Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
چائے کا کپ محض ایک مشروب کی پیالی نہیں ہے بلکہ ایک نسخہ ہے خود سے ملنے کا , ماضی سے ملنے کا, بھولی بسری یادوں میں کھو جانے. مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا. غم بھلانے کا، غموں کو تازہ رکھنے کا.
ویسے کیا چیز ہے یہ چائے ؟؟ لوگ اس کے نام پہ ملتے ہیں, ملاقات رکھی جاتی ہے, دور دراز سے لوگ چائے کے ایک کپ پہ چلے آتے ہیں, اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے. دنیا کے بہت سے مسائل اوور اے کپ آف ٹی حل ہو جاتے ہیں تو اوور اے کپ آف ٹی بہت سے مسائل پیدابھی ہوجاتے ہیں میری مراد شادی بیاہ کے معاملات سے ہے. دیکھا جائے تو مے خانے کے بعد چائے کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے نام پر ” خانہ” بنا ہے. انگریزوں کے کافی ہاوس سے ہمیں کیا لینا دینا. یہ اتنا اہم مشروب ہے کہ کسی کھیل میں کھیل کو یا تو پانی پینے کے لیے روکا جاتا ہے یا کھیل میں چائے کا وقفہ ہوتا ہے اور کسی مشروب کو یہ اعزاز کم از کم ہماری معلومات تک تو حاصل نہیں.
کچھ لوگوں کو دیوانگی کی حد تک چائے سے محبت کرتے دیکھا ہے – موسم اچھا ہے تو چائے، برا ہے تو چائے سردی میں حرارت کے لیے اور گرمیوں تپتی دوپہروں میں اس لیے کہ اس طبقے کا ایمان ہے کہ چائے پیاس کی شدت کو کم کرتی. , جسم بے چین ہے تو چائے کی ضرورت. بہت سکون سے بیٹھے ہوں تو چائے. مصروفیت کی تھکن کو کم کرنے کے لیے چائے اور کامل فراغت ہے تو چائے , نہ ملے چائے تو سر درد – مل جائے تو کیف. ان کے لیے چائے کی طلب ایسے جیسے مرنے والا زندگی چاہتا ہو -چاۓ جہاں جسمانی تھکاوٹ دور کرتی ہے وہاں روح کو بھی کسی حد تک سکون بخشتی ہے. نہ جانے اس میں ایسا کیا ہے کہ تھکن جسمانی ہو یا ذہنی، اس کا ایک کپ انسان کو تازہ دم کرکے عملی زندگی کے تلخ حقائق کا مقابلہ کرنے کے قابل بنادیتا ہے
ویسے دیکھا جاے تو چائے ایک نشہ ہے عادت ہے اور عادت تو پھر عادت ہوتی ہے نا صاحب. چاہے چائے کی ہو یا کسی اور چیز کی یا کسی انسان کی اور عادت چھوڑنا جان جوکھوں کا کام ہے روح بھی تڑپتی ہے جسم بھی سلگتا ہے –
چائے تقریباً پوری دنیا میں شوق سے پی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے. بی بی سی کا تو خیال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چائے پاکستان میں پی جاتی ہے. وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستانی لوگ دنیا کے دیگر خطوں کے لوگوں کی طرح ” غیر شرعی” مشروبات سے ذرا پرہیز ہی کرتے ہیں. اور شرعی مشروبات میں یہ ایسا مشروب ہے جو پاکستانیوں کی ہر “مشروباتی” طلب کی تسکین کردیتا ہے. ہر عمر کے لوگ ہر موسم میں چائے پیتے ہیں, اور جو چائے نہیں پیتا اس پر بہت حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے – اس خطے کے لوگوں نے چائے کے لیے اپنے مقامی مشروبات ترک کردیے. کبھی مہمان کی تواضع لہسی پانی سے ہوتی تھی اور اب چائے پانی سے. صورت حال تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آپ مہمان کو سونے کا نوالہ کھلائیں لیکن اگر چائے نہیں پلائی تو تواضع ادھوری سمجھی جائے گی بلکہ ممکن ہے کہ سرے سے خاطر تواضع کو تسلیم ہی نہ کیا جائے. چینی لوگوں کے نزدیک چائے کے بغیر کوئی سماجی سرگرمی مکمل نہیں ان کے خیال میں شراب اکیلے میں پینی چاہیے اور چائے سب کے ساتھ –
