Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
تھکا ہارا ٹوپی بیچنے والا ناکام اور نامراد نگر نگرگھوم کر گھنے جنگل میں ایک درخت کے سائے تلے ایسا بیٹھا کہ چند لمحوں میں نیند کی وادی میں کھو گیا۔ شو ر سے آنکھ کھلی تو دیکھا بندروں کا ایک ٹولہ اس کی گٹھری سے ساری ٹوپیاں لے کر درخت پر چڑھا ہوا ہے۔ دل میں سوچا کہ لو بتاؤ بکا وکا کچھ بھی نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے۔ کسی سیانے کی بات ذہن میں آئی کہ بندر وہی کرتے ہیں جو انسان کریں۔ اسی لیے درخت پر بندروں کی طرح چڑھا اور سر پر بچی ہوئی ٹوپی اتار کر نیچے پھینکی۔ مجال ہے جو کسی نے ایک نے اس کی یہ نقل کی ہو۔ غصے میں لال ہو کر اترا تو ایک چھوٹے سے بندر نے ٹوپی تو نہیں پھینکی‘ ہاں اُسی کی طرح درخت سے اترا جسے اِس شخص نے دبوچا، گٹھری کی رسی سے باندھا اور چل پڑا۔ماشااللہ اب وہ بندر کاتماشادکھا کر اتنا کمالیتاہے جتنا ٹوپیاں فروخت کرکے نہیں کماتا۔
٭
گاؤں والے اُس سے بہت پریشان تھے۔ کام کاج میں مگن ہوتے اور پھر وہ ٹیلے پر چڑھ کر شور مچاتا کہ شیر آیا شیر آیا۔ بے چارے خوف کے مارے یا تو گھروں میں دبک جاتے اور کچھ جو‘ نڈر اور بہادر ہوتے وہ ڈنڈے، بھالے اور کلہاڑیاں لے کر اُس کے پاس پہنچ جاتے۔جہاں ان کی یہ تیاریاں دیکھ کر وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے کہتا میں تو مذاق کررہا تھا وہ دیکھو کیمرا۔۔لڑکے کی ان حرکتوں سے سبھی تنگ آچکے تھے۔سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ چندا جمع کرکے، گاؤں کے اطراف اور اونچے مقام پر لڑکے پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ کیمرے لگادئے گئے۔ اب لڑکا بے چارہ ہر وقت شیر آیا شیر آیا کی صدائیں لگانے کے بجائے یہی کہتا ہے ’وہ دیکھو ‘ وہ رہا کیمرا۔۔‘
٭
غریب کسان نے مرغی کے ڈربے میں جھانکا تو وہاں چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔ پہلے سوچا ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ لیکن جب اس چیز کو باہر نکالاتو واقعی سونا ہی نکلی۔خوشی سے جھوم اٹھا کہ اس کی مرغی سونے کا انڈا دینے لگی ہے۔ اب روز اسے مرغی کے دیے ہوئے انڈوں میں سے ایک سونے کا انڈا ضرور ملتا۔ دل میں خیال تو یہ بھی آیا کہ ذبح کرکے ایک ہی دفعہ سارے سونے کے انڈے نکال لو لیکن دماغ نے کہا نہیں لالچ بری بلا ہے، باقی انڈوں سے بچے نکلواتا ہوں۔ کچھ ایسا ہی کیا۔ جبھی ایک مرغی کی جگہ آج اس کے پاس آدھا درجن مرغیاں ہیں جو باقاعدگی سے سونے کا انڈا، اماں جان کو دیکھ کر دیتی ہیں۔ اور غریب کسان یہ سونا،ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کبھی پانچ گرام تو کبھی دس تولہ تول کر فراہم کرتا ہے۔
٭
شکاری نے شیر کو جال میں پھانس لیا تھا۔ اُسے وہیں چھوڑ کر وہ سوزوکی لینے گیا۔ شیر نے بہت زور لگایا۔ لیکن گھنٹوں کی محنت کے بعد کچھ ہاتھ نہ آیا۔ بھوک سے براحال ہوگیا تھا۔ بے چارہ شکار کے لیے نکلا تھا اور خود شکار ہوگیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے ایک چوہا اُس کی جانب بڑھا۔ جس نے بتایا کہ وہ وہی ہے جس کو چند روز پہلے کھاتے کھاتے اس لیے چھوڑدیا تھا کہ اُس نے التجا کی تھی کہ اسے نوالہ بنانے سے اس کا تو دانت بھی گیلا نہیں ہوگا۔ چوہے نے شیر کو مصیبت میں دیکھا تو اس کا احسان یاد آگیا۔ منٹوں میں یار دوستوں کو بلایا۔ جنہوں نے دانتوں سے کتر کتر کر جال کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ سارے چوہے شیر کے آس پاس تھے۔ جس نے ایک جست لگا کر درجن بھر چوہوں کو دبوچا اور جھٹ پٹ کھاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب واقعی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
