک بڑے سے گھر میں داخل ھوئی۔
گاڑی سے اترے تو سامنے ایک خاتون اور ایک چھ سالہ بچی موجود تھیں۔ مسٹر شیشا پرشاد نے مجھے بتایا کہ وہ خاتون ان کی بیوی لکشمی اور وہ بچی ان کی بیٹی رانو ھے۔ لکشمی نے مجھے میرا کمرہ دکھایا۔ یہ فرنشڈ روم تھا جس میں ٹی وی اور فریج بھی تھا۔ لکشمی نے مزید کہا کہ بھائی آپ مسلم ھو اور ھم ھندو ھیں۔ ھم Beef نہیں کھاتے اور آپ لوگ pork نہیں کھاتے۔ آج سے یہ دونوں چیزیں ھمارے گھرمیں نہیں پکیں گی۔ ھم چکن ، مچھلی دالیں اور سبزیاں پکایا کریں گے۔ میں اس ھندو خاندان کی ہر ہر مہربانی اور عنایت پر حیران تھا کیونکہ بحیثیت پاکستانی میرا واسطہ صرف ھندوستان کی حکومت سے پڑا تھا اور میں ھندوستان حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے ھندوؤں کے بارے میں اچھی راۓ نہیں رکھتا تھا۔ میں ھندوستان کی حکومت اور وہاں کی عوام کو ایک جیسا ہی سمجھتا تھا۔ مجھے سیشا پرشاد نے کہا کہ تم چاھو تو یونیورسٹی بھی میرے ساتھ جا سکتے ھو۔ اب میں نے اس فیملی کے ساتھ رھنا شروع کر دیا۔ چند روز بعد میری یونیورسٹی شروع ھو گئی۔ اب میں روزانہ سیشاپرشاد کے ساتھ یونیورسٹی جاتا اور ان کے ساتھ ھی واپس آتا اور یوں میرے اخراجات تقریباً صفر تھے۔ میں اس ھندو خاندان کی مہمان نوازی کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔ اس خاندان کی وجہ سے ھندوؤں کے بارے میں میری سوچ یکسر بدل گئ۔ میں نے اس خاندان کے ساتھ چند ھفتے گزارے۔ مجھے ان کا گھر اس وقت چھوڑنا پڑا جب میرے چند پاکستانی دوستوں(رفیق، راشداور صادق) نے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ رھنا چاھیے تا کہ ان کے ھفتہ وار اخراجات میں اوسطاً کمی آسکے۔ یوں میں اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ ان کے اپارٹمنٹ میں شفٹ ھو گیا۔
سیشا پرشاد فیملی نےبہت اصرار کیا کہ میں ان کے ساتھ ھی رھوں کیونکہ ان کے گھر میرا کچھ بھی خرچہ نہیں تھا، لیکن میرے پاکستانی دوستوں نے مجھے مجبور کیا اور مجھے اس فیملی کو خدا حافظ کہنا پڑا۔
سیشا پرشاد فیملی کے ساتھ رہ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ لڑائی ھماری حکومتوں کی ھے۔ ورنہ ھندوستان کے لوگ بھی پاکستانیوں کی طرح انتہائی ملنسار اور مہمان نواز ھیں۔ اور دونوں مما لک کے عوام امن و سکون سے رہنا چاہتے ھیں۔
میں شیشا پرشاد خاندان کی مہمان نوازی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جنھوں نے دیار غیر میں میرا اتنا خیال رکھا جتنا کہ شائد کسی کا کوئ رشتہ دار بھی نہ رکھ سکتا ھو اور اس فیملی نے ثابت کیا کہ دنیا میں انسانیت ، مذہب سے زیادہ اھم ھے۔