یہ ظالم کورونا وائرس اس قدر سنگ دل نکلے گا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔خاص کر پاکستانیوں کو تو اس کا اندازہ ہی نہیں تھا جبھی جنوری فروری میں کورونا کو عام نزلہ بخار سمجھ کر طرح طرح کے لطائف بنانے شروع کردیے تھے ۔ لیکن جب سروں پر آپہنچا تو جناب بچنے بچانے کے ہزار جتن شروع ہوگئے ۔ جراثیم کش صابن ، محلول ، ماسک اور ہینڈ سینٹائزر کے حصول کی دوڑیں لگ گئیں ۔۔ اب یہ کہاں تک ملے یہ تو الگ موضوع ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس نے شادی بیاہ اور چھوٹی بڑی تقریبات سمیت ہر قسم کے میل جول پر جیسے پہرے لگادیے.
یہ حال صرف پاکستان نہیں دنیا بھر میں ہے ۔ لاک ڈاؤن بدستور ہے ۔اس وبا نے کرکٹ سمیت کھیلوں کے دیگر بین الاقوامی مقابلوں کو بھی آناً فاناً نگل لیا ہے ۔ کئی بڑے ایونٹس یا تو منسوخ ہوچکے ہیں اور کئی کے سرپرکچھ ایسی ہی تلوار لٹک رہی ہے ۔ رمضان کی رونقیں ویسے ہی ماند پڑی ہوئی ہیں ، مساجد میں محدود نمازی ہیں اور بازاروں میں رش بھی بس گزارے لائق ۔ ایسے میں کراچی والے جن کے لیے اس مہینے میں نائٹ میچز اور ٹورنامنٹس کی بہار آتی تھی ، وہ بے چارگی کے عالم میں ان معرکہ آرائی کے لیے ترس رہے ہیں۔
کراچی میں رہنے والے ان نائٹ کرکٹ مقابلوں کے رسیا رہے ہیں اور وہ بخوبی واقف ہیں کہ رمضان آتے ہی گلی محلے ، نائٹ میچوں کے باعث آباد ہوجاتے تھے ۔ ہر گلی سے شور شرابے کی ایسی آوازیں اٹھتیں ، جنہیں سن کر گھروں میں قید افراد، سیل فون یا ٹی وی چھوڑ کر بالکونیاں آباد کرنے میں لگ جاتے ۔ تراویح پڑھنے کے بعد کراچی کے لڑکے ، ٹیپ بال اور بلے سنبھال کر ٹیمیں تشکیل دے کر ایک دوسرے کے چھکے اڑانے کے لیے بے تاب رہتے ۔ ایک محلے سے دوسرے کا رخ کیا جاتا ہے ۔ گلیوں کے کھمبوں پر تاروں کا جال بچھایا جاتا ہے، جن میں لاتعداد برقی قمقمے جھلمارہے ہوتے اور پھر راتیں روشن اور زیادہ منور ہوجاتیں۔۔ ٹیپ سے آراستہ کرمچ کی گیندیں ، عمروعیار کی زنبیل کی طرح کسی تھیلے میں ہوتیں اور اگر چھکا یا اونچا شارٹ مارنے کے بعد کوئی گیند کسی گھر کی مہمان بن جاتی تو اسی زنبیل سے منتظمین جھٹ پٹ ایک اور گیند نکال کر ٹیموں کے حوالے کردیتے ۔ جبکہ ان کا ایک کارندہ نکل پڑتا گیند کی کھوج میں۔ کھیلنے والوں سے زیادہ دیکھنے والے ہوتے ، جو کبھی کسی ایک ٹیم کے حامی ہوتے تو کبھی کسی اور کے ، ہر شارٹ ہر وکٹ اور ہر کامیابی پر تالیوں کا شور برپا ہوتا ۔
درحقیقت یہی رمضان کی پہچان سمجھی جاتی ۔ جس کا آغاز پہلے روزے سے آخری ہفتے تک رہتا ۔ بچے بڑے سب کرکٹ جیسے کھیل میں مگن رہتے اور سحری تک یہ میلہ لگا رہتا ۔بیشتر ٹورنامنٹس کی فاتح ٹیم کے لیے نقد انعام بھی مخصوص ہوتا ، جنہیں وہ سحری کے خرچے میں استعمال کرتے ۔ کئی تو ایسے بھی میچز ہوتے ، جو سحری کے بعد نماز فجر کے بعد وہیں سے اپنا تعلق جوڑتے جہاں سے منطقع ہوتا ۔ صرف گلی محلے ہی نہیں جناب ، بلکہ کراچی کے بڑے میدانوں میں بھی ’ ہارڈ بال ‘ کے دنگل ہوتے ۔ کئی ایسے میدان ہیں ‘ جہاں یہ میچز سہ پہر سے زور پکڑ لیتے ۔ ان میں کراچی کے جم خانے ، ناظم آباد اور ڈیفنس کے اسٹیڈیم میں ہونے والے ہارڈ بال کے رمضان ٹورنامنٹس تو سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوتے ۔ جوش و جذبہ عروج پر رہتا ۔ تماشائی ہرعمر کے ہوتے ۔ اور ان مقابلوں میں نامی گرامی کرکٹرز بھی اپنا لوہا منوانے کے لیے میدان میں اترتے ۔ لیکن اس کورونا وائرس نے ان مقابلوں کو بھی یاد ماضی بنا دیا ہے ۔ کراچی سمیت کئی شہروں میں لاک ڈاؤن ہے اور اسی بنا پر ’ سماجی فاصلے ‘ کی پابندی کی زد میں رمضان کرکٹ بھی آگئی ہے ۔ نوجوانوں کے بلے اور گیندیں کسی کونے کھدرے میں پڑی ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب کورونا وائرس کا یہ طوفان تھمے اور پھر سے انہیں تھام کر کرکٹ کے جنونی ، دلا دیں انہیں پرانی یادیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ رمضان کے ان کرکٹ مقابلوں کا پورا سال بڑی بے چینی سے انتظار کیا جاتا ۔۔ لیکن کورونا وائرس نے تو جیسے زندگی کے سارے رنگ پھیکے کردیے ہیں ، معاملات زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ۔ کراچی والے کرکٹ سے تولطف اندوز نہیں ہورہے فی الحال تو وہ افطار سے پہلے چھتوں پر چڑھ کر پتنگ بازی میں ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ اور ’ بو کاٹا ‘ کی صدائیں کم از کم کرکٹ کی جگہ پرُ کرتی نظر آرہی ہیں۔
رمضان کی رونقیں صرف کرکٹ تک ہی محدود نہیں تھیں۔ افطاری اور سحری کے لیے فاسٹ فوڈز اور دیسی ریستوران میں ایک جم غفیر ہوتا ۔ کراچی والے تو ٹولیاں بنا کر افطاری کے لیے ان مقامات کا رخ کرتے یا پھر مہمانوں کو گھر آنے کا بلاوا بھی دیتے ،جبکہ سحری باہر کرنے کارحجان بھی حالیہ برسوں میں خوب پروان چڑھا ۔ چائے کے دیوانے تو افطار کے بعدعنابی ہوٹلوں اور ڈھابوں کی کرسیوں اور چارپائیوں پر بیٹھ کر چسکیاں لے لے کر دنیا جہاں کی گفتگو میں محو ہوتے اور یہ محفلیں سحری تک برقرار رہتیں۔ اگر کراچی کے مضافاتی علاقوں کا رخ کیا جاتا تو بزنس روڈ اور کھارادر میں عید سے پہلے عید کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ۔ جہاں گھڑ اور اونٹ سواری اور جھولوں کا مزا اٹھاتے من چلے ننھے منے پھول خوشی سے دمک رہے ہوتے ۔ لیکن کورونا نے یہ منظر بھی دھندلا دیا ہے ۔
رات بھر سڑکوں پر گزارنے والے اب گھروں میں قید ہو کر سوشل میڈیا سائٹس پر ’ سماجی رابطے ‘ میں ہیں۔ کچھ تو بے چارے سیل فون پر آن لائن گیمز کھیل کر وقت کاٹ رہے ہیں۔ یعنی اس رمضان ، سڑکیں نہیں بلکہ سوشل میڈیا کچھ اور زیادہ آباد ہوگیا ہے ۔ ذرا تصور تو کریں کہ آنے والے دنوں میں عید کی خریداری کے مراکز کا کیا حال ہوگا ۔ حالات جوں کے توں رہے تو ممکن ہے کہ ہُو اور سناٹا کاٹ کھانے کو دوڑے گا‘ دکاندار ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوں گے ۔کورونا کے یہ خوف ناک اور دل دہلا دینے والے بادل جب چھٹیں گے تو ویران سڑکوں پر زندگی کی وہی رونق اور خوشیاں ملیں ‘ جو ان کی شناخت رہی ہیں لیکن ایسا کب ہوگا ؟ یہی سوال ہر ایک کے ذہن میں گردش کررہا ہے ۔ ٭