٭
منہ میں ہڈی دبائے کتے کا نہر کے پاس سے گزر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ بہتے پانی میں ایک اور کتا دانتوں میں ہڈی دبائے اُس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ دل میں لالچ آیا کہ اگر یہ ہڈی بھی مل جائے، لاک ڈاؤن کی اس صورتحال میں دو وقت کا گزارہ ہوجائے گا۔ لیکن تھا تھوڑا سیانا۔ گردن گھما کر دیکھا تو دور دور تک آدم نہ آدم ذات کو پایا۔ خیال آیا کہ ڈوب گیا تو نکالے گا کون۔ جبھی قدم بڑھاتا تھوڑی مسافت پر بنے کنوئیں تک پہنچا۔ منڈھیر پر چڑھ کر اطمینان سے ہڈی چبانے کا ارادہ کیا تو کنوئیں میں بھی ایک اور کتا، ہڈی منہ میں پکڑا نظر آیا۔ دم ہلاتے ہوئے کتے نے سوچا کہ اگر کنوئیں میں چھلانگ لگا کر اِس کتے سے ہڈی دبوچ لی تو ذہین اور خدا ترس دیہاتی اُسے باسانی کنوئیں سے نکال لیں گے۔ جبھی آؤ دیکھا نہ تاؤ کود پڑا ہڈی لینے کے لیے کنوئیں میں۔ چھپاک کی آواز سن کر گاؤں والے کنوئیں کے آس پاس جمع ہوگئے۔ ادھر کتے کو پانی میں ہڈی ملی نہ وہ کتا۔لیکن پرامید تھا کہ وہ کم از کم ڈوبے گا نہیں۔ اس کی ساری امیدیں اور آرزو جھاگ بن کراُس وقت بیٹھ گئے جب گاؤں والوں نے ڈول ڈال کر پانی نکالنا شروع کردیا۔ بے چارہ کتا بھونکتا رہا لیکن سب بضد تھے کہ پانی ناپاک ہوگیا ہے، کتا چھوڑو پانی نکالو۔۔۔گاؤں والوں کی کم عقلی پر کتا سر پیٹ کر رہ گیا۔ ظالموں نے پانی کے ساتھ کتے کی ہڈی تک نکال لی۔ لیکن نہ نکالا تو اُسے۔۔۔
٭
ماسٹر صاحب نے پوری جماعت کو امتحان میں ڈال دیا۔ کہا کہ اسکالرشپ کے لیے کسی ایک لڑکے کا انتخاب کرو۔ مانیٹر کو یہ ذمے داری دی گئی کہ وہ ہر طالب علم کے پاس جائے اور پرچی پر حقدار کا نام لکھوائے۔ مانیٹر سمیر ہر لڑکے پاس جاتا اور پھر اُس کے کان میں کچھ کہتا۔ طالب علم مسکراتے۔ غریب اور ذہین طالب علم عبداللہ یہ سب نوٹ کررہا تھا۔وہ دل ہی دل میں مانیٹر سمیر کا خاصا ممنون اور مشکور تھا۔ تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔اُس کے ذہن میں گئے وقتوں کے اسی نوعیت کی کہانی گردش میں تھی۔ جب پوری جماعت نے اپنی اپنی پرچیوں میں صرف غریب اور مستحق لڑکے کا نام لکھا تھا۔ عبداللہ مسرور تھا کہ آج وہ بھی اُس معیار پر پورا اتر رہا ہے۔سوچ کے سارے بندھن اُس وقت ٹوٹے جب مانیٹر سمیر اِس کے پاس بھی آیااور کان میں بولا’میرے نام کے علاوہ کسی اور کا لکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا‘۔ عبداللہ ہکا بکا تھا۔مرحلہ ختم ہوا تو ماسٹر صاحب نے ایک پرچی اٹھا نے سے پہلے کہا کہ یہ وہ خوش قسمت ہے جو اسکالرشپ کا حقدار ہوگا۔ نام مانیٹر سمیر کا ہی تھا۔ جو تالیوں کی گونج میں عبداللہ کے قریب آیا اور سرگوشی والے انداز میں بولا ’پرسوں جھگڑا کیا تھا ناں مجھ سے۔ دیکھا جمہوریت کیسے بہترین انتقام بنی۔٭٭
