Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہمارے ایک بزرگ ہمیشہ ہمیں سامنے دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں اگر پیچھے دیکھنا ضروری ہوتا تو دو آنکھیں پیچھے بھی ہوتیں. وہ یہ بات ماضی اور مستقبل کے تناظر میں فرماتے کہ جدیدیت سے متاثر لوگوں کی طرح ان کے لیے بھی اہمیت صرف مستقبل کی تھی. ہمارے لڑکپن میں وہ ادھیڑ عمری سے گزر رہے تھے. ہمارے مربی ہونے کی ذمہ داری یوں قبول کرلی کہ اس دور میں مربی ہونے کے لیے صرف عمر میں بڑا ہونا ہی کافی سمجھا جاتا. دوسرے بڑوں کی طرح دلیل سے بات کرنا یا سننا ناپسند اور حکم دینا مرغوب تھا. چند کتابیں اور ریڈرز ڈائجسٹ ٹائپ انگریزی رسالے پڑھ کر ان کا اپنی رائے پر غیر متزلزل یقین قائم ہوگیا تھا. بہت سے انگریزی اقوال زریں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں ترجمہ کرکے سناتے جن میں سے ایک تو وہی تھا یعنی اللہ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں. مارے احترام کے ہم ان سے کبھی یہ بھی نہ کہ سکے کہ بندہ پرور بلاشبہ آنکھیں آگے ہی ہیں مگر اللہ نے حافظہ بھی تو دے رکھا ہے. جو پیچھے دیکھنے کے سوا اور کرتا ہی کیا ہے اور دنیا کی تاریخی کتب کو کیا آپ آگ لگا دیں گے.
وقت گزرا تو ہمارے یہ ناصح اور مربی ریٹائرمنٹ کے بعد فراغت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے. قویٰ مضمحل ہوگئے تو کہنے کے لیے ماضی کے تجربات کے سوا کچھ بھی نہ رہا. ایسے ناسٹجلک ہوئے کہ کیا یوسفی صاحب کے کردار ہوئے ہوں گے. آگے دیکھنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو ماضی میں نہ صرف یہ کہ خود پناہ لی بلکہ کھینچ کھانچ کے ہم ایسوں کو بھی اس فردوس بریں میں لے جاتے جہاں انھوں نے جوانی دوانی گزاری. دل رکھنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ان کے سارے ماضی کی سیر کرلی. ہم نے کبھی یہ بھی نہ جتایا کہ ” آنکھیں تو اللہ نے آگے دیکھنے کے لیے دی ہیں” اس کی ایک وجہ تو ہماری فطری مروت اور دوسری وجہ یہ کہ ہم تو خود عین عالم شباب میں بھی ماضی میں جھانکنے سے باز نہیں آتے تھے. اس لیے نہیں کہ بقول قاسم شاہ ؎
اسے ماضی پناہ دیتا ہے جو بدحال ہوتا ہے
بلکہ اس لیے کہ ماضی سے رشتہ قائم رکھنے میں ہمیشہ ایک رومانس نظر آیا. گزرا وقت یاد کرنا ہمیشہ ایک دلچسپ تجربہ رہا. ہر وہ جگہ جہاں کچھ دن گزارے ہوتے وہاں بار بار جانے کو جی چاہتا. ماضی کے بخشے داغوں میں بھی کچھ ایسی دلکشی محسوس ہوتی کہ انھیں تازہ رکھنے کے لیے پارینہ قصوں کو دہرانا محبوب مشغلہ رہا. مگر کیا کہیے کہ جس دور میں جی رہے ہیں وہ ماضی کی ہر نشانی کو مٹانے کے درپئے ہے. آج کا افادیت پرست ذہن صرف اس شے کا وجود قائم رکھنے کا قائل ہے جو مادی منفعت کا باعث ہو . درست کہ ثبات صرف تغیر کو ہی ہے مگر تغیر کے نام پر سرے سے ماضی کو مٹا دینا خود انسانی جبلت کے خلاف ہے. کیا اس میں کوئی شک ہے کہ انسان ہی وہ جانور ہے جو ماضی سے گہرا اور بامعنی تعلق قائم رکھتا ہے . دوسرے جانوروں سے وہ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ دی گئی عقل سے وہ ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے.
باقی لوگوں کا تو علم نہیں مگر ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ تاک تاک کر ان چیزوں کو فنا کے گھاٹ اتار رہا ہے جن سے ہماری جذباتی وابستگی ہے . ایسی ہی یادگاروں میں ایک گورنمنٹ کالج سرگودھا بھی ہے . ہم ہی نہیں سرگودھا، خوشاب، میانوالی، بھکر، اور جھنگ کے آدھے سے زیادہ گریجویٹ اسی مادر علمی کی آغوش میں پروان چڑھے. اگر اس کالج کی یادیں لکھنے بیٹھوں تو دفتر کے دفتر سیاہ کردوں مگر فی الحال میرا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ بے شک تغیر ضروری ہے. زمانے کی آنکھیں معلوم نہیں آگے ہیں یا پیچھے مگر اس کے قدموں کا رخ ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے. اس کا کوئی ریورس گئیر نہیں اور پچھلے پیروں ہٹنا اس کی فطرت کے خلاف ہے مگر کیا ضروری ہے کہ اگلا سبق یاد کرنے کے لیے پچھلا بھلا دیا جائے. کیا ریاست کے پاس کہیں چند سو ایکٹر جگہ نہیں تھی کہ وہ یونیورسٹی بنا سکے. اس میں کوئی شک نہیں کہ سرگودھا کو یونیورسٹی کی شدید ضرورت تھی مگر کیا یہ کام ہمارے کالج کی قربانی دیے بغیر ممکن نہ تھا. کیا اس کے لیے ضروری تھا کہ ہم سے ہمارا تعلیمی ماضی ہی چھین لیا جاتا . اور اپنے بارے کیا عرض کریں کہ ہمارے ساتھ تو دہرا ظلم ہوا. لاہور کے جس کالج سے گریجویشن کی اسے بھی یونیورسٹی بنادیا گیا. ہم نے اپنی زندگی کے خوبصورت ترین دن لاہور کے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس میں گزارے جو اب ایجوکیشن یونیورسٹی کہلاتا ہے . چونکہ ہم ایجوکیشن یونیورسٹی کی بجائے کالج کے طالب علم ہیں اس لیے اس کالج کے سابق طالب علم سالانہ اجتماع کے لیے کالج کے سامنے کوئی شادی ہال بک کرواتے ہیں. ہاں کبھی یونیورسٹی انتظامیہ کو رحم آجائے تو وہ اپنا ہال عنایت کردیتی ہے جہاں ہم بااعتماد استحقاق کی بجائے ایک ممنونیت کے ساتھ سالانہ تقریب منعقد کرتے ہیں. تعلیمی ادارے سے تعلق بہت گہرا اور عجیب ہوتا ہے. بندہ بوڑھا بھی ہوجائے تب بھی اپنے سکول کالج کو ہمیشہ اپنا کہتا اور سمجھتا ہے. ہمیشہ کہتا ہے کہ ” یہ میرا کالج یا سکول ہے” بندہ دہائیوں تک کسی مکان میں رہے تو چھوڑنے کے بعد کہتا ہے کہ ” یہ ہمارا گھر تھا” اس “ہے” اور “تھا” کے فرق کو ہر صاحب دل سمجھ سکتا ہے.
