Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
خدائی خدمت گار تحریک کے بانی اور فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان(باچاخان) بیسویں صدی میں پشتون قوم کے سب سے قدآور قوم پرست رہنما تھے۔ پاکستان اور افغانستان میں بسنے والے پشتونوں کی اکثریت باچاخان کا دل سے احترام کرتی ہے۔
پشتون قوم کی علمی، مجلسی اور سیاسی بیداری میں باچا خان کا کردار شان دار ہے۔ انہوں نے پسماندہ اور جاہلانہ رسوم میں دھنسے پشتون معاشرے میں علم و ہنر ، خواتین کی تعلیم وتربیت اور حقوق اور پشتو زبان کی ترقی کے لیے علمی اور سیاسی شعور پیدا کیا۔ خواتین کے بارے میں ان کے ترقی پسندانہ نظریات لائق تحسین ہیں۔
باچا خان نے اپنی آپ بیتی میں پیدائش سے لے کر قیام پاکستان تک کے واقعات کو داستانی اسلوب میں بیان کیا ہے۔ کتاب کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ بیتی 60 کی دہائ کے وسط میں تحریر کی گئی۔
انہوں نے اپنی عملی زندگی کی ابتدا 1910 میں اتمان زئ میں ایک قومی واسلامی مدرسہ قائم کر کے کی۔
آپ بیتی کے مطابق ہندوستان کی عملی سیاست میں پہلی سرگرمی 1913 میں آگرہ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت تھی۔
جہاں باچا خان نے سر آغاخان اور مولانا آزاد کی تقاریر سنیں۔ ان کے بقول،
” ہم نے اس اجلاس میں شریک ہو کر بہت کچھ سیکھا اور سمجھا”
آپ بیتی میں چند متضاد باتیں بھی تحریر کی گئی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپ بیتی محض یاداشت کے سہارے لکھی گئ ہے اور صحت متن پہ کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔
مثال کے طور پر صفحہ 89 پہ تحریر ہے،
” لکھنؤ میں کانگریس کا جلسہ تھا(سال تحریر نہیں کیا گیا لیکن بادی النظر میں 1928 کا سال معلوم ہوتا ہے) اور اس میں گاندھی جی اور جواہر لال نہرو سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جواہر لال کے میرے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب سے بڑے مراسم تھے کیونکہ یہ دونوں لندن کی یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک تعارفی خط ان کے نام لکھ دیا تھا”
صفحہ 96-95 کے مطابق باچا خان دسمبر 1928 میں کلکتہ میں خلافت کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اسی دوران وہ کلکتہ میں ہی کانگریس کی سبجیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں بھی ساتھیوں سمیت شرکت کرتے ہیں اور گاندھی جی کی تقریر سنتے ہیں
دسمبر 1929 میں باچا خان لاہور میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ (صفحہ نمبر 97)۔
1930 میں اتمان زئی جلسہ کے بعد خان کو گرفتار کر کے گجرات جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی دوران صوبہ سرحد میں انگریز حکومت کی طرف سے پشتونوں کے خلاف تشدد اور ان کی پکڑدھکڑ کے پیش نظر باچا خان خدائی خدمت گار تحریک کا کانگریس سے باقاعدہ الحاق کر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں صفحہ نمبر 109 پر تحریر ہے
” اس وقت تک ہم کانگریس میں نہیں تھے اور نہ ہی ہماری کانگریس سے کسی قسم کی جان پہچان تھی”
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس سے جان پہچان کے حوالے سے ان کے اپنے بیانات ہی ان کی تردید کر رہے ہیں۔
1945-46 کے انتخابات خدائ خدمت گاروں نے کانگریس کے ساتھ مل کر لڑے اور انتخابات میں واضح فتح حاصل کی۔تاہم اس کے باوجود باچا خان اپنی کتاب میں مسلم لیگ پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں شاید یہ پہلی اور آخری مثال تھی کہ جس میں فاتح پارٹی کا سربراہ شکست خوردہ جماعت پر دھاندلی کا تحریری الزام لگا رہا ہے
باچا خان ہندوستان کی تقسیم کے مخالف اور کانگریس کے ہم خیال تھے۔ کانگریس نے باچاخان کی سیاسی اہمیت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور جب باچا خان سے مزید فائدے کی امید نہ رہی تو انہیں دھوکہ دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ کانگریس نے 3 جون 1947 کے تقسیم ہند کے منصوبے کی منظوری دیتے وقت باچاخان کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ باچا خان کے الفاظ میں