تھکا ہارا ٹوپی بیچنے والا ناکام اور نامراد نگر نگرگھوم کر گھنے جنگل میں ایک درخت کے سائے تلے ایسا بیٹھا کہ چند لمحوں میں نیند کی وادی میں کھو گیا۔ شو ر سے آنکھ کھلی تو دیکھا بندروں کا ایک ٹولہ اس کی گٹھری سے ساری ٹوپیاں لے کر درخت پر چڑھا ہوا ہے۔ دل میں سوچا کہ لو بتاؤ بکا وکا کچھ بھی نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے۔ کسی سیانے کی بات ذہن میں آئی کہ بندر وہی کرتے ہیں جو انسان کریں۔ اسی لیے درخت پر بندروں کی طرح چڑھا اور سر پر بچی ہوئی ٹوپی اتار کر نیچے پھینکی۔ مجال ہے جو کسی نے ایک نے اس کی یہ نقل کی ہو۔ غصے میں لال ہو کر اترا تو ایک چھوٹے سے بندر نے ٹوپی تو نہیں پھینکی‘ ہاں اُسی کی طرح درخت سے اترا جسے اِس شخص نے دبوچا، گٹھری کی رسی سے باندھا اور چل پڑا۔ماشااللہ اب وہ بندر کاتماشادکھا کر اتنا کمالیتاہے جتنا ٹوپیاں فروخت کرکے نہیں کماتا۔
٭
گاؤں والے اُس سے بہت پریشان تھے۔ کام کاج میں مگن ہوتے اور پھر وہ ٹیلے پر چڑھ کر شور مچاتا کہ شیر آیا شیر آیا۔ بے چارے خوف کے مارے یا تو گھروں میں دبک جاتے اور کچھ جو‘ نڈر اور بہادر ہوتے وہ ڈنڈے، بھالے اور کلہاڑیاں لے کر اُس کے پاس پہنچ جاتے۔جہاں ان کی یہ تیاریاں دیکھ کر وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے کہتا میں تو مذاق کررہا تھا وہ دیکھو کیمرا۔۔لڑکے کی ان حرکتوں سے سبھی تنگ آچکے تھے۔سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ چندا جمع کرکے، گاؤں کے اطراف اور اونچے مقام پر لڑکے پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ کیمرے لگادئے گئے۔ اب لڑکا بے چارہ ہر وقت شیر آیا شیر آیا کی صدائیں لگانے کے بجائے یہی کہتا ہے ’وہ دیکھو ‘ وہ رہا کیمرا۔۔‘
٭
غریب کسان نے مرغی کے ڈربے میں جھانکا تو وہاں چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔ پہلے سوچا ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ لیکن جب اس چیز کو باہر نکالاتو واقعی سونا ہی نکلی۔خوشی سے جھوم اٹھا کہ اس کی مرغی سونے کا انڈا دینے لگی ہے۔ اب روز اسے مرغی کے دیے ہوئے انڈوں میں سے ایک سونے کا انڈا ضرور ملتا۔ دل میں خیال تو یہ بھی آیا کہ ذبح کرکے ایک ہی دفعہ سارے سونے کے انڈے نکال لو لیکن دماغ نے کہا نہیں لالچ بری بلا ہے، باقی انڈوں سے بچے نکلواتا ہوں۔ کچھ ایسا ہی کیا۔ جبھی ایک مرغی کی جگہ آج اس کے پاس آدھا درجن مرغیاں ہیں جو باقاعدگی سے سونے کا انڈا، اماں جان کو دیکھ کر دیتی ہیں۔ اور غریب کسان یہ سونا،ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کبھی پانچ گرام تو کبھی دس تولہ تول کر فراہم کرتا ہے۔
٭
شکاری نے شیر کو جال میں پھانس لیا تھا۔ اُسے وہیں چھوڑ کر وہ سوزوکی لینے گیا۔ شیر نے بہت زور لگایا۔ لیکن گھنٹوں کی محنت کے بعد کچھ ہاتھ نہ آیا۔ بھوک سے براحال ہوگیا تھا۔ بے چارہ شکار کے لیے نکلا تھا اور خود شکار ہوگیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے ایک چوہا اُس کی جانب بڑھا۔ جس نے بتایا کہ وہ وہی ہے جس کو چند روز پہلے کھاتے کھاتے اس لیے چھوڑدیا تھا کہ اُس نے التجا کی تھی کہ اسے نوالہ بنانے سے اس کا تو دانت بھی گیلا نہیں ہوگا۔ چوہے نے شیر کو مصیبت میں دیکھا تو اس کا احسان یاد آگیا۔ منٹوں میں یار دوستوں کو بلایا۔ جنہوں نے دانتوں سے کتر کتر کر جال کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ سارے چوہے شیر کے آس پاس تھے۔ جس نے ایک جست لگا کر درجن بھر چوہوں کو دبوچا اور جھٹ پٹ کھاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب واقعی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