ہمارے کالج سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور جیسے تاریخی تعلیمی ادارے کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. اس کالج کو یونیورسٹی بنانا گویا برصغیر کی تعلیمی تاریخ کو دفن کرنا تھا. پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ کالج برصغیر کی مشہور ترین درسگاہ تھا. لوگ اس کالج میں پڑھنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے. اگر ان لوگوں کے نام لینا شروع کروں کہ جنھوں نے لاہور کے اس کالج سے تعلیم حاصل کی تو اس کے لیے اس جیسے کئی کالم درکار ہوں گے.. پھر گورنمنٹ کالج لاہور ہی پر کیا موقف، لاہور کا کنئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج فار وومن، ایف سی کالج، کوئنز میری کالج سمیت بہت سے اداروں کا سٹیٹس تبدیل کردیا گیا. کچھ کو خودمختار کردیا گیا اور کچھ کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. لاہور سے باہر گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیاگیا . گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال اس علاقے کا تاریخی کالج تھا اسے بھی یونیورسٹی بنا دیا گیا اور اب باری ہے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کی. کبھی پنجاب میں جی سی لاہور اور ایف سی کالج کے بعد جن کالجز کے نام کا ڈنکا بجتا تھاان میں، ایمرسن کالج ملتان، مرے کالج سیالکوٹ، زمیندارہ کالج گجرات، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورڈن کالج پنڈی شامل تھے . ایمرسن کالج ملتان کی طویل تاریخ ہے. ملتان کے بے شمار پڑھے لکھے لوگوں کی یادیں اس کالج سے وابستہ ہیں. یہ کالج ملتان کی تاریخ ہے، ملتان کا حافظہ ہے.. ممکن ہے یہاں کچھ لوگ کہیں کہ یاد ماضی سے چمٹے رہنا مریضانہ رویہ ہے اور یہ بھی کہ ایمرسن کالج کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر اس کے سٹیٹس کو بلند کرتے ہوئے اسے خود مختار ادارہ بنایا جا رہا ہے. چلیں ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ کالج کو محض خود مختاری دی جارہی ہے تو بھی اس کا نتیجہ یا تو یہ نکلے گا کہ کل کلاں یہ کالج نجی شعبے کے ہاتھ میں چلا جائے گا یا پھر اس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے گا. دونوں صورتوں میں یہ وہ کالج نہیں رہے گا جو ملتان کا مشترکہ اثاثہ ہے. ہماری بات پر یقین نہیں تو ان کالجز کا حال دیکھ لیا جائے کہ جنھیں خود مختاری دی گئی. باقی باتوں سے قطع نظر صرف ان کی فیسیں ہی دیکھ لیں تو علم ہو جائے گا کہ یہ کتنا بڑا دھوکا ہے.
کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرنے سے وہاں کے اساتذہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے. ایسے کالجز کے اساتذہ کے سامنے دو آپشنز ہوتے ہیں. ایک تو یہ کہ کسی اور کالج میں تبادلہ کروا لیں یا اسی کالج میں کسی خود مختار باڈی کے زیر سرپرستی فرائض سرانجام دیتے رہیں. پہلی صورت میں یہ ہوگا کہ پروفیسرز کو گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا قصبے میں جانا پڑے گا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ ملتان شہر کے کالجز میں پروفیسرز کی اتنی سیٹیں خالی ہوں کہ یہاں ایمرسن کالج کے سارے اساتذہ سما جائیں اوردوسری صورت میں اسے سرکاری ملازمت کو ترک کر کے اپنی خدمات کسی خود مختار باڈی کے حوالے کرنا ہوں گی. یہ دونوں صورتیں اساتذہ کے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی. یہ تو انفرادی نوعیت کے تحفظات تھے اجتماعی سطح پر بھی اساتذہ کے لیے یہ خود مختاری قابل قبول نہیں ہو گی . پہلے ہی بہت سے کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرکے کالج کیڈر کو محدود کر دیا گیا ہے یہ سلسلہ چل نکلا تو یہ کیڈر سکڑتے سکڑتے معدوم بھی ہوسکتا ہے . جس کا نقصان صرف اساتذہ کو ہی نہیں ہوگا بلکہ طلبہ بھی شدید متاثر ہوں گے. یہ کالج نہ صرف غریب اور سفید پوش طبقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں بلکہ ایمرسن کالج جیسے ادارے میں تعلیم حاصل کرکے طلبہ ایک تاریخ کا حصہ بھی بن جاتے ہیں. ممکن ہے حکومت پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ ہو اور وہ ان اداروں کے ہاتھوں مجبور ہو کر کالجز سے جان چھڑانا چاہتی ہو. اگر ایسا ہے بھی تو کیا حکومت کے پاس زبان نہیں جو ان اداروں کو قائل کرسکے کہ قومیں اپنے تاریخی اثاثوں سے جان نہیں چھڑایا کرتیں. یہ اثاثے کسی خطے کی شناخت ہوا کرتے ہیں. حکومتیں ان اثاثوں کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہیں. اگر یہی حکومتیں ان اثاثوں کی دیکھ بھال نہ کرسکیں تو پھر ان کے قیام کا کیا جواز؟ ہمارے خیال میں تو ایمرسن کالج کے موجودہ اور سابقہ طلبہ کو اس پر منظم رد عمل دینا چاہیے. اس کے سابق طالب علم اعلا عہدوں پر فائز ہیں. سیاست، فوج، افسر شاہی اور عدلیہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں یہاں کے طلبائے قدیم اہم مناصب پر جلوہ افروز ہیں. وہ تھوڑی سی کوشش کریں تو یہ سلسلہ یہیں رک سکتا ہے. اب تو یہ کام اور بھی آسان ہے کیوں کہ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلا جناب عثمان بزدار خود اسی کالج کے سابق طالب علم ہیں.
