Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
دنیا کہنے کو تو بدل گئی ہے لیکن جنسی معاملات پہ کھل کر بات کرنے والے لوگ اب بھی کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے آس پاس کتنی ہی کہانیوں کے چلتے پھرتے کردار اپنی جنسی بھوک دبائے اندر ہی اندر بلک رہے ہیں لیکن وہ بدقسمتی سے ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں معدے میں لگنے والی آگ کے آگے کسی دوسری بھوک کا نام سننا گوارا نہیں کیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ سماج کی بھی اپنی ایک شریعت ہوا کرتی ہے، جس کی خلاف ورزی پہ ایسے ہی فتوے لگائے جاتے ہیں جیسے آپ نے مذہب کی مقرر کردہ کوئی حد توڑ دی ہو۔ان فتووں کے ڈر سے اپنی زندگی جہنم بنانے کا رسک لینا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے سماج میں بظاہر تولوگ پارسائی کا چولا پہن کر معاشرتی مطابقت حاصل کرنے کے جتن میں لگے رہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی جنسی بھوک پرقابو پانے میں اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ان کادماغ ہر وقت اپنے اندر کروٹیں بدلتی ان اندھی کیفیات سے نکلنے کے لیے کسی لاٹھی کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن اس لاٹھی سے تو سماج کی اس شریعت کو خدا واسطے کا بیر ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ روحوں کے اندر جنسی تلذذ کا مادہ بس صرف نسل انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے رکھا گیا ہے میں، سمجھتی ہوں، وہی اس سماج میں جنسی بھوک بڑھانے کے اصل ذمے دار ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ جنسی جذبات کا بنیادی مقصد اگر باہمی جنسی آسودگی و تسکین کو تسلیم کر لیا جائے تو اس میں آخر قباحت کیا ہے۔ پیٹ کی بھوک پرتوکبھی من مانی تاویلیں پیش نہیں کی جاتیں، اسے عین انسانی فطرت قرار دے کر بلا چوں چراں تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے خاتمے کو ہی معاشرتی ترقی کا ضامن قرار دیا جاتا ہے لیکن جنس کی بات آتے ہی سماج کی دُکھتی رگ پر ہاتھ جا پڑتا ہے اور اس کی خود ساختہ شریعت انگڑائی لے کر بے دار ہو جاتی ہے اور اعلان کرنے لگتی ہے کہ جو اپنے جنسی جذبات پر قابورکھے گا، انہیں دباکر رکھے گا وہی اس معاشرے میں باحیا اور باعزت قرار پائے گا۔جنس کے معاملے میں سماج کی یہ شریعت، فطرت کے قانون کو رد کردیتی ہے اوراس بات سے بھی صرفِ نظر کر لیتی ہے کہ پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک بھی ایک طاقت ور ترین جذبہ ہے جس کی تکمیل کی خوہش اکثر تمام آداب بھلا دیتی ہے۔
کچھ واقعات تواتر سے ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ تحریر لکھنے پرمجھے اکسایا۔ جنسی معاملات پر لکھنا مشکل ترین کام ہے۔اس حوالے سے کسی ادیب کا کہا جملہ اس وقت میری سماعت میں گونج رہا ہے کہ جنس کے موضوع پر لکھتے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے صرف لذت کا سامان بن کر نہ رہ جائے۔ میں اس بات سے کلی طور پر اتفاق کرتی ہوں۔ لیکن جنس سے جڑے بے شمار واقعات اس قدر تکلیف کا باعث ہوتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان میں سے لذت کشید نہیں کی جاسکتی ۔