٭
منہ میں ہڈی دبائے کتے کا نہر کے پاس سے گزر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ بہتے پانی میں ایک اور کتا دانتوں میں ہڈی دبائے اُس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ دل میں لالچ آیا کہ اگر یہ ہڈی بھی مل جائے، لاک ڈاؤن کی اس صورتحال میں دو وقت کا گزارہ ہوجائے گا۔ لیکن تھا تھوڑا سیانا۔ گردن گھما کر دیکھا تو دور دور تک آدم نہ آدم ذات کو پایا۔ خیال آیا کہ ڈوب گیا تو نکالے گا کون۔ جبھی قدم بڑھاتا تھوڑی مسافت پر بنے کنوئیں تک پہنچا۔ منڈھیر پر چڑھ کر اطمینان سے ہڈی چبانے کا ارادہ کیا تو کنوئیں میں بھی ایک اور کتا، ہڈی منہ میں پکڑا نظر آیا۔ دم ہلاتے ہوئے کتے نے سوچا کہ اگر کنوئیں میں چھلانگ لگا کر اِس کتے سے ہڈی دبوچ لی تو ذہین اور خدا ترس دیہاتی اُسے باسانی کنوئیں سے نکال لیں گے۔ جبھی آؤ دیکھا نہ تاؤ کود پڑا ہڈی لینے کے لیے کنوئیں میں۔ چھپاک کی آواز سن کر گاؤں والے کنوئیں کے آس پاس جمع ہوگئے۔ ادھر کتے کو پانی میں ہڈی ملی نہ وہ کتا۔لیکن پرامید تھا کہ وہ کم از کم ڈوبے گا نہیں۔ اس کی ساری امیدیں اور آرزو جھاگ بن کراُس وقت بیٹھ گئے جب گاؤں والوں نے ڈول ڈال کر پانی نکالنا شروع کردیا۔ بے چارہ کتا بھونکتا رہا لیکن سب بضد تھے کہ پانی ناپاک ہوگیا ہے، کتا چھوڑو پانی نکالو۔۔۔گاؤں والوں کی کم عقلی پر کتا سر پیٹ کر رہ گیا۔ ظالموں نے پانی کے ساتھ کتے کی ہڈی تک نکال لی۔ لیکن نہ نکالا تو اُسے۔۔۔
٭
ماسٹر صاحب نے پوری جماعت کو امتحان میں ڈال دیا۔ کہا کہ اسکالرشپ کے لیے کسی ایک لڑکے کا انتخاب کرو۔ مانیٹر کو یہ ذمے داری دی گئی کہ وہ ہر طالب علم کے پاس جائے اور پرچی پر حقدار کا نام لکھوائے۔ مانیٹر سمیر ہر لڑکے پاس جاتا اور پھر اُس کے کان میں کچھ کہتا۔ طالب علم مسکراتے۔ غریب اور ذہین طالب علم عبداللہ یہ سب نوٹ کررہا تھا۔وہ دل ہی دل میں مانیٹر سمیر کا خاصا ممنون اور مشکور تھا۔ تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔اُس کے ذہن میں گئے وقتوں کے اسی نوعیت کی کہانی گردش میں تھی۔ جب پوری جماعت نے اپنی اپنی پرچیوں میں صرف غریب اور مستحق لڑکے کا نام لکھا تھا۔ عبداللہ مسرور تھا کہ آج وہ بھی اُس معیار پر پورا اتر رہا ہے۔سوچ کے سارے بندھن اُس وقت ٹوٹے جب مانیٹر سمیر اِس کے پاس بھی آیااور کان میں بولا’میرے نام کے علاوہ کسی اور کا لکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا‘۔ عبداللہ ہکا بکا تھا۔مرحلہ ختم ہوا تو ماسٹر صاحب نے ایک پرچی اٹھا نے سے پہلے کہا کہ یہ وہ خوش قسمت ہے جو اسکالرشپ کا حقدار ہوگا۔ نام مانیٹر سمیر کا ہی تھا۔ جو تالیوں کی گونج میں عبداللہ کے قریب آیا اور سرگوشی والے انداز میں بولا ’پرسوں جھگڑا کیا تھا ناں مجھ سے۔ دیکھا جمہوریت کیسے بہترین انتقام بنی۔٭٭
