چھوٹی چوبرجی( باغ نواں کوٹ)
مغل عہد کے باغ کا یہ عالیشان دروازہ نواں کوٹ نزد موڑ سمن آباد لاہور میں واقع ہے.
یہ باغ تو مغل دور کا ہے لیکن مغلیہ حکومت کے زوال کے دوران یہ علاقہ ویران ہو گیا تھا. بقول سہہ مورخین لاہور اس جگہ کو دوبارہ مہر محکم دین نے آباد کیا. مہر محکم دین رنجیت سنگھ سے قبل بھی بااثر تھا بلکہ رنجیت سنگھ کی مہم لاہور میں اس نے کافی مدد کی. اسی نے بھاٹی دروازہ کھول کر مہاراجہ کا استقبال کیا نیز سکھ مثلوں کو رنجیت کی فوج کے متعلق خاصا خوفزدہ کرکے اُس کی راہ آسان کی. اس مہربانی کے باعث مہاراجہ مہر محکم سے کافی اچھا برتاؤ کرتا تھا. لیکن پھر مہر محکم کی رانی موراں زوجہ رنجیت سنگھ سے کچھ تکرار ہوگئی. موراں ہی اس کی تباہی کا سبب بنی اور یہ رسوا ہوا. مہر محکم کے خوش بختی کے زمانہ میں نواں کوٹ لاہور کا اہم ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا. آبادی بھی کافی ہوگئی تھی نیز اجناس کی منڈی بھی یہیں تھیں. اس باعث ہزار ہا لوگوں کا روزانہ یہاں آنا جانا ہوتا تھا. اس سب میں یہ باغ برباد ہوگیا.
چوبرجی و اس باغ کا بانی بھی زیب النساء کو بتایا جاتا ہے. کہا جاتا ہے کہ چوبرجی کی تکمیل پر زیب النساء نے اس کو اپنی کنیز خاص میا بائی کو بحش دیا تھا. اور بعد ازاں نواں کوٹ میں ایک اور باغ کی بنیاد ڈالی اور ساتھ ہی اپنا مقبرہ بھی تعمیر کروایا. لیکن تحقیق سے ثابت ہے کہ زیب النساء کا لاہور سے کوئی خاص تعلق نہیں نیز وہ دہلی میں مدفون ہے. چوبرجی کی تعمیر کا سن عمارت پر درج ہے. جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تعمیر کے دوران زیب النساء چھوٹی بچی تھی. اس باعث یہ ممکن نہیں کہ وہ باغ اُس نے تعمیر کروایا ہو. چوبرجی کے متعلق محققین کا دعوی ہے کہ وہ جہاں آراء بیگم بنت شاہجہان بادشاہ کی تعمیر ہے. بعض لکھاریوں کے مطابق چوبرجی اور نواں کوٹ میں موجود یہ دروازہ ایک ہی باغ سے متعلق ہیں. لیکن اتنا بڑا باغ کچھ سمجھ سے بالا ہے. ممکن ہے کہ نواں کوٹ کا باغ بھی جہاں آراء نے ہی بنوایا ہو لیکن قرین قیاس یہ ہے کہ یہ مقبرہ میں مدفن شخصیت سے متعلق ہے. لیکن اُس کے حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں. اس مقبرے کے متعلق مورخین کی مختلف آراء ہیں. ڈاکٹر عبداللہ چغتائی و نقوش لاہور نمبر میں اس کو افضل خان کا مقبرہ بتایا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر انجم رحمانی کے خیال میں یہ میا بائی کا جائے مدفن ہے. محترمہ زرنین امتیاز کیفی صاحبہ نے نواں کوٹ کی عمارات پر ایم فل کا مقالہ تحریر کیا ہے وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ یہ مقبرہ میا بائی کا ہے. میا بائی کا نام صرف چوبرجی کی ایک عبارت میں موجود ہے, جبکہ تاریخ میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں. اگر یہ مقبرہ واقعی ہی میا بائی کا ہے اور وہ کنیز تھی, زیب النساء یا جہاں آراء میں سے کسی کی بھی تو اس قدر عالیشان باغ اس کی تعمیر نہیں ہوسکتا ہے. شاید یہ باغ جہاں آراء نے بنوایا ہو اور یہاں میا بائی دفن ہوئی ہو, اگر یہ مقبرہ کسی اور کا ہے تو یہ باغ بھی اس کی تعمیر ہوسکتا ہے. متضاد روایات کے باعث اس باغ کے بانی کا پتا لگانا ممکن نہیں رہا.