مجھ تک پہنچنے والے ان واقعات میں سے کئی میں تو وہ عورتیں سسک رہی ہیں، جو نکاح نامی معاشرتی بندھن سے اس لیے نجات کی خواہاں ہیں کہ یہاں ان کے جنسی حقوق پورے نہیں کیے جاتے ۔ وہ چیخ چیخ کر تھک چکی ہیں کہ اب اور بھوک برداشت نہیں ہوتی ، رہائی دو کہ جینے کا دوسرا رستہ تو دیکھ سکیں ۔ لیکن سماج کے نزدیک یہ وجہ تو ” صرف اتنی سی بات ” ہے۔ کیوں کہ وہ اس معاملے پر ان عورتوں کو اپنا الگ ہی درس دیتا ہے ۔سماج کہتا ہے کہ اے عورت ! لب سی کر اسی دہلیز سے چمٹے رہنا ہی یہاں تیری عزت اور عظمت کا باعث ہے ۔تیری بڑائی بس یہی ہے کہ جنس کے فطری تقاضوں کو اپنے اندر پچھاڑے اور سرخرو کہلائے۔
ان ہی میں سے ایک عورت آج میرے سامنے رو رہی ہے ۔ یہ وہ ہے جس نے اس درس کو بھلا کرسماج سے بغاوت کر ڈالی ، جنسی بھوک سے بے تاب کسی لمحے میں شہوت بھری چیخ اندر سے نکلی اور وہ خوف زدہ ہوکر ایک مرد سے لپٹ گئی۔ اس وقت جنسی بھوک سے وہ اس قدر نڈھال تھی کہ یہ بھی نہ سوچا کہ جس مرد کے گلے لگی ہے اس کا دستخط نکاح نامے میں نہیں ۔ عورت کے اس ” گناہ ” نے سماج کی اندھی روایتوں کو یکایک بیناکرڈالا۔ جنس کی وہ بھوک جس سے نڈھال ہو کر اس عورت نے اندر ہی اندر گھٹ کر مرنے کے بجائے خود کو زندہ رکھنے کا ایک چور دروازہ تلاش کیا تھا ، اس پر تو گویا سماج کے ضبط کے سارے بندھن ہی ٹوٹ گئے ۔ وہ بندھن جوعورت کو اس بھوک میں تڑپتا دیکھ کر کبھی نہ ٹوٹے ۔ اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں ۔ لیکن آج بھی وہ عورت در بدر ہے۔ جنسی بھوک مٹانے کی سزا میں، عمر بھر کا جنسی فاقہ اس کا مقدر بنایا جا چکا ہے۔ اب تو اس کو اتنی بھی اجازت نہیں کہ اپنے کمرے کی کنڈی لگا کر سوہی جایا کرے ۔ ایک دہائی سے وہ یہ سزا کاٹ رہی ہے۔ محض ایک واقعہ اب تک اس کے کردار کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ۔ ایسی لعنت ملامت اور پھٹکار اس کا مقدر بنی ہوئی ہے، جسے دیکھ کر سماج سے زیادہ شکوہ خدا سے کر رہی ہوں جس نے جنس کی بھوک کو فطرت کا ایسا زور آور حصہ اگر بنانا ہی تھا تو پیٹ کی بھوک کی طرح اس کو مٹانے کے لیے بھی اضطرار کا کوئی راستہ تو چھوڑا ہوتا ۔
جنسی ناآسودگی کی یہ کہانیاں ہمارے اطراف آکاس کی بیلوں کی طرح بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ نا آسودگی صرف عورتوں کا نہیں بلکہ اکثر مردوں کا مقدر بھی بن جاتی ہے ۔ ایسے جوڑوں کی بھی بہتات ہے، جن کاازدواجی تعلق سماج کی طرف سے عورتوں کو دی جانے والی شرم وحیا کی اوور ڈوز کی وجہ سے کبھی چادر سے باہر کی دنیا میں جسموں کا باہمی فاصلہ پاٹ ہی نہ سکا، یوں ان میں سے اکثر مردوں کو اپنی بیویوں کے بجائے دوسری عورتوں تک رسائی قدرے آسان اور باعثِ سکون محسوس ہونے لگی، جس کو اخلاقی گراوٹ قرار دے کر سماج پھر خود ہی نوحہ گر بھی ہوا۔