تھکا ہارا ٹوپی بیچنے والا ناکام اور نامراد نگر نگرگھوم کر گھنے جنگل میں ایک درخت کے سائے تلے ایسا بیٹھا کہ چند لمحوں میں نیند کی وادی میں کھو گیا۔ شو ر سے آنکھ کھلی تو دیکھا بندروں کا ایک ٹولہ اس کی گٹھری سے ساری ٹوپیاں لے کر درخت پر چڑھا ہوا ہے۔ دل میں سوچا کہ لو بتاؤ بکا وکا کچھ بھی نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے۔ کسی سیانے کی بات ذہن میں آئی کہ بندر وہی کرتے ہیں جو انسان کریں۔ اسی لیے درخت پر بندروں کی طرح چڑھا اور سر پر بچی ہوئی ٹوپی اتار کر نیچے پھینکی۔ مجال ہے جو کسی نے ایک نے اس کی یہ نقل کی ہو۔ غصے میں لال ہو کر اترا تو ایک چھوٹے سے بندر نے ٹوپی تو نہیں پھینکی‘ ہاں اُسی کی طرح درخت سے اترا جسے اِس شخص نے دبوچا، گٹھری کی رسی سے باندھا اور چل پڑا۔ماشااللہ اب وہ بندر کاتماشادکھا کر اتنا کمالیتاہے جتنا ٹوپیاں فروخت کرکے نہیں کماتا۔
٭
گاؤں والے اُس سے بہت پریشان تھے۔ کام کاج میں مگن ہوتے اور پھر وہ ٹیلے پر چڑھ کر شور مچاتا کہ شیر آیا شیر آیا۔ بے چارے خوف کے مارے یا تو گھروں میں دبک جاتے اور کچھ جو‘ نڈر اور بہادر ہوتے وہ ڈنڈے، بھالے اور کلہاڑیاں لے کر اُس کے پاس پہنچ جاتے۔جہاں ان کی یہ تیاریاں دیکھ کر وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے کہتا میں تو مذاق کررہا تھا وہ دیکھو کیمرا۔۔لڑکے کی ان حرکتوں سے سبھی تنگ آچکے تھے۔سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ چندا جمع کرکے، گاؤں کے اطراف اور اونچے مقام پر لڑکے پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ کیمرے لگادئے گئے۔ اب لڑکا بے چارہ ہر وقت شیر آیا شیر آیا کی صدائیں لگانے کے بجائے یہی کہتا ہے ’وہ دیکھو ‘ وہ رہا کیمرا۔۔‘
٭
غریب کسان نے مرغی کے ڈربے میں جھانکا تو وہاں چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔ پہلے سوچا ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ لیکن جب اس چیز کو باہر نکالاتو واقعی سونا ہی نکلی۔خوشی سے جھوم اٹھا کہ اس کی مرغی سونے کا انڈا دینے لگی ہے۔ اب روز اسے مرغی کے دیے ہوئے انڈوں میں سے ایک سونے کا انڈا ضرور ملتا۔ دل میں خیال تو یہ بھی آیا کہ ذبح کرکے ایک ہی دفعہ سارے سونے کے انڈے نکال لو لیکن دماغ نے کہا نہیں لالچ بری بلا ہے، باقی انڈوں سے بچے نکلواتا ہوں۔ کچھ ایسا ہی کیا۔ جبھی ایک مرغی کی جگہ آج اس کے پاس آدھا درجن مرغیاں ہیں جو باقاعدگی سے سونے کا انڈا، اماں جان کو دیکھ کر دیتی ہیں۔ اور غریب کسان یہ سونا،ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کبھی پانچ گرام تو کبھی دس تولہ تول کر فراہم کرتا ہے۔
٭
شکاری نے شیر کو جال میں پھانس لیا تھا۔ اُسے وہیں چھوڑ کر وہ سوزوکی لینے گیا۔ شیر نے بہت زور لگایا۔ لیکن گھنٹوں کی محنت کے بعد کچھ ہاتھ نہ آیا۔ بھوک سے براحال ہوگیا تھا۔ بے چارہ شکار کے لیے نکلا تھا اور خود شکار ہوگیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے ایک چوہا اُس کی جانب بڑھا۔ جس نے بتایا کہ وہ وہی ہے جس کو چند روز پہلے کھاتے کھاتے اس لیے چھوڑدیا تھا کہ اُس نے التجا کی تھی کہ اسے نوالہ بنانے سے اس کا تو دانت بھی گیلا نہیں ہوگا۔ چوہے نے شیر کو مصیبت میں دیکھا تو اس کا احسان یاد آگیا۔ منٹوں میں یار دوستوں کو بلایا۔ جنہوں نے دانتوں سے کتر کتر کر جال کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ سارے چوہے شیر کے آس پاس تھے۔ جس نے ایک جست لگا کر درجن بھر چوہوں کو دبوچا اور جھٹ پٹ کھاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب واقعی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