” جس وقت ورکنگ کمیٹی نے ہندوستان کی تقسیم اور صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کا فیصلہ کر لیا تو یہ میرے لیے فیصلہ مرگ تھا۔ افسوس مجھے اس بات پر تھا کہ ہم نے تو کانگریس کو نہ چھوڑا۔ لیکن کانگریسیوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ اگر ہم کانگریس کو چھوڑتے تو انگریز ہمیں سب کچھ دیتا تھا”
مندرجہ بالا اعتراف کے باوجود ہمارے قوم پرست پشتون مسلم لیگ کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ تقسیم کانگریس کی رضامندی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ مزید براں ایک سال قبل مسلم لیگ ہندوستان کو متحد رکھنے کی اخری عملی اسکیم کیبنٹ مشن پلان بھی قبول کر چکی تھی۔ اس وقت بھی نہرو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذکورہ اسکیم ناکامی سے دوچار ہو گئ تھی۔
کانگریس سے کھلا دھوکہ کھانے اور تقسیم ہند کے بعد بھی باچا خان گاندھی جی اور نہرو سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں اس سلسلے میں وہ خود صفحہ نمبر 200 پر لکھتے ہیں
” ہماری بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ گاندھی جی اس دنیاسے چلے گۓ اگر وہ ہوتے تو ضرور ہماری امداد کرتے۔ جواہر لال سے بھی ہمیں بڑی توقعات تھیں اور وہ بہت کچھ کر بھی سکتے تھے لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ انہوں نے کیوں ہمارے لیے کچھ نہ کیا”
مندرجہ بالا اعتراف کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ باچاخان اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے پہ بضد تھے جس کے سبب بیمار ہوۓ تھے۔
اور یہی حال موجودہ قوم پرستوں کا ہے کہ اب تک افغانستان اور بھارت سے امیدیں وابستہ کیے ہوۓ ہیں۔
اپنی آپ بیتی میں خان نے اہل پنجاب کے بارے میں جا بجا اظہار ناپسندیدگی کیا ہے۔تقسیم سے قبل پنجاب کے مسلم سیاسی راہنماؤں پر تنقید کی ہے۔ لیکن یونینسٹ رہنماؤں کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے جو کہ معنی خیز ہے۔
باچا خان خطہ کے تمام قدیم مذاہب کو برحق سمجھتے اور ان کا ذکر احترام سے کرتے ہیں۔ بدھ مت تہذیب وتمدن کی تعریف اور زرتشت کو پٹھان قوم کا قدیم پیغمبر قرار دیتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پشتون قوم کے اسلام قبول کرنے کے بعد کے ایک ہزار سالہ دور کی تاریخ اور تہذیب وتمدن بارے ان کے قلم سے ایک بھی کلمہ خیر نہیں نکلا۔
بودھوں، ہندووں، سکھوں اور دیگر غیر مسلم اقوام اور ان کے رہنماؤں کی جا بجا تحسین کرتے ہیں۔ اس پر مسلمانوں کے ردعمل پر خود ہی اعتراف کرتے ہوۓ لکھتے ہیں
” اور مجھے تو یہ ایک مستقل جواب دیتے تھے کہ ” تم ہندو ہو۔”
داخلی تضاد کی ایک اور واضح مثال باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی ذات تھی۔ جب باچا خان برطانوی سامراج کے خلاف قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے ان کے بڑے بھائی ہندوستان میں برطانوی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز برطانوی سامراج کی خدمت کر رہے تھے۔
خان کے بقول متحدہ ہندوستان میں ہونے والے تمام ہندو مسلم فسادات کے ذمہ دار مسلم لیگی رہنما تھے۔ اس معاملے میں وہ کانگریس، ہندو مہاسبھا اور دیگر فرقہ پرستوں کو کلین چٹ دیتے نظر آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ باچا خان کے مندرجہ بالا نظریات کے پیش نظر انہیں بجا طور پر سرحدی گاندھی کا لقب دیا جاتا ہے۔
نظریاتی اختلاف کے باوجود باچاخان کی پشتون قوم کی علمی، مذہبی، مجلسی، روحانی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوششیں قابل تحسین ہیں۔ ان کی بلند حوصلگی اور اولوالعزمی قابل افتخار ہے۔ اگر باچاخان تاریخ کے نازک موڑ پر کانگریس کی بجاۓ مسلم لیگ کا ساتھ دیتے تو تقسیم کے دوران ماونٹ بیٹن اور نہرو گٹھ جوڑ کا مقابلہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا تھا۔
لیکن باچا خان نے ہندوستانی اور پشتون مسلمانوں کے سواداعظم سے اختلافی راہ اپنائی اور تاعمر اس پہ قائم رہے۔
آپ بیتی کا اختتام پاکستان سے اظہار بیزاری اور نفرت پہ کیا گیا ہے۔ یہی نفرت اور بیزاری متعصب قوم پرست گروہوں کے لب و لہجے میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
