Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
احمد بشیر ایک ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے حکمران وقت سے کے کر عالم دین تک کے ساتھ وہ چونچیں لڑا کر خوش ہوتے ان کو متنازعہ بننے کا تو ہرگز کوئی شوق نہیں تھا مگر وہ اپنے نظریات کا پرچار اس شدت سے کرتے کہ دوسرے فریق کو جواب دینا ہی پڑتا بشیر صاحب کی بےلاگ گفتگو کے سامنے دوسروں کو جلد ہی شکست تسلیم کرنا پڑتی ارشاد احمد حقانی اور احمد بشیر نے کسی سیاسی نقطہ نظر کے حوالے سے ایک دوسرے کی مخالفت کے میں کالم در کالم لکھ کر اپنا موقف پیش کیا مگر کچھ ہفتوں کے بعد حقانی صاحب کوخاموشی اختیار کرنا پڑی اسی طرح ایک بار مولوی اسرار احمد اور احمد بشیر کے درمیان جب قلم کی جنگ نے کالموں میں زور پکڑا تو طے ہوا کہ اسرار صاحب مناظرے کے لۓ احمد بشیر کے گھر جائیں گے احمد بشیر نے دلیلوں کے ساتھ ساتھ اس روز گھر پر چاۓ کا بھی انتظام کیا مگر مولانا نے نہ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
ادبی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل احمد بشیر کی کتاب نے بھی کیا کیا ہنگامے برپا کیۓ کتاب کے بعد کئ لوگوں کی ازدواجی زندگی میں تلاطم آیا تو کچھ کی برسوں کی دوستی خراب ہوئی۔
خالد حسن جیسے زیرک نظر صحافی نے احمد بشیر کے بارے اپنے کالم کا اعنوانAhmad Bashir the last warrior ایسے ہی تو نہیں رکھا تھا۔
احمد بشیر کے ساتھ نظریاتی سطح پر اختلاف تو ممکن ہے مگر ان کی اپنے نظریات کے ساتھ commitment تو یقیناً قابل داد ہے احمد بشیر نے وقتی آسائش کے لیے تو شائد کبھی دوستوں سے مدد طلب کی ہو گی مگر اس کو زندگی کا لازمی جزو نہیں بنایا وہ اس وقت بھی کالم لکھتے تھے جب صحافت میں بات لفافوں سے بینک اکاونٹ تک پہنچ چکی تھی ان کو نہ مال و زر کا لالچ تھا اور نہ ہی کسی رتبے و مرتبے کی خواہش تھی میں جب بھی احمد بشیر کو ملنے گیا اُن کے گھر میں زندگی کی رونق چہار سو محسوس کی احمد بشیر کی ساس اور ان کی بیگم گھر کے لان میں رکھے جھولے پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف ہوتیں نیلم احمد بشیر اسما عباس اور بشرٰی انصاری کے قہقوں کی کھنک پورے گھر میں سنائی دیتی کبھی کبھار پروین عاطف سے بھی وہیں ملاقات ہو جاتی۔
ایک بار میں نے احمد بشیر سے عالم بی بی(جن کا الکھ نگری میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہے) اور زریں پنا سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی عالم بی بی تو اس وقت تک شائد رزق خاک ہو چکی تھیں مگر محترمہ زریں سے بھی احمد بشیر نے ملاقات کروانے کی بجاۓ ٹال مٹول سے کام لیا زریں پنا نے احمد بشیر کی بنائی ہوئی فلم “نیلا پربت” میں کام کیا تھا اس فلم میں ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کا ایک دوگانا تو محمودہ احمد بشیر کے ساتھ بھی تھا احمد بشیر نے فلم سازی کی تربیت امریکہ سے حاصل کی تھی مگر “نیلا پربت” ہر لحاظ سے ایک ناکام فلم ثابت ہوئی جس کا احمد بشیر کو ملال بھی تھا اور مالی طور ہر بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
اس خط میں بشیر صاحب نے اپنے ہمعصروں قدرت اللٰہ شہاب،ممتاز مفتی،بانو آپا اور اشفاق احمد کے بارے بےلاگ راۓ کا اظہار کیا ہے میرے لیے مکتوب نگار سمیت تمام شخصیات قابل عزت ہیں ان میں سے اب کوئی بھی زندہ نہیں سوچا یہ خط جو میرے پاس امانت ہے شائد شخصیت پرستی کی ہماری اجتماعی سوچ کو بدلنے میں معاون ثابت ہو۔
احمد بشیر سے میرا تعارف ممتاز مفتی کی خود نوشت “علی پور کا ایلی”اور “الکھ نگری” کے توسط سے ہوا احمد بشیر قذافی اسٹیڈیم کے قریب ایک گھرمیں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتے تھے اپریل 1997 کی ایک روشن دوپہر کو جب احمد بشیر سے ملنے کے لۓ میں ان کی بیٹی کے گھر گیا تو تھوڑی ہی دیر بعد بشیر صاحب سفید کرُتے اور پاجامہ میں ملبوس قرینےسے سجے drawing room میں داخل ہوۓ جہاں میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا میں نے کھڑے ہو کر سلام کیا تو ڈانتے ہوۓ کہا دوستوں میں تکلف نہیں ہوتا احمد بشیر کی طرف سے اپنے ساتھ دوستی کا دعویٰ سن کر میں نے سیگرٹ سلگا لی بشیر صاحب نے بھی بیٹھتے ساتھ ہی سیگرٹ طلب کی مرتے دم تک ان کا یہ بے تکلفانہ انداز قائم رہا اس خط میں بھی اسی بات کی طرف انہوں نے اشارہ کرتے ہوۓ سیگرٹ ساتھ لانے کے لۓ لکھا تھا۔
