Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کورونا وائرس نے جو فساد زمین پر مچا رکھا ہے اس کے فائدے نقصانات سے کہیں زیادہ، کہیں بڑھ کر ہیں۔ مثلاً حادثات، چوری ڈکیتی، قتل، اغوا، بھتا خوری، رشوت ستانی اور ایسے ہی کتنے جرائم ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریب غربا پہ جو گزر رہی ہے اس کا حال تو وہی جانیں ہم اس لیے نہیں جانتے کہ ہاکر نے اخبار دینا بند کردیا ہے۔ اخبار نہ پڑھنے سے ہماری ذہنی صحت اچھی ہوگئی ہے۔ ماسی اور ملازم نے بھی گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا اپنے کپڑے اور باورچی خانے کے برتن دھونا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ اس سے کھلا کہ لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھی ہمیں کچھ آتا ہے۔ پہلے دھلے دھلائے استری شدہ کپڑے مل جاتے تھے، جھوٹے برتن بھی میز پر چھوڑ دینے کی عادت تھی تو اس کورونا نے ہمیں اشرف المخلوقات کے معنی سمجھا دیے۔ یہ معنی کہ مخلوقات میں ہم اشرف و افضل اس لیے ہیں کہ ہم کپڑے پہنتے اور برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ حیوان یعنی دیگر مخلوق ایسا نہیں کرتی۔ چوں کہ وہ ایسا نہہیں کرتی اس لیے وہ انسانوں کے مقابلے میں اعلیٰ و برتر نہیں ہے۔ تو کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے سے ہم چھوٹے نہیں ہوجاتے بلکہ اس عمل سے ہم مرتبہ انسانیت پر فائز ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو جو ایسا کرتے ہیں مثلاً ماسی اور ملازم وغیرہ تو ہمارے مقابلے میں وہی بہتر انسان ہیں اور وہی صحیح معنوں میں مرتبہ انسانیت پر براجمان ہیں۔ فرق ہم میں اور ان میں ہے تو فقط یہ کہ وہ اپنی انسانیت کے اظہار کا معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ہم آج کل جو یہ کام کررہے ہیں وہ مفت میں کررہے ہیں، ہمارا مختانہ یہ ہے کہ بیگم صاحبہ اور بچوں کی نظروں میں سرخرو ہیں۔ سرخروئی بھی اہل خانہ کی نظروں میں ایک طرح کا معاوضہ ہی ہے۔ آدمی زندگی میں کتنے ہی کام اسی لیے کرتا ہے کہ دوسروں کی نظروں میں سرخرو اور پسندیدہ ٹھیرے۔ بلکہ زیادہ تر کام جو مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے لیے کیے جاتے ہیں وہ اسی ذیل میں آتے ہیں۔ کوئی اسپتال اور شفا خانہ بناتا ہے، کوئی بیوہ عورتوں اور لاوارثوں کے لیے سر چھپانے کے ٹھکانے تعمیر کرتا ہے، کوئی دوپہر اور رات کو مفت کا دستر خوان بچھاتا ہے، یا اسی طرح کے کوئی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کرتا ہے تو خواہش پیچھے یہی ہوتی ہے کہ اُسے نیک، بھلا مانس اور سخی داتا سمجھا جائے۔ حکومت بھی عوام سے شفقت و محبت کا معاملہ کرتی ہے تو اسی لیے کہ اسے اچھی اور مقبول حکومت کا تمغا عوام سے ملے۔ یوں غور کیا جائے تو زندگی کے جملہ کام خواہ ان کا تعلق کھیل کود اور ادب و آرٹ اور فنون لطیفہ سے ہو یا کسی فلاحی رفاہی سرگرمی سے، ہر ایک کے پیچھے مقصد ایک ہی ہوتا ہے، سرخروئی، شہرت و مقبولیت اور ہردلعزیزی اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ہر کام کسی نہ کسی مقصد سے وابستہ ہوتا ہے۔ مقصد نہ ہو تو کوئی کچھ کرے ہی کیوں۔ یہ جو ہمارے اللہ میاں ہیں انہوں نے بھی یہ دنیا بنائی اور ہم انسانوں کو خلق کیا تو مقصد یہی تھا کہ انہیں پہچانا جائے اور پہچان کر ان کی عبادت کی جائے۔ اب ہم انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اللہ میاں کو پہچانتے تو ہیں اور اس کی عبادت بھی حسب توفیق کرلیتے ہیں یہ الگ بات کہ ہم عبادت کرکے دل میں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمیں نمازی یا عبادت گزار سمجھا جائے یعنی وہی دوسروں کی نظروں میں سرخرو ہونا۔ حج کریں یا عمرہ، بیوائوں کی مدد کریں یا ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں، اس کا صلہ اللہ میاں سے مانگنے کے بجائے اس کے بندوں ہی سے چاہتے ہیں۔ اللہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کی آرزو ہو تو ایسے کام بابرکت ہوتے ہیں اور جو اچھا بننے یا اچھا کہلانے کے لیے کیا جائے تو ثواب تو پھر بھی ملتا ہوگا۔ لیکن اس میں دکھاوا اور نمائش کا پہلو آجانے سے شاید وہ اس طرح بابرکت نہیں رہتا۔ اب یہ بابرکت اور بے برکت کا معاملہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے، اسے سمجھانا آسان نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ تھوڑے میں زیادہ ہوجانا ہی برکت ہے۔ آپ کسی چوکیدار، کسی چپراسی یا ایسے ہی کسی غریب آدمی سے پوچھیں کہ بھائی تم اتنی چھوٹی سی تنخواہ میں آٹھ دس افراد گزرہ کیسے کرلیتے ہو۔ وہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہے گا ’’وہ گزارا کراتا ہے‘‘۔ یعنی آٹھ دس ہزار کی آمدنی میں اتنے لوگ جو پلتے ہیں تو اسی لیے کہ پالنے والا وہ ہے جو نیلے آسمان پہ ہے۔ اور وہ پالتا ہے اپنی برکت کے کرشمے سے۔ کرشمہ یہ کہ ایک روپیہ دس روپے کے برابر ہوجاتا ہے، دس روپے میں بیس روپے کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ اور ایسا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ ہمارا یہ قرض زدہ ملک بھی اسی برکت سے چل رہا ہے جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ حکومت غریب ہے مگر حکومت چلانے والے خوشحال ہیں۔ ہم قرض پہ قرض لیے جاتے ہیں اور قرضوں میں ڈوب کر بھی دیوالیہ نہیں ہوتے۔ سارے ترقیاتی اور تعمیراتی کام بھلے طریقے سے چل رہے ہیں اور اس لیے چل رہے ہیں کہ چلانے والا چلا رہا ہے۔ دیکھیے کورونا وائرس کے فائدوں سے بات چلی اور پھیل کر کہاں پہنچ گئی۔ کورونا وائرس سے اوروں کو شکایت ہو تو ہو، ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے، اس لیے کہ الحمدللہ اس وبا سے جتنے لوگ مر رہے ہیں وبا سے پہلے زیادہ لوگ مرجاتے تھے۔ حادثات میں، قتل و خون ریزی میں، تصادم اور لڑائی بھڑائی میں۔ اپنی بیروزگاری کا گلہ دہاڑی کے مزدوروں ہی کو نہیں، قبرستان کے گورکنوں کو بھی ہے کہ بھائی پہلے آٹھ دس میت روزانہ کا معمول تھا، اب تو کوئی دفن ہونے ہی نہیں آتا۔ کہتے ہیں بعض ملکوں میں اسپتال میں کورونا جرثومے کے مریضوں کے لیے جگہ نہیں رہی، قبرستان بھی بھر چکے ہیں۔ ہمیں اس کا یقین نہیں کہ ایسا ہوگا۔ اس لیے کہ اول تو کورونا میں اموات کا تناسب وہ نہیں جو ماضی میں آنے والے عظیم طاعون میں تھا کہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوگئے۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے لیکن قبرستانوں میں تدفین جاری رہی۔ کورونا میں مرنے والوں کی تعداد تو ابھی ایک ڈیڑھ لاکھ بھی نہیں پہنچی تو قبرستانوں میں گنجائش کیسے ختم ہوگئی۔ یہ جو بیمار پڑنے والوں اور لقمہ اجل ہوجانے والوں کا حساب کتاب ہے ہمیں تو اسی پہ شبہ ہے۔ دنیا میں کون سا ادارہ ہے جو میڈیا کو بیماروں اور مرنے والوں کے اعداد و شمار فراہم کررہا ہے۔ کبھی اس ذریعے کا کسی اطلاع کے ساتھ حوالہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ کیا دنیا بھر کے اسپتال یہ اعداد و شمار فراہم کررہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان اسپتالوں نے اعداد و شمار فراہم کرنے والوں کا کوئی عملہ رکھ چھوڑا ہے۔ ہمارے ملک کے اسپتالوں میں تو ایسا کوئی عملہ نہیں تو پھر ہمارے اپنے ملک میں یہ اعداد و شمار کون فراہم کررہا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بیماروں اور مرنے والوں کے وجود سے انکار کررہے ہیں۔ ہمیں ہمارا کہنا فقط اتنا ہے کہ حقائق بتانے میں مبالغے سے کام لیا جارہا ہے اور جو کچھ بتایا جارہا ہے اس میں تحقیق و تفتیش کا پہلو ہر حال ایک سوالیہ نشان ہے۔ کورونا وائرس کے اثرات پر تجزیہ کر حضرات جو تجزیے پیش کررہے ہیں ان میں بھی اندازے اور قیاس آرائی کا پہلو غالب ہے۔ سب سے بڑھ کر حقائق کے مقابلے میں افواہ سازی کا کارخانہ زیادہ تیزی سے چل رہا ہے۔ ہماری زبان کا وہ محاورہ کہ کوّا کان لے اڑا سن کر کوّے کے پیچھے آنکھیں بند کرکے دوڑ لگا دینا اور کانوں کو نہ ٹٹولنا ہی موجودہ صورت حال پہ صادق آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اعصاب کو مضبوط بنائیں۔ جرثومے سے بچنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں اس پر پوری طرح عمل کریں لیکن وہ خوف و ہراس جو پھیلا دیا گیا ہے اس میں بھی مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کچھ دن گھر میں قیام، گھر کے کام کاج میں ہم جیسوں کی دل چسپی اور احباب و رشتہ داروں سے فاصلہ کیا، عجب کہ اس یکسانیت سے ہمیں چھٹکارہ دلا دے جو عادت بن کر ہمیں ڈیپریشن، مایوسی اور اضمحلال سے دوچار کرتی تھی۔ کورونا وائرس وبا ضرور ہے لیکن اس وبا سے اللہ نے چاہا تو شر نہیں خیر کے پہلو ہی برآمد ہوں گے۔ لیکن ایسا تو اسی وقت ہوگا جب ہم برافروختہ نہ ہوں۔ شکوک و شبہات، بے یقینی اور طرح طرح کے وسوسوں کو پالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ یقین اور اعتماد رکھیں کہ وہ جو رحمان اور رحیم ہے، اس نے بڑے پیار سے انسانوں کو اور اس دنیا کو خلق کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ آج کا انسان اندر سے کتنا دکھی اور پریشان حال ہے، وہ اسے مزید ابتر و دکھیارا نہیں کرے گا۔ گھر میں رہ کر گھر کو اچھا بنائیں اسی سے یہ دنیا اچھی ہوگی چاہے جتنے دنوں میں بھی ہو۔