ہمارے ایک بزرگ ہمیشہ ہمیں سامنے دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں اگر پیچھے دیکھنا ضروری ہوتا تو دو آنکھیں پیچھے بھی ہوتیں. وہ یہ بات ماضی اور مستقبل کے تناظر میں فرماتے کہ جدیدیت سے متاثر لوگوں کی طرح ان کے لیے بھی اہمیت صرف مستقبل کی تھی. ہمارے لڑکپن میں وہ ادھیڑ عمری سے گزر رہے تھے. ہمارے مربی ہونے کی ذمہ داری یوں قبول کرلی کہ اس دور میں مربی ہونے کے لیے صرف عمر میں بڑا ہونا ہی کافی سمجھا جاتا. دوسرے بڑوں کی طرح دلیل سے بات کرنا یا سننا ناپسند اور حکم دینا مرغوب تھا. چند کتابیں اور ریڈرز ڈائجسٹ ٹائپ انگریزی رسالے پڑھ کر ان کا اپنی رائے پر غیر متزلزل یقین قائم ہوگیا تھا. بہت سے انگریزی اقوال زریں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں ترجمہ کرکے سناتے جن میں سے ایک تو وہی تھا یعنی اللہ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں. مارے احترام کے ہم ان سے کبھی یہ بھی نہ کہ سکے کہ بندہ پرور بلاشبہ آنکھیں آگے ہی ہیں مگر اللہ نے حافظہ بھی تو دے رکھا ہے. جو پیچھے دیکھنے کے سوا اور کرتا ہی کیا ہے اور دنیا کی تاریخی کتب کو کیا آپ آگ لگا دیں گے.
وقت گزرا تو ہمارے یہ ناصح اور مربی ریٹائرمنٹ کے بعد فراغت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے. قویٰ مضمحل ہوگئے تو کہنے کے لیے ماضی کے تجربات کے سوا کچھ بھی نہ رہا. ایسے ناسٹجلک ہوئے کہ کیا یوسفی صاحب کے کردار ہوئے ہوں گے. آگے دیکھنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو ماضی میں نہ صرف یہ کہ خود پناہ لی بلکہ کھینچ کھانچ کے ہم ایسوں کو بھی اس فردوس بریں میں لے جاتے جہاں انھوں نے جوانی دوانی گزاری. دل رکھنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ان کے سارے ماضی کی سیر کرلی. ہم نے کبھی یہ بھی نہ جتایا کہ ” آنکھیں تو اللہ نے آگے دیکھنے کے لیے دی ہیں” اس کی ایک وجہ تو ہماری فطری مروت اور دوسری وجہ یہ کہ ہم تو خود عین عالم شباب میں بھی ماضی میں جھانکنے سے باز نہیں آتے تھے. اس لیے نہیں کہ بقول قاسم شاہ ؎
اسے ماضی پناہ دیتا ہے جو بدحال ہوتا ہے
بلکہ اس لیے کہ ماضی سے رشتہ قائم رکھنے میں ہمیشہ ایک رومانس نظر آیا. گزرا وقت یاد کرنا ہمیشہ ایک دلچسپ تجربہ رہا. ہر وہ جگہ جہاں کچھ دن گزارے ہوتے وہاں بار بار جانے کو جی چاہتا. ماضی کے بخشے داغوں میں بھی کچھ ایسی دلکشی محسوس ہوتی کہ انھیں تازہ رکھنے کے لیے پارینہ قصوں کو دہرانا محبوب مشغلہ رہا. مگر کیا کہیے کہ جس دور میں جی رہے ہیں وہ ماضی کی ہر نشانی کو مٹانے کے درپئے ہے. آج کا افادیت پرست ذہن صرف اس شے کا وجود قائم رکھنے کا قائل ہے جو مادی منفعت کا باعث ہو . درست کہ ثبات صرف تغیر کو ہی ہے مگر تغیر کے نام پر سرے سے ماضی کو مٹا دینا خود انسانی جبلت کے خلاف ہے. کیا اس میں کوئی شک ہے کہ انسان ہی وہ جانور ہے جو ماضی سے گہرا اور بامعنی تعلق قائم رکھتا ہے . دوسرے جانوروں سے وہ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ دی گئی عقل سے وہ ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے.
باقی لوگوں کا تو علم نہیں مگر ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ تاک تاک کر ان چیزوں کو فنا کے گھاٹ اتار رہا ہے جن سے ہماری جذباتی وابستگی ہے . ایسی ہی یادگاروں میں ایک گورنمنٹ کالج سرگودھا بھی ہے . ہم ہی نہیں سرگودھا، خوشاب، میانوالی، بھکر، اور جھنگ کے آدھے سے زیادہ گریجویٹ اسی مادر علمی کی آغوش میں پروان چڑھے. اگر اس کالج کی یادیں لکھنے بیٹھوں تو دفتر کے دفتر سیاہ کردوں مگر فی الحال میرا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ بے شک تغیر ضروری ہے. زمانے کی آنکھیں معلوم نہیں آگے ہیں یا پیچھے مگر اس کے قدموں کا رخ ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے. اس کا کوئی ریورس گئیر نہیں اور پچھلے پیروں ہٹنا اس کی فطرت کے خلاف ہے مگر کیا ضروری ہے کہ اگلا سبق یاد کرنے کے لیے پچھلا بھلا دیا جائے. کیا ریاست کے پاس کہیں چند سو ایکٹر جگہ نہیں تھی کہ وہ یونیورسٹی بنا سکے. اس میں کوئی شک نہیں کہ سرگودھا کو یونیورسٹی کی شدید ضرورت تھی مگر کیا یہ کام ہمارے کالج کی قربانی دیے بغیر ممکن نہ تھا. کیا اس کے لیے ضروری تھا کہ ہم سے ہمارا تعلیمی ماضی ہی چھین لیا جاتا . اور اپنے بارے کیا عرض کریں کہ ہمارے ساتھ تو دہرا ظلم ہوا. لاہور کے جس کالج سے گریجویشن کی اسے بھی یونیورسٹی بنادیا گیا. ہم نے اپنی زندگی کے خوبصورت ترین دن لاہور کے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس میں گزارے جو اب ایجوکیشن یونیورسٹی کہلاتا ہے . چونکہ ہم ایجوکیشن یونیورسٹی کی بجائے کالج کے طالب علم ہیں اس لیے اس کالج کے سابق طالب علم سالانہ اجتماع کے لیے کالج کے سامنے کوئی شادی ہال بک کرواتے ہیں. ہاں کبھی یونیورسٹی انتظامیہ کو رحم آجائے تو وہ اپنا ہال عنایت کردیتی ہے جہاں ہم بااعتماد استحقاق کی بجائے ایک ممنونیت کے ساتھ سالانہ تقریب منعقد کرتے ہیں. تعلیمی ادارے سے تعلق بہت گہرا اور عجیب ہوتا ہے. بندہ بوڑھا بھی ہوجائے تب بھی اپنے سکول کالج کو ہمیشہ اپنا کہتا اور سمجھتا ہے. ہمیشہ کہتا ہے کہ ” یہ میرا کالج یا سکول ہے” بندہ دہائیوں تک کسی مکان میں رہے تو چھوڑنے کے بعد کہتا ہے کہ ” یہ ہمارا گھر تھا” اس “ہے” اور “تھا” کے فرق کو ہر صاحب دل سمجھ سکتا ہے.
ہمارے کالج سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور جیسے تاریخی تعلیمی ادارے کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. اس کالج کو یونیورسٹی بنانا گویا برصغیر کی تعلیمی تاریخ کو دفن کرنا تھا. پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ کالج برصغیر کی مشہور ترین درسگاہ تھا. لوگ اس کالج میں پڑھنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے. اگر ان لوگوں کے نام لینا شروع کروں کہ جنھوں نے لاہور کے اس کالج سے تعلیم حاصل کی تو اس کے لیے اس جیسے کئی کالم درکار ہوں گے.. پھر گورنمنٹ کالج لاہور ہی پر کیا موقف، لاہور کا کنئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج فار وومن، ایف سی کالج، کوئنز میری کالج سمیت بہت سے اداروں کا سٹیٹس تبدیل کردیا گیا. کچھ کو خودمختار کردیا گیا اور کچھ کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. لاہور سے باہر گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیاگیا . گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال اس علاقے کا تاریخی کالج تھا اسے بھی یونیورسٹی بنا دیا گیا اور اب باری ہے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کی. کبھی پنجاب میں جی سی لاہور اور ایف سی کالج کے بعد جن کالجز کے نام کا ڈنکا بجتا تھاان میں، ایمرسن کالج ملتان، مرے کالج سیالکوٹ، زمیندارہ کالج گجرات، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورڈن کالج پنڈی شامل تھے . ایمرسن کالج ملتان کی طویل تاریخ ہے. ملتان کے بے شمار پڑھے لکھے لوگوں کی یادیں اس کالج سے وابستہ ہیں. یہ کالج ملتان کی تاریخ ہے، ملتان کا حافظہ ہے.. ممکن ہے یہاں کچھ لوگ کہیں کہ یاد ماضی سے چمٹے رہنا مریضانہ رویہ ہے اور یہ بھی کہ ایمرسن کالج کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر اس کے سٹیٹس کو بلند کرتے ہوئے اسے خود مختار ادارہ بنایا جا رہا ہے. چلیں ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ کالج کو محض خود مختاری دی جارہی ہے تو بھی اس کا نتیجہ یا تو یہ نکلے گا کہ کل کلاں یہ کالج نجی شعبے کے ہاتھ میں چلا جائے گا یا پھر اس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے گا. دونوں صورتوں میں یہ وہ کالج نہیں رہے گا جو ملتان کا مشترکہ اثاثہ ہے. ہماری بات پر یقین نہیں تو ان کالجز کا حال دیکھ لیا جائے کہ جنھیں خود مختاری دی گئی. باقی باتوں سے قطع نظر صرف ان کی فیسیں ہی دیکھ لیں تو علم ہو جائے گا کہ یہ کتنا بڑا دھوکا ہے.
کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرنے سے وہاں کے اساتذہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے. ایسے کالجز کے اساتذہ کے سامنے دو آپشنز ہوتے ہیں. ایک تو یہ کہ کسی اور کالج میں تبادلہ کروا لیں یا اسی کالج میں کسی خود مختار باڈی کے زیر سرپرستی فرائض سرانجام دیتے رہیں. پہلی صورت میں یہ ہوگا کہ پروفیسرز کو گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا قصبے میں جانا پڑے گا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ ملتان شہر کے کالجز میں پروفیسرز کی اتنی سیٹیں خالی ہوں کہ یہاں ایمرسن کالج کے سارے اساتذہ سما جائیں اوردوسری صورت میں اسے سرکاری ملازمت کو ترک کر کے اپنی خدمات کسی خود مختار باڈی کے حوالے کرنا ہوں گی. یہ دونوں صورتیں اساتذہ کے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی. یہ تو انفرادی نوعیت کے تحفظات تھے اجتماعی سطح پر بھی اساتذہ کے لیے یہ خود مختاری قابل قبول نہیں ہو گی . پہلے ہی بہت سے کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرکے کالج کیڈر کو محدود کر دیا گیا ہے یہ سلسلہ چل نکلا تو یہ کیڈر سکڑتے سکڑتے معدوم بھی ہوسکتا ہے . جس کا نقصان صرف اساتذہ کو ہی نہیں ہوگا بلکہ طلبہ بھی شدید متاثر ہوں گے. یہ کالج نہ صرف غریب اور سفید پوش طبقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں بلکہ ایمرسن کالج جیسے ادارے میں تعلیم حاصل کرکے طلبہ ایک تاریخ کا حصہ بھی بن جاتے ہیں. ممکن ہے حکومت پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ ہو اور وہ ان اداروں کے ہاتھوں مجبور ہو کر کالجز سے جان چھڑانا چاہتی ہو. اگر ایسا ہے بھی تو کیا حکومت کے پاس زبان نہیں جو ان اداروں کو قائل کرسکے کہ قومیں اپنے تاریخی اثاثوں سے جان نہیں چھڑایا کرتیں. یہ اثاثے کسی خطے کی شناخت ہوا کرتے ہیں. حکومتیں ان اثاثوں کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہیں. اگر یہی حکومتیں ان اثاثوں کی دیکھ بھال نہ کرسکیں تو پھر ان کے قیام کا کیا جواز؟ ہمارے خیال میں تو ایمرسن کالج کے موجودہ اور سابقہ طلبہ کو اس پر منظم رد عمل دینا چاہیے. اس کے سابق طالب علم اعلا عہدوں پر فائز ہیں. سیاست، فوج، افسر شاہی اور عدلیہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں یہاں کے طلبائے قدیم اہم مناصب پر جلوہ افروز ہیں. وہ تھوڑی سی کوشش کریں تو یہ سلسلہ یہیں رک سکتا ہے. اب تو یہ کام اور بھی آسان ہے کیوں کہ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلا جناب عثمان بزدار خود اسی کالج کے سابق طالب علم ہیں.