احمد بشیر ایک ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے حکمران وقت سے کے کر عالم دین تک کے ساتھ وہ چونچیں لڑا کر خوش ہوتے ان کو متنازعہ بننے کا تو ہرگز کوئی شوق نہیں تھا مگر وہ اپنے نظریات کا پرچار اس شدت سے کرتے کہ دوسرے فریق کو جواب دینا ہی پڑتا بشیر صاحب کی بےلاگ گفتگو کے سامنے دوسروں کو جلد ہی شکست تسلیم کرنا پڑتی ارشاد احمد حقانی اور احمد بشیر نے کسی سیاسی نقطہ نظر کے حوالے سے ایک دوسرے کی مخالفت کے میں کالم در کالم لکھ کر اپنا موقف پیش کیا مگر کچھ ہفتوں کے بعد حقانی صاحب کوخاموشی اختیار کرنا پڑی اسی طرح ایک بار مولوی اسرار احمد اور احمد بشیر کے درمیان جب قلم کی جنگ نے کالموں میں زور پکڑا تو طے ہوا کہ اسرار صاحب مناظرے کے لۓ احمد بشیر کے گھر جائیں گے احمد بشیر نے دلیلوں کے ساتھ ساتھ اس روز گھر پر چاۓ کا بھی انتظام کیا مگر مولانا نے نہ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
ادبی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل احمد بشیر کی کتاب نے بھی کیا کیا ہنگامے برپا کیۓ کتاب کے بعد کئ لوگوں کی ازدواجی زندگی میں تلاطم آیا تو کچھ کی برسوں کی دوستی خراب ہوئی۔
خالد حسن جیسے زیرک نظر صحافی نے احمد بشیر کے بارے اپنے کالم کا اعنوانAhmad Bashir the last warrior ایسے ہی تو نہیں رکھا تھا۔
احمد بشیر کے ساتھ نظریاتی سطح پر اختلاف تو ممکن ہے مگر ان کی اپنے نظریات کے ساتھ commitment تو یقیناً قابل داد ہے احمد بشیر نے وقتی آسائش کے لیے تو شائد کبھی دوستوں سے مدد طلب کی ہو گی مگر اس کو زندگی کا لازمی جزو نہیں بنایا وہ اس وقت بھی کالم لکھتے تھے جب صحافت میں بات لفافوں سے بینک اکاونٹ تک پہنچ چکی تھی ان کو نہ مال و زر کا لالچ تھا اور نہ ہی کسی رتبے و مرتبے کی خواہش تھی میں جب بھی احمد بشیر کو ملنے گیا اُن کے گھر میں زندگی کی رونق چہار سو محسوس کی احمد بشیر کی ساس اور ان کی بیگم گھر کے لان میں رکھے جھولے پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف ہوتیں نیلم احمد بشیر اسما عباس اور بشرٰی انصاری کے قہقوں کی کھنک پورے گھر میں سنائی دیتی کبھی کبھار پروین عاطف سے بھی وہیں ملاقات ہو جاتی۔
ایک بار میں نے احمد بشیر سے عالم بی بی(جن کا الکھ نگری میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہے) اور زریں پنا سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی عالم بی بی تو اس وقت تک شائد رزق خاک ہو چکی تھیں مگر محترمہ زریں سے بھی احمد بشیر نے ملاقات کروانے کی بجاۓ ٹال مٹول سے کام لیا زریں پنا نے احمد بشیر کی بنائی ہوئی فلم “نیلا پربت” میں کام کیا تھا اس فلم میں ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کا ایک دوگانا تو محمودہ احمد بشیر کے ساتھ بھی تھا احمد بشیر نے فلم سازی کی تربیت امریکہ سے حاصل کی تھی مگر “نیلا پربت” ہر لحاظ سے ایک ناکام فلم ثابت ہوئی جس کا احمد بشیر کو ملال بھی تھا اور مالی طور ہر بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
اس خط میں بشیر صاحب نے اپنے ہمعصروں قدرت اللٰہ شہاب،ممتاز مفتی،بانو آپا اور اشفاق احمد کے بارے بےلاگ راۓ کا اظہار کیا ہے میرے لیے مکتوب نگار سمیت تمام شخصیات قابل عزت ہیں ان میں سے اب کوئی بھی زندہ نہیں سوچا یہ خط جو میرے پاس امانت ہے شائد شخصیت پرستی کی ہماری اجتماعی سوچ کو بدلنے میں معاون ثابت ہو۔
احمد بشیر سے میرا تعارف ممتاز مفتی کی خود نوشت “علی پور کا ایلی”اور “الکھ نگری” کے توسط سے ہوا احمد بشیر قذافی اسٹیڈیم کے قریب ایک گھرمیں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتے تھے اپریل 1997 کی ایک روشن دوپہر کو جب احمد بشیر سے ملنے کے لۓ میں ان کی بیٹی کے گھر گیا تو تھوڑی ہی دیر بعد بشیر صاحب سفید کرُتے اور پاجامہ میں ملبوس قرینےسے سجے drawing room میں داخل ہوۓ جہاں میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا میں نے کھڑے ہو کر سلام کیا تو ڈانتے ہوۓ کہا دوستوں میں تکلف نہیں ہوتا احمد بشیر کی طرف سے اپنے ساتھ دوستی کا دعویٰ سن کر میں نے سیگرٹ سلگا لی بشیر صاحب نے بھی بیٹھتے ساتھ ہی سیگرٹ طلب کی مرتے دم تک ان کا یہ بے تکلفانہ انداز قائم رہا اس خط میں بھی اسی بات کی طرف انہوں نے اشارہ کرتے ہوۓ سیگرٹ ساتھ لانے کے لۓ لکھا تھا۔