کورونا وائرس نے جو فساد زمین پر مچا رکھا ہے اس کے فائدے نقصانات سے کہیں زیادہ، کہیں بڑھ کر ہیں۔ مثلاً حادثات، چوری ڈکیتی، قتل، اغوا، بھتا خوری، رشوت ستانی اور ایسے ہی کتنے جرائم ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریب غربا پہ جو گزر رہی ہے اس کا حال تو وہی جانیں ہم اس لیے نہیں جانتے کہ ہاکر نے اخبار دینا بند کردیا ہے۔ اخبار نہ پڑھنے سے ہماری ذہنی صحت اچھی ہوگئی ہے۔ ماسی اور ملازم نے بھی گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا اپنے کپڑے اور باورچی خانے کے برتن دھونا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ اس سے کھلا کہ لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھی ہمیں کچھ آتا ہے۔ پہلے دھلے دھلائے استری شدہ کپڑے مل جاتے تھے، جھوٹے برتن بھی میز پر چھوڑ دینے کی عادت تھی تو اس کورونا نے ہمیں اشرف المخلوقات کے معنی سمجھا دیے۔ یہ معنی کہ مخلوقات میں ہم اشرف و افضل اس لیے ہیں کہ ہم کپڑے پہنتے اور برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ حیوان یعنی دیگر مخلوق ایسا نہیں کرتی۔ چوں کہ وہ ایسا نہہیں کرتی اس لیے وہ انسانوں کے مقابلے میں اعلیٰ و برتر نہیں ہے۔ تو کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے سے ہم چھوٹے نہیں ہوجاتے بلکہ اس عمل سے ہم مرتبہ انسانیت پر فائز ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو جو ایسا کرتے ہیں مثلاً ماسی اور ملازم وغیرہ تو ہمارے مقابلے میں وہی بہتر انسان ہیں اور وہی صحیح معنوں میں مرتبہ انسانیت پر براجمان ہیں۔ فرق ہم میں اور ان میں ہے تو فقط یہ کہ وہ اپنی انسانیت کے اظہار کا معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ہم آج کل جو یہ کام کررہے ہیں وہ مفت میں کررہے ہیں، ہمارا مختانہ یہ ہے کہ بیگم صاحبہ اور بچوں کی نظروں میں سرخرو ہیں۔ سرخروئی بھی اہل خانہ کی نظروں میں ایک طرح کا معاوضہ ہی ہے۔ آدمی زندگی میں کتنے ہی کام اسی لیے کرتا ہے کہ دوسروں کی نظروں میں سرخرو اور پسندیدہ ٹھیرے۔ بلکہ زیادہ تر کام جو مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے لیے کیے جاتے ہیں وہ اسی ذیل میں آتے ہیں۔ کوئی اسپتال اور شفا خانہ بناتا ہے، کوئی بیوہ عورتوں اور لاوارثوں کے لیے سر چھپانے کے ٹھکانے تعمیر کرتا ہے، کوئی دوپہر اور رات کو مفت کا دستر خوان بچھاتا ہے، یا اسی طرح کے کوئی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کرتا ہے تو خواہش پیچھے یہی ہوتی ہے کہ اُسے نیک، بھلا مانس اور سخی داتا سمجھا جائے۔ حکومت بھی عوام سے شفقت و محبت کا معاملہ کرتی ہے تو اسی لیے کہ اسے اچھی اور مقبول حکومت کا تمغا عوام سے ملے۔ یوں غور کیا جائے تو زندگی کے جملہ کام خواہ ان کا تعلق کھیل کود اور ادب و آرٹ اور فنون لطیفہ سے ہو یا کسی فلاحی رفاہی سرگرمی سے، ہر ایک کے پیچھے مقصد ایک ہی ہوتا ہے، سرخروئی، شہرت و مقبولیت اور ہردلعزیزی اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ہر کام کسی نہ کسی مقصد سے وابستہ ہوتا ہے۔ مقصد نہ ہو تو کوئی کچھ کرے ہی کیوں۔ یہ جو ہمارے اللہ میاں ہیں انہوں نے بھی یہ دنیا بنائی اور ہم انسانوں کو خلق کیا تو مقصد یہی تھا کہ انہیں پہچانا جائے اور پہچان کر ان کی عبادت کی جائے۔ اب ہم انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اللہ میاں کو پہچانتے تو ہیں اور اس کی عبادت بھی حسب توفیق کرلیتے ہیں یہ الگ بات کہ ہم عبادت کرکے دل میں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمیں نمازی یا عبادت گزار سمجھا جائے یعنی وہی دوسروں کی نظروں میں سرخرو ہونا۔ حج کریں یا عمرہ، بیوائوں کی مدد کریں یا ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں، اس کا صلہ اللہ میاں سے مانگنے کے بجائے اس کے بندوں ہی سے چاہتے ہیں۔ اللہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کی آرزو ہو تو ایسے کام بابرکت ہوتے ہیں اور جو اچھا بننے یا اچھا کہلانے کے لیے کیا جائے تو ثواب تو پھر بھی ملتا ہوگا۔ لیکن اس میں دکھاوا اور نمائش کا پہلو آجانے سے شاید وہ اس طرح بابرکت نہیں رہتا۔ اب یہ بابرکت اور بے برکت کا معاملہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے، اسے سمجھانا آسان نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ تھوڑے میں زیادہ ہوجانا ہی برکت ہے۔ آپ کسی چوکیدار، کسی چپراسی یا ایسے ہی کسی غریب آدمی سے پوچھیں کہ بھائی تم اتنی چھوٹی سی تنخواہ میں آٹھ دس افراد گزرہ کیسے کرلیتے ہو۔ وہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہے گا ’’وہ گزارا کراتا ہے‘‘۔ یعنی آٹھ دس ہزار کی آمدنی میں اتنے لوگ جو پلتے ہیں تو اسی لیے کہ پالنے والا وہ ہے جو نیلے آسمان پہ ہے۔ اور وہ پالتا ہے اپنی برکت کے کرشمے سے۔ کرشمہ یہ کہ ایک روپیہ دس روپے کے برابر ہوجاتا ہے، دس روپے میں بیس روپے کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ اور ایسا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ ہمارا یہ قرض زدہ ملک بھی اسی برکت سے چل رہا ہے جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ حکومت غریب ہے مگر حکومت چلانے والے خوشحال ہیں۔ ہم قرض پہ قرض لیے جاتے ہیں اور قرضوں میں ڈوب کر بھی دیوالیہ نہیں ہوتے۔ سارے ترقیاتی اور تعمیراتی کام بھلے طریقے سے چل رہے ہیں اور اس لیے چل رہے ہیں کہ چلانے والا چلا رہا ہے۔ دیکھیے کورونا وائرس کے فائدوں سے بات چلی اور پھیل کر کہاں پہنچ گئی۔ کورونا وائرس سے اوروں کو شکایت ہو تو ہو، ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے، اس لیے کہ الحمدللہ اس وبا سے جتنے لوگ مر رہے ہیں وبا سے پہلے زیادہ لوگ مرجاتے تھے۔ حادثات میں، قتل و خون ریزی میں، تصادم اور لڑائی بھڑائی میں۔ اپنی بیروزگاری کا گلہ دہاڑی کے مزدوروں ہی کو نہیں، قبرستان کے گورکنوں کو بھی ہے کہ بھائی پہلے آٹھ دس میت روزانہ کا معمول تھا، اب تو کوئی دفن ہونے ہی نہیں آتا۔ کہتے ہیں بعض ملکوں میں اسپتال میں کورونا جرثومے کے مریضوں کے لیے جگہ نہیں رہی، قبرستان بھی بھر چکے ہیں۔ ہمیں اس کا یقین نہیں کہ ایسا ہوگا۔ اس لیے کہ اول تو کورونا میں اموات کا تناسب وہ نہیں جو ماضی میں آنے والے عظیم طاعون میں تھا کہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوگئے۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے لیکن قبرستانوں میں تدفین جاری رہی۔ کورونا میں مرنے والوں کی تعداد تو ابھی ایک ڈیڑھ لاکھ بھی نہیں پہنچی تو قبرستانوں میں گنجائش کیسے ختم ہوگئی۔ یہ جو بیمار پڑنے والوں اور لقمہ اجل ہوجانے والوں کا حساب کتاب ہے ہمیں تو اسی پہ شبہ ہے۔ دنیا میں کون سا ادارہ ہے جو میڈیا کو بیماروں اور مرنے والوں کے اعداد و شمار فراہم کررہا ہے۔ کبھی اس ذریعے کا کسی اطلاع کے ساتھ حوالہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ کیا دنیا بھر کے اسپتال یہ اعداد و شمار فراہم کررہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان اسپتالوں نے اعداد و شمار فراہم کرنے والوں کا کوئی عملہ رکھ چھوڑا ہے۔ ہمارے ملک کے اسپتالوں میں تو ایسا کوئی عملہ نہیں تو پھر ہمارے اپنے ملک میں یہ اعداد و شمار کون فراہم کررہا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بیماروں اور مرنے والوں کے وجود سے انکار کررہے ہیں۔ ہمیں ہمارا کہنا فقط اتنا ہے کہ حقائق بتانے میں مبالغے سے کام لیا جارہا ہے اور جو کچھ بتایا جارہا ہے اس میں تحقیق و تفتیش کا پہلو ہر حال ایک سوالیہ نشان ہے۔ کورونا وائرس کے اثرات پر تجزیہ کر حضرات جو تجزیے پیش کررہے ہیں ان میں بھی اندازے اور قیاس آرائی کا پہلو غالب ہے۔ سب سے بڑھ کر حقائق کے مقابلے میں افواہ سازی کا کارخانہ زیادہ تیزی سے چل رہا ہے۔ ہماری زبان کا وہ محاورہ کہ کوّا کان لے اڑا سن کر کوّے کے پیچھے آنکھیں بند کرکے دوڑ لگا دینا اور کانوں کو نہ ٹٹولنا ہی موجودہ صورت حال پہ صادق آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اعصاب کو مضبوط بنائیں۔ جرثومے سے بچنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں اس پر پوری طرح عمل کریں لیکن وہ خوف و ہراس جو پھیلا دیا گیا ہے اس میں بھی مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کچھ دن گھر میں قیام، گھر کے کام کاج میں ہم جیسوں کی دل چسپی اور احباب و رشتہ داروں سے فاصلہ کیا، عجب کہ اس یکسانیت سے ہمیں چھٹکارہ دلا دے جو عادت بن کر ہمیں ڈیپریشن، مایوسی اور اضمحلال سے دوچار کرتی تھی۔ کورونا وائرس وبا ضرور ہے لیکن اس وبا سے اللہ نے چاہا تو شر نہیں خیر کے پہلو ہی برآمد ہوں گے۔ لیکن ایسا تو اسی وقت ہوگا جب ہم برافروختہ نہ ہوں۔ شکوک و شبہات، بے یقینی اور طرح طرح کے وسوسوں کو پالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ یقین اور اعتماد رکھیں کہ وہ جو رحمان اور رحیم ہے، اس نے بڑے پیار سے انسانوں کو اور اس دنیا کو خلق کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ آج کا انسان اندر سے کتنا دکھی اور پریشان حال ہے، وہ اسے مزید ابتر و دکھیارا نہیں کرے گا۔ گھر میں رہ کر گھر کو اچھا بنائیں اسی سے یہ دنیا اچھی ہوگی چاہے جتنے دنوں میں بھی ہو۔
