ملک بھر کے تعلیمی ادارے 27 فروری کو بند کر دیے گۓ تھے۔ جو تاحال کھل نہیں سکے۔ملک کے دیگر بیشتر ادارے SOPs کی مخصوص پابندیوں کے ساتھ کھولے جا چکے ھیں۔کیا کراچی شھر کے تعلیمی ادارے SOPs کی پابندی کر سکتے ھیں؟اس شھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کے پاس بڑی بڑی عمارات، میدان اور بڑے بڑے کلاس رومز ھیں۔ جہاں طالب علموں کی تعداد بھی بہت کم ھوتی ھے۔ ان اسکولوں میں SOPs کی پابندی کروائی جا سکتی ھے۔شھر میں تعلیم کی فراہمی کا بیڑا نجی تعلیمی اداروں نے اٹھا رکھا ھے۔شھر میں دو طرح کے نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ ایک تو وہ اسکول جن کی عمارات اسکول ہی کے لیے تعمیر کی گئی ہیں۔ ان اسکولوں کا رقبہ بھی بڑا ھے۔ ان اسکولوں کے کلاس رومز بھی کشادہ ہیں۔ان اسکولوں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ایسے اسکولوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ھے۔ان اسکولوں میں بھی SOPs کی پابندی کروانا ممکن ھے۔
دوسرے وہ پرائیویٹ اسکول ہیں جو دراصل گھروں میں قائم ہیں۔ مختلف گھروں اور بنگلوں میں توڑ پھوڑ کر کے انھیں اسکولوں کا درجہ دے دیا گیا ھے۔ شھر میں ایسے اسکولوں کی تعداد 90 فیصد سے زیادہ ھے۔ ان اسکولوں کا رقبہ 100 گز سے 1000 گز کے درمیان ھے۔ ایسے اسکولوں میں کمروں کا سائز انتہائی چھوٹا ھوتاھے۔ چونکہ فیس کم لی جاتی ھے اس لیے کلاس میں بچوں کی تعداد زیادہ ھوتی ھے۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں 30 سے 40 بچوں کو بٹھایا بلکہ ٹھونس دیا جاتاھے۔اسکول کے اندر بہت چھوٹی چھوٹی راہداریاں ھوتی ہیں۔اس طرح کے اسکولوں میں میدان نام کی کوئی چیز نہیں ھوتی۔سوال یہ ھے کہ کیا ایسے اسکولوں میں SOPs کی پابندی کروائی جا سکتی ھے؟کیا ان اسکولوں کے باہر بچوں کا درجہ حرارت روزانہ کی بنیادوں پر چیک کیا جا سکتا ھے؟
کیا ان اسکولوں کے باہر واک تھرو گیٹ نصب کیےجا سکتےھیں؟
کیا ایسے اسکولوں کے تمام بچے گلوز پہن کے آسکتے ھیں؟
کیا ان اسکولوں کےاندر سینیٹائزر کی وافر مقدارمیں دستیابی کو یقینی بنایا جا سکتا ھے؟
کیا ان اسکولوں کی کلاسوں میں بچے مخصوص فاصلوں کے ساتھ بیٹھاۓ جاسکتے ہیں؟
کیا ان اسکولوں کے بچوں کو لانے والی vans کو SOPsکا پابند کیا جا سکتاھے؟کیونکہ مشاہدے میں یہ بات آئی ھے کہ یہ vans کھچا کھچ بھری ھوتی ہیں۔
اسکول کھولنے سے پہلے ان تمام نکات کا جائزہ لینا نا گزیر ھے۔ اور SOPs پر عمل درآمد کروانا ضروری ھے۔ کیونکہ اسکولوں میں بچے چھ سے آٹھ گھنٹے گزارتے ھیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ بچوں کے والدین کو بھی SOPs کی پابندی کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا ھو گا کیونکہ کوئی بھی والدین نہیں چاھیں گے کہ ان کا بچہ کورونا وائرس کا شکار ھو۔
ماہرین کے مطابق جون کے وسط یا آخر تک پاکستان میں کورونا کی وباء عروج پر ھو گی۔ اس وقت کورونا کے مریضوں کی تعداد روز بروز تیزی سے بڑھتی جا رہی ھے۔ ان حالات میں اگر اسکول کھلتے بھی ہیں تو والدین شائد اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں۔
اگر اسکول نہیں کھلتے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ فوری طور پرنجی اسکولوں کے اساتذہ اور مالکان کے لیے مالی پیکیج کا اعلان کریں اور انھیں مزید دیوالیہ ھونے سے بچائیں۔