یہ بات کہنے کے لیے کسی دعوے کی ضرورت نہیں کہ پیٹ اور جنس کی بھوک جب زوروں پر ہو تو انسان بلا تخصیص مرد یا عورت، کوئی کام یکسوئی، دل جمعی اور توجہ سے کر ہی نہیں سکتا۔ بد قسمتی سے یہ دونوں قسم کی بھوک ہمارے سماج میں پوری شدت سے بڑھ رہی ہیں۔کبھی مغرب کی ترقی کی جانب دیکھتی ہوں تو ماننا پڑتا ہے کہ پیٹ بھر روٹی میسرہو اور جنسی آسودگی سے دامن بھرا ہو تو ترقی کا سفر بڑی بے فکری اور تیزی سے طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کو شاید اس رنگینی کی ضرورت ہی نہیں جوپیٹ بھر کرجنسی بھوک مٹنے سے جذبات اور احساسات میں پیدا ہوتی ہے، اسی لیے نفرت بھرے تعلقات کو گھسیٹنے کی روایت کو اقدار کا نام دے کر ناآسودگی کی دلدل میں دھنسے انسان کے سر پہ ایک کیل اور ٹھونک دی جاتی ہے۔ فطری تعلقات میں بھی خود ساختہ انسانی اصولوں اور قوانین کا تڑکا لگا کر جانے اس سماج کو کیسا سکون ملتا ہے۔
دنیا کہنے کو تو بدل گئی ہے لیکن جنسی معاملات پہ کھل کر بات کرنے والے لوگ اب بھی کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے آس پاس کتنی ہی کہانیوں کے چلتے پھرتے کردار اپنی جنسی بھوک دبائے اندر ہی اندر بلک رہے ہیں لیکن وہ بدقسمتی سے ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں معدے میں لگنے والی آگ کے آگے کسی دوسری بھوک کا نام سننا گوارا نہیں کیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ سماج کی بھی اپنی ایک شریعت ہوا کرتی ہے، جس کی خلاف ورزی پہ ایسے ہی فتوے لگائے جاتے ہیں جیسے آپ نے مذہب کی مقرر کردہ کوئی حد توڑ دی ہو۔ان فتووں کے ڈر سے اپنی زندگی جہنم بنانے کا رسک لینا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے سماج میں بظاہر تولوگ پارسائی کا چولا پہن کر معاشرتی مطابقت حاصل کرنے کے جتن میں لگے رہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی جنسی بھوک پرقابو پانے میں اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ان کادماغ ہر وقت اپنے اندر کروٹیں بدلتی ان اندھی کیفیات سے نکلنے کے لیے کسی لاٹھی کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن اس لاٹھی سے تو سماج کی اس شریعت کو خدا واسطے کا بیر ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ روحوں کے اندر جنسی تلذذ کا مادہ بس صرف نسل انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے رکھا گیا ہے میں، سمجھتی ہوں، وہی اس سماج میں جنسی بھوک بڑھانے کے اصل ذمے دار ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ جنسی جذبات کا بنیادی مقصد اگر باہمی جنسی آسودگی و تسکین کو تسلیم کر لیا جائے تو اس میں آخر قباحت کیا ہے۔ پیٹ کی بھوک پرتوکبھی من مانی تاویلیں پیش نہیں کی جاتیں، اسے عین انسانی فطرت قرار دے کر بلا چوں چراں تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے خاتمے کو ہی معاشرتی ترقی کا ضامن قرار دیا جاتا ہے لیکن جنس کی بات آتے ہی سماج کی دُکھتی رگ پر ہاتھ جا پڑتا ہے اور اس کی خود ساختہ شریعت انگڑائی لے کر بے دار ہو جاتی ہے اور اعلان کرنے لگتی ہے کہ جو اپنے جنسی جذبات پر قابورکھے گا، انہیں دباکر رکھے گا وہی اس معاشرے میں باحیا اور باعزت قرار پائے گا۔جنس کے معاملے میں سماج کی یہ شریعت، فطرت کے قانون کو رد کردیتی ہے اوراس بات سے بھی صرفِ نظر کر لیتی ہے کہ پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک بھی ایک طاقت ور ترین جذبہ ہے جس کی تکمیل کی خوہش اکثر تمام آداب بھلا دیتی ہے۔