خدائی خدمت گار تحریک کے بانی اور فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان(باچاخان) بیسویں صدی میں پشتون قوم کے سب سے قدآور قوم پرست رہنما تھے۔ پاکستان اور افغانستان میں بسنے والے پشتونوں کی اکثریت باچاخان کا دل سے احترام کرتی ہے۔
پشتون قوم کی علمی، مجلسی اور سیاسی بیداری میں باچا خان کا کردار شان دار ہے۔ انہوں نے پسماندہ اور جاہلانہ رسوم میں دھنسے پشتون معاشرے میں علم و ہنر ، خواتین کی تعلیم وتربیت اور حقوق اور پشتو زبان کی ترقی کے لیے علمی اور سیاسی شعور پیدا کیا۔ خواتین کے بارے میں ان کے ترقی پسندانہ نظریات لائق تحسین ہیں۔
باچا خان نے اپنی آپ بیتی میں پیدائش سے لے کر قیام پاکستان تک کے واقعات کو داستانی اسلوب میں بیان کیا ہے۔ کتاب کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ بیتی 60 کی دہائ کے وسط میں تحریر کی گئی۔
انہوں نے اپنی عملی زندگی کی ابتدا 1910 میں اتمان زئ میں ایک قومی واسلامی مدرسہ قائم کر کے کی۔
آپ بیتی کے مطابق ہندوستان کی عملی سیاست میں پہلی سرگرمی 1913 میں آگرہ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت تھی۔
جہاں باچا خان نے سر آغاخان اور مولانا آزاد کی تقاریر سنیں۔ ان کے بقول،
” ہم نے اس اجلاس میں شریک ہو کر بہت کچھ سیکھا اور سمجھا”
آپ بیتی میں چند متضاد باتیں بھی تحریر کی گئی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپ بیتی محض یاداشت کے سہارے لکھی گئ ہے اور صحت متن پہ کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔
مثال کے طور پر صفحہ 89 پہ تحریر ہے،
” لکھنؤ میں کانگریس کا جلسہ تھا(سال تحریر نہیں کیا گیا لیکن بادی النظر میں 1928 کا سال معلوم ہوتا ہے) اور اس میں گاندھی جی اور جواہر لال نہرو سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جواہر لال کے میرے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب سے بڑے مراسم تھے کیونکہ یہ دونوں لندن کی یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک تعارفی خط ان کے نام لکھ دیا تھا”
صفحہ 96-95 کے مطابق باچا خان دسمبر 1928 میں کلکتہ میں خلافت کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اسی دوران وہ کلکتہ میں ہی کانگریس کی سبجیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں بھی ساتھیوں سمیت شرکت کرتے ہیں اور گاندھی جی کی تقریر سنتے ہیں
دسمبر 1929 میں باچا خان لاہور میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ (صفحہ نمبر 97)۔
1930 میں اتمان زئی جلسہ کے بعد خان کو گرفتار کر کے گجرات جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی دوران صوبہ سرحد میں انگریز حکومت کی طرف سے پشتونوں کے خلاف تشدد اور ان کی پکڑدھکڑ کے پیش نظر باچا خان خدائی خدمت گار تحریک کا کانگریس سے باقاعدہ الحاق کر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں صفحہ نمبر 109 پر تحریر ہے
” اس وقت تک ہم کانگریس میں نہیں تھے اور نہ ہی ہماری کانگریس سے کسی قسم کی جان پہچان تھی”
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس سے جان پہچان کے حوالے سے ان کے اپنے بیانات ہی ان کی تردید کر رہے ہیں۔
1945-46 کے انتخابات خدائ خدمت گاروں نے کانگریس کے ساتھ مل کر لڑے اور انتخابات میں واضح فتح حاصل کی۔تاہم اس کے باوجود باچا خان اپنی کتاب میں مسلم لیگ پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں شاید یہ پہلی اور آخری مثال تھی کہ جس میں فاتح پارٹی کا سربراہ شکست خوردہ جماعت پر دھاندلی کا تحریری الزام لگا رہا ہے
باچا خان ہندوستان کی تقسیم کے مخالف اور کانگریس کے ہم خیال تھے۔ کانگریس نے باچاخان کی سیاسی اہمیت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور جب باچا خان سے مزید فائدے کی امید نہ رہی تو انہیں دھوکہ دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ کانگریس نے 3 جون 1947 کے تقسیم ہند کے منصوبے کی منظوری دیتے وقت باچاخان کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ باچا خان کے الفاظ میں