اس دروازے کے علاوہ نواں کوٹ میں دو برجیاں بھی موجود ہیں جو کہ دروزے کے قریب ہی ہیں. آج یہ سب کچھ خستہ حال ہے اور باغ کی زمین پر قابضین نے گھر بنا لیے ہیں. اس باغ کے دروازے کے گرد دو اور برجیاں بھی تھیں جو کہ اب ناپید ہوچکی ہیں. اس علاقے کو اصل میں سکھ دور میں تاراج کیا گیا. سنگ مرمر کی خاطر یہاں موجود مقبرے کو جگہ جگہ سے اکھاڑ دیا گیا. باقی کسر مہر محکم دین نے پوری کردی. یہ دروازہ ماضی میں کس قدر خوبصورت تھا اس کا اندازہ سید لطیف کے اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے “باغ کا عالیشان قدیم دروازہ جس کے ساتھ محرابی چھتوں والے کمرے, غلام گردشیں اور کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں. ابھی تک درست حالت میں ہے. یہ انتہائی خوبصورت دروازہ روغنی میناکاری, پتھر میں کندہ کاری اور جدید مغلیہ دور کی تصویر کشی کا ایک بہترین نمونہ ہے. اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں فن تعمیر کس حد تک ترقی کر چکا تھا. دروازے کے خوبصورت مینار ہیں. ہر ایک کے ساتھ گنبد ہیں اور بارہ محرابی ستون اسے سہارا دیے ہوئے ہیں. ان کے فرش کے چاروں طرف پتھر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں, جن کے کچھ حصے ابھی تک موجود ہیں. باغ کے شمال اور جنوب میں بھی ایک ایک مینار ہے. اس پر انتہائی خوبصورت منقش روغنی کام سے تزئین کی گئی ہے.
اب یہ سب کچھ زمینداروں کے قبضے میں ہے جنہوں نے اس حسین و جمیل عمارت کا بہت غلط استعمال کیا ہوا ہے. یہ دروازہ مغلیہ دور کی ایک شاندار یادگار ہے.” یہ دروازہ اس قدر پرشکوہ تھا کہ بقول کہنیا لال” یہ باغ عہد شاہان چغتائی میں نہایت آراستہ تھا بلکہ لاہور کے باغوں میں یہ باغ شالا مار باغ سے دوسرے درجے پر گنا جاتا تھا. اس باغ کی سڑکیں سب سنگ سرخ کی تھیں اور حوض اور شہ نشینیں اور بارہ دریاں سنگ مرمر کی..”
کچھ عرصہ قبل جب قاضی محمد اعظم صاحب کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچا تو شدید دُکھ ہوا. ماضی کو کیا رونا ہم سنگ دلوں نے اس رفیع الیشان چوبرجی کو کوڑا دان بنا رکھا ہے. ایک جانب بچے کرکٹ کھیل رہے تھے اور ان کے چوکے چھکے کی نشاندہی چوبرجی پر مختلف جگہ پر موجود نقاشی کے کام پر گیند لگنے سے ہوتی تھی. ہم کس قدر بے حس و لاپرواہ ہیں. غور کرنے پر پتا چلا کہ یہاں کبھی بحالی کا کام ہوا تھا, لیکن یا وہ ناقص تھا یا ہم اس درجہ کے ڈھیٹ ہیں کہ ہم نے دوبارہ اس عمارت کو اسی حال میں پہنچا دیا. آرکیالوجکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ سن ١۹۲١ء و ١۹۲۸ء میں نواں کوٹ کے آثار کا تذکرہ ہے. رپورٹ کے مطابق یہاں حکومت نے مرمت و بحالی کا کام شروع کروایا تھا لیکن باغ کی بیشتر جگہ پر لوگوں نے رہائشی مکان بنا لیے تھے نیز اس دروازے کو بھی بطور مکان کرایہ پر دیا ہوا تھا. تقسیم کے بعد بھی حالات میں