کچھ واقعات تواتر سے ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ تحریر لکھنے پرمجھے اکسایا۔ جنسی معاملات پر لکھنا مشکل ترین کام ہے۔اس حوالے سے کسی ادیب کا کہا جملہ اس وقت میری سماعت میں گونج رہا ہے کہ جنس کے موضوع پر لکھتے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے صرف لذت کا سامان بن کر نہ رہ جائے۔ میں اس بات سے کلی طور پر اتفاق کرتی ہوں۔ لیکن جنس سے جڑے بے شمار واقعات اس قدر تکلیف کا باعث ہوتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان میں سے لذت کشید نہیں کی جاسکتی ۔مجھ تک پہنچنے والے ان واقعات میں سے کئی میں تو وہ عورتیں سسک رہی ہیں، جو نکاح نامی معاشرتی بندھن سے اس لیے نجات کی خواہاں ہیں کہ یہاں ان کے جنسی حقوق پورے نہیں کیے جاتے ۔ وہ چیخ چیخ کر تھک چکی ہیں کہ اب اور بھوک برداشت نہیں ہوتی ، رہائی دو کہ جینے کا دوسرا رستہ تو دیکھ سکیں ۔ لیکن سماج کے نزدیک یہ وجہ تو ” صرف اتنی سی بات ” ہے۔ کیوں کہ وہ اس معاملے پر ان عورتوں کو اپنا الگ ہی درس دیتا ہے ۔سماج کہتا ہے کہ اے عورت ! لب سی کر اسی دہلیز سے چمٹے رہنا ہی یہاں تیری عزت اور عظمت کا باعث ہے ۔تیری بڑائی بس یہی ہے کہ جنس کے فطری تقاضوں کو اپنے اندر پچھاڑے اور سرخرو کہلائے۔
ان ہی میں سے ایک عورت آج میرے سامنے رو رہی ہے ۔ یہ وہ ہے جس نے اس درس کو بھلا کرسماج سے بغاوت کر ڈالی ، جنسی بھوک سے بے تاب کسی لمحے میں شہوت بھری چیخ اندر سے نکلی اور وہ خوف زدہ ہوکر ایک مرد سے لپٹ گئی۔ اس وقت جنسی بھوک سے وہ اس قدر نڈھال تھی کہ یہ بھی نہ سوچا کہ جس مرد کے گلے لگی ہے اس کا دستخط نکاح نامے میں نہیں ۔ عورت کے اس ” گناہ ” نے سماج کی اندھی روایتوں کو یکایک بیناکرڈالا۔ جنس کی وہ بھوک جس سے نڈھال ہو کر اس عورت نے اندر ہی اندر گھٹ کر مرنے کے بجائے خود کو زندہ رکھنے کا ایک چور دروازہ تلاش کیا تھا ، اس پر تو گویا سماج کے ضبط کے سارے بندھن ہی ٹوٹ گئے ۔ وہ بندھن جوعورت کو اس بھوک میں تڑپتا دیکھ کر کبھی نہ ٹوٹے ۔ اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں ۔ لیکن آج بھی وہ عورت در بدر ہے۔ جنسی بھوک مٹانے کی سزا میں، عمر بھر کا جنسی فاقہ اس کا مقدر بنایا جا چکا ہے۔ اب تو اس کو اتنی بھی اجازت نہیں کہ اپنے کمرے کی کنڈی لگا کر سوہی جایا کرے ۔ ایک دہائی سے وہ یہ سزا کاٹ رہی ہے۔ محض ایک واقعہ اب تک اس کے کردار کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ۔ ایسی لعنت ملامت اور پھٹکار اس کا مقدر بنی ہوئی ہے، جسے دیکھ کر سماج سے زیادہ شکوہ خدا سے کر رہی ہوں جس نے جنس کی بھوک کو فطرت کا ایسا زور آور حصہ اگر بنانا ہی تھا تو پیٹ کی بھوک کی طرح اس کو مٹانے کے لیے بھی اضطرار کا کوئی راستہ تو چھوڑا ہوتا ۔
جنسی ناآسودگی کی یہ کہانیاں ہمارے اطراف آکاس کی بیلوں کی طرح بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ نا آسودگی صرف عورتوں کا نہیں بلکہ اکثر مردوں کا مقدر بھی بن جاتی ہے ۔ ایسے جوڑوں کی بھی بہتات ہے، جن کاازدواجی تعلق سماج کی طرف سے عورتوں کو دی جانے والی شرم وحیا کی اوور ڈوز کی وجہ سے کبھی چادر سے باہر کی دنیا میں جسموں کا باہمی فاصلہ پاٹ ہی نہ سکا، یوں ان میں سے اکثر مردوں کو اپنی بیویوں کے بجائے دوسری عورتوں تک رسائی قدرے آسان اور باعثِ سکون محسوس ہونے لگی، جس کو اخلاقی گراوٹ قرار دے کر سماج پھر خود ہی نوحہ گر بھی ہوا۔