” جس وقت ورکنگ کمیٹی نے ہندوستان کی تقسیم اور صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کا فیصلہ کر لیا تو یہ میرے لیے فیصلہ مرگ تھا۔ افسوس مجھے اس بات پر تھا کہ ہم نے تو کانگریس کو نہ چھوڑا۔ لیکن کانگریسیوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ اگر ہم کانگریس کو چھوڑتے تو انگریز ہمیں سب کچھ دیتا تھا”
مندرجہ بالا اعتراف کے باوجود ہمارے قوم پرست پشتون مسلم لیگ کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ تقسیم کانگریس کی رضامندی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ مزید براں ایک سال قبل مسلم لیگ ہندوستان کو متحد رکھنے کی اخری عملی اسکیم کیبنٹ مشن پلان بھی قبول کر چکی تھی۔ اس وقت بھی نہرو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذکورہ اسکیم ناکامی سے دوچار ہو گئ تھی۔
کانگریس سے کھلا دھوکہ کھانے اور تقسیم ہند کے بعد بھی باچا خان گاندھی جی اور نہرو سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں اس سلسلے میں وہ خود صفحہ نمبر 200 پر لکھتے ہیں
” ہماری بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ گاندھی جی اس دنیاسے چلے گۓ اگر وہ ہوتے تو ضرور ہماری امداد کرتے۔ جواہر لال سے بھی ہمیں بڑی توقعات تھیں اور وہ بہت کچھ کر بھی سکتے تھے لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ انہوں نے کیوں ہمارے لیے کچھ نہ کیا”
مندرجہ بالا اعتراف کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ باچاخان اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے پہ بضد تھے جس کے سبب بیمار ہوۓ تھے۔
اور یہی حال موجودہ قوم پرستوں کا ہے کہ اب تک افغانستان اور بھارت سے امیدیں وابستہ کیے ہوۓ ہیں۔
اپنی آپ بیتی میں خان نے اہل پنجاب کے بارے میں جا بجا اظہار ناپسندیدگی کیا ہے۔تقسیم سے قبل پنجاب کے مسلم سیاسی راہنماؤں پر تنقید کی ہے۔ لیکن یونینسٹ رہنماؤں کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے جو کہ معنی خیز ہے۔
باچا خان خطہ کے تمام قدیم مذاہب کو برحق سمجھتے اور ان کا ذکر احترام سے کرتے ہیں۔ بدھ مت تہذیب وتمدن کی تعریف اور زرتشت کو پٹھان قوم کا قدیم پیغمبر قرار دیتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پشتون قوم کے اسلام قبول کرنے کے بعد کے ایک ہزار سالہ دور کی تاریخ اور تہذیب وتمدن بارے ان کے قلم سے ایک بھی کلمہ خیر نہیں نکلا۔
بودھوں، ہندووں، سکھوں اور دیگر غیر مسلم اقوام اور ان کے رہنماؤں کی جا بجا تحسین کرتے ہیں۔ اس پر مسلمانوں کے ردعمل پر خود ہی اعتراف کرتے ہوۓ لکھتے ہیں
” اور مجھے تو یہ ایک مستقل جواب دیتے تھے کہ ” تم ہندو ہو۔”
داخلی تضاد کی ایک اور واضح مثال باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی ذات تھی۔ جب باچا خان برطانوی سامراج کے خلاف قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے ان کے بڑے بھائی ہندوستان میں برطانوی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز برطانوی سامراج کی خدمت کر رہے تھے۔
خان کے بقول متحدہ ہندوستان میں ہونے والے تمام ہندو مسلم فسادات کے ذمہ دار مسلم لیگی رہنما تھے۔ اس معاملے میں وہ کانگریس، ہندو مہاسبھا اور دیگر فرقہ پرستوں کو کلین چٹ دیتے نظر آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ باچا خان کے مندرجہ بالا نظریات کے پیش نظر انہیں بجا طور پر سرحدی گاندھی کا لقب دیا جاتا ہے۔
نظریاتی اختلاف کے باوجود باچاخان کی پشتون قوم کی علمی، مذہبی، مجلسی، روحانی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوششیں قابل تحسین ہیں۔ ان کی بلند حوصلگی اور اولوالعزمی قابل افتخار ہے۔ اگر باچاخان تاریخ کے نازک موڑ پر کانگریس کی بجاۓ مسلم لیگ کا ساتھ دیتے تو تقسیم کے دوران ماونٹ بیٹن اور نہرو گٹھ جوڑ کا مقابلہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا تھا۔
لیکن باچا خان نے ہندوستانی اور پشتون مسلمانوں کے سواداعظم سے اختلافی راہ اپنائی اور تاعمر اس پہ قائم رہے۔
آپ بیتی کا اختتام پاکستان سے اظہار بیزاری اور نفرت پہ کیا گیا ہے۔ یہی نفرت اور بیزاری متعصب قوم پرست گروہوں کے لب و لہجے میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