ہمارے ایک بزرگ ہمیشہ ہمیں سامنے دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں اگر پیچھے دیکھنا ضروری ہوتا تو دو آنکھیں پیچھے بھی ہوتیں. وہ یہ بات ماضی اور مستقبل کے تناظر میں فرماتے کہ جدیدیت سے متاثر لوگوں کی طرح ان کے لیے بھی اہمیت صرف مستقبل کی تھی. ہمارے لڑکپن میں وہ ادھیڑ عمری سے گزر رہے تھے. ہمارے مربی ہونے کی ذمہ داری یوں قبول کرلی کہ اس دور میں مربی ہونے کے لیے صرف عمر میں بڑا ہونا ہی کافی سمجھا جاتا. دوسرے بڑوں کی طرح دلیل سے بات کرنا یا سننا ناپسند اور حکم دینا مرغوب تھا. چند کتابیں اور ریڈرز ڈائجسٹ ٹائپ انگریزی رسالے پڑھ کر ان کا اپنی رائے پر غیر متزلزل یقین قائم ہوگیا تھا. بہت سے انگریزی اقوال زریں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں ترجمہ کرکے سناتے جن میں سے ایک تو وہی تھا یعنی اللہ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں. مارے احترام کے ہم ان سے کبھی یہ بھی نہ کہ سکے کہ بندہ پرور بلاشبہ آنکھیں آگے ہی ہیں مگر اللہ نے حافظہ بھی تو دے رکھا ہے. جو پیچھے دیکھنے کے سوا اور کرتا ہی کیا ہے اور دنیا کی تاریخی کتب کو کیا آپ آگ لگا دیں گے.
وقت گزرا تو ہمارے یہ ناصح اور مربی ریٹائرمنٹ کے بعد فراغت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے. قویٰ مضمحل ہوگئے تو کہنے کے لیے ماضی کے تجربات کے سوا کچھ بھی نہ رہا. ایسے ناسٹجلک ہوئے کہ کیا یوسفی صاحب کے کردار ہوئے ہوں گے. آگے دیکھنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو ماضی میں نہ صرف یہ کہ خود پناہ لی بلکہ کھینچ کھانچ کے ہم ایسوں کو بھی اس فردوس بریں میں لے جاتے جہاں انھوں نے جوانی دوانی گزاری. دل رکھنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ان کے سارے ماضی کی سیر کرلی. ہم نے کبھی یہ بھی نہ جتایا کہ ” آنکھیں تو اللہ نے آگے دیکھنے کے لیے دی ہیں” اس کی ایک وجہ تو ہماری فطری مروت اور دوسری وجہ یہ کہ ہم تو خود عین عالم شباب میں بھی ماضی میں جھانکنے سے باز نہیں آتے تھے. اس لیے نہیں کہ بقول قاسم شاہ ؎
اسے ماضی پناہ دیتا ہے جو بدحال ہوتا ہے
بلکہ اس لیے کہ ماضی سے رشتہ قائم رکھنے میں ہمیشہ ایک رومانس نظر آیا. گزرا وقت یاد کرنا ہمیشہ ایک دلچسپ تجربہ رہا. ہر وہ جگہ جہاں کچھ دن گزارے ہوتے وہاں بار بار جانے کو جی چاہتا. ماضی کے بخشے داغوں میں بھی کچھ ایسی دلکشی محسوس ہوتی کہ انھیں تازہ رکھنے کے لیے پارینہ قصوں کو دہرانا محبوب مشغلہ رہا. مگر کیا کہیے کہ جس دور میں جی رہے ہیں وہ ماضی کی ہر نشانی کو مٹانے کے درپئے ہے. آج کا افادیت پرست ذہن صرف اس شے کا وجود قائم رکھنے کا قائل ہے جو مادی منفعت کا باعث ہو . درست کہ ثبات صرف تغیر کو ہی ہے مگر تغیر کے نام پر سرے سے ماضی کو مٹا دینا خود انسانی جبلت کے خلاف ہے. کیا اس میں کوئی شک ہے کہ انسان ہی وہ جانور ہے جو ماضی سے گہرا اور بامعنی تعلق قائم رکھتا ہے . دوسرے جانوروں سے وہ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ دی گئی عقل سے وہ ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے.
باقی لوگوں کا تو علم نہیں مگر ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ تاک تاک کر ان چیزوں کو فنا کے گھاٹ اتار رہا ہے جن سے ہماری جذباتی وابستگی ہے . ایسی ہی یادگاروں میں ایک گورنمنٹ کالج سرگودھا بھی ہے . ہم ہی نہیں سرگودھا، خوشاب، میانوالی، بھکر، اور جھنگ کے آدھے سے زیادہ گریجویٹ اسی مادر علمی کی آغوش میں پروان چڑھے. اگر اس کالج کی یادیں لکھنے بیٹھوں تو دفتر کے دفتر سیاہ کردوں مگر فی الحال میرا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ بے شک تغیر ضروری ہے. زمانے کی آنکھیں معلوم نہیں آگے ہیں یا پیچھے مگر اس کے قدموں کا رخ ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے. اس کا کوئی ریورس گئیر نہیں اور پچھلے پیروں ہٹنا اس کی فطرت کے خلاف ہے مگر کیا ضروری ہے کہ اگلا سبق یاد کرنے کے لیے پچھلا بھلا دیا جائے. کیا ریاست کے پاس کہیں چند سو ایکٹر جگہ نہیں تھی کہ وہ یونیورسٹی بنا سکے. اس میں کوئی شک نہیں کہ سرگودھا کو یونیورسٹی کی شدید ضرورت تھی مگر کیا یہ کام ہمارے کالج کی قربانی دیے بغیر ممکن نہ تھا. کیا اس کے لیے ضروری تھا کہ ہم سے ہمارا تعلیمی ماضی ہی چھین لیا جاتا . اور اپنے بارے کیا عرض کریں کہ ہمارے ساتھ تو دہرا ظلم ہوا. لاہور کے جس کالج سے گریجویشن کی اسے بھی یونیورسٹی بنادیا گیا. ہم نے اپنی زندگی کے خوبصورت ترین دن لاہور کے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس میں گزارے جو اب ایجوکیشن یونیورسٹی کہلاتا ہے . چونکہ ہم ایجوکیشن یونیورسٹی کی بجائے کالج کے طالب علم ہیں اس لیے اس کالج کے سابق طالب علم سالانہ اجتماع کے لیے کالج کے سامنے کوئی شادی ہال بک کرواتے ہیں. ہاں کبھی یونیورسٹی انتظامیہ کو رحم آجائے تو وہ اپنا ہال عنایت کردیتی ہے جہاں ہم بااعتماد استحقاق کی بجائے ایک ممنونیت کے ساتھ سالانہ تقریب منعقد کرتے ہیں. تعلیمی ادارے سے تعلق بہت گہرا اور عجیب ہوتا ہے. بندہ بوڑھا بھی ہوجائے تب بھی اپنے سکول کالج کو ہمیشہ اپنا کہتا اور سمجھتا ہے. ہمیشہ کہتا ہے کہ ” یہ میرا کالج یا سکول ہے” بندہ دہائیوں تک کسی مکان میں رہے تو چھوڑنے کے بعد کہتا ہے کہ ” یہ ہمارا گھر تھا” اس “ہے” اور “تھا” کے فرق کو ہر صاحب دل سمجھ سکتا ہے.