یہ بات کہنے کے لیے کسی دعوے کی ضرورت نہیں کہ پیٹ اور جنس کی بھوک جب زوروں پر ہو تو انسان بلا تخصیص مرد یا عورت، کوئی کام یکسوئی، دل جمعی اور توجہ سے کر ہی نہیں سکتا۔ بد قسمتی سے یہ دونوں قسم کی بھوک ہمارے سماج میں پوری شدت سے بڑھ رہی ہیں۔کبھی مغرب کی ترقی کی جانب دیکھتی ہوں تو ماننا پڑتا ہے کہ پیٹ بھر روٹی میسرہو اور جنسی آسودگی سے دامن بھرا ہو تو ترقی کا سفر بڑی بے فکری اور تیزی سے طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کو شاید اس رنگینی کی ضرورت ہی نہیں جوپیٹ بھر کرجنسی بھوک مٹنے سے جذبات اور احساسات میں پیدا ہوتی ہے، اسی لیے نفرت بھرے تعلقات کو گھسیٹنے کی روایت کو اقدار کا نام دے کر ناآسودگی کی دلدل میں دھنسے انسان کے سر پہ ایک کیل اور ٹھونک دی جاتی ہے۔ فطری تعلقات میں بھی خود ساختہ انسانی اصولوں اور قوانین کا تڑکا لگا کر جانے اس سماج کو کیسا سکون ملتا ہے۔
دنیا کہنے کو تو بدل گئی ہے لیکن جنسی معاملات پہ کھل کر بات کرنے والے لوگ اب بھی کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے آس پاس کتنی ہی کہانیوں کے چلتے پھرتے کردار اپنی جنسی بھوک دبائے اندر ہی اندر بلک رہے ہیں لیکن وہ بدقسمتی سے ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں معدے میں لگنے والی آگ کے آگے کسی دوسری بھوک کا نام سننا گوارا نہیں کیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ سماج کی بھی اپنی ایک شریعت ہوا کرتی ہے، جس کی خلاف ورزی پہ ایسے ہی فتوے لگائے جاتے ہیں جیسے آپ نے مذہب کی مقرر کردہ کوئی حد توڑ دی ہو۔ان فتووں کے ڈر سے اپنی زندگی جہنم بنانے کا رسک لینا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے سماج میں بظاہر تولوگ پارسائی کا چولا پہن کر معاشرتی مطابقت حاصل کرنے کے جتن میں لگے رہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی جنسی بھوک پرقابو پانے میں اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ان کادماغ ہر وقت اپنے اندر کروٹیں بدلتی ان اندھی کیفیات سے نکلنے کے لیے کسی لاٹھی کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن اس لاٹھی سے تو سماج کی اس شریعت کو خدا واسطے کا بیر ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ روحوں کے اندر جنسی تلذذ کا مادہ بس صرف نسل انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے رکھا گیا ہے میں، سمجھتی ہوں، وہی اس سماج میں جنسی بھوک بڑھانے کے اصل ذمے دار ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ جنسی جذبات کا بنیادی مقصد اگر باہمی جنسی آسودگی و تسکین کو تسلیم کر لیا جائے تو اس میں آخر قباحت کیا ہے۔ پیٹ کی بھوک پرتوکبھی من مانی تاویلیں پیش نہیں کی جاتیں، اسے عین انسانی فطرت قرار دے کر بلا چوں چراں تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے خاتمے کو ہی معاشرتی ترقی کا ضامن قرار دیا جاتا ہے لیکن جنس کی بات آتے ہی سماج کی دُکھتی رگ پر ہاتھ جا پڑتا ہے اور اس کی خود ساختہ شریعت انگڑائی لے کر بے دار ہو جاتی ہے اور اعلان کرنے لگتی ہے کہ جو اپنے جنسی جذبات پر قابورکھے گا، انہیں دباکر رکھے گا وہی اس معاشرے میں باحیا اور باعزت قرار پائے گا۔جنس کے معاملے میں سماج کی یہ شریعت، فطرت کے قانون کو رد کردیتی ہے اوراس بات سے بھی صرفِ نظر کر لیتی ہے کہ پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک بھی ایک طاقت ور ترین جذبہ ہے جس کی تکمیل کی خوہش اکثر تمام آداب بھلا دیتی ہے۔