٭
منہ میں ہڈی دبائے کتے کا نہر کے پاس سے گزر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ بہتے پانی میں ایک اور کتا دانتوں میں ہڈی دبائے اُس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ دل میں لالچ آیا کہ اگر یہ ہڈی بھی مل جائے، لاک ڈاؤن کی اس صورتحال میں دو وقت کا گزارہ ہوجائے گا۔ لیکن تھا تھوڑا سیانا۔ گردن گھما کر دیکھا تو دور دور تک آدم نہ آدم ذات کو پایا۔ خیال آیا کہ ڈوب گیا تو نکالے گا کون۔ جبھی قدم بڑھاتا تھوڑی مسافت پر بنے کنوئیں تک پہنچا۔ منڈھیر پر چڑھ کر اطمینان سے ہڈی چبانے کا ارادہ کیا تو کنوئیں میں بھی ایک اور کتا، ہڈی منہ میں پکڑا نظر آیا۔ دم ہلاتے ہوئے کتے نے سوچا کہ اگر کنوئیں میں چھلانگ لگا کر اِس کتے سے ہڈی دبوچ لی تو ذہین اور خدا ترس دیہاتی اُسے باسانی کنوئیں سے نکال لیں گے۔ جبھی آؤ دیکھا نہ تاؤ کود پڑا ہڈی لینے کے لیے کنوئیں میں۔ چھپاک کی آواز سن کر گاؤں والے کنوئیں کے آس پاس جمع ہوگئے۔ ادھر کتے کو پانی میں ہڈی ملی نہ وہ کتا۔لیکن پرامید تھا کہ وہ کم از کم ڈوبے گا نہیں۔ اس کی ساری امیدیں اور آرزو جھاگ بن کراُس وقت بیٹھ گئے جب گاؤں والوں نے ڈول ڈال کر پانی نکالنا شروع کردیا۔ بے چارہ کتا بھونکتا رہا لیکن سب بضد تھے کہ پانی ناپاک ہوگیا ہے، کتا چھوڑو پانی نکالو۔۔۔گاؤں والوں کی کم عقلی پر کتا سر پیٹ کر رہ گیا۔ ظالموں نے پانی کے ساتھ کتے کی ہڈی تک نکال لی۔ لیکن نہ نکالا تو اُسے۔۔۔
٭
ماسٹر صاحب نے پوری جماعت کو امتحان میں ڈال دیا۔ کہا کہ اسکالرشپ کے لیے کسی ایک لڑکے کا انتخاب کرو۔ مانیٹر کو یہ ذمے داری دی گئی کہ وہ ہر طالب علم کے پاس جائے اور پرچی پر حقدار کا نام لکھوائے۔ مانیٹر سمیر ہر لڑکے پاس جاتا اور پھر اُس کے کان میں کچھ کہتا۔ طالب علم مسکراتے۔ غریب اور ذہین طالب علم عبداللہ یہ سب نوٹ کررہا تھا۔وہ دل ہی دل میں مانیٹر سمیر کا خاصا ممنون اور مشکور تھا۔ تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔اُس کے ذہن میں گئے وقتوں کے اسی نوعیت کی کہانی گردش میں تھی۔ جب پوری جماعت نے اپنی اپنی پرچیوں میں صرف غریب اور مستحق لڑکے کا نام لکھا تھا۔ عبداللہ مسرور تھا کہ آج وہ بھی اُس معیار پر پورا اتر رہا ہے۔سوچ کے سارے بندھن اُس وقت ٹوٹے جب مانیٹر سمیر اِس کے پاس بھی آیااور کان میں بولا’میرے نام کے علاوہ کسی اور کا لکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا‘۔ عبداللہ ہکا بکا تھا۔مرحلہ ختم ہوا تو ماسٹر صاحب نے ایک پرچی اٹھا نے سے پہلے کہا کہ یہ وہ خوش قسمت ہے جو اسکالرشپ کا حقدار ہوگا۔ نام مانیٹر سمیر کا ہی تھا۔ جو تالیوں کی گونج میں عبداللہ کے قریب آیا اور سرگوشی والے انداز میں بولا ’پرسوں جھگڑا کیا تھا ناں مجھ سے۔ دیکھا جمہوریت کیسے بہترین انتقام بنی۔٭٭