ہمارے کالج سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور جیسے تاریخی تعلیمی ادارے کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. اس کالج کو یونیورسٹی بنانا گویا برصغیر کی تعلیمی تاریخ کو دفن کرنا تھا. پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ کالج برصغیر کی مشہور ترین درسگاہ تھا. لوگ اس کالج میں پڑھنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے. اگر ان لوگوں کے نام لینا شروع کروں کہ جنھوں نے لاہور کے اس کالج سے تعلیم حاصل کی تو اس کے لیے اس جیسے کئی کالم درکار ہوں گے.. پھر گورنمنٹ کالج لاہور ہی پر کیا موقف، لاہور کا کنئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج فار وومن، ایف سی کالج، کوئنز میری کالج سمیت بہت سے اداروں کا سٹیٹس تبدیل کردیا گیا. کچھ کو خودمختار کردیا گیا اور کچھ کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. لاہور سے باہر گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیاگیا . گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال اس علاقے کا تاریخی کالج تھا اسے بھی یونیورسٹی بنا دیا گیا اور اب باری ہے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کی. کبھی پنجاب میں جی سی لاہور اور ایف سی کالج کے بعد جن کالجز کے نام کا ڈنکا بجتا تھاان میں، ایمرسن کالج ملتان، مرے کالج سیالکوٹ، زمیندارہ کالج گجرات، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورڈن کالج پنڈی شامل تھے . ایمرسن کالج ملتان کی طویل تاریخ ہے. ملتان کے بے شمار پڑھے لکھے لوگوں کی یادیں اس کالج سے وابستہ ہیں. یہ کالج ملتان کی تاریخ ہے، ملتان کا حافظہ ہے.. ممکن ہے یہاں کچھ لوگ کہیں کہ یاد ماضی سے چمٹے رہنا مریضانہ رویہ ہے اور یہ بھی کہ ایمرسن کالج کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر اس کے سٹیٹس کو بلند کرتے ہوئے اسے خود مختار ادارہ بنایا جا رہا ہے. چلیں ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ کالج کو محض خود مختاری دی جارہی ہے تو بھی اس کا نتیجہ یا تو یہ نکلے گا کہ کل کلاں یہ کالج نجی شعبے کے ہاتھ میں چلا جائے گا یا پھر اس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے گا. دونوں صورتوں میں یہ وہ کالج نہیں رہے گا جو ملتان کا مشترکہ اثاثہ ہے. ہماری بات پر یقین نہیں تو ان کالجز کا حال دیکھ لیا جائے کہ جنھیں خود مختاری دی گئی. باقی باتوں سے قطع نظر صرف ان کی فیسیں ہی دیکھ لیں تو علم ہو جائے گا کہ یہ کتنا بڑا دھوکا ہے.
کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرنے سے وہاں کے اساتذہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے. ایسے کالجز کے اساتذہ کے سامنے دو آپشنز ہوتے ہیں. ایک تو یہ کہ کسی اور کالج میں تبادلہ کروا لیں یا اسی کالج میں کسی خود مختار باڈی کے زیر سرپرستی فرائض سرانجام دیتے رہیں. پہلی صورت میں یہ ہوگا کہ پروفیسرز کو گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا قصبے میں جانا پڑے گا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ ملتان شہر کے کالجز میں پروفیسرز کی اتنی سیٹیں خالی ہوں کہ یہاں ایمرسن کالج کے سارے اساتذہ سما جائیں اوردوسری صورت میں اسے سرکاری ملازمت کو ترک کر کے اپنی خدمات کسی خود مختار باڈی کے حوالے کرنا ہوں گی. یہ دونوں صورتیں اساتذہ کے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی. یہ تو انفرادی نوعیت کے تحفظات تھے اجتماعی سطح پر بھی اساتذہ کے لیے یہ خود مختاری قابل قبول نہیں ہو گی . پہلے ہی بہت سے کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرکے کالج کیڈر کو محدود کر دیا گیا ہے یہ سلسلہ چل نکلا تو یہ کیڈر سکڑتے سکڑتے معدوم بھی ہوسکتا ہے . جس کا نقصان صرف اساتذہ کو ہی نہیں ہوگا بلکہ طلبہ بھی شدید متاثر ہوں گے. یہ کالج نہ صرف غریب اور سفید پوش طبقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں بلکہ ایمرسن کالج جیسے ادارے میں تعلیم حاصل کرکے طلبہ ایک تاریخ کا حصہ بھی بن جاتے ہیں. ممکن ہے حکومت پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ ہو اور وہ ان اداروں کے ہاتھوں مجبور ہو کر کالجز سے جان چھڑانا چاہتی ہو. اگر ایسا ہے بھی تو کیا حکومت کے پاس زبان نہیں جو ان اداروں کو قائل کرسکے کہ قومیں اپنے تاریخی اثاثوں سے جان نہیں چھڑایا کرتیں. یہ اثاثے کسی خطے کی شناخت ہوا کرتے ہیں. حکومتیں ان اثاثوں کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہیں. اگر یہی حکومتیں ان اثاثوں کی دیکھ بھال نہ کرسکیں تو پھر ان کے قیام کا کیا جواز؟ ہمارے خیال میں تو ایمرسن کالج کے موجودہ اور سابقہ طلبہ کو اس پر منظم رد عمل دینا چاہیے. اس کے سابق طالب علم اعلا عہدوں پر فائز ہیں. سیاست، فوج، افسر شاہی اور عدلیہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں یہاں کے طلبائے قدیم اہم مناصب پر جلوہ افروز ہیں. وہ تھوڑی سی کوشش کریں تو یہ سلسلہ یہیں رک سکتا ہے. اب تو یہ کام اور بھی آسان ہے کیوں کہ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلا جناب عثمان بزدار خود اسی کالج کے سابق طالب علم ہیں.
