کہاں گیا وہ قائداعظم والا پاکستان؟
جی ہاں 92 فیصد پاکستانی آج بھی اس حقیقی پاکستان کے منتظر ھیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جسے قائد ا عظم نے عملی جا مہ پہنایا۔ جغرافیائی طور پر پاکستان، دنیا کے نقشے پر 73 سال قبل نمودار ھو چکا ھے۔ 73 سال گزرنے کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ھو گیا ھے۔
قیام پاکستان سے قبل یہاں گورے انگریزوں کی حکومت تھی۔لیکن 1947 کے بعد جو پاکستان بنا اس پر اب آٹھ فیصد کالے انگریز قابض ہیں۔ 92 فیصد پاکستانی سمجھتے ھیں کہ 1947میں پاکستان نہیں بنا بلکہ گورے انگریزوں سے کالے انگریزوں کو اقتدار کی منتقلی ھوئ۔چند مخصوص خاندانوں نے 92 فیصد عوام کو یر غمال بنا رکھا ھے۔
قوم کو کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا گیا، کبھی اسلامی نظام کی بات کی گئی اور کبھی حقوق دلوانے کی یقین دہانیاں کروائی گئیں اور کبھی بوٹ آ گئے۔لیکن وقت نے ثابت کیا کہ سب کچھ فراڈ تھا اور ملک میں ھونے والا ہر الیکشن اسی فراڈ کا تسلسل ھوتا ھے۔
معصوم عوام ہر آنے والی حکومت کو مسیحا سمجھ بیٹھتی ھے لیکن ہر آنے والی حکومت الیکشن جیت کر عوام کو چونا لگانے کے مشن پر کاربند ھو جاتی ھے بس چونا لگانے کا طریقہ کار مختلف ھوتا ھے۔
عوام کو صاف پانی تک تو میسر نہیں۔عام آدمی تو دور کی بات ،کروڑوں روپۓ کے محلات میں رھنے والے ڈیفنس کے لوگ بھی پانی خریدنے پر مجبور ھیں۔ ھسپتال کی عمارات ھیں لیکن نہ دوائیں نہ عملہ ، اسکولوں کی بڑی تعداد صرف نقشوں میں۔ صفائ ستھرائ کا ناقص نظام، نہ ٹرانسپورٹ نہ سڑکیں، ہر جگہ کوڑے اور کچرے کے ڈھیر۔ کہیں بجلی نایاب تو کہیں گیس اور کہیں دونوں نا پید۔ اعلی تعلیم کے لیے بڑی مشکل سے داخلہ ملتا ھے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت ناممکن۔ بےروزگاری نے جرائم کی شرح میں خطر ناک حد تک اضافہ کر دیا ھے۔
دوسری طرف حکومت سندھ کے نزدیک ہر جگہ دودھ اور شھد کی نہریں بہہ رھی ھیں۔ سب کچھ اچھا ھے بلکہ بہت اچھا ھے اور یہاں کا مقابلہ آپ یورپ اور امریکہ سے کر لیجیے۔
ان سب باتوں کے باجود قوم کو امید ھے کہ تمام لٹیرے خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ھو ایک دن اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ انھیں کورونا یا اس سے بھی کوئی بڑی وباء ھلاک کر دے گی اور پھر وہ حقیقی پاکستان کو دیکھ سکیں گے۔