کورونا وائرس نے جو فساد زمین پر مچا رکھا ہے اس کے فائدے نقصانات سے کہیں زیادہ، کہیں بڑھ کر ہیں۔ مثلاً حادثات، چوری ڈکیتی، قتل، اغوا، بھتا خوری، رشوت ستانی اور ایسے ہی کتنے جرائم ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریب غربا پہ جو گزر رہی ہے اس کا حال تو وہی جانیں ہم اس لیے نہیں جانتے کہ ہاکر نے اخبار دینا بند کردیا ہے۔ اخبار نہ پڑھنے سے ہماری ذہنی صحت اچھی ہوگئی ہے۔ ماسی اور ملازم نے بھی گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا اپنے کپڑے اور باورچی خانے کے برتن دھونا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ اس سے کھلا کہ لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھی ہمیں کچھ آتا ہے۔ پہلے دھلے دھلائے استری شدہ کپڑے مل جاتے تھے، جھوٹے برتن بھی میز پر چھوڑ دینے کی عادت تھی تو اس کورونا نے ہمیں اشرف المخلوقات کے معنی سمجھا دیے۔ یہ معنی کہ مخلوقات میں ہم اشرف و افضل اس لیے ہیں کہ ہم کپڑے پہنتے اور برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ حیوان یعنی دیگر مخلوق ایسا نہیں کرتی۔ چوں کہ وہ ایسا نہہیں کرتی اس لیے وہ انسانوں کے مقابلے میں اعلیٰ و برتر نہیں ہے۔ تو کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے سے ہم چھوٹے نہیں ہوجاتے بلکہ اس عمل سے ہم مرتبہ انسانیت پر فائز ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو جو ایسا کرتے ہیں مثلاً ماسی اور ملازم وغیرہ تو ہمارے مقابلے میں وہی بہتر انسان ہیں اور وہی صحیح معنوں میں مرتبہ انسانیت پر براجمان ہیں۔ فرق ہم میں اور ان میں ہے تو فقط یہ کہ وہ اپنی انسانیت کے اظہار کا معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ہم آج کل جو یہ کام کررہے ہیں وہ مفت میں کررہے ہیں، ہمارا مختانہ یہ ہے کہ بیگم صاحبہ اور بچوں کی نظروں میں سرخرو ہیں۔ سرخروئی بھی اہل خانہ کی نظروں میں ایک طرح کا معاوضہ ہی ہے۔ آدمی زندگی میں کتنے ہی کام اسی لیے کرتا ہے کہ دوسروں کی نظروں میں سرخرو اور پسندیدہ ٹھیرے۔ بلکہ زیادہ تر کام جو مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے لیے کیے جاتے ہیں وہ اسی ذیل میں آتے ہیں۔ کوئی اسپتال اور شفا خانہ بناتا ہے، کوئی بیوہ عورتوں اور لاوارثوں کے لیے سر چھپانے کے ٹھکانے تعمیر کرتا ہے، کوئی دوپہر اور رات کو مفت کا دستر خوان بچھاتا ہے، یا اسی طرح کے کوئی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کرتا ہے تو خواہش پیچھے یہی ہوتی ہے کہ اُسے نیک، بھلا مانس اور سخی داتا سمجھا جائے۔ حکومت بھی عوام سے شفقت و محبت کا معاملہ کرتی ہے تو اسی لیے کہ اسے اچھی اور مقبول حکومت کا تمغا عوام سے ملے۔ یوں غور کیا جائے تو زندگی کے جملہ کام خواہ ان کا تعلق کھیل کود اور ادب و آرٹ اور فنون لطیفہ سے ہو یا کسی فلاحی رفاہی سرگرمی سے، ہر ایک کے پیچھے مقصد ایک ہی ہوتا ہے، سرخروئی، شہرت و مقبولیت اور ہردلعزیزی اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ہر کام کسی نہ کسی مقصد سے وابستہ ہوتا ہے۔ مقصد نہ ہو تو کوئی کچھ کرے ہی کیوں۔ یہ جو ہمارے اللہ میاں ہیں انہوں نے بھی یہ دنیا بنائی اور ہم انسانوں کو خلق کیا تو مقصد یہی تھا کہ انہیں پہچانا جائے اور پہچان کر ان کی عبادت کی جائے۔ اب ہم انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اللہ میاں کو پہچانتے تو ہیں اور اس کی عبادت بھی حسب توفیق کرلیتے ہیں یہ الگ بات کہ ہم عبادت کرکے دل میں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمیں نمازی یا عبادت گزار سمجھا جائے یعنی وہی دوسروں کی نظروں میں سرخرو ہونا۔ حج کریں یا عمرہ، بیوائوں کی مدد کریں یا ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں، اس کا صلہ اللہ میاں سے مانگنے کے بجائے اس کے بندوں ہی سے چاہتے ہیں۔ اللہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کی آرزو ہو تو ایسے کام بابرکت ہوتے ہیں اور جو اچھا بننے یا اچھا کہلانے کے لیے کیا جائے تو ثواب تو پھر بھی ملتا ہوگا۔ لیکن اس میں دکھاوا اور نمائش کا پہلو آجانے سے شاید وہ اس طرح بابرکت نہیں رہتا۔ اب یہ بابرکت اور بے برکت کا معاملہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے، اسے سمجھانا آسان نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ تھوڑے میں زیادہ ہوجانا ہی برکت ہے۔ آپ کسی چوکیدار، کسی چپراسی یا ایسے ہی کسی غریب آدمی سے پوچھیں کہ بھائی تم اتنی چھوٹی سی تنخواہ میں آٹھ دس افراد گزرہ کیسے کرلیتے ہو۔ وہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہے گا ’’وہ گزارا کراتا ہے‘‘۔ یعنی آٹھ دس ہزار کی آمدنی میں اتنے لوگ جو پلتے ہیں تو اسی لیے کہ پالنے والا وہ ہے جو نیلے آسمان پہ ہے۔ اور وہ پالتا ہے اپنی برکت کے کرشمے سے۔ کرشمہ یہ کہ ایک روپیہ دس روپے کے برابر ہوجاتا ہے، دس روپے میں بیس روپے کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ اور ایسا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ ہمارا یہ قرض زدہ ملک بھی اسی برکت سے چل رہا ہے جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ حکومت غریب ہے مگر حکومت چلانے والے خوشحال ہیں۔ ہم قرض پہ قرض لیے جاتے ہیں اور قرضوں میں ڈوب کر بھی دیوالیہ نہیں ہوتے۔ سارے ترقیاتی اور تعمیراتی کام بھلے طریقے سے چل رہے ہیں اور اس لیے چل رہے ہیں کہ چلانے والا چلا رہا ہے۔ دیکھیے کورونا وائرس کے فائدوں سے بات چلی اور پھیل کر کہاں پہنچ گئی۔ کورونا وائرس سے اوروں کو شکایت ہو تو ہو، ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے، اس لیے کہ الحمدللہ اس وبا سے جتنے لوگ مر رہے ہیں وبا سے پہلے زیادہ لوگ مرجاتے تھے۔ حادثات میں، قتل و خون ریزی میں، تصادم اور لڑائی بھڑائی میں۔ اپنی بیروزگاری کا گلہ دہاڑی کے مزدوروں ہی کو نہیں، قبرستان کے گورکنوں کو بھی ہے کہ بھائی پہلے آٹھ دس میت روزانہ کا معمول تھا، اب تو کوئی دفن ہونے ہی نہیں آتا۔ کہتے ہیں بعض ملکوں میں اسپتال میں کورونا جرثومے کے مریضوں کے لیے جگہ نہیں رہی، قبرستان بھی بھر چکے ہیں۔ ہمیں اس کا یقین نہیں کہ ایسا ہوگا۔ اس لیے کہ اول تو کورونا میں اموات کا تناسب وہ نہیں جو ماضی میں آنے والے عظیم طاعون میں تھا کہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوگئے۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے لیکن قبرستانوں میں تدفین جاری رہی۔ کورونا میں مرنے والوں کی تعداد تو ابھی ایک ڈیڑھ لاکھ بھی نہیں پہنچی تو قبرستانوں میں گنجائش کیسے ختم ہوگئی۔ یہ جو بیمار پڑنے والوں اور لقمہ اجل ہوجانے والوں کا حساب کتاب ہے ہمیں تو اسی پہ شبہ ہے۔ دنیا میں کون سا ادارہ ہے جو میڈیا کو بیماروں اور مرنے والوں کے اعداد و شمار فراہم کررہا ہے۔ کبھی اس ذریعے کا کسی اطلاع کے ساتھ حوالہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ کیا دنیا بھر کے اسپتال یہ اعداد و شمار فراہم کررہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان اسپتالوں نے اعداد و شمار فراہم کرنے والوں کا کوئی عملہ رکھ چھوڑا ہے۔ ہمارے ملک کے اسپتالوں میں تو ایسا کوئی عملہ نہیں تو پھر ہمارے اپنے ملک میں یہ اعداد و شمار کون فراہم کررہا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بیماروں اور مرنے والوں کے وجود سے انکار کررہے ہیں۔ ہمیں ہمارا کہنا فقط اتنا ہے کہ حقائق بتانے میں مبالغے سے کام لیا جارہا ہے اور جو کچھ بتایا جارہا ہے اس میں تحقیق و تفتیش کا پہلو ہر حال ایک سوالیہ نشان ہے۔ کورونا وائرس کے اثرات پر تجزیہ کر حضرات جو تجزیے پیش کررہے ہیں ان میں بھی اندازے اور قیاس آرائی کا پہلو غالب ہے۔ سب سے بڑھ کر حقائق کے مقابلے میں افواہ سازی کا کارخانہ زیادہ تیزی سے چل رہا ہے۔ ہماری زبان کا وہ محاورہ کہ کوّا کان لے اڑا سن کر کوّے کے پیچھے آنکھیں بند کرکے دوڑ لگا دینا اور کانوں کو نہ ٹٹولنا ہی موجودہ صورت حال پہ صادق آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اعصاب کو مضبوط بنائیں۔ جرثومے سے بچنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں اس پر پوری طرح عمل کریں لیکن وہ خوف و ہراس جو پھیلا دیا گیا ہے اس میں بھی مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کچھ دن گھر میں قیام، گھر کے کام کاج میں ہم جیسوں کی دل چسپی اور احباب و رشتہ داروں سے فاصلہ کیا، عجب کہ اس یکسانیت سے ہمیں چھٹکارہ دلا دے جو عادت بن کر ہمیں ڈیپریشن، مایوسی اور اضمحلال سے دوچار کرتی تھی۔ کورونا وائرس وبا ضرور ہے لیکن اس وبا سے اللہ نے چاہا تو شر نہیں خیر کے پہلو ہی برآمد ہوں گے۔ لیکن ایسا تو اسی وقت ہوگا جب ہم برافروختہ نہ ہوں۔ شکوک و شبہات، بے یقینی اور طرح طرح کے وسوسوں کو پالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ یقین اور اعتماد رکھیں کہ وہ جو رحمان اور رحیم ہے، اس نے بڑے پیار سے انسانوں کو اور اس دنیا کو خلق کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ آج کا انسان اندر سے کتنا دکھی اور پریشان حال ہے، وہ اسے مزید ابتر و دکھیارا نہیں کرے گا۔ گھر میں رہ کر گھر کو اچھا بنائیں اسی سے یہ دنیا اچھی ہوگی چاہے جتنے دنوں میں بھی ہو۔
