گزشتہ کئی سال سے پاکستانی قوم رمضان کا استقبال نئے اور بڑے منفرد قسم کے مباحث کے ساتھ کرتی چلی آ رہی ہے۔ بحث کی خاطر نامعلوم محققین چن چن کر ایسے موضوعات نکال لاتے ہیں جن میں قوم کو تقسیم کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہو اور تمام گروہ ایک دوسرے کی بھد اڑانے کا حق ادا کر سکیں۔ امسال قرعہ ابن قاسم و راجہ داہر کے نام نکلا۔ مبینہ محققین نے ضروری سمجھا کہ دنیا جہان کے مسائل پر عرق ریزی کے بعد 1308 برس سےحل طلب اس قضیے کو دیکھ کر لگے ہاتھوں فریقین کی جنت جہنم کا فیصلہ بھی کرلیا جائے تا آنکہ حق بحقدار رسید۔
المیہ مگر یہ ہوا کہ یہ بحث زیادہ دیر چل نہ پائی اور دونوں کیمپوں نے جلد خاموشی اختیار کرلی۔ اب کیا کیا جائے، یوں ہنسی خوشی گزر گیا تو کاہے کا رمضان۔ چنانچہ اب کی بار نظر انتخاب ترک ڈرامے ارطغرل پر پڑی ہے۔ پی ٹی وی کے یوٹیوب چینل کو کروڑوں صارفین دینے والا یہ ڈرامہ اب تک بڑی کامیابی سے فیس بکی دانشوروں کا دال دلیہ چلائے ہوئے ہے۔ ہم کہ خود کو 21ویں گریڈ کا فیس بکی دانشگرد گردانتے ہیں، بھلا کیسے اس بحث میں حصہ لینے سے چوکتے۔ چنانچہ صبح شام ارطغرل کے مختلف پہلووں پر بات کرکے روزوں کی قبولیت کا سامان کر رہے ہیں۔
یہاں ہمیں اس امر کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ فلم ڈرامے کا باریک فنی تجزیہ ہمارا میدان نہیں۔ ٹیلی ویژن آج تک گھر کی دہلیز سے اندر قدم نہیں رکھ پایا۔ ڈرامہ دیکھنا ہم نے گھریلو خواتین ہی کی جملہ ذمہ داریوں کا حصہ سمجھ رکھا ہے۔ یونیورسٹی میں جانے کے بعد فلموں کی جانب کچھ نہ کچھ رغبت ہوئی، ہندی، انگریزی، ایرانی اور چند ایک پاکستانی فلمیں بھی دیکھ ڈالیں۔ تاہم مطمح نظر صرف حظ کشید کرنا تھا، چنانچہ فلم کے تجزیے میں ہمیں خاص مہارت نہیں۔ اس کے باوجود یار دوستوں نے جب ارطغرل کی پاکستان میں نمائش سے جڑے معاملات پر سوال اٹھانا شروع کیے تو جانے انجانے میں ہم بھی شعور کے در ذرا زیادہ وا کرکے ڈرامہ دیکھنے لگ گئے کہ دیکھیے تو سہی، ایسا کیا ہے اس ڈرامے میں جس نے ہمارے لبرل دوستوں کو اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی پہچان کا علم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
گئے روز ہمارے ایک مہربان دوست، کہ جن کے ساتھ اختلاف رائے پہ ہمارا کامل اتفاق ہے، یہ کہتے پائے گئے کہ ارطغرل کی مخالفت اس کے اسلامی پہلو کی بنا پر نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ یہ ایک بیرونی ثقافت کی اجارہ داری کا مسئلہ ہے جسے سند قبولیت بخشنا اپنی شناخت پر تیشہ چلانے کے مترادف ہے۔ ہم نے سنا، ہم ہنس دیئے، پر ہم چپ نہ رہ سکے۔