تھکا ہارا ٹوپی بیچنے والا ناکام اور نامراد نگر نگرگھوم کر گھنے جنگل میں ایک درخت کے سائے تلے ایسا بیٹھا کہ چند لمحوں میں نیند کی وادی میں کھو گیا۔ شو ر سے آنکھ کھلی تو دیکھا بندروں کا ایک ٹولہ اس کی گٹھری سے ساری ٹوپیاں لے کر درخت پر چڑھا ہوا ہے۔ دل میں سوچا کہ لو بتاؤ بکا وکا کچھ بھی نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے۔ کسی سیانے کی بات ذہن میں آئی کہ بندر وہی کرتے ہیں جو انسان کریں۔ اسی لیے درخت پر بندروں کی طرح چڑھا اور سر پر بچی ہوئی ٹوپی اتار کر نیچے پھینکی۔ مجال ہے جو کسی نے ایک نے اس کی یہ نقل کی ہو۔ غصے میں لال ہو کر اترا تو ایک چھوٹے سے بندر نے ٹوپی تو نہیں پھینکی‘ ہاں اُسی کی طرح درخت سے اترا جسے اِس شخص نے دبوچا، گٹھری کی رسی سے باندھا اور چل پڑا۔ماشااللہ اب وہ بندر کاتماشادکھا کر اتنا کمالیتاہے جتنا ٹوپیاں فروخت کرکے نہیں کماتا۔
٭
گاؤں والے اُس سے بہت پریشان تھے۔ کام کاج میں مگن ہوتے اور پھر وہ ٹیلے پر چڑھ کر شور مچاتا کہ شیر آیا شیر آیا۔ بے چارے خوف کے مارے یا تو گھروں میں دبک جاتے اور کچھ جو‘ نڈر اور بہادر ہوتے وہ ڈنڈے، بھالے اور کلہاڑیاں لے کر اُس کے پاس پہنچ جاتے۔جہاں ان کی یہ تیاریاں دیکھ کر وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے کہتا میں تو مذاق کررہا تھا وہ دیکھو کیمرا۔۔لڑکے کی ان حرکتوں سے سبھی تنگ آچکے تھے۔سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ چندا جمع کرکے، گاؤں کے اطراف اور اونچے مقام پر لڑکے پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ کیمرے لگادئے گئے۔ اب لڑکا بے چارہ ہر وقت شیر آیا شیر آیا کی صدائیں لگانے کے بجائے یہی کہتا ہے ’وہ دیکھو ‘ وہ رہا کیمرا۔۔‘
٭
غریب کسان نے مرغی کے ڈربے میں جھانکا تو وہاں چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔ پہلے سوچا ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ لیکن جب اس چیز کو باہر نکالاتو واقعی سونا ہی نکلی۔خوشی سے جھوم اٹھا کہ اس کی مرغی سونے کا انڈا دینے لگی ہے۔ اب روز اسے مرغی کے دیے ہوئے انڈوں میں سے ایک سونے کا انڈا ضرور ملتا۔ دل میں خیال تو یہ بھی آیا کہ ذبح کرکے ایک ہی دفعہ سارے سونے کے انڈے نکال لو لیکن دماغ نے کہا نہیں لالچ بری بلا ہے، باقی انڈوں سے بچے نکلواتا ہوں۔ کچھ ایسا ہی کیا۔ جبھی ایک مرغی کی جگہ آج اس کے پاس آدھا درجن مرغیاں ہیں جو باقاعدگی سے سونے کا انڈا، اماں جان کو دیکھ کر دیتی ہیں۔ اور غریب کسان یہ سونا،ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کبھی پانچ گرام تو کبھی دس تولہ تول کر فراہم کرتا ہے۔
٭
شکاری نے شیر کو جال میں پھانس لیا تھا۔ اُسے وہیں چھوڑ کر وہ سوزوکی لینے گیا۔ شیر نے بہت زور لگایا۔ لیکن گھنٹوں کی محنت کے بعد کچھ ہاتھ نہ آیا۔ بھوک سے براحال ہوگیا تھا۔ بے چارہ شکار کے لیے نکلا تھا اور خود شکار ہوگیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے ایک چوہا اُس کی جانب بڑھا۔ جس نے بتایا کہ وہ وہی ہے جس کو چند روز پہلے کھاتے کھاتے اس لیے چھوڑدیا تھا کہ اُس نے التجا کی تھی کہ اسے نوالہ بنانے سے اس کا تو دانت بھی گیلا نہیں ہوگا۔ چوہے نے شیر کو مصیبت میں دیکھا تو اس کا احسان یاد آگیا۔ منٹوں میں یار دوستوں کو بلایا۔ جنہوں نے دانتوں سے کتر کتر کر جال کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ سارے چوہے شیر کے آس پاس تھے۔ جس نے ایک جست لگا کر درجن بھر چوہوں کو دبوچا اور جھٹ پٹ کھاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب واقعی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
