ADVERTISEMENT
شمیمہ کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ طعام خانے کی اوپر کی سیڑھی چڑھتے وقت اس نے جنگلے کو زور سے پکڑا۔ وہ جیسے ہوا میں چل رہی تھی۔ ہمت ایک عجیب شے ہے۔ زندگی کی رو میں بہہ جانا کتنا آسان ہے۔ لیکن لہروں کو چیر کر طوفان کا مقابلہ کرنا نہایت بہادری کا کام ہوتا ہے۔
’آصف کا ردِ عمل کیا ہوگا؟‘، ’کیا اس ملاقات کے بعد سب پہلے کی طرح ہو جائے گا؟‘، کیا اس کے بعد غلط فہمی دور ہوجائے گی؟‘ یہ تمام سوالات شمیمہ کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ شمیمہ نے آصف کو پیغام کے ذریعے کھانے کا آڈر لے کر طعام خانے کی چھت پر انتظار کرنے کو کہا تھا۔ آصف کس مزے سے رقیہ کا انتظار کر رہا ہوگا۔ اسے کیا پتہ کہ رقیہ کی جگہ شمیمہ اس سے ملنے آرہی ہے۔اوپر چڑھتے ہی آصف نظر آیا۔ وہ کونے والی میز پر بیٹھا تھا۔کھانے کا آرڈر اس کے سامنے طشتری پر رکھا ہوا تھا۔ آصف نے لمبی آستین والی بھوری قمیض پہنی تھی۔ اس کو دیکھ کر شمیمہ کے دل کی دھڑکن رک سی گئی۔ وہ سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے ساکت کھڑی رہ گئی۔ ہمیشہ کی طرح آصف وجیہہ لگ رہا تھا۔ یہ قمیض شمیمہ نے اسے پہنتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ رقیہ سے پہلی بار ملنے کے لئے آیا تھا۔ اس کا اشتیاق صاف ظاہر تھا۔ اس احساس نے شمیمہ کے دل میں غصّے کی ایک لہر دہرائی۔ شمیمہ اور آصف کو جدا ہوئے دو ہی ہفتے ہوئے تھے اور ان دو ہفتوں میں آصف نے رقیہ کو کتنی جلدی اپنی زندگی میں قبول کر دیا تھا۔ وہ رقیہ کی پسند ناپسند سے واقف تھا بالکل اسی طرح جیسے وہ شمیمہ کی پسند ناپسندسے پہلے واقف تھا۔مطلب یہ کہ شمیمہ کے لئے اس کے دل میں کوئی صداقت نہیں تھی۔شمیمہ نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ وہ مصمم ارادے سے آصف کی طرف آگے بڑھی۔آصف کے سامنے بیٹھ کر اس نے زور کی سانس لی۔شمیمہ کو ڈر تھا کہ آصف اس کو دیکھتے ہی بھاگ جائے گا اور وہ اس چور کو رنگے ہاتھوں نہیں پکڑ پائے گی۔لیکن آصف اس کے سامنے تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ طرف شمیمہ نے اپنے سامنے پیپسی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ آصف نے زور سے وہ پیپسی اس کے ہاتھ سے چھین لی۔”یہ تمہارے لئے نہیں ہے۔“ ”تو پھر کس کے لئے ہے؟رقیہ کے لئے؟“ آصف متحیر ہو گیا اور شمیمہ کو دیکھتا رہ گیا۔ ”رقیہ میری سہیلی ہے۔میں نے اس کو تمہاری بے وفائی کے بارے میں سب کچھ بتایا۔وہ میری مد د کے لئے راضی ہوگئی۔بلکہ یہ سب اسی کا منصوبہ ہے۔“ شمیمہ نے بتایا تو آصف سکتے میں آ گیا۔ پھر بول اٹھا: ”دھوکا تھا؟ فریب تھا؟“ ”ہاں دوہفتوں سے تم مجھ سے رقیہ کے مسینجر پر اور رقیہ کے نمبر پر ایس۔ایم۔