چائے کئی طریقوں سے پی جاتی ہے. کچھ لوگوں کے نزدیک چائے کا مطلب پانی اور پتی کا آمیزہ ہے. البتہ بقدر اشک بلبل دوددھ کی تہمت سی لگی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں , دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دودھ. پتی اور شکر کا ملغوبہ بنا کے پی جاتے ہیں – بعضے تو الائچی، سونف، ادرک اور دار چینی کا اضافہ بھی کر لیتے ہیں. کچھ کے نزدیک چائے کی سطح پر موٹی ملائی بھی اس کی خوبیوں میں سے ہے. ایک طبقہ وہ بھی ہے جو چائے کو محض مٹھاس کے لیے پیتا ہے. اس طبقے سے آپ بھی یقیناً واقف ہوں گے کیونکہ ہمارے پنجاب میں سب سے نمایاں طبقہ یہی ہے. ہمارے ایک عزیز ہیں. اگر انھیں چائے کے ساتھ مٹھائی پیش کی جائے تو پہلے چائے نوش فرماتے ہیں بعد میں مٹھائی چکھتے ہیں. اس ترتیب کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ ” مٹھائی کے بعد چائے پئیں تو چائے پھیکی محسوس ہوتی ہے” اور پھیکی چائے ان کے نزدیک حرام نہ بھی ہو تو مکروہ ضرور ہے . ایک دوست سے اگر غلطی سے پوچھ لیں کہ ” چائے میں کتنی شکر؟” بہت مختصر اور بلیغ جواب دیتے ہیں کہ” حسب توفیق ” ان صاحب کے بارے میں تو آپ نے بھی سنا ہوگا جو فرماتے ہیں کہ چائے میں شکر اتنی ہو کہ گھونٹ لیتے ہی دونوں ہونٹ آپس میں چپک جائیں.
اردو کے صاحب طرز ادیب ابوالکلام آزاد نے تو چائے کو بہت گلیمرایز کر دیا. چائے بنانےاور پینے کے جو آداب آپ نے بتاے ہیں وہ ہم پنجابی تو کبھی نہیں اپنا سکتے – آزاد نے چائے کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ کوئی کاہے کو اپنی محبوبہ کا ذکر کرے گا – ان کا بس نہیں چلا ورنہ وہ جنت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں کے متوازی چائے کی نہر جاری کروا دیتے. سنا ہے جنتی کی ہر خواہش پوری کی جائے گی. ہمارا خیال ہے کہ ایسا ہوا تو مرحوم کی ایک خواہش تو وہ چائے ہوگی جس کے ذکر سے ” غبار خاطر” بھری پڑی ہے. سچ پوچھیں تو یہ کتاب چائے کا اشتہار معلوم ہوتی ہے – اگر نہیں یقین تو پیراگراف ملاحضہ فرمائیے —-لکھتے ہیں کہ
چائے بہت لطیف ہے چین کی بہترین قسموں میں سے ہے رنگ اس قدر ہلکا کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جاے کیف اس قدر تند کہ بلا مبالغہ اس کا ہر فنجان قآنی کی رطل گراں کی یاد تازہ کرے –
انہوں نے چائے کی لطافت کو تمباکو کی تندی تلخی سے ملا کر ایک پر کیف مرکب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے – آزاد چائے کے ساتھ سگریٹ سلگا لیا کرتے اور ایک گھونٹ چائے کے ساتھ ایک کش لگا لیا کرتے , انہوں نے چائے کو خود ساختہ عادت اور زندگی کی غلطیوں میں شمار کیا ہے -ظاہر ہے روزگارِ خراب میں زندگی کو رنگین رکھنے کے لیے کچھ غلطیاں تو کرنی ہی پڑتی ہیں وہ زندگی ہی کیا جس کے دامن خشک کو غلطیوں سے تر نا کیا جا سکے وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر محروم ہو –
ذاتی طور پر ہم خود چائے نہیں پیتے مگر اس کی مخالفت بھی نہیں کرسکتے. اس سے محبت کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ مخالفت سے زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے. یہ نہ ہو تو کم از کم ہمیں فاطر العقل کے اعزاز سے تو نواز ہی دیا جائے گا. ہمارے یہاں تو چائے سے اخلاق کی پرکھ ہوتی ہے. ذہانت تو گویا ہے ہی چائے کی مرہون منت. ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگوں کو بتا دیا جائے کہ سقراط اور افلاطون چائے نہیں پیا کرتے تھے تو ان کی دانائی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا. یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ہمارے ایک محترم استاد نے ایک اچھے بھلے شاعر کو صرف اس لیے مسترد کر دیا کہ وہ چائے نہیں پیتا. سو ہم چائے کی مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے. زیر نظر تحریر میں اگر کہیں کوئی ایک آدھ جملہ عاشقانِ چائے کو نامناسب لگے تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز فرمادیں
چائے کا کپ محض ایک مشروب کی پیالی نہیں ہے بلکہ ایک نسخہ ہے خود سے ملنے کا , ماضی سے ملنے کا, بھولی بسری یادوں میں کھو جانے. مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا. غم بھلانے کا، غموں کو تازہ رکھنے کا.