٭
منہ میں ہڈی دبائے کتے کا نہر کے پاس سے گزر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ بہتے پانی میں ایک اور کتا دانتوں میں ہڈی دبائے اُس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ دل میں لالچ آیا کہ اگر یہ ہڈی بھی مل جائے، لاک ڈاؤن کی اس صورتحال میں دو وقت کا گزارہ ہوجائے گا۔ لیکن تھا تھوڑا سیانا۔ گردن گھما کر دیکھا تو دور دور تک آدم نہ آدم ذات کو پایا۔ خیال آیا کہ ڈوب گیا تو نکالے گا کون۔ جبھی قدم بڑھاتا تھوڑی مسافت پر بنے کنوئیں تک پہنچا۔ منڈھیر پر چڑھ کر اطمینان سے ہڈی چبانے کا ارادہ کیا تو کنوئیں میں بھی ایک اور کتا، ہڈی منہ میں پکڑا نظر آیا۔ دم ہلاتے ہوئے کتے نے سوچا کہ اگر کنوئیں میں چھلانگ لگا کر اِس کتے سے ہڈی دبوچ لی تو ذہین اور خدا ترس دیہاتی اُسے باسانی کنوئیں سے نکال لیں گے۔ جبھی آؤ دیکھا نہ تاؤ کود پڑا ہڈی لینے کے لیے کنوئیں میں۔ چھپاک کی آواز سن کر گاؤں والے کنوئیں کے آس پاس جمع ہوگئے۔ ادھر کتے کو پانی میں ہڈی ملی نہ وہ کتا۔لیکن پرامید تھا کہ وہ کم از کم ڈوبے گا نہیں۔ اس کی ساری امیدیں اور آرزو جھاگ بن کراُس وقت بیٹھ گئے جب گاؤں والوں نے ڈول ڈال کر پانی نکالنا شروع کردیا۔ بے چارہ کتا بھونکتا رہا لیکن سب بضد تھے کہ پانی ناپاک ہوگیا ہے، کتا چھوڑو پانی نکالو۔۔۔گاؤں والوں کی کم عقلی پر کتا سر پیٹ کر رہ گیا۔ ظالموں نے پانی کے ساتھ کتے کی ہڈی تک نکال لی۔ لیکن نہ نکالا تو اُسے۔۔۔
٭
ماسٹر صاحب نے پوری جماعت کو امتحان میں ڈال دیا۔ کہا کہ اسکالرشپ کے لیے کسی ایک لڑکے کا انتخاب کرو۔ مانیٹر کو یہ ذمے داری دی گئی کہ وہ ہر طالب علم کے پاس جائے اور پرچی پر حقدار کا نام لکھوائے۔ مانیٹر سمیر ہر لڑکے پاس جاتا اور پھر اُس کے کان میں کچھ کہتا۔ طالب علم مسکراتے۔ غریب اور ذہین طالب علم عبداللہ یہ سب نوٹ کررہا تھا۔وہ دل ہی دل میں مانیٹر سمیر کا خاصا ممنون اور مشکور تھا۔ تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔اُس کے ذہن میں گئے وقتوں کے اسی نوعیت کی کہانی گردش میں تھی۔ جب پوری جماعت نے اپنی اپنی پرچیوں میں صرف غریب اور مستحق لڑکے کا نام لکھا تھا۔ عبداللہ مسرور تھا کہ آج وہ بھی اُس معیار پر پورا اتر رہا ہے۔سوچ کے سارے بندھن اُس وقت ٹوٹے جب مانیٹر سمیر اِس کے پاس بھی آیااور کان میں بولا’میرے نام کے علاوہ کسی اور کا لکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا‘۔ عبداللہ ہکا بکا تھا۔مرحلہ ختم ہوا تو ماسٹر صاحب نے ایک پرچی اٹھا نے سے پہلے کہا کہ یہ وہ خوش قسمت ہے جو اسکالرشپ کا حقدار ہوگا۔ نام مانیٹر سمیر کا ہی تھا۔ جو تالیوں کی گونج میں عبداللہ کے قریب آیا اور سرگوشی والے انداز میں بولا ’پرسوں جھگڑا کیا تھا ناں مجھ سے۔ دیکھا جمہوریت کیسے بہترین انتقام بنی۔٭٭