ایس کے ذریعے بات کر رہے تھے۔“رقیہ نے آخرش راز فاش کیا۔ آصف نے فوراً اپنا فون نکالا اور رقیہ کا نمبر اور فیس بک بلاک کر دیااور بھیجے گئے پیغامات کو مٹانے لگا۔ شمیمہ کو یاد آیا کہ اسی طرح آصف نے اس کا بھی نمبر اور فیس بک بلاک کیا تھا۔لڑکیوں کو اپنے ذہن اور اپنی زندگی سے خارج کرنے کا یہ آصف کا طریقہ تھا۔ اس کڑوی یاد سے شمیمہ کے دل میں چبھن ہوئی۔ غصّے سے آصف کا چہرہ لال نظر آرہا تھا۔ اس نے پیپسی لی اوراسٹرا پر پوری طاقت لگا کر پیپسی چوسنے لگا۔ شمیمہ کو آصف کے جمے ہوئے مسوڑے نظر آئے۔ واقعی آصف کو بہت غصّہ آرہا تھا۔ شمیمہ تھوڑا سا سہم گئی لیکن اس نے اپنا خوف ظاہر ہونے نہیں دیا۔ آصف نے کھانے کے ڈبوں کو اپنے بستے میں رکھنا شروع کیا اور شمیمہ سے کہا۔ ”یہ تمہارا کھانا ہے۔ تم رکھ سکتی ہو۔“ ”شکریہ۔“ شمیمہ نے طنزاً جواب دیا۔آصف اٹھا اور کھانے کی خالی طشتری لے کرزینے کے پاس رکھے کورے دان کی طرف بڑھا۔ شمیمہ کو لگا کہ وہ واپس نہیں آئے گا۔ پھر اس نے غور کیا کہ آصف کا بستہ میز پر ہی ہے۔ شمیمہ اندر ہی اندر جانتی تھی کہ شاید یہ آصف اور اس کی آخری ملاقات ہوگی۔ پھر بھی احمق دل کے نہاں خانے میں یہ امید تھی کہ شاید اسے دیکھنے کے بعد آصف کا ارادہ بدل جائے گا۔ اس وقت آصف کی باتوں نے چابک کی طرح شمیمہ کی یادداشت کے پردوں پر دستک دی۔ ’میں لڑکا ہوں۔ ایک دو دن میں تمہیں بھول جاؤں گا۔ تم لڑکی ہو تمہیں زیادہ وقت لگے گا۔‘ شمیمہ کا پارہ ایک سو دس ڈگڑی چڑھ گیا۔ آصف واپس میز کی طرف آیا اور بیٹھ گیا۔ اس کے دل میں سوالات تھے جن کے جوابات وہ شمیمہ سے طلب کرنا چاہتا تھا۔ ”تم نے ایساکیوں کیا؟“ اس کا لہجہ جب آخر میں تیز ہو گیا تو شمیمہ نے اشارتاً آصف کو یاد دلایا کہ آس پاس لوگ بیٹھے ہیں۔ آصف نے آس پاس نظر دہرائی۔ سب اپنی گفتگو میں محو تھے۔آصف نے پھر دھیمے آواز میں کہا ”ہمارے بیچ سب ختم ہو چکا ہے۔“ ”تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہارے پاس واپس آنا چاہتی ہوں؟ تمہاری اطلاع کے لئے بتادوں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ میں سچائی جاننا چاہتی تھی اور سچائی یہ ہے کہ تم فریبی ہو، مکار ہو۔“ آصف کے گورے گالوں پر ذرا سرخی کے آثار نمایاں ہوئے۔ شمیمہ نے اپنا حملہ جاری رکھا۔ ”دو ہفتے تم میری زندگی میں آئے اور تم نے مجھ سے کیا کیا وعدے نہیں کئے! مجھ سے شادی کرو گے۔ ہمارے رہنے کے لئے گھر بناؤ گے۔میٹھی میٹھی باتوں سے مجھے پھنساتے رہے۔ دو ہفتوں کے بعد میں نے تمہارے والد سے ذکر کیا کہ ہم الگ گھر لے رہے ہیں تو انہوں نے مجھ پر بیٹے کو خاندان سے جدا کرنے کا الزام لگایا۔تم نے میری دفاع میں ایک لفظ تک نہیں کہا جبکہ الگ رہنے پر تم ازل سے بالکل راضی تھے۔ اس کے بعد ایک دو دن تک تم خوب روتے رہے تاکہ مجھے اس بات کا یقین دلاسکو کہ مجھ سے بچھڑ کر تمہاری زندگی تہس نہس ہو رہی ہے۔ اس کے بعد تم نے میرا نمبر بلاک کر دیا اور فیس بک بھی بلک کر دیا۔غرض کہ رابطے کا ہر ذریعہ منقطع کر دیا۔“ ”میں اپنی ماں سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں اس سے دور نہیں رہ سکتا۔ ان کو دو بار دل کا دوڑا پڑ چکا ہے۔“ آصف بول اٹھا۔ ”خدا تمہاری ماں کو لمبی عمر دے۔ ان کی بیماری کو دور کرے۔“ شمیمہ نے رحم دلی سے کہا۔ اس پر آصف مسکرا اٹھا۔ ”لیکن تمہیں کوئی حق نہیں کہ اپنے والدین کی خوشی کے لئے میرے جذبات کے ساتھ کھلوار کرو۔ اگر میں نے رقیہ کی آڑ میں تم سے فیس بک پر چیٹنگ نہیں کی ہوتی تو مجھے کیسے معلوم ہوتا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ جو حقیقت تم نے مجھے بتائی تھی تم نے رقیہ کو کچھ اور ہی پہلو بتایا۔“ شمیمہ نے غور کیا کہ آصف پانی پانی ہو گیا، جیسے ایک چور کو پکڑا جاتا ہے بالکل ویسے۔ ”آج میں تمہاری سچائی بن کر تمہارے سامنے رونما ہوئی ہوں۔ مجھے لگا تھا تمہارے والد ہماری محبت کے دشمن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ ہم الگ گھر لینے والے ہیں۔ تم نے تو اپنے والد کو بتایا ہی نہیں ہوگا کہ ہم الگ رہیں گے۔ یا پھر تمہارا الگ رہنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ جھوٹ سے تم مجھے اپنی جال میں پھنسانا چاہتے تھے۔“ ”میں تم سے پیار کرتا تھا شمیمہ۔“ ”جھوٹ! اگر تمہارے پیار میں صداقت تھی تو مجھ سے بچھڑنے کے ایک ہفتے بعد ہی دوسری لڑ کی سے دو دن کی جان پہچان میں اظہارِ محبت نہیں کرتے۔ تم جھوٹے ہو۔ تم نے رقیہ کو پیغام میں لکھا کہ میں تم کو تمہارے والدین سے الگ کرنا چاہتی تھی۔اس وقت میرے جی میں آیا کہ اپنے ناخنوں سے تمہارے گال لال کر دوں! تم نے اس وقت پیغام رقیہ کو نہیں بلکہ مجھے بھیجا تھا۔“ آصف کمزوری محسوس کرنے لگا۔ ہار کی کمزوری۔ کتنے ارمانوں سے آج وہ رقیہ سے ملنے کے لئے آیا تھا۔ لیکن یہ سب تو شمیمہ کا بچھایا ہوا جال تھا۔’یہ شمینہ تو ہے ہی تیز ہری مرچ!‘ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ وہ تو بس شادی کرنے کا متمنی تھا۔ وہ ازدواجی زندگی کا سکوں چاہتا تھا۔ لیکن جو بھی لڑکیاں اسے شمیمہ سے پہلے ملی تھیں ان سب نے اس میں نقس نکالے تھے۔ کسی کو اس کا کام پسند نہیں تھا، کسی کو اس کے سجنے سنورنے کا انداز نہیں بھاتا تھا، کسی لڑکی کو اس کی لمبائی سے تکلیف تھی تو کوئی اورزیادہ پیسے والے سے شادی کرنا چاہتی تھی یا پھر شمیمہ جیسی جس کو الگ گھر چاہئے تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ ایک بار شمیمہ اس کی اچھائی کو پہچان لے گی تو وہ اس کے والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنا منظور کرے گی۔ لیکن شمیمہ تو تیکھی مرچ کی طرح نکلی۔ اس نے سیدھے جا کر گھر کے بارے میں والد صاحب کے سامنے ساری باتیں کہہ ڈالیں۔اس وقت تک تو وہ معاملے کو سنبھالے ہوئے تھا۔ تبھی شمیمہ نے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ آصف نے ہاتھوں سے ٹیک لگاتے ہوئے سر نیچے جھکا دیا۔شمیمہ نے اس کو سسکیاں لیتے ہوئے سنا۔ اس کے دل میں کسک سی پیدا ہوئی۔ یکایک وہ بول اٹھی: ”جب ایک بچے کو سزا ملتی ہے تو وہ روتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہے بلکہ اس لئے کہ اس کی غلطی پکڑی گئی۔ تمہارا افسوس جھوٹا ہے۔“ آصف نے سر اٹھایا اور شمیمہ نے اس کے رخ پر آنسو کی ایک بوندکو گالوں پر گرتے ہوئے دیکھا۔ لیکن اس بار اس نے خود کو آصف کے فریب کی یاد دلائی۔ ”تم جھوٹے ہو۔ تمہارے آنسو بھی جھوٹے ہیں۔ تم نے اپنے گھر پر بتایا ہوگا کہ آج رقیہ سے ملنے آئے ہو۔تمہارے والدین کتنے خوش ہونگے کہ آخرکار ان کو ایک ایسی بہو ملنے والی ہے جو ان کے ساتھ رہنے کے لئے تیار ہے۔ اب جب تم ان کو بتاؤ گے کہ تم رقیہ سے نہیں بلکہ شمیمہ سے مل کر آرہے ہو تو ان کا چہرہ دیکھنے لائق ہوگا۔ تمہارے ابو نے مجھے کیا کیا نہیں سنایا۔ مجھ پر خاندان کو توڑنے کا الزام لگایا گیا۔ مجھے بدچلن کہہ کر رسوا کرنا چاہا۔ یہ ان کے طمانچہ کا جواب ہے۔“ آصف نے آنسو پونچھے۔ پھر کہا:”میں گھر جا رہا ہوں۔ رات بھر سوؤں گا پھر کل کام پر جاؤں گا۔“ آصف نے دوستی کا ہاتھ پڑھایا لیکن شمیمہ نے وہ ہاتھ لیا نہیں۔ ”ہم دوست نہیں ہیں۔“ آصف سیڑھیاں اتر کر چلا گیا۔ شمیمہ کچھ دیر تک ساکت اس طعام خانے میں بیٹھی رہی۔ آس پاس کی اننابی میزیں اور کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ بائیں طرف کی میز پر ایک طشتری میں بچا کچا کھانا تھا جسے کھانے والے نے کورے دان میں ڈالنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس نے مڑ کر آصف کو نہیں دیکھا۔ کچھ دیر بعد وہ بھی میز سے اٹھی اور سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ تلی ہوئی مرغی کو خوشبو ہوا میں پھیل رہی تھی۔ نوجوان جوڑے ایک دوسرے کو کھلانے میں اور اپنی باتوں میں اس طرح الجھے ہوئے تھے کہ انہوں نے شمیمہ کا جھکا ہوا سر نہیں دیکھا۔ زینہ اترتے ہوئے نوجوان جوڑوں کے قہقہے سن کرشمیمہ نے تیزی سے پارکنگ کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔ جاپانی گاڑیوں میں اس نے آصف کی گاڑی کو تلاش کیا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری و ساری تھے۔ بہادری کے لئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان اپنی اپنی جنگیں لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے لیکن زندگی اس کو جنگوں پر فتح پانے کے لئے اکساتی رہتی ہے۔