کوروناکے وار جاری ہیں اور ساتھ ہی بہت کچھ نیاسامنے آرہاہے ۔ ایک طرف نظام ِ صحت پر سوال اٹھ رہے ہیں تودوسری طرف بڑی بڑی عالمی طاقتوں کو اس حقیقت کاادراک ہورہاہے کہ ملکی اور قومی وسائل کااستعمال درست سمت میں نہیں ہوسکا۔ زمین نام کا یہ سیارہ جس کواشرف الخلوقات کا مسکن بننے کا شرف حاصل ہوا تھا، اسی اشرف المخلوقات کے ہاتھوں ہی تباہی کی دہلیز پر پہنچ رہاہے ۔ آج کاانسان اس سیارے کی زندگی سے مایوس ہوچکاہے ۔ اس کی بڑی وجہ ترجیحات اورمنصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔ عام انسان سے لے کر عالمی طاقتوں تک کی ترجیحات کاجائزہ لیا جائے تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ترجیحات ہی منصوبہ بندی کے لیے بنیادی کردار اداکرتی ہیں۔جب ترجیحات کاتعین درست نہ ہوپائے تو منصوبہ بندی میں نقائص لازمی پیداہوجاتے ہیں۔یہ نقائص آگے چل کر پورے سسٹم کوتباہ کرنے کاسبب بنتے ہیں ۔
کورونا کی وجہ سے پیداہونے والی صورت حال کا ہم ملکی تناظر میں جائزہ لیں توبہت سے مسائل ترجیحات کے درست تعین نہ ہونے او رمنصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے پیداہورہے ہیں۔ جہاں تک حکومت اور اپوزیشن کاتعلق ہے میں پہلے بھی ایک کالم میں عرض کرچکاہوں کہ کہیں بھی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نظر نہیں آ رہی۔ اس پر تفصیلی بات اگلے کالم میں ہوگی۔ یہاںہم حکومتی ترجیحات اورمنصوبہ بندی کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کورونا کے وارد ہوتے ہی جب سندھ کی طرف سے لاک ڈاﺅن کانعرہ مستانہ بلند ہوا تو اس وقت وفاق اور باقی صوبوں نے اس کومستحسن نہ گردانااور چند دن بعد ہی سب نے وہی نعرہ بلند کردیاکہ ماسوائے چند اشیائے ضروریہ کے سب کچھ بند۔ اوراب جب لاک ڈاﺅ ن کھولنے کی بات آئی تو یہ بھی کھول دو ، وہ بھی کھول دو۔ اس کوبند کردو ، اس کوسیل کردو۔یہ ایس او پی ہیں ۔ ان کی پابندی کرو۔اس دوران میں یہ بھی کہاجاتارہاکہ ہماری پہلی ترجیح غریب او رروز کمانے والوں کاچولھاجلتے رکھناہے ۔لوگ کورونا سے کم او ربھوک سے زیادہ مریں گے ۔ترجیح کودیکھاجائے تو سلیوٹ کرنے کوجی کرتاہے ۔لیکن یہاںہمیں یہ دیکھناہے کہ کیاواقعی یہ ہماری ترجیح ہے ؟
دیہاڑی داروں میں صرف مزدورہی شامل نہیں ہیں کہ ہم تعمیراتی انڈسٹری کھول دیں اورمطمئن ہوجائیں کہ روز کمانے والوں کاروزگار چل پڑا ہے ۔کیاہم نے اس درزی کے بارے میں سوچا جو روز کے ایک دوسوٹ سلائی کرتاہے ۔ ان کی اجرت میں سے اس نے دوکان کاکرایہ بھی دیناہے ۔ اس نے بجلی کابل بھی دیناہے ۔اس نے دوکان کے اخراجات بھی پورے کرنے ہیں اور پھر اسی اجرت میں سے اس نے گھر کی دال روٹی کاانتظام بھی کرناہے ۔ ہم نے اسے اس کے اس سیزن میں جس کی امید پراس نے سال گزارا ہوتاہے ، اس نے بیٹی کی شادی تک اس سیزن کے لیے روک رکھی ہوتی ہے ،ہم نے اسے اس سیزن میں مجبور کردیاکہ گھر بیٹھ جائے ۔ہم نے اسے روز کمانے والوںمیں سے نکال دیا۔ اب جب سب کچھ کھولنے کی بات کی تواسے بھی پابند کردیاکہ بھائی تم پانچ بجے کے بعد کام نہیں کرسکتے ، تم ہفتے میں صرف چار دن کام کروتین دن گھر بیٹھو۔ دیکھاجائے تو درزی کی دوکان پہ سب سے زیادہ ایس اوپی کی پابندی ہوسکتی ہے ۔ اس کے پاس کسی نے آنا ہے تو ناپ دے کرفارغ۔ پھر بھری دوکان میں وہ خود ہوگا یا ایک دو شاگرد۔ سماجی فاصلے (حالآنکہ اسے طبعی فاصلہ کہناچاہیے) کی پابندی وہاں آسانی سے ہوسکتی ہے ۔اورویسے بھی سیزن کے دنوںمیں درزی کسی کودوکان پہ محفل بھی نہیں جمانے دیتے ۔ کیا ہم اس شعبے کے لیے الگ ایس اوپی نہیں بناسکتے تھے کہ اس غریب کوبھی بڑے سرمایہ داروں میں شمار کرتے ہوئے اسے بھی پانچ بجے تک کا اورچار دن کا پابندکردیاگیا۔کیاہم اس کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ چوبیس گھنٹے اپنی دوکان پہ کام کرسکتاہے لیکن ناپ لینے اور آﺅٹ ڈور سرگرمی کے لیے صرف پانچ بجے تک کا وقت ہے ۔ اگر پانچ بجے کے بعد وہ دوکان کے اندر بیٹھ کر کپڑوں کی سلائی کرتا رہتاہے تواس میں کیاحرج ہے ؟ہم نے ترجیحات میں اسے روز کمانے والوںمیں سے نکال کر سرمایہ دار میں شامل کردیا۔اس غریب کا بھٹا بیٹھ گیا۔