ویسے کیا چیز ہے یہ چائے ؟؟ لوگ اس کے نام پہ ملتے ہیں, ملاقات رکھی جاتی ہے, دور دراز سے لوگ چائے کے ایک کپ پہ چلے آتے ہیں, اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے. دنیا کے بہت سے مسائل اوور اے کپ آف ٹی حل ہو جاتے ہیں تو اوور اے کپ آف ٹی بہت سے مسائل پیدابھی ہوجاتے ہیں میری مراد شادی بیاہ کے معاملات سے ہے. دیکھا جائے تو مے خانے کے بعد چائے کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے نام پر ” خانہ” بنا ہے. انگریزوں کے کافی ہاوس سے ہمیں کیا لینا دینا. یہ اتنا اہم مشروب ہے کہ کسی کھیل میں کھیل کو یا تو پانی پینے کے لیے روکا جاتا ہے یا کھیل میں چائے کا وقفہ ہوتا ہے اور کسی مشروب کو یہ اعزاز کم از کم ہماری معلومات تک تو حاصل نہیں.
کچھ لوگوں کو دیوانگی کی حد تک چائے سے محبت کرتے دیکھا ہے – موسم اچھا ہے تو چائے، برا ہے تو چائے سردی میں حرارت کے لیے اور گرمیوں تپتی دوپہروں میں اس لیے کہ اس طبقے کا ایمان ہے کہ چائے پیاس کی شدت کو کم کرتی. , جسم بے چین ہے تو چائے کی ضرورت. بہت سکون سے بیٹھے ہوں تو چائے. مصروفیت کی تھکن کو کم کرنے کے لیے چائے اور کامل فراغت ہے تو چائے , نہ ملے چائے تو سر درد – مل جائے تو کیف. ان کے لیے چائے کی طلب ایسے جیسے مرنے والا زندگی چاہتا ہو -چاۓ جہاں جسمانی تھکاوٹ دور کرتی ہے وہاں روح کو بھی کسی حد تک سکون بخشتی ہے. نہ جانے اس میں ایسا کیا ہے کہ تھکن جسمانی ہو یا ذہنی، اس کا ایک کپ انسان کو تازہ دم کرکے عملی زندگی کے تلخ حقائق کا مقابلہ کرنے کے قابل بنادیتا ہے
ویسے دیکھا جاے تو چائے ایک نشہ ہے عادت ہے اور عادت تو پھر عادت ہوتی ہے نا صاحب. چاہے چائے کی ہو یا کسی اور چیز کی یا کسی انسان کی اور عادت چھوڑنا جان جوکھوں کا کام ہے روح بھی تڑپتی ہے جسم بھی سلگتا ہے –
چائے تقریباً پوری دنیا میں شوق سے پی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے. بی بی سی کا تو خیال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چائے پاکستان میں پی جاتی ہے. وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستانی لوگ دنیا کے دیگر خطوں کے لوگوں کی طرح ” غیر شرعی” مشروبات سے ذرا پرہیز ہی کرتے ہیں. اور شرعی مشروبات میں یہ ایسا مشروب ہے جو پاکستانیوں کی ہر “مشروباتی” طلب کی تسکین کردیتا ہے. ہر عمر کے لوگ ہر موسم میں چائے پیتے ہیں, اور جو چائے نہیں پیتا اس پر بہت حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے – اس خطے کے لوگوں نے چائے کے لیے اپنے مقامی مشروبات ترک کردیے. کبھی مہمان کی تواضع لہسی پانی سے ہوتی تھی اور اب چائے پانی سے. صورت حال تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آپ مہمان کو سونے کا نوالہ کھلائیں لیکن اگر چائے نہیں پلائی تو تواضع ادھوری سمجھی جائے گی بلکہ ممکن ہے کہ سرے سے خاطر تواضع کو تسلیم ہی نہ کیا جائے. چینی لوگوں کے نزدیک چائے کے بغیر کوئی سماجی سرگرمی مکمل نہیں ان کے خیال میں شراب اکیلے میں پینی چاہیے اور چائے سب کے ساتھ –
چائے کئی طریقوں سے پی جاتی ہے. کچھ لوگوں کے نزدیک چائے کا مطلب پانی اور پتی کا آمیزہ ہے. البتہ بقدر اشک بلبل دوددھ کی تہمت سی لگی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں , دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دودھ. پتی اور شکر کا ملغوبہ بنا کے پی جاتے ہیں – بعضے تو الائچی، سونف، ادرک اور دار چینی کا اضافہ بھی کر لیتے ہیں. کچھ کے نزدیک چائے کی سطح پر موٹی ملائی بھی اس کی خوبیوں میں سے ہے. ایک طبقہ وہ بھی ہے جو چائے کو محض مٹھاس کے لیے پیتا ہے. اس طبقے سے آپ بھی یقیناً