کچھ سدھار نہیں آیا. ہماری مستقل مزاجی کا پتا چلتا ہے کہ ہم اب بھی اتنے ہی بے شعور و حریص ہیں. اس دروازے کے قریب ہی ایک صاحب کرسی پر براجمان تھے جن کے رویے سے لگتا تھا کہ یہ جگہ ان کی جاگیر ہے. ان سے دوسری منزل پر جانے کا رستہ معلوم کیا تو انہوں نے فرمایا کہ بیبیاں ہوتی ہیں ساتھ گھروں میں اس باعث ہم نہیں جانے دیتے کہ ان کے چھتوں پر نظر پڑتی ہے. پہلے تو ان کو نیک نیت جانا مگر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ دوسری منزل کو شاید انہوں نے انبار خانہ بنا رکھا ہے. پھر ارد گرد کچھ منتشر دوپٹے, زنانہ ملبوسات اور دیگر اسی قبیل کی چیزیں بھی دکھیں. نشے کے رسیا گروہ کا ساز و سامان بھی بہ کثرت موجود تھا. وہ صاحب بتلا رہے تھے کہ وہ نگرانی کرتے ہیں اس عمارت کی. اب بھلا ان جیسے پاکباز کی نگہبانی میں یہ سب کیونکر ممکن ہوسکتا ہے. اس لیے حسن ظن کے تحت ہم یہی کہہ سکتے ہیں جب ایسا کوئی معاملہ ہوتا ہوگا تو وہ چشم پوشی سے کام لیتے ہوں گے. خیر یہاں کے دورے سے اندازہ ہوا کہ ہم لوگ کیسی بے قدری کرتے ہیں اپنے ورثے کی. ارد گرد کے لوگ تو منتظر ہیں کہ کب یہ شکستہ چوبرجی ڈھے اور وہ گدھ کی مانند اپنا حصہ وصولیں. اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کو وہ ہر طرح سے کوشاں بھی ہیں. نواں کوٹ کے آثار کی بحالی و درستی کے حوالے اے ایم ملک و محمد تحسین بٹ صاحب کے مقالہ جات بھی ہیں. مگر ناجانے ان پر عمل کب ہوگا. محکمہ آثار قدیمہ کب حقیقی کام کرے گا. لیکن وہ بھی کیا کریں, کتنا کام کریں. آخر ہم لوگوں کی بھی کچھ ذمہ داری ہے. عوام اس درجہ بدتہذیب و کم فہم ہے کہ وہ ہر تاریخی عمارت کو یا تو جائے عاشقی بنا لیتے ہیں یا کھیل کا اکھاڑہ. باقی کسر نشہ باز حضرات پوری کر دیتے ہیں. خیر حکومت وقت سے التجاء ہے کہ ماضی کی اس یادگار کو بھی قابل اعتنا سمجھیں. یقین جانیں یہ تاریخی عمارات حکومت کے خزانے کے لیے بھی معاون ثابت ہوسکتی ہیں. یہ تو کاروبار کا اصول ہے کہ کچھ لگائیں گے تو ہی پھل ملے گا. ان عمارات کو بحال کریں یہاں تک پہنچنا آسان بنائیں, قبضے ختم کرائیں. معلوماتی تختیاں لگائی جائیں اور سب سے اہم قوم میں اپنے ورثے کی بابت شعور اجاگر کیا جائے. نصاب میں اس حوالے سے پیغام نتیجہ خیز ہو سکتا ہے. احباب گرامی قدر سے گزارش ہے کہ ہماری بے توجہی پہ نوحہ کناں اس فراموش کردہ حسین و جمیل چوبرجی کی زیارت کو ضرور جائیں. بلکہ ان جگہوں کو اپنے دوستوں میں معتارف بھی کراوئیں تاکہ یہ جگہیں آباد ہوں یہاں چمگادڑوں کی بجائے انسان پائے جائیں. جب یہاں لوگ حاضری دیں گے تو حکومت بھی جاگ ہی جائے گی. تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو تو اس ضمن میں زیادہ تگ و دو کرنی چاہیے. آپ جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں یونہی کارواں بنے گا اور یونہی بہتری کے دن بھی آئیں گے.