بارہواں رمضان
آج بارہواں رمضان ہے، اس عظیم مہینے کو جو خصوصیات اللہ تعالی نے عطاء فرمائی ہیں، ان کا کما حقہ تذکرہ انسان کے لئے ممکن نہیں، بس کچھ معمولی اشارے روزانہ کے مضامین میں اللہ تعالی کی توفیق سے دیئے جارہے ہیں۔ آج کے مضمون میں رمضان کی ایسی خصوصیت کا بیان پیش نظر ہے، جس کا تذکرہ خود اللہ تعالی نے رمضان کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا، اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہےکہ یہی ایک خصوصیت رمضان کی عظمتوں کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا آخری کلام قرآن کریم نازل کرنے کے لئے اس مہینے کا انتخاب فرمایا، ارشاد خداوندی ہے،
“شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ۔” اور رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔”
اس آیت کریمہ کا اسلوب یہ بتاتاہے کہ رمضان کو جو بے پناہ فضیلتیں حاصل ہیں، ان کا اصل سبب شاید یہ ہو کہ قرآن کریم کے ساتھ اس مہینے کو کئی لحاظ سے نسبتیں حاصل ہیں، اور جس چیز کو بھی اللہ تعالی کے کلام اور آخری کتاب قرآن مجید سے کوئی گہری نسبت حاصل ہوگئی اس کی قدر وقیمت غیر معمولی اور اس کا مقام سب سے بلند وبالا ہوجاتا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس مہینے میں اللہ تعا لیٰ کا کلام قرآن نازل ہوا، وہ مہینہ (رمضان) تمام مہینوں سے افضل قرار پایا، جس آخری نبی ﷺ پر یہ قرآن نازل کیا گیا وہ خیر الانبیاء یعنی سب سے افضل نبی قرار دیئے گئے۔ رمضان کی جس رات کا انتخاب نزول قرآن کے لئے ہوا ہے وہ رات “خیر من ألف شھر” یعنی ہزار مہینوں سے افضل رات بن گئی، اسی طرح دیکھتے جایئے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ سب کے ساتھ خیر کا لازمی جوڑ قرآن کریم کی اعلیٰ نسبت سے پیدا ہوا ہے، ایساہی جو قرآن پڑھتا ہے وہ خیر یعنی سب سے بہتر قرار پاتا ہے جو پڑھاتا ہے وہ بھی خیر کہلاتا ہے جس زمانے میں قرآن دنیا میں نازل ہوا وہ زمانہ خیر القرون یعنی بہترین زمانے کے لقب سے موسوم ہوا، جس امت کے لئے اتارا گیا، اسے “خیر الامۃ” یعنی بہترین امت ہونے کا تمغہ امتیاز عطاء ہوا۔ ان اہم نکتوں کے پیش نظر یہ صاف نظر آتا ہے کہ رمضان کی افضلیت کا راز کلام اللہ شریف یعنی قرآن کریم کی نسبت میں پوشیدہ ہے، اس لئے رمضان کا اہم ترین پیغام قرآن ہے۔ حضور اکرم ﷺ اور حضرت جبریل امین علیہ السلام کے درمیان قرآن کریم سننے سنانے کا معمول رمضان کی ہر رات تھا۔ اس سے اس عظیم مہینے کے ساتھ قرآن کریم کے گہرے رشتے کا اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ ابن رجب حنبلی ؒ کے بقول رمضان کی راتوں کو اجتماعی درس قرآن کا استحباب (مستحب ہونا) اس سے ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلاف امت اور اکابر دین رمضان میں قرآن کریم کے ساتھ اپنا شغل غیر معمولی طور پر زیادہ رکھتے تھے، علامہ ابن رجب ؒ نے لطائف المعارف میں اس سلسلے میں اکابر امت کے ایمان افروز حالات کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں فرمایاہے۔
آج کے دور میں لوگوں کی بے پناہ مصروفیات اور مادہ پرستی کیوجہ سے اگرچہ اسلاف امت کے قرآن کریم کے ساتھ شغف کا حال ہمیں حیرت انگیز معلوم ہوگا۔ لیکن ان حالات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اگر تلاوت قرآن کریم کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت نکالنے میں ہم کسی درجے میں بھی کامیاب ہوجائیں اور تفسیر قرآن کو سمجھنے کے لئے اپنے اوقات میں ہمارے لئے کچھ گنجائش پیدا ہوجائے تو یہ بھی نعمت سے کم نہیں۔ اس سے بڑھکر اگر مسلم معاشرے میں قرآنی بنیاد وں پر استوار کوئی ایسا نظام تعلیم وجود میں آجائے جس میں دین ودنیا کی دوئی ختم کردی گئی ہو، تو اس سے بڑھکر امت مسلمہ کی تقدیریں بدل دینے والا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