واقف ہوں گے کیونکہ ہمارے پنجاب میں سب سے نمایاں طبقہ یہی ہے. ہمارے ایک عزیز ہیں. اگر انھیں چائے کے ساتھ مٹھائی پیش کی جائے تو پہلے چائے نوش فرماتے ہیں بعد میں مٹھائی چکھتے ہیں. اس ترتیب کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ ” مٹھائی کے بعد چائے پئیں تو چائے پھیکی محسوس ہوتی ہے” اور پھیکی چائے ان کے نزدیک حرام نہ بھی ہو تو مکروہ ضرور ہے . ایک دوست سے اگر غلطی سے پوچھ لیں کہ ” چائے میں کتنی شکر؟” بہت مختصر اور بلیغ جواب دیتے ہیں کہ” حسب توفیق ” ان صاحب کے بارے میں تو آپ نے بھی سنا ہوگا جو فرماتے ہیں کہ چائے میں شکر اتنی ہو کہ گھونٹ لیتے ہی دونوں ہونٹ آپس میں چپک جائیں.
اردو کے صاحب طرز ادیب ابوالکلام آزاد نے تو چائے کو بہت گلیمرایز کر دیا. چائے بنانےاور پینے کے جو آداب آپ نے بتاے ہیں وہ ہم پنجابی تو کبھی نہیں اپنا سکتے – آزاد نے چائے کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ کوئی کاہے کو اپنی محبوبہ کا ذکر کرے گا – ان کا بس نہیں چلا ورنہ وہ جنت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں کے متوازی چائے کی نہر جاری کروا دیتے. سنا ہے جنتی کی ہر خواہش پوری کی جائے گی. ہمارا خیال ہے کہ ایسا ہوا تو مرحوم کی ایک خواہش تو وہ چائے ہوگی جس کے ذکر سے ” غبار خاطر” بھری پڑی ہے. سچ پوچھیں تو یہ کتاب چائے کا اشتہار معلوم ہوتی ہے – اگر نہیں یقین تو پیراگراف ملاحضہ فرمائیے —-لکھتے ہیں کہ
چائے بہت لطیف ہے چین کی بہترین قسموں میں سے ہے رنگ اس قدر ہلکا کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جاے کیف اس قدر تند کہ بلا مبالغہ اس کا ہر فنجان قآنی کی رطل گراں کی یاد تازہ کرے –
انہوں نے چائے کی لطافت کو تمباکو کی تندی تلخی سے ملا کر ایک پر کیف مرکب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے – آزاد چائے کے ساتھ سگریٹ سلگا لیا کرتے اور ایک گھونٹ چائے کے ساتھ ایک کش لگا لیا کرتے , انہوں نے چائے کو خود ساختہ عادت اور زندگی کی غلطیوں میں شمار کیا ہے -ظاہر ہے روزگارِ خراب میں زندگی کو رنگین رکھنے کے لیے کچھ غلطیاں تو کرنی ہی پڑتی ہیں وہ زندگی ہی کیا جس کے دامن خشک کو غلطیوں سے تر نا کیا جا سکے وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر محروم ہو –
ذاتی طور پر ہم خود چائے نہیں پیتے مگر اس کی مخالفت بھی نہیں کرسکتے. اس سے محبت کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ مخالفت سے زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے. یہ نہ ہو تو کم از کم ہمیں فاطر العقل کے اعزاز سے تو نواز ہی دیا جائے گا. ہمارے یہاں تو چائے سے اخلاق کی پرکھ ہوتی ہے. ذہانت تو گویا ہے ہی چائے کی مرہون منت. ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگوں کو بتا دیا جائے کہ سقراط اور افلاطون چائے نہیں پیا کرتے تھے تو ان کی دانائی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا. یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ہمارے ایک محترم استاد نے ایک اچھے بھلے شاعر کو صرف اس لیے مسترد کر دیا کہ وہ چائے نہیں پیتا. سو ہم چائے کی مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے. زیر نظر تحریر میں اگر کہیں کوئی ایک آدھ جملہ عاشقانِ چائے کو نامناسب لگے تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز فرمادیں
چائے کا کپ محض ایک مشروب کی پیالی نہیں ہے بلکہ ایک نسخہ ہے خود سے ملنے کا , ماضی سے ملنے کا, بھولی بسری یادوں میں کھو جانے. مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا. غم بھلانے کا، غموں کو تازہ رکھنے کا.