ہمارے ایک بزرگ ہمیشہ ہمیں سامنے دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں اگر پیچھے دیکھنا ضروری ہوتا تو دو آنکھیں پیچھے بھی ہوتیں. وہ یہ بات ماضی اور مستقبل کے تناظر میں فرماتے کہ جدیدیت سے متاثر لوگوں کی طرح ان کے لیے بھی اہمیت صرف مستقبل کی تھی. ہمارے لڑکپن میں وہ ادھیڑ عمری سے گزر رہے تھے. ہمارے مربی ہونے کی ذمہ داری یوں قبول کرلی کہ اس دور میں مربی ہونے کے لیے صرف عمر میں بڑا ہونا ہی کافی سمجھا جاتا. دوسرے بڑوں کی طرح دلیل سے بات کرنا یا سننا ناپسند اور حکم دینا مرغوب تھا. چند کتابیں اور ریڈرز ڈائجسٹ ٹائپ انگریزی رسالے پڑھ کر ان کا اپنی رائے پر غیر متزلزل یقین قائم ہوگیا تھا. بہت سے انگریزی اقوال زریں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں ترجمہ کرکے سناتے جن میں سے ایک تو وہی تھا یعنی اللہ نے آنکھیں آگے لگائی ہیں. مارے احترام کے ہم ان سے کبھی یہ بھی نہ کہ سکے کہ بندہ پرور بلاشبہ آنکھیں آگے ہی ہیں مگر اللہ نے حافظہ بھی تو دے رکھا ہے. جو پیچھے دیکھنے کے سوا اور کرتا ہی کیا ہے اور دنیا کی تاریخی کتب کو کیا آپ آگ لگا دیں گے.
وقت گزرا تو ہمارے یہ ناصح اور مربی ریٹائرمنٹ کے بعد فراغت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے. قویٰ مضمحل ہوگئے تو کہنے کے لیے ماضی کے تجربات کے سوا کچھ بھی نہ رہا. ایسے ناسٹجلک ہوئے کہ کیا یوسفی صاحب کے کردار ہوئے ہوں گے. آگے دیکھنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو ماضی میں نہ صرف یہ کہ خود پناہ لی بلکہ کھینچ کھانچ کے ہم ایسوں کو بھی اس فردوس بریں میں لے جاتے جہاں انھوں نے جوانی دوانی گزاری. دل رکھنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ان کے سارے ماضی کی سیر کرلی. ہم نے کبھی یہ بھی نہ جتایا کہ ” آنکھیں تو اللہ نے آگے دیکھنے کے لیے دی ہیں” اس کی ایک وجہ تو ہماری فطری مروت اور دوسری وجہ یہ کہ ہم تو خود عین عالم شباب میں بھی ماضی میں جھانکنے سے باز نہیں آتے تھے. اس لیے نہیں کہ بقول قاسم شاہ ؎
اسے ماضی پناہ دیتا ہے جو بدحال ہوتا ہے
بلکہ اس لیے کہ ماضی سے رشتہ قائم رکھنے میں ہمیشہ ایک رومانس نظر آیا. گزرا وقت یاد کرنا ہمیشہ ایک دلچسپ تجربہ رہا. ہر وہ جگہ جہاں کچھ دن گزارے ہوتے وہاں بار بار جانے کو جی چاہتا. ماضی کے بخشے داغوں میں بھی کچھ ایسی دلکشی محسوس ہوتی کہ انھیں تازہ رکھنے کے لیے پارینہ قصوں کو دہرانا محبوب مشغلہ رہا. مگر کیا کہیے کہ جس دور میں جی رہے ہیں وہ ماضی کی ہر نشانی کو مٹانے کے درپئے ہے. آج کا افادیت پرست ذہن صرف اس شے کا وجود قائم رکھنے کا قائل ہے جو مادی منفعت کا باعث ہو . درست کہ ثبات صرف تغیر کو ہی ہے مگر تغیر کے نام پر سرے سے ماضی کو مٹا دینا خود انسانی جبلت کے خلاف ہے. کیا اس میں کوئی شک ہے کہ انسان ہی وہ جانور ہے جو ماضی سے گہرا اور بامعنی تعلق قائم رکھتا ہے . دوسرے جانوروں سے وہ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ دی گئی عقل سے وہ ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے.
باقی لوگوں کا تو علم نہیں مگر ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ تاک تاک کر ان چیزوں کو فنا کے گھاٹ اتار رہا ہے جن سے ہماری جذباتی وابستگی ہے . ایسی ہی یادگاروں میں ایک گورنمنٹ کالج سرگودھا بھی ہے . ہم ہی نہیں سرگودھا، خوشاب، میانوالی، بھکر، اور جھنگ کے آدھے سے زیادہ گریجویٹ اسی مادر علمی کی آغوش میں پروان چڑھے. اگر اس کالج کی یادیں لکھنے بیٹھوں تو دفتر کے دفتر سیاہ کردوں مگر فی الحال میرا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ بے شک تغیر ضروری ہے. زمانے کی آنکھیں معلوم نہیں آگے ہیں یا پیچھے مگر اس کے قدموں کا رخ ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے. اس کا کوئی ریورس گئیر نہیں اور پچھلے پیروں ہٹنا اس کی فطرت کے خلاف ہے مگر کیا ضروری ہے کہ اگلا سبق یاد کرنے کے لیے پچھلا بھلا دیا جائے. کیا ریاست کے پاس کہیں چند سو ایکٹر جگہ نہیں تھی کہ وہ یونیورسٹی بنا سکے. اس میں کوئی شک نہیں کہ سرگودھا کو یونیورسٹی کی شدید ضرورت تھی مگر کیا یہ کام ہمارے کالج کی قربانی دیے بغیر ممکن نہ تھا. کیا اس کے لیے ضروری تھا کہ ہم سے ہمارا تعلیمی ماضی ہی چھین لیا جاتا . اور اپنے بارے کیا عرض کریں کہ ہمارے ساتھ تو دہرا ظلم ہوا. لاہور کے جس کالج سے گریجویشن کی اسے بھی یونیورسٹی بنادیا گیا. ہم نے اپنی زندگی کے خوبصورت ترین دن لاہور کے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس میں گزارے جو اب ایجوکیشن یونیورسٹی کہلاتا ہے . چونکہ ہم ایجوکیشن یونیورسٹی کی بجائے کالج کے طالب علم ہیں اس لیے اس کالج کے سابق طالب علم سالانہ اجتماع کے لیے کالج کے سامنے کوئی شادی ہال بک کرواتے ہیں. ہاں کبھی یونیورسٹی انتظامیہ کو رحم آجائے تو وہ اپنا ہال عنایت کردیتی ہے جہاں ہم بااعتماد استحقاق کی بجائے ایک ممنونیت کے ساتھ سالانہ تقریب منعقد کرتے ہیں. تعلیمی ادارے سے تعلق بہت گہرا اور عجیب ہوتا ہے. بندہ بوڑھا بھی ہوجائے تب بھی اپنے سکول کالج کو ہمیشہ اپنا کہتا اور سمجھتا ہے. ہمیشہ کہتا ہے کہ ” یہ میرا کالج یا سکول ہے” بندہ دہائیوں تک کسی مکان میں رہے تو چھوڑنے کے بعد کہتا ہے کہ ” یہ ہمارا گھر تھا” اس “ہے” اور “تھا” کے فرق کو ہر صاحب دل سمجھ سکتا ہے.
