ابے چھوٹے اچھا والا نلكا دکھا،
اپنے رحمان بھائی کو
بابو بھائی نے دکان میں کام کرنے والے لڑکے کو آواز لگائی۔۔۔
آؤ بھیا اندر آن کے بیٹھ جاؤ۔ باہر بڑی گرمی ہے۔
بابو بھائی نےدوکان کا چھوٹا دروازہ کھول کر رحمان بھائی کو اندراسٹول پر بٹھایا ۔
بابر کو عمومی طور پرعلاقے والے بابو بھائی ہی کہتے تھے۔ ساٹھ کے پیٹے میں ہوں گے اصل نام شاید ہی کوئی جانتا ہو۔
چھوٹے سے محلے میں بڑی سی ہارڈ وئیر کی دوکان تھی۔ جو دو دوکانوں پر مشتمل تھی۔بازار کے مقابلے میں سامان تھوڑا مہنگا ہی بیچتے تھے بابو بھائی اور اہل محلہ دور مین بازار میں جانےکی زحمت سے بچنے کے لئے سامان ان سے ہی خرید لیا کرتے تھے۔ مگر کرونائی وبائی صورت حال میں بابو بھائی نے ہر چیز کے ریٹ کچھ زیادہ ہی بڑھا دیئے تھے۔
ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ سے رحمان بھائی انہیں پہلے سے جانتے تھے۔
بابو بھائی یہ نلکے کے کتنے پیسے ہوئے۔
رحمان بھائی نے پوچھا۔
ڈیڑھ سو روپے۔
بابو بھائی نے جواب دیا۔
قیمت سن کر رحمان بھائی تقریباً اچھل پڑے۔
ارے بابو بھائی کچھ عرصہ پہلے ہی تو آپ سے لیا تھا۔ تو نوے روپے کا تھا۔ اب ایک دم ڈیڑھ سو کا۔
رحمان بھائی نے تھوڑا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
بس بھیا کیا کریں ایک تو مال شارٹ ہے۔
دوسرے دوکان پانچ بجے بند کرنی پڑ رہی ہے۔
ہم نے بھی کورنگ کرنی ہے نا کہیں تو۔
پچھلے سال لاکھ کا سیزن پیٹا تھا اپن نے
مگر ابھی تک کوئی خاص بکری نہیں ہوئی۔
بابو بھائی آپ کی بات میں دم نہیں کیونکہ اتنی دھوپ میں بھی یہاں رش لگا پڑا ہے ۔
خیر پیسے کاٹو
رحمان بھائی نے پانچ سو کا نوٹ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
نلكا لے کر رحمان بھائی اپنی راہ ہو لئے۔
ابے چھوٹے تیرے کو بولا بھی تھا بھنگی کو بلانے کے لئے دوکان کے سامنے پھر سے گندا پانی کھڑا ہو رہا ہے اسے تو صاف کروا دے
بابو بھائی نے اپنا غصہ دوکان میں کام کرنے والے چھوٹے پر اتارتے ہوئے کہا
بابو جب آپ میرے کو بھیجتے تو وہاں کوئی نہیں ہوتا آج کل
بھنگی بھی کم ہوتے ہیں اور جو ہوتے بھی ہیں وه جلدی غائب ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے نے جواب دیا۔
اچھا اچھا زیادہ زبان نہ چلا وه سامنے پڑے ہوئے پائپ صاف کر دیکھ کتنی مٹی جمی ہے۔ بابو بھائی نے چھوٹے کو پھر کام میں لگا دیا۔
اور چھوٹا اچھا بابو بھائی کہہ کر پائپ صاف کرنے لگ گیا۔
شب و روز اسی طرح گزرتے رہے۔
رحمان بھائی کا نکلنا بھی کم ہوتا تھا
اور بابو بھائی بھی مصروف
بس دوکان کے سامنے سے گزرتے دونوں ایک دوسرے کو دور سے ہی سلام کرلیا کرتے تھے۔
روڈ پر پڑا ہوا سیوریج کا پانی لوگوں کے لئے وبال بنا جارہا تھا۔ میونسپلٹی کا بھنگی آ نہیں رہا تھا۔ پرائیویٹ بھنگی مل نہیں رہا تھا۔ بس ایسے میں بابو بھائی اور دوسرے دکان داروں نے مل کرگندے پانی میں تین چار اینٹیں رکھوا کے آنے جانے کی جگاڑ کر لی۔
جس نے بھی دکان تک آنا ہوتا تین چار اینٹوں پر پاؤں رکھ کر توازن برقرار رکھتے ہوئے آنا پڑتا۔
بس خطرہ یہی رہتا جہاں پاؤں غلط پڑا وہاں کپڑے ناپاک اور گرنے کا خطرہ علیحدہ۔
ایک دن رحمان بھائی کو دوکان کے قریب سے گزرتے ہوئے بابو بھائی کی کمی محسوس ہوئی۔ ان کی جگہ ان کا لڑکا دکان چلا رہا تھا۔
رحمان بھائی بھی اینٹوں پر پاؤں رکھتے ہوئے دوکان تک پہنچے۔ لڑکا بہت مصروف تھا مگر رحمان بھائی کو آتا دیکھ کر اس نے سلام کیا
وعلیکم السلام
ارے لڑکے بابو بھائی کہاں ہیں
رحمان بھائی نے دریافت کیا
رحمان چچا ابا کا ادھر ہی سے پاؤں سلپ ہو گیا تھا۔ صبح میں دوکان کھولتے وقت دو اینٹیں تو پار کر لیں تیسری اینٹ پانی میں رکھے رکھے گل گئی تھی جیسے ہی ابا کا پاؤں پڑا وہ ٹوٹ گئی۔ ابا سلپ ہوئے اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ بابو بھائی کے بیٹے نے روداد سنائی۔
اوہو
بہت افسوس ہوا
اب کیسی طبعیت ہے بابو بھائی کی
رحمان بھائی نے مزید دریافت کیا
اسپتال میں داخل ہیں آپریشن ہوا تھا کل
لڑکے نے بتایا
کتنا خرچہ ہوا . رحمان بھائی نے پوچھا
بس چچا اب دو لاکھ کا تو آپر یشن تھا۔
باقی ابھی تک ڈھائی لاکھ لگ چکے ہیں۔
لڑکے نے جواب دیا