کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شاعر زمانے کی کج ادائی سے اکتا کر مناظر قدرت میں دل لگا لیتا ہے۔ یہ مناظر اسے اپنے عہد کی بدصورتی اور بد نمائی سے کچھ دیر کے لیے محفوظ کر کے ایک ایسا گوشہ عافیت فراہم کر دیتے ہیں جن میں بیٹھ کر وہ کچھ دیر اپنا دل بہلاتا ہے لیکن ایک حساس شاعر اپنا دل بھی کتنی دیر بہلائے رکھے گا، بالآخر اس کی توجہ اپنے ارد گرد کے مسائل کی طرف متوجہ ہو گی اور وہ دکھی دل کے ساتھ مناظر کی رعنائی میں سے جھانک کر اپنے عہد کے مسائل پر ایک نگاہ ڈالے گا اور ان کے خاتمے کی آرزو کرے گا۔ عرفان صدیقی صاحب کی تازہ غزل بھی ایک ایسے ہی شاعر کے دکھی دل کی آواز ہے جو ان خوابوں کو یاد کرتا ہے جن کی تعبیر پانے کے لیے اس کے بزرگوں نے ایک گلش سجایا لیکن جب یہ گلشن اجاڑ دیا گیا تو اس نے ان خوابوں یعی گھنی یادوں کے جنگل کو یاد کیا یعنی ایک نئے سویرے کا خواب ایک بار پھر دیکھا گیا. جناب عرفان صدیقی کی یہ تازہ غزل بھی ہم سے کچھ ایسی ہی سرگوشیاں کرتی ہے۔
******************
ایک میں اک بھیگتی یادوں سے جل تھل چاندنی
رنگ میں ڈوبی ہوا خوشبو سے بوجھل چاندنی
اک سراسیمہ مسافر راستہ بھولا ہوا
دور تک پھیلی گھنی یادوں کا جنگل چاندنی
بند دروازوں پہ کیوں دست حنائی کی طرح
دستکیں سی دیتی رہتی ہے مسلسل چاندنی
رات کا پچھلا پہر اور مشکبو یادوں کی آنچ
دل میں جیسے مار کے بیٹھی ہے بکل چاندنی
چاند گرہن کو لگے کتنی ہی راتیں ہو چلیں
خود سے چھپتی پھر رہی ہے نیم پاگل چاندنی
ایک سا موسم نہیں رہتا اگر چلتے رہو
آج سر پر چلچلاتی دھوپ ہے کل چاندنی
جاگتی آنکھوں کے بے توقیر خوابوں کی طرح
جانے کس کو ڈھونڈتی رہتی ہے بے کل چاندنی
جانے والے بھی پلٹ آتے ہوں جیسے ایک دن
یوں دریچے کھول کر بیٹھی ہے پاگل چاندنی