عرض کیا، حضور، ثقافتی اجارہ داری کی آپ نے خوب کہی۔ دس سال ہونے کو ہیں، کارپوریٹ میڈیا کی مہربانی سے پاکستان میں ویلنٹائنز ڈے کی بازگشت ملک کے ہر کونے کھدرے میں پہنچ چکی ہے۔ فروری کا مہینا شروع ہوتے ہی میڈیا پر، مارکیٹوں میں، سڑکوں پر اور تعلیمی اداروں کے اندر باہر ایک ہیجان برپا ہوتا ہے۔ چودہ فروری کو یہ دن یوں منایا جاتا ہے جیسے نعوذباللہ تیسرا تہوار ہمارے حصے میں یہی آیا ہو۔ حریت فکر و عمل کی علم بردار ویب سائٹیں سینٹ ویلنٹائن کی روح کے ایصال ثواب کے لیے فنا فی المرشد ہوجاتی ہیں۔ ہم جیسے روایتی لوگ تب دہائی دیتے ہیں کہ صاحب خبر لیجے چلن بگڑا، منچلوں کے ہلے گلے کی آڑ میں بہت کچھ ہمارا داو پہ لگ رہا ہے۔
تب تو آپ صاحبان ہی ہمیں حوصلہ دیتے ہیں کہ میاں جانے دو، آزادی فکر کا معاملہ ہے، ویلنٹائنز ڈے ہمارے لڑکے بالوں کا اپنا تہوار ہے۔ ہم پوچھ پوچھ تھک جاتے ہیں کہ پیرومرشد یہ ویلنٹائن صاحب لال کڑتی کی کون سی کٹیا میں رہتے تھے کہ ان سے منسوب تہوار جس کا ہماری ثقافتی روایات سے کچھ لینا دینا نہیں، ہمارا اپنا ہوگیا۔ جواب ملتا ہے تو بس ایک کہ تنگ نظری چھوڑو، اعلی ثقافتی اقدار جہاں سے ملیں اچک لو۔
ویلنٹائنز ڈے کی تھکن اترتے ہی عورت مارچ کا نقارہ بج اٹھتا ہے۔ ہم سے جاہل باردگر عرض کرتے ہیں کہ مائی باپ حقوق مانگیے، ہم آپ کے ہم آواز ہیں، پر حقوق کی آڑ میں ایک مخصوص بیرونی تہذیب کے بھونپو نہ بنیے، اپنی روایات، اپنی ثقافت، اپنی اقدار پر تیشہ نہ چلائیے۔ آپ کا قلم ایک بار پھر ہماری جہالت پہ مہر تصدیق ثبت کرتا ہوا اس بیرونی تہذیب ہی کے اصل تہذیب ہونے اور اس کے پیرووں ہی کے مہذب اور قابل احترام ہونے کا فیصلہ رقم کرتا ہے۔ نجانے تب چیچوں کی ملیاں، ٹھٹھہ اور صوابی کی ثقافت کہاں غائب ہو جاتی ہے۔
اب جس ثقافتی اجارہ داری کے خوف سے چہروں پہ ہوائیاں اڑ رہی ہیں، اس کا موازنہ اپنی علاقائی روایات سے کرکے دیکھیے۔ ارطغرل کی ثقافت اگر یہ سکھاتی ہے کہ نبیؐ پاک کا نام آتے ہی سر احترام سے جھک جائیں، ہاتھ سینے پہ بندھے ہوں تو اس ثقافت میں کاہے کی اجنبیت؟ قائی قبیلے کے خیمے سے اگر یہ سبق پھیل رہا ہو کہ دن بھر کی مشقت کے بعد سارا خاندان ایک جگہ اکٹھے بیٹھے، رات کا کھانا کھائے اور باہم تبادلہ خیال کرے تو اس سے ہند کی کس روایت کو ٹھیس پہنچتی ہے؟ کیا ہم اپنے بڑوں سے یہی روایات اپنی ثقافت کے باب میں نہیں سنتے آئے؟ کیا ہماری ثقافت یہی نہیں سکھاتی کہ بچوں کی شادی بیاہ کے فیصلے خاندان کے بڑے کریں اور بچے سرتسلیم خم کر دیں؟ اگر یہی سبق ترک ثقافت بھی دے رہی ہے تو صفحے کے صفحے کاہے کو سیاہ کیے جا رہے ہیں؟
مسئلہ بیرونی ثقافت کی اجارہ داری نہیں، نہ ہی ہمارے کرم فرماوں کو ارطغرل کی شوٹنگ میں سرزد ہوئی فنی خرابیوں سے چڑ ہے۔ مسئلہ ہے تو بس یہ کہ ڈرامے نے ایک خاص طبقے کی دکان داری پر چوٹ کی ہے۔ اس طبقے نے اپنے تئیں لا شرقیہ لا غربیہ؛ اسلامیہ اسلامیہ کے نعرے کو بھی نسیم حجازی کے ساتھ دفن کر ڈالا تھا۔ اب کہ ترک وہی بھولا سبق ہندی مسلمانوں کو پڑھانے آئے ہیں تو خوف پیدا ہوگیا ہے، اپنی دکان بند ہوجانے کا خوف، اپنا لچرپن نہ بک پانے کا خوف، مسلمانوں کے اپنی تاریخ جان جانے کا خوف۔
پر تسلی رکھیے، ارطغرل ایسا کچھ نہیں کرنے والا۔ آخر ایک ڈرامہ ہی تو ہے۔