ویسے کیا چیز ہے یہ چائے ؟؟ لوگ اس کے نام پہ ملتے ہیں, ملاقات رکھی جاتی ہے, دور دراز سے لوگ چائے کے ایک کپ پہ چلے آتے ہیں, اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے. دنیا کے بہت سے مسائل اوور اے کپ آف ٹی حل ہو جاتے ہیں تو اوور اے کپ آف ٹی بہت سے مسائل پیدابھی ہوجاتے ہیں میری مراد شادی بیاہ کے معاملات سے ہے. دیکھا جائے تو مے خانے کے بعد چائے کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے نام پر ” خانہ” بنا ہے. انگریزوں کے کافی ہاوس سے ہمیں کیا لینا دینا. یہ اتنا اہم مشروب ہے کہ کسی کھیل میں کھیل کو یا تو پانی پینے کے لیے روکا جاتا ہے یا کھیل میں چائے کا وقفہ ہوتا ہے اور کسی مشروب کو یہ اعزاز کم از کم ہماری معلومات تک تو حاصل نہیں.
کچھ لوگوں کو دیوانگی کی حد تک چائے سے محبت کرتے دیکھا ہے – موسم اچھا ہے تو چائے، برا ہے تو چائے سردی میں حرارت کے لیے اور گرمیوں تپتی دوپہروں میں اس لیے کہ اس طبقے کا ایمان ہے کہ چائے پیاس کی شدت کو کم کرتی. , جسم بے چین ہے تو چائے کی ضرورت. بہت سکون سے بیٹھے ہوں تو چائے. مصروفیت کی تھکن کو کم کرنے کے لیے چائے اور کامل فراغت ہے تو چائے , نہ ملے چائے تو سر درد – مل جائے تو کیف. ان کے لیے چائے کی طلب ایسے جیسے مرنے والا زندگی چاہتا ہو -چاۓ جہاں جسمانی تھکاوٹ دور کرتی ہے وہاں روح کو بھی کسی حد تک سکون بخشتی ہے. نہ جانے اس میں ایسا کیا ہے کہ تھکن جسمانی ہو یا ذہنی، اس کا ایک کپ انسان کو تازہ دم کرکے عملی زندگی کے تلخ حقائق کا مقابلہ کرنے کے قابل بنادیتا ہے
ویسے دیکھا جاے تو چائے ایک نشہ ہے عادت ہے اور عادت تو پھر عادت ہوتی ہے نا صاحب. چاہے چائے کی ہو یا کسی اور چیز کی یا کسی انسان کی اور عادت چھوڑنا جان جوکھوں کا کام ہے روح بھی تڑپتی ہے جسم بھی سلگتا ہے –
چائے تقریباً پوری دنیا میں شوق سے پی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے. بی بی سی کا تو خیال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چائے پاکستان میں پی جاتی ہے. وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستانی لوگ دنیا کے دیگر خطوں کے لوگوں کی طرح ” غیر شرعی” مشروبات سے ذرا پرہیز ہی کرتے ہیں. اور شرعی مشروبات میں یہ ایسا مشروب ہے جو پاکستانیوں کی ہر “مشروباتی” طلب کی تسکین کردیتا ہے. ہر عمر کے لوگ ہر موسم میں چائے پیتے ہیں, اور جو چائے نہیں پیتا اس پر بہت حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے – اس خطے کے لوگوں نے چائے کے لیے اپنے مقامی مشروبات ترک کردیے. کبھی مہمان کی تواضع لہسی پانی سے ہوتی تھی اور اب چائے پانی سے. صورت حال تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آپ مہمان کو سونے کا نوالہ کھلائیں لیکن اگر چائے نہیں پلائی تو تواضع ادھوری سمجھی جائے گی بلکہ ممکن ہے کہ سرے سے خاطر تواضع کو تسلیم ہی نہ کیا جائے. چینی لوگوں کے نزدیک چائے کے بغیر کوئی سماجی سرگرمی مکمل نہیں ان کے خیال میں شراب اکیلے میں پینی چاہیے اور چائے سب کے ساتھ –
چائے کئی طریقوں سے پی جاتی ہے. کچھ لوگوں کے نزدیک چائے کا مطلب پانی اور پتی کا آمیزہ ہے. البتہ بقدر اشک بلبل دوددھ کی تہمت سی لگی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں , دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دودھ. پتی اور شکر کا ملغوبہ بنا کے پی جاتے ہیں – بعضے تو الائچی، سونف، ادرک اور دار چینی کا اضافہ بھی کر لیتے ہیں. کچھ کے نزدیک چائے کی سطح پر موٹی ملائی بھی اس کی خوبیوں میں سے ہے. ایک طبقہ وہ بھی ہے جو چائے کو محض مٹھاس کے لیے پیتا ہے. اس طبقے سے آپ بھی یقیناً واقف ہوں گے کیونکہ ہمارے پنجاب میں سب سے نمایاں طبقہ یہی ہے. ہمارے ایک عزیز ہیں. اگر انھیں چائے کے ساتھ مٹھائی پیش کی جائے تو پہلے چائے نوش فرماتے ہیں بعد میں مٹھائی چکھتے ہیں. اس ترتیب کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ ” مٹھائی کے بعد چائے پئیں تو چائے پھیکی محسوس ہوتی ہے” اور پھیکی چائے ان کے نزدیک حرام نہ بھی ہو تو مکروہ ضرور ہے . ایک دوست سے اگر غلطی سے پوچھ لیں کہ ” چائے میں کتنی شکر؟” بہت مختصر اور بلیغ جواب دیتے ہیں کہ” حسب توفیق ” ان صاحب کے بارے میں تو آپ نے بھی سنا ہوگا جو فرماتے ہیں کہ چائے میں شکر اتنی ہو کہ گھونٹ لیتے ہی دونوں ہونٹ آپس میں چپک جائیں.
اردو کے صاحب طرز ادیب ابوالکلام آزاد نے تو چائے کو بہت گلیمرایز کر دیا. چائے بنانےاور پینے کے جو آداب آپ نے بتاے ہیں وہ ہم پنجابی تو کبھی نہیں اپنا سکتے – آزاد نے چائے کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ کوئی کاہے کو اپنی محبوبہ کا ذکر کرے گا – ان کا بس نہیں چلا ورنہ وہ جنت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں کے متوازی چائے کی نہر جاری کروا دیتے. سنا ہے جنتی کی ہر خواہش پوری کی جائے گی. ہمارا خیال ہے کہ ایسا ہوا تو مرحوم کی ایک خواہش تو وہ چائے ہوگی جس کے ذکر سے ” غبار خاطر” بھری پڑی ہے. سچ پوچھیں تو یہ کتاب چائے کا اشتہار معلوم ہوتی ہے – اگر نہیں یقین تو پیراگراف ملاحضہ فرمائیے —-لکھتے ہیں کہ
چائے بہت لطیف ہے چین کی بہترین قسموں میں سے ہے رنگ اس قدر ہلکا کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جاے کیف اس قدر تند کہ بلا مبالغہ اس کا ہر فنجان قآنی کی رطل گراں کی یاد تازہ کرے –
انہوں نے چائے کی لطافت کو تمباکو کی تندی تلخی سے ملا کر ایک پر کیف مرکب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے – آزاد چائے کے ساتھ سگریٹ سلگا لیا کرتے اور ایک گھونٹ چائے کے ساتھ ایک کش لگا لیا کرتے , انہوں نے چائے کو خود ساختہ عادت اور زندگی کی غلطیوں میں شمار کیا ہے -ظاہر ہے روزگارِ خراب میں زندگی کو رنگین رکھنے کے لیے کچھ غلطیاں تو کرنی ہی پڑتی ہیں وہ زندگی ہی کیا جس کے دامن خشک کو غلطیوں سے تر نا کیا جا سکے وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر محروم ہو –
ذاتی طور پر ہم خود چائے نہیں پیتے مگر اس کی مخالفت بھی نہیں کرسکتے. اس سے محبت کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ مخالفت سے زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے. یہ نہ ہو تو کم از کم ہمیں فاطر العقل کے اعزاز سے تو نواز ہی دیا جائے گا. ہمارے یہاں تو چائے سے اخلاق کی پرکھ ہوتی ہے. ذہانت تو گویا ہے ہی چائے کی مرہون منت. ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگوں کو بتا دیا جائے کہ سقراط اور افلاطون چائے نہیں پیا کرتے تھے تو ان کی دانائی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا. یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ہمارے ایک محترم استاد نے ایک اچھے بھلے شاعر کو صرف اس لیے مسترد کر دیا کہ وہ چائے نہیں پیتا. سو ہم چائے کی مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے. زیر نظر تحریر میں اگر کہیں کوئی ایک آدھ جملہ عاشقانِ چائے کو نامناسب لگے تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز فرمادیں
چائے کا کپ محض ایک مشروب کی پیالی نہیں ہے بلکہ ایک نسخہ ہے خود سے ملنے کا , ماضی سے ملنے کا, بھولی بسری یادوں میں کھو جانے. مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا. غم بھلانے کا، غموں کو تازہ رکھنے کا.