کورونا وائرس نے جو فساد زمین پر مچا رکھا ہے اس کے فائدے نقصانات سے کہیں زیادہ، کہیں بڑھ کر ہیں۔ مثلاً حادثات، چوری ڈکیتی، قتل، اغوا، بھتا خوری، رشوت ستانی اور ایسے ہی کتنے جرائم ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریب غربا پہ جو گزر رہی ہے اس کا حال تو وہی جانیں ہم اس لیے نہیں جانتے کہ ہاکر نے اخبار دینا بند کردیا ہے۔ اخبار نہ پڑھنے سے ہماری ذہنی صحت اچھی ہوگئی ہے۔ ماسی اور ملازم نے بھی گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا اپنے کپڑے اور باورچی خانے کے برتن دھونا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ اس سے کھلا کہ لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھی ہمیں کچھ آتا ہے۔ پہلے دھلے دھلائے استری شدہ کپڑے مل جاتے تھے، جھوٹے برتن بھی میز پر چھوڑ دینے کی عادت تھی تو اس کورونا نے ہمیں اشرف المخلوقات کے معنی سمجھا دیے۔ یہ معنی کہ مخلوقات میں ہم اشرف و افضل اس لیے ہیں کہ ہم کپڑے پہنتے اور برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ حیوان یعنی دیگر مخلوق ایسا نہیں کرتی۔ چوں کہ وہ ایسا نہہیں کرتی اس لیے وہ انسانوں کے مقابلے میں اعلیٰ و برتر نہیں ہے۔ تو کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے سے ہم چھوٹے نہیں ہوجاتے بلکہ اس عمل سے ہم مرتبہ انسانیت پر فائز ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو جو ایسا کرتے ہیں مثلاً ماسی اور ملازم وغیرہ تو ہمارے مقابلے میں وہی بہتر انسان ہیں اور وہی صحیح معنوں میں مرتبہ انسانیت پر براجمان ہیں۔ فرق ہم میں اور ان میں ہے تو فقط یہ کہ وہ اپنی انسانیت کے اظہار کا معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ہم آج کل جو یہ کام کررہے ہیں وہ مفت میں کررہے ہیں، ہمارا مختانہ یہ ہے کہ بیگم صاحبہ اور بچوں کی نظروں میں سرخرو ہیں۔ سرخروئی بھی اہل خانہ کی نظروں میں ایک طرح کا معاوضہ ہی ہے۔ آدمی زندگی میں کتنے ہی کام اسی لیے کرتا ہے کہ دوسروں کی نظروں میں سرخرو اور پسندیدہ ٹھیرے۔ بلکہ زیادہ تر کام جو مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے لیے کیے جاتے ہیں وہ اسی ذیل میں آتے ہیں۔ کوئی اسپتال اور شفا خانہ بناتا ہے، کوئی بیوہ عورتوں اور لاوارثوں کے لیے سر چھپانے کے ٹھکانے تعمیر کرتا ہے، کوئی دوپہر اور رات کو مفت کا دستر خوان بچھاتا ہے، یا اسی طرح کے کوئی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کرتا ہے تو خواہش پیچھے یہی ہوتی ہے کہ اُسے نیک، بھلا مانس اور سخی داتا سمجھا جائے۔ حکومت بھی عوام سے شفقت و محبت کا معاملہ کرتی ہے تو اسی لیے کہ اسے اچھی اور مقبول حکومت کا تمغا عوام سے ملے۔ یوں غور کیا جائے تو زندگی کے جملہ کام خواہ ان کا تعلق کھیل کود اور ادب و آرٹ اور فنون لطیفہ سے ہو یا کسی فلاحی رفاہی سرگرمی سے، ہر ایک کے پیچھے مقصد ایک ہی ہوتا ہے، سرخروئی، شہرت و مقبولیت اور ہردلعزیزی اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ہر کام کسی نہ کسی مقصد سے وابستہ ہوتا ہے۔ مقصد نہ ہو تو کوئی کچھ کرے ہی کیوں۔ یہ جو ہمارے اللہ میاں ہیں انہوں نے بھی یہ دنیا بنائی اور ہم انسانوں کو خلق کیا تو مقصد یہی تھا کہ انہیں پہچانا جائے اور پہچان کر ان کی عبادت کی جائے۔ اب ہم انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اللہ میاں کو پہچانتے تو ہیں اور اس کی عبادت بھی حسب توفیق کرلیتے ہیں یہ الگ بات کہ ہم عبادت کرکے دل میں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمیں نمازی یا عبادت گزار سمجھا جائے یعنی وہی دوسروں کی نظروں میں سرخرو ہونا۔ حج کریں یا عمرہ، بیوائوں کی مدد کریں یا ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں، اس کا صلہ اللہ میاں سے مانگنے کے بجائے اس کے بندوں ہی سے چاہتے ہیں۔ اللہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کی آرزو ہو تو ایسے کام بابرکت ہوتے ہیں اور جو اچھا بننے یا اچھا کہلانے کے لیے کیا جائے تو ثواب تو پھر بھی ملتا ہوگا۔ لیکن اس میں دکھاوا اور نمائش کا پہلو آجانے سے شاید وہ اس طرح بابرکت نہیں رہتا۔ اب یہ بابرکت اور بے برکت کا معاملہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے، اسے سمجھانا آسان نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ تھوڑے میں زیادہ ہوجانا ہی برکت ہے۔ آپ کسی چوکیدار، کسی چپراسی یا ایسے ہی کسی غریب آدمی سے پوچھیں کہ بھائی تم اتنی چھوٹی سی تنخواہ میں آٹھ دس افراد گزرہ کیسے کرلیتے ہو۔ وہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہے گا ’’وہ گزارا کراتا ہے‘‘۔ یعنی آٹھ دس ہزار کی آمدنی میں اتنے لوگ جو پلتے ہیں تو اسی لیے کہ پالنے والا وہ ہے جو نیلے آسمان پہ ہے۔ اور وہ پالتا ہے اپنی برکت کے کرشمے سے۔ کرشمہ یہ کہ ایک روپیہ دس روپے کے برابر ہوجاتا ہے، دس روپے میں بیس روپے کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ اور ایسا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ ہمارا یہ قرض زدہ ملک بھی اسی برکت سے چل رہا ہے جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ حکومت غریب ہے مگر حکومت چلانے والے خوشحال ہیں۔ ہم قرض پہ قرض لیے جاتے ہیں اور قرضوں میں ڈوب کر بھی دیوالیہ نہیں ہوتے۔ سارے ترقیاتی اور تعمیراتی کام بھلے طریقے سے چل رہے ہیں اور اس لیے چل رہے ہیں کہ چلانے والا چلا رہا ہے۔ دیکھیے کورونا وائرس کے فائدوں سے بات چلی اور پھیل کر کہاں پہنچ گئی۔ کورونا وائرس سے اوروں کو شکایت ہو تو ہو، ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے، اس لیے کہ الحمدللہ اس وبا سے جتنے لوگ مر رہے ہیں وبا سے پہلے زیادہ لوگ مرجاتے تھے۔ حادثات میں، قتل و خون ریزی میں، تصادم اور لڑائی بھڑائی میں۔ اپنی بیروزگاری کا گلہ دہاڑی کے مزدوروں ہی کو نہیں، قبرستان کے گورکنوں کو بھی ہے کہ بھائی پہلے آٹھ دس میت روزانہ کا معمول تھا، اب تو کوئی دفن ہونے ہی نہیں آتا۔ کہتے ہیں بعض ملکوں میں اسپتال میں کورونا جرثومے کے مریضوں کے لیے جگہ نہیں رہی، قبرستان بھی بھر چکے ہیں۔ ہمیں اس کا یقین نہیں کہ ایسا ہوگا۔ اس لیے کہ اول تو کورونا میں اموات کا تناسب وہ نہیں جو ماضی میں آنے والے عظیم طاعون میں تھا کہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوگئے۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے لیکن قبرستانوں میں تدفین جاری رہی۔ کورونا میں مرنے والوں کی تعداد تو ابھی ایک ڈیڑھ لاکھ بھی نہیں پہنچی تو قبرستانوں میں گنجائش کیسے ختم ہوگئی۔ یہ جو بیمار پڑنے والوں اور لقمہ اجل ہوجانے والوں کا حساب کتاب ہے ہمیں تو اسی پہ شبہ ہے۔ دنیا میں کون سا ادارہ ہے جو میڈیا کو بیماروں اور مرنے والوں کے اعداد و شمار فراہم کررہا ہے۔ کبھی اس ذریعے کا کسی اطلاع کے ساتھ حوالہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ کیا دنیا بھر کے اسپتال یہ اعداد و شمار فراہم کررہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان اسپتالوں نے اعداد و شمار فراہم کرنے والوں کا کوئی عملہ رکھ چھوڑا ہے۔ ہمارے ملک کے اسپتالوں میں تو ایسا کوئی عملہ نہیں تو پھر ہمارے اپنے ملک میں یہ اعداد و شمار کون فراہم کررہا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بیماروں اور مرنے والوں کے وجود سے انکار کررہے ہیں۔ ہمیں ہمارا کہنا فقط اتنا ہے کہ حقائق بتانے میں مبالغے سے کام لیا جارہا ہے اور جو کچھ بتایا جارہا ہے اس میں تحقیق و تفتیش کا پہلو ہر حال ایک سوالیہ نشان ہے۔ کورونا وائرس کے اثرات پر تجزیہ کر حضرات جو تجزیے پیش کررہے ہیں ان میں بھی اندازے اور قیاس آرائی کا پہلو غالب ہے۔ سب سے بڑھ کر حقائق کے مقابلے میں افواہ سازی کا کارخانہ زیادہ تیزی سے چل رہا ہے۔ ہماری زبان کا وہ محاورہ کہ کوّا کان لے اڑا سن کر کوّے کے پیچھے آنکھیں بند کرکے دوڑ لگا دینا اور کانوں کو نہ ٹٹولنا ہی موجودہ صورت حال پہ صادق آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اعصاب کو مضبوط بنائیں۔ جرثومے سے بچنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں اس پر پوری طرح عمل کریں لیکن وہ خوف و ہراس جو پھیلا دیا گیا ہے اس میں بھی مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کچھ دن گھر میں قیام، گھر کے کام کاج میں ہم جیسوں کی دل چسپی اور احباب و رشتہ داروں سے فاصلہ کیا، عجب کہ اس یکسانیت سے ہمیں چھٹکارہ دلا دے جو عادت بن کر ہمیں ڈیپریشن، مایوسی اور اضمحلال سے دوچار کرتی تھی۔ کورونا وائرس وبا ضرور ہے لیکن اس وبا سے اللہ نے چاہا تو شر نہیں خیر کے پہلو ہی برآمد ہوں گے۔ لیکن ایسا تو اسی وقت ہوگا جب ہم برافروختہ نہ ہوں۔ شکوک و شبہات، بے یقینی اور طرح طرح کے وسوسوں کو پالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ یقین اور اعتماد رکھیں کہ وہ جو رحمان اور رحیم ہے، اس نے بڑے پیار سے انسانوں کو اور اس دنیا کو خلق کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ آج کا انسان اندر سے کتنا دکھی اور پریشان حال ہے، وہ اسے مزید ابتر و دکھیارا نہیں کرے گا۔ گھر میں رہ کر گھر کو اچھا بنائیں اسی سے یہ دنیا اچھی ہوگی چاہے جتنے دنوں میں بھی ہو۔