ہمارے کالج سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور جیسے تاریخی تعلیمی ادارے کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. اس کالج کو یونیورسٹی بنانا گویا برصغیر کی تعلیمی تاریخ کو دفن کرنا تھا. پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ کالج برصغیر کی مشہور ترین درسگاہ تھا. لوگ اس کالج میں پڑھنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے. اگر ان لوگوں کے نام لینا شروع کروں کہ جنھوں نے لاہور کے اس کالج سے تعلیم حاصل کی تو اس کے لیے اس جیسے کئی کالم درکار ہوں گے.. پھر گورنمنٹ کالج لاہور ہی پر کیا موقف، لاہور کا کنئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج فار وومن، ایف سی کالج، کوئنز میری کالج سمیت بہت سے اداروں کا سٹیٹس تبدیل کردیا گیا. کچھ کو خودمختار کردیا گیا اور کچھ کو یونیورسٹی بنا دیا گیا. لاہور سے باہر گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیاگیا . گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال اس علاقے کا تاریخی کالج تھا اسے بھی یونیورسٹی بنا دیا گیا اور اب باری ہے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کی. کبھی پنجاب میں جی سی لاہور اور ایف سی کالج کے بعد جن کالجز کے نام کا ڈنکا بجتا تھاان میں، ایمرسن کالج ملتان، مرے کالج سیالکوٹ، زمیندارہ کالج گجرات، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورڈن کالج پنڈی شامل تھے . ایمرسن کالج ملتان کی طویل تاریخ ہے. ملتان کے بے شمار پڑھے لکھے لوگوں کی یادیں اس کالج سے وابستہ ہیں. یہ کالج ملتان کی تاریخ ہے، ملتان کا حافظہ ہے.. ممکن ہے یہاں کچھ لوگ کہیں کہ یاد ماضی سے چمٹے رہنا مریضانہ رویہ ہے اور یہ بھی کہ ایمرسن کالج کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر اس کے سٹیٹس کو بلند کرتے ہوئے اسے خود مختار ادارہ بنایا جا رہا ہے. چلیں ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ کالج کو محض خود مختاری دی جارہی ہے تو بھی اس کا نتیجہ یا تو یہ نکلے گا کہ کل کلاں یہ کالج نجی شعبے کے ہاتھ میں چلا جائے گا یا پھر اس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے گا. دونوں صورتوں میں یہ وہ کالج نہیں رہے گا جو ملتان کا مشترکہ اثاثہ ہے. ہماری بات پر یقین نہیں تو ان کالجز کا حال دیکھ لیا جائے کہ جنھیں خود مختاری دی گئی. باقی باتوں سے قطع نظر صرف ان کی فیسیں ہی دیکھ لیں تو علم ہو جائے گا کہ یہ کتنا بڑا دھوکا ہے.
کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرنے سے وہاں کے اساتذہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے. ایسے کالجز کے اساتذہ کے سامنے دو آپشنز ہوتے ہیں. ایک تو یہ کہ کسی اور کالج میں تبادلہ کروا لیں یا اسی کالج میں کسی خود مختار باڈی کے زیر سرپرستی فرائض سرانجام دیتے رہیں. پہلی صورت میں یہ ہوگا کہ پروفیسرز کو گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا قصبے میں جانا پڑے گا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ ملتان شہر کے کالجز میں پروفیسرز کی اتنی سیٹیں خالی ہوں کہ یہاں ایمرسن کالج کے سارے اساتذہ سما جائیں اوردوسری صورت میں اسے سرکاری ملازمت کو ترک کر کے اپنی خدمات کسی خود مختار باڈی کے حوالے کرنا ہوں گی. یہ دونوں صورتیں اساتذہ کے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی. یہ تو انفرادی نوعیت کے تحفظات تھے اجتماعی سطح پر بھی اساتذہ کے لیے یہ خود مختاری قابل قبول نہیں ہو گی . پہلے ہی بہت سے کالجز کا سٹیٹس تبدیل کرکے کالج کیڈر کو محدود کر دیا گیا ہے یہ سلسلہ چل نکلا تو یہ کیڈر سکڑتے سکڑتے معدوم بھی ہوسکتا ہے . جس کا نقصان صرف اساتذہ کو ہی نہیں ہوگا بلکہ طلبہ بھی شدید متاثر ہوں گے. یہ کالج نہ صرف غریب اور سفید پوش طبقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں بلکہ ایمرسن کالج جیسے ادارے میں تعلیم حاصل کرکے طلبہ ایک تاریخ کا حصہ بھی بن جاتے ہیں. ممکن ہے حکومت پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ ہو اور وہ ان اداروں کے ہاتھوں مجبور ہو کر کالجز سے جان چھڑانا چاہتی ہو. اگر ایسا ہے بھی تو کیا حکومت کے پاس زبان نہیں جو ان اداروں کو قائل کرسکے کہ قومیں اپنے تاریخی اثاثوں سے جان نہیں چھڑایا کرتیں. یہ اثاثے کسی خطے کی شناخت ہوا کرتے ہیں. حکومتیں ان اثاثوں کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہیں. اگر یہی حکومتیں ان اثاثوں کی دیکھ بھال نہ کرسکیں تو پھر ان کے قیام کا کیا جواز؟ ہمارے خیال میں تو ایمرسن کالج کے موجودہ اور سابقہ طلبہ کو اس پر منظم رد عمل دینا چاہیے. اس کے سابق طالب علم اعلا عہدوں پر فائز ہیں. سیاست، فوج، افسر شاہی اور عدلیہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں یہاں کے طلبائے قدیم اہم مناصب پر جلوہ افروز ہیں. وہ تھوڑی سی کوشش کریں تو یہ سلسلہ یہیں رک سکتا ہے. اب تو یہ کام اور بھی آسان ہے کیوں کہ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلا جناب عثمان بزدار خود اسی کالج کے سابق طالب علم ہیں.