روز کمانے والوںمیں وہ بھی شامل ہیں جو صبح کسی دوکان کے کارنر میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ وہاں ان کی کل متاع رنگ کے چند ڈبے او رسامنے ایک چولھا او رگرم پانی کابرتن ہوتاہے ۔وہ دن بھر دوپٹے رنگتے ہیں اوراسی میں سے روزی روٹی نکالتے ہیں۔ان کابھی یہی سیزن تھا جس میں انھوں نے اپنے رکے ہوئے اخراجات پورے کرنے تھے ہم نے انھیں بھی اس سرمایہ دار اور کاروباری شخصیت کے برابر کردیا جس کی دوکان میں کروڑوں کامال او رروزانہ لاکھوں کی سیل ہوتی ہے ۔اگر وہ غریب رنگ ساز پانچ بجے کے بعد اکیلا دوپٹے رنگ کرتارہے توکون سی قیامت آجانی تھی ۔ لیکن ہم نے اسے بھی دوسروں کے ساتھ ہی شٹر ڈاﺅن کرنے پر مجبور کردیا۔وہ بھی روزکمانے والوں میں سے نکل گیا۔یہی صورت حال کاج بنانے والوں اورکڑاھی کرنے والوں کودرپیش ہے ۔ انھیں بھی روزکمانے والوں سے نکال دیاگیا۔
اس طرح ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو دیہاڑی دار تونہیں لیکن ان کی حالت روزکمانے والوں سے الگ نہیں ۔حکومتی سطح پر پالیسی بناتے وقت اس بات کو سامنے رکھنا ضروری تھا کہ سماج کے کون کون سے طبقے ایسے ہیں جو روزکمانے والوںمیں شما رہوتے ہیں۔ان میںسے کسی ایک کو بھی نظر انداز کردینے سے سماجی نظام متاثر ہوگا۔ پالیسی میکرز کو اس بات کاخیال رکھناچاہیے تھا کہ ہمارے سماج کانچلاہنر مند طبقہ بھی روزکمانے والا ہے ۔ہم یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ یہ اپنا کام کرتے ہیں اور سارا سال کرتے ہی رہتے ہیں۔نہیں سارا سال بھی یہ ہینڈ ٹو ماﺅتھ ہی گزارتے ہیں ۔ان پر قرض بھی ہوتے ہیں جو انہی دنوں میں انھوں نے ادا کرنے ہوتے ہیں۔یہ اپنی محنت اورہنر سے اس قوم کی خدمت کرتے ہیں ، ہمیں ان کے لیے الگ پالیسی بناناہوگی ۔ کچھ دن پہلے میں ایک درزی کے پاس گیااور اسے دوسوٹ سلائی کرنے کو دیے تو اس کی آنکھوںمیں موتی جھلملاتے صاف نظر آرہے تھے ۔ کہنے لگا سر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک عید پہ او رایک عید کے بعد لے جائیے گا ۔ میں تو عید ایک سوٹ سے بھی گزار لوںگا لیکن اس غریب کا کیابنے گا جسے ہم نے چاردن کمائی کے لیے او رسات دن خرچ کے لیے دیے ہیں۔ وہ عید پربھی عید کے بعد کی بھی بکنگ کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کایہ سیزن ہے اسے کام کرنے دیں۔اس کاتوکام بھی ایسا ہے کہ سماجی فاصلے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ پھر ہم کیوں اس کے ارمانوں پہ پانی پھیر رہے ہیں۔ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ خدارا ان غریبوں کے حال پہ رحم کھائیے ۔ ان کو چوبیس گھنٹے کام کی آزاد ی دیں۔ ان کے لیے الگ پالیسی بنائیے ۔ ان کے لیے الگ ایس او پی بنائیے۔ ہمارے پالیسی میکرز کو اس بحران میں فعال کردار ادار کرنا چاہیے ۔ انھیں سماج کی گہرائی میں اتر کرمشاہدہ کرناچاہیے کہ کس طبقے کی سماجی حیثیت کیا ہے ،موجودہ بحران سے وہ کس حد تک متاثر ہے ۔ اس کے کام کرنے سے سماج میں اس وبا کے پھیلنے کے کتنے خدشات ہیں۔ اس کوکس طرح ریلیف دیا جاسکتاہے ۔ ان سب باتوں کوایک ایک طبقے کو سامنے رکھتے ہوئے سوچیے ۔ ان نچلے طبقات کے کام کی نوعیت کو سمجھیے ۔ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکے جانا مناسب نہیں۔ ترجیحات کوبدلیے ۔ ان نچلےطبقے والوں کو ترجیحات میں اوپر لائیے پھر ہی مناسب منصوبہ بندی کی جاسکے گی۔ آفتیں، بحران ، وبائیں یہ سب آتی رہتی ہیں ۔ان کے ساتھ ہی جینا پڑتاہے ۔ترجیحات کا درست تعین او رپھر ان ترجیحات کے مطابق منصوبہ بندی سے ہی ان بحرانوں سے سرخ رو ہوا جاسکتاہے ۔