ویسے کیا چیز ہے یہ چائے ؟؟ لوگ اس کے نام پہ ملتے ہیں, ملاقات رکھی جاتی ہے, دور دراز سے لوگ چائے کے ایک کپ پہ چلے آتے ہیں, اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے. دنیا کے بہت سے مسائل اوور اے کپ آف ٹی حل ہو جاتے ہیں تو اوور اے کپ آف ٹی بہت سے مسائل پیدابھی ہوجاتے ہیں میری مراد شادی بیاہ کے معاملات سے ہے. دیکھا جائے تو مے خانے کے بعد چائے کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے نام پر ” خانہ” بنا ہے. انگریزوں کے کافی ہاوس سے ہمیں کیا لینا دینا. یہ اتنا اہم مشروب ہے کہ کسی کھیل میں کھیل کو یا تو پانی پینے کے لیے روکا جاتا ہے یا کھیل میں چائے کا وقفہ ہوتا ہے اور کسی مشروب کو یہ اعزاز کم از کم ہماری معلومات تک تو حاصل نہیں.
کچھ لوگوں کو دیوانگی کی حد تک چائے سے محبت کرتے دیکھا ہے – موسم اچھا ہے تو چائے، برا ہے تو چائے سردی میں حرارت کے لیے اور گرمیوں تپتی دوپہروں میں اس لیے کہ اس طبقے کا ایمان ہے کہ چائے پیاس کی شدت کو کم کرتی. , جسم بے چین ہے تو چائے کی ضرورت. بہت سکون سے بیٹھے ہوں تو چائے. مصروفیت کی تھکن کو کم کرنے کے لیے چائے اور کامل فراغت ہے تو چائے , نہ ملے چائے تو سر درد – مل جائے تو کیف. ان کے لیے چائے کی طلب ایسے جیسے مرنے والا زندگی چاہتا ہو -چاۓ جہاں جسمانی تھکاوٹ دور کرتی ہے وہاں روح کو بھی کسی حد تک سکون بخشتی ہے. نہ جانے اس میں ایسا کیا ہے کہ تھکن جسمانی ہو یا ذہنی، اس کا ایک کپ انسان کو تازہ دم کرکے عملی زندگی کے تلخ حقائق کا مقابلہ کرنے کے قابل بنادیتا ہے
ویسے دیکھا جاے تو چائے ایک نشہ ہے عادت ہے اور عادت تو پھر عادت ہوتی ہے نا صاحب. چاہے چائے کی ہو یا کسی اور چیز کی یا کسی انسان کی اور عادت چھوڑنا جان جوکھوں کا کام ہے روح بھی تڑپتی ہے جسم بھی سلگتا ہے –
چائے تقریباً پوری دنیا میں شوق سے پی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے. بی بی سی کا تو خیال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چائے پاکستان میں پی جاتی ہے. وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاکستانی لوگ دنیا کے دیگر خطوں کے لوگوں کی طرح ” غیر شرعی” مشروبات سے ذرا پرہیز ہی کرتے ہیں. اور شرعی مشروبات میں یہ ایسا مشروب ہے جو پاکستانیوں کی ہر “مشروباتی” طلب کی تسکین کردیتا ہے. ہر عمر کے لوگ ہر موسم میں چائے پیتے ہیں, اور جو چائے نہیں پیتا اس پر بہت حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے – اس خطے کے لوگوں نے چائے کے لیے اپنے مقامی مشروبات ترک کردیے. کبھی مہمان کی تواضع لہسی پانی سے ہوتی تھی اور اب چائے پانی سے. صورت حال تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آپ مہمان کو سونے کا نوالہ کھلائیں لیکن اگر چائے نہیں پلائی تو تواضع ادھوری سمجھی جائے گی بلکہ ممکن ہے کہ سرے سے خاطر تواضع کو تسلیم ہی نہ کیا جائے. چینی لوگوں کے نزدیک چائے کے بغیر کوئی سماجی سرگرمی مکمل نہیں ان کے خیال میں شراب اکیلے میں پینی چاہیے اور چائے سب کے ساتھ –
چائے کئی طریقوں سے پی جاتی ہے. کچھ لوگوں کے نزدیک چائے کا مطلب پانی اور پتی کا آمیزہ ہے. البتہ بقدر اشک بلبل دوددھ کی تہمت سی لگی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں , دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دودھ. پتی اور شکر کا ملغوبہ بنا کے پی جاتے ہیں – بعضے تو الائچی، سونف، ادرک اور دار چینی کا اضافہ بھی کر لیتے ہیں. کچھ کے نزدیک چائے کی سطح پر موٹی ملائی بھی اس کی خوبیوں میں سے ہے. ایک طبقہ وہ بھی ہے جو چائے کو محض مٹھاس کے لیے پیتا ہے. اس طبقے سے آپ بھی یقیناً واقف ہوں گے کیونکہ ہمارے پنجاب میں سب سے نمایاں طبقہ یہی ہے. ہمارے ایک عزیز ہیں. اگر انھیں چائے کے ساتھ مٹھائی پیش کی جائے تو پہلے چائے نوش فرماتے ہیں بعد میں مٹھائی چکھتے ہیں. اس ترتیب کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ ” مٹھائی کے بعد چائے پئیں تو چائے پھیکی محسوس ہوتی ہے” اور پھیکی چائے ان کے نزدیک حرام نہ بھی ہو تو مکروہ ضرور ہے . ایک دوست سے اگر غلطی سے پوچھ لیں کہ ” چائے میں کتنی شکر؟” بہت مختصر اور بلیغ جواب دیتے ہیں کہ” حسب توفیق ” ان صاحب کے بارے میں تو آپ نے بھی سنا ہوگا جو فرماتے ہیں کہ چائے میں شکر اتنی ہو کہ گھونٹ لیتے ہی دونوں ہونٹ آپس میں چپک جائیں.
اردو کے صاحب طرز ادیب ابوالکلام آزاد نے تو چائے کو بہت گلیمرایز کر دیا. چائے بنانےاور پینے کے جو آداب آپ نے بتاے ہیں وہ ہم پنجابی تو کبھی نہیں اپنا سکتے – آزاد نے چائے کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ کوئی کاہے کو اپنی محبوبہ کا ذکر کرے گا – ان کا بس نہیں چلا ورنہ وہ جنت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں کے متوازی چائے کی نہر جاری کروا دیتے. سنا ہے جنتی کی ہر خواہش پوری کی جائے گی. ہمارا خیال ہے کہ ایسا ہوا تو مرحوم کی ایک خواہش تو وہ چائے ہوگی جس کے ذکر سے ” غبار خاطر” بھری پڑی ہے. سچ پوچھیں تو یہ کتاب چائے کا اشتہار معلوم ہوتی ہے – اگر نہیں یقین تو پیراگراف ملاحضہ فرمائیے —-لکھتے ہیں کہ
چائے بہت لطیف ہے چین کی بہترین قسموں میں سے ہے رنگ اس قدر ہلکا کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جاے کیف اس قدر تند کہ بلا مبالغہ اس کا ہر فنجان قآنی کی رطل گراں کی یاد تازہ کرے –
انہوں نے چائے کی لطافت کو تمباکو کی تندی تلخی سے ملا کر ایک پر کیف مرکب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے – آزاد چائے کے ساتھ سگریٹ سلگا لیا کرتے اور ایک گھونٹ چائے کے ساتھ ایک کش لگا لیا کرتے , انہوں نے چائے کو خود ساختہ عادت اور زندگی کی غلطیوں میں شمار کیا ہے -ظاہر ہے روزگارِ خراب میں زندگی کو رنگین رکھنے کے لیے کچھ غلطیاں تو کرنی ہی پڑتی ہیں وہ زندگی ہی کیا جس کے دامن خشک کو غلطیوں سے تر نا کیا جا سکے وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر محروم ہو –
ذاتی طور پر ہم خود چائے نہیں پیتے مگر اس کی مخالفت بھی نہیں کرسکتے. اس سے محبت کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ مخالفت سے زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے. یہ نہ ہو تو کم از کم ہمیں فاطر العقل کے اعزاز سے تو نواز ہی دیا جائے گا. ہمارے یہاں تو چائے سے اخلاق کی پرکھ ہوتی ہے. ذہانت تو گویا ہے ہی چائے کی مرہون منت. ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگوں کو بتا دیا جائے کہ سقراط اور افلاطون چائے نہیں پیا کرتے تھے تو ان کی دانائی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا. یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ہمارے ایک محترم استاد نے ایک اچھے بھلے شاعر کو صرف اس لیے مسترد کر دیا کہ وہ چائے نہیں پیتا. سو ہم چائے کی مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے. زیر نظر تحریر میں اگر کہیں کوئی ایک آدھ جملہ عاشقانِ چائے کو نامناسب لگے تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز فرمادیں