اس وقت تقریبا پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ ھے اور پاکستان میں کرونا کی کہانیاں تیس کروڑ ھیں بیس کروڑ کے پاس ایک ایک کہانی ھے اور باقی پانچ کروڑ کے پاس دو دو کہانیاں ھیں ، مجھے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا بچپن سے شوق ھے اس لئے سننے کو ملے تو سن لیتا ھوں اور پڑھنے کو ملے تو پڑھ لیتا ھوں۔ھر ایک کو اپنی کہانی کا مکمل یقین ھے کہ اس کہ کہانی سچی ھے۔ پہلی کہانی آئی کہ یہ انگلینڈ اور امریکہ کی دریافت ھے اور وہ چائنہ کی ماں بہن ایک کرنے لگے ھیں، جی بہتر آپ کو کچھ نہیں پتہ آپ نے تو میٹرک بھی آرٹس سے کیا ھوا ھے اور یہ بائیو وار ھے، جی بہتر، میری بیٹی ابھی میٹر ک کے پیپر دے رھی ھے اور کرونا نے اسے ایف ایس سی میں داخل کروا دیا ھے اور اسں نے بائیو رکھی ھے، اس سے پوچھا بیٹا یہ بائیو وار کیا ھے، یار بابا اس عمر میں بائیو پڑھ کر کیا کریں گے، اپنے کام پر توجہ دیں جی بہتر، دوسری کہانی یہ چائنہ نے خود بنایا اور اس کو ووھان تک محدود رکھا اسی لئے چائنہ کے باقی شہر اس سے محفوظ رھے اور اس نے تجربہ کرنے کے بعد اس کو اٹلی، ایران اور امریکہ بھیج دیا اب وھاں تباھی ھورھی ھے، جی بہتر، تیسری کہانی یہ چمگاڈریں کھانے سے پھیلا، جی بہتر پھر کوئی کہہ رھا ھے یہ سی آئی اے کے لوگ ووھان آئے کچھ لوگوں پر سپرے کیا اور چلے گئے اس طرح یہ وائرس پھیل گیا، جی بہتر، کچھ دوست کہانی سنا رھے ھیں چائنہ نے اربوں کا فائدہ اٹھایا اور ساری دنیا کی انڈسٹری بند کروا کر اونے پونے خرید لی، جی بہتر، کہانیوں پر کہانیاں ھیں، ایک دوست کہنے لگے یہ وائرس ھے ھی نہیں بس جھوٹ ھے، دنیا میں سب اپنی موت مر رھے ھیں اور نام کرونا کا لگ رھا ھے، جی بہتر۔ ایک صاحب بتا رھے تھے کہ آپ حیران ھونگے کراچی میں عام موت مرنے والے کو پچاس ھزار دے کر کہا جاتا ھے کرونا کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوا لو اور لوگ بنوا رھے ھیں، یہ کہانیوں کا سلسلہ روز بروز دلچسپ ھوتا جارھا ھے، ایک دوست کہنے لگے اظہر یار تجھے بھی سائنس پڑھنی چاھیئے تھی، کیوں کیا ھوا سائنس کا اصول ھے وائرس اور اس کا اینٹی وائرس ساتھ ساتھ بنتے ھے پر تجھے کیسے سمجھائیں تونے تو آرٹس پڑھ رکھی ھے۔ جی بہتر، میں سب کی سنتا ھوں ابھی تک میرا براہ راست کوئی دوست، عزیز اس کا شکار نہیں ھوا تھا اس لئے میں بھی ایزی تھا۔ مجھے یاد ھے میری امی جی فوت ھوئیں تو دفنانے کے بعد واپسی پر پتہ چلا موت ایک اٹل حقیقت ھے۔ اس سے پہلے کون مانتا تھا؟
کچھ دن پہلے میرے عزیز ترین دوست راجہ اظہر اقبال کیانی جو 1981 سے میرے کلاس فیلو اور دوست ھیں کرونا پازیٹیو ھونے پر آئی سی یو میں داخل کرلیا گیا تو یقین ھوا یہ ایک سچ ھے اور حقیقت ھے، اس کیلئے بہت سے دوست دعا گو ھیں کہ اللہ اس کو صحت کاملہ عطا کریں امین۔
34 سال سے میں آئی ٹین فور اسلام آباد کا رھائشی ھوں، بلال شیخ بھائی کا میسج آیا لاک ڈاون ھو رھا ھے گھر جائیں، جی بہتر، ساتھ ھی بیگم کا فون آگیا فورا گھر آجائیں مساجد میں اعلان ھورھے ھے گھر سے باھر جو ھے فورا واپس بلا لیں بعد میں داخل نہیں ھونے دیں گے، جی بہتر، دفتر سے نکلا آبپارہ مارکیٹ سے گھر کا سامان لینے گیا، بہت سختی تھی رش کی وجہ سے پارکنگ نہیں مل رھی تھی دو چکر لگا کر پارکنگ ملی سامان لیا اور گھر روانہ ھوا، راستے میں سے دودھ بھی لے لیا شاید کل دودھ والے کو آنے نہ دیں، پہلی دفعہ تھی میرے گھر کو کوئی راستہ نہیں جا رھا تھا ھر طرف سے راستے بند تھے پھر پولیس والے سے بات چیت کی شناختی کارڈ دکھایا اس نے ایڈرس چیک کیا اور گھر آنے دیا، اور بتایا جب تک اعلان نہ ھو گھر پر رھیئے محفوظ رھیئے،آج مکمل یقین آگیا۔ میں ایک پینڈو انسان ھوں تجربے پر یقین رکھتا ھوں، بے شک میں نے سائنس نہیں پڑھی۔ پر جنرل سائنس تو پڑھی ھے۔ میری کہانی کے مطابق یہ وائرس ھے، اور نقصان دہ ھے، خود بھی گھر رھیئے اور گھر والوں کو بھی گھر پر ھی رکھیئے۔ کرونا سب کو ھو سکتا ھے اس کا کوئی مذھب،کوئی فرقہ نہیں ھے اس کا حرام ھلال سے چھوٹے، بڑے سے بھی کوئی واقفیت نہیں ھے بس جو احتیاط نہیں کرے گا وھی اسکا شکار ھے، راجہ اظہر کو اللہ صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی دیں آمین۔ پرسوں بات ھوئی ویر جی کی حال اے، یار اظہر سانس لینے میں بہت مشکل ھورھی ھے، وہ آواز میرے کانوں سے نہیں جارھی، آج ماشاءاللہ وہ بہتر ھورھا ھے۔ نماز بھی ادا کر رھا ھے۔ شکر الحمدللہ کچھ دن میں گھر واپس آجائے گا انشاءاللہ، پر اس نے ھم سب کو بتا دیا کہ یہ ایک بیماری ھے احتیاط کیجئے۔ کرونا ایک حقیت ھے کہانی نہیں ھے