کچھ واقعات تواتر سے ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ تحریر لکھنے پرمجھے اکسایا۔ جنسی معاملات پر لکھنا مشکل ترین کام ہے۔اس حوالے سے کسی ادیب کا کہا جملہ اس وقت میری سماعت میں گونج رہا ہے کہ جنس کے موضوع پر لکھتے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے صرف لذت کا سامان بن کر نہ رہ جائے۔ میں اس بات سے کلی طور پر اتفاق کرتی ہوں۔ لیکن جنس سے جڑے بے شمار واقعات اس قدر تکلیف کا باعث ہوتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان میں سے لذت کشید نہیں کی جاسکتی ۔مجھ تک پہنچنے والے ان واقعات میں سے کئی میں تو وہ عورتیں سسک رہی ہیں، جو نکاح نامی معاشرتی بندھن سے اس لیے نجات کی خواہاں ہیں کہ یہاں ان کے جنسی حقوق پورے نہیں کیے جاتے ۔ وہ چیخ چیخ کر تھک چکی ہیں کہ اب اور بھوک برداشت نہیں ہوتی ، رہائی دو کہ جینے کا دوسرا رستہ تو دیکھ سکیں ۔ لیکن سماج کے نزدیک یہ وجہ تو ” صرف اتنی سی بات ” ہے۔ کیوں کہ وہ اس معاملے پر ان عورتوں کو اپنا الگ ہی درس دیتا ہے ۔سماج کہتا ہے کہ اے عورت ! لب سی کر اسی دہلیز سے چمٹے رہنا ہی یہاں تیری عزت اور عظمت کا باعث ہے ۔تیری بڑائی بس یہی ہے کہ جنس کے فطری تقاضوں کو اپنے اندر پچھاڑے اور سرخرو کہلائے۔
ان ہی میں سے ایک عورت آج میرے سامنے رو رہی ہے ۔ یہ وہ ہے جس نے اس درس کو بھلا کرسماج سے بغاوت کر ڈالی ، جنسی بھوک سے بے تاب کسی لمحے میں شہوت بھری چیخ اندر سے نکلی اور وہ خوف زدہ ہوکر ایک مرد سے لپٹ گئی۔ اس وقت جنسی بھوک سے وہ اس قدر نڈھال تھی کہ یہ بھی نہ سوچا کہ جس مرد کے گلے لگی ہے اس کا دستخط نکاح نامے میں نہیں ۔ عورت کے اس ” گناہ ” نے سماج کی اندھی روایتوں کو یکایک بیناکرڈالا۔ جنس کی وہ بھوک جس سے نڈھال ہو کر اس عورت نے اندر ہی اندر گھٹ کر مرنے کے بجائے خود کو زندہ رکھنے کا ایک چور دروازہ تلاش کیا تھا ، اس پر تو گویا سماج کے ضبط کے سارے بندھن ہی ٹوٹ گئے ۔ وہ بندھن جوعورت کو اس بھوک میں تڑپتا دیکھ کر کبھی نہ ٹوٹے ۔ اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں ۔ لیکن آج بھی وہ عورت در بدر ہے۔ جنسی بھوک مٹانے کی سزا میں، عمر بھر کا جنسی فاقہ اس کا مقدر بنایا جا چکا ہے۔ اب تو اس کو اتنی بھی اجازت نہیں کہ اپنے کمرے کی کنڈی لگا کر سوہی جایا کرے ۔ ایک دہائی سے وہ یہ سزا کاٹ رہی ہے۔ محض ایک واقعہ اب تک اس کے کردار کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ۔ ایسی لعنت ملامت اور پھٹکار اس کا مقدر بنی ہوئی ہے، جسے دیکھ کر سماج سے زیادہ شکوہ خدا سے کر رہی ہوں جس نے جنس کی بھوک کو فطرت کا ایسا زور آور حصہ اگر بنانا ہی تھا تو پیٹ کی بھوک کی طرح اس کو مٹانے کے لیے بھی اضطرار کا کوئی راستہ تو چھوڑا ہوتا ۔
جنسی ناآسودگی کی یہ کہانیاں ہمارے اطراف آکاس کی بیلوں کی طرح بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ نا آسودگی صرف عورتوں کا نہیں بلکہ اکثر مردوں کا مقدر بھی بن جاتی ہے ۔ ایسے جوڑوں کی بھی بہتات ہے، جن کاازدواجی تعلق سماج کی طرف سے عورتوں کو دی جانے والی شرم وحیا کی اوور ڈوز کی وجہ سے کبھی چادر سے باہر کی دنیا میں جسموں کا باہمی فاصلہ پاٹ ہی نہ سکا، یوں ان میں سے اکثر مردوں کو اپنی بیویوں کے بجائے دوسری عورتوں تک رسائی قدرے آسان اور باعثِ سکون محسوس ہونے لگی، جس کو اخلاقی گراوٹ قرار دے کر سماج پھر خود ہی نوحہ گر بھی ہوا۔
یہ بات کہنے کے لیے کسی دعوے کی ضرورت نہیں کہ پیٹ اور جنس کی بھوک جب زوروں پر ہو تو انسان بلا تخصیص مرد یا عورت، کوئی کام یکسوئی، دل جمعی اور توجہ سے کر ہی نہیں سکتا۔ بد قسمتی سے یہ دونوں قسم کی بھوک ہمارے سماج میں پوری شدت سے بڑھ رہی ہیں۔کبھی مغرب کی ترقی کی جانب دیکھتی ہوں تو ماننا پڑتا ہے کہ پیٹ بھر روٹی میسرہو اور جنسی آسودگی سے دامن بھرا ہو تو ترقی کا سفر بڑی بے فکری اور تیزی سے طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کو شاید اس رنگینی کی ضرورت ہی نہیں جوپیٹ بھر کرجنسی بھوک مٹنے سے جذبات اور احساسات میں پیدا ہوتی ہے، اسی لیے نفرت بھرے تعلقات کو گھسیٹنے کی روایت کو اقدار کا نام دے کر ناآسودگی کی دلدل میں دھنسے انسان کے سر پہ ایک کیل اور ٹھونک دی جاتی ہے۔ فطری تعلقات میں بھی خود ساختہ انسانی اصولوں اور قوانین کا تڑکا لگا کر جانے اس سماج کو کیسا سکون ملتا ہے۔
دنیا کہنے کو تو بدل گئی ہے لیکن جنسی معاملات پہ کھل کر بات کرنے والے لوگ اب بھی کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے آس پاس کتنی ہی کہانیوں کے چلتے پھرتے کردار اپنی جنسی بھوک دبائے اندر ہی اندر بلک رہے ہیں لیکن وہ بدقسمتی سے ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں معدے میں لگنے والی آگ کے آگے کسی دوسری بھوک کا نام سننا گوارا نہیں کیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ سماج کی بھی اپنی ایک شریعت ہوا کرتی ہے، جس کی خلاف ورزی پہ ایسے ہی فتوے لگائے جاتے ہیں جیسے آپ نے مذہب کی مقرر کردہ کوئی حد توڑ دی ہو۔ان فتووں کے ڈر سے اپنی زندگی جہنم بنانے کا رسک لینا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے سماج میں بظاہر تولوگ پارسائی کا چولا پہن کر معاشرتی مطابقت حاصل کرنے کے جتن میں لگے رہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی جنسی بھوک پرقابو پانے میں اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ان کادماغ ہر وقت اپنے اندر کروٹیں بدلتی ان اندھی کیفیات سے نکلنے کے لیے کسی لاٹھی کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن اس لاٹھی سے تو سماج کی اس شریعت کو خدا واسطے کا بیر ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ روحوں کے اندر جنسی تلذذ کا مادہ بس صرف نسل انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے رکھا گیا ہے میں، سمجھتی ہوں، وہی اس سماج میں جنسی بھوک بڑھانے کے اصل ذمے دار ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ جنسی جذبات کا بنیادی مقصد اگر باہمی جنسی آسودگی و تسکین کو تسلیم کر لیا جائے تو اس میں آخر قباحت کیا ہے۔ پیٹ کی بھوک پرتوکبھی من مانی تاویلیں پیش نہیں کی جاتیں، اسے عین انسانی فطرت قرار دے کر بلا چوں چراں تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے خاتمے کو ہی معاشرتی ترقی کا ضامن قرