آج کل وطن عزیز میں تاریخ کے حوالے سے بہت سے مغالطے جنم لے رہے ہیں ۔تاریخ حقائق کی جانچ اور پرکھ کا نام ہے۔کسی خاص وقت میں وقوع پذیر واقعہ تاریخ کہلاتا ہے اور اسی بنیاد پہ اس کے سچا ہونے کی دلیل سامنے آتی ہے۔محمد بن قاسم 712 عیسوی میں بنو امیہ کی بادشاہت کے زمانے میں سندھ میں وارد ہوتا ہے۔اس کے ورود کے بارے میں تاریخی طور پر دو باتیں سامنے آتی ہیں پہلی یہ کہ راجہ آف الور راجہ داہر کا سراندیپ کے تاجروں کو اغوا کرنے والوں کو پناہ دینااور ان کی خواتین کو قید کرناہے ۔دوسرا یہ کہ عرب تاجروں کو دیبل کی راہداری سے روکنا شامل تھا۔ہر دو صورتوں میں راجہ داہر کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں کا علاج کرنے کے لئے اموی گورنر حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔یہ حقیقت ہے کہ قیدی خاتون کا خط عرب تاجروں ہی کے کسی فرد کے ہاتھ حجاج تک پہنچا تھا جو کہ اس زمانے میں ترسیل ذرائع کا ایک طریقہ تھا۔
راجہ داہر اپنی سلطنت میں ایک غاصب اور غیر مقبول حکمران کے طور پر مشہور تھا۔ہندو جوتشیوں کے زیر اثر اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر اس نے اپنی سگی بہن سے شادی بھی رچا رکھی تھی۔ محمد بن قاسم آٹھ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ جن میں چار ہزار شامی اور چار ہزار عراقی شامل تھے،دیبل پہنچا۔ گفت و شنید کی ناکامی کے بعد جنگ ہوئی اور عربوں کو اپنی جنگی حکمت عملی کی بدولت فتح حاصل ہوئی۔اس جنگ میں محمد بن قاسم ہیرو بن کر ابھرا۔راجہ داہر نے میدان میں لڑنے کی بجائے قلعہ میں محصور ہو کر جنگ لڑی اور بالآخر مارا گیا۔
محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور انتظام و انصرام مقامی ہندوؤں کے تعاون سے احسن انداز میں سرانجام دیا۔ محکمہ مال کے سارے معاملات انہی ہندوؤں کے سپرد رہے جو راجہ داہر کے دربار سے وابستہ رہے۔وہ لگان کے ماہر تھے اور محمد بن قاسم نے ان کے اس فن سے استفادہ کیا۔ مقامی آبادی راجہ داہر کے ظالمانہ اقدامات سے تنگ تھی اور محمد بن قاسم کے حسن سلوک سے متاثر ہو کرانھوں نے محمد بن قاسم کو دیوتا کا درجہ دے دیا۔اب اس واقعے کی تاریخی حیثیت کے مندرجات پہ آتے ہیں۔
بلاذری نے فتوح البلدان میں اسے تاریخی ذرائع کے ساتھ تحریر کیا ہے جو ایک حقیقت ہے اس کے علاوہ تاریخ طبری میں بھی کچھ حقائق ہیں جبکہ چچ نامہ کے مصنف علی کوفی نے آٹھویں صدی کے اس واقعہ کو تیرھویں صدی میں ناصر الدین قباچہ کے دربار میں قربت کی خاطر افسانوی انداز میں پہلے سے موجود عربی دستاویزات کوعربوں کے خلاف فارسی زبان میں ترجمہ کیا جس کے مستند تاریخی ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی کتاب میں راجہ داہر کی بیٹیوں کا تذکرہ ہے جنھیں ولید بن عبدالملک کے سامنے لایا گیا اور اس پاداش میں محمد بن قاسم کو قید کر دیا گیا۔جس کی بنیاد پر آج راجہ داہر کو ہیرو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جبکہ تاریخی حقائق اس سے مختلف ہیں۔معروف تاریخ دان منان احمد آصف کے مطابق نوآبادیاتی دور میں تاریخی مقامی رنگ دینے کے لئے مرزا قلیچ بیگ نے چچ نامہ کوانگریزی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے خوب افسانوی رنگ دیاجو بعدازاں سندھی رومانوی انداز اختیار کیا گیا۔یاد رہے کہ مرزا قلیچ بیگ ایک تاریخ داں نہیں بلکہ ایک ناول نگار ہیں۔اس کی ایک اور مثال جیمز مل کی کتاب”ہسٹری آف انڈیا” ہے جس میں اس نے محمد بن قاسم کو غاصب لٹیرا لکھا ہے حیران کن امر یہ ہے کہ انگریز خود جس روپ میں ہندوستان وارد ہوئے اس طرز پہ تاریخ کو بھی لکھنا چاہ رہے تھے۔ برطانوی نوآبادیاتی تاریخ نگاری کے دوران مسلم تاریخ نویسی کو مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جو کہ آج تاریخ نویسی کے نئے دور میں مستند ذرائع کی بنیاد پر حقیقت کی طرف اپنا سفر جاری کئے ہوئے ہے۔اور مؤرخین حقائق کو تاریخی مواد کے زیر اثر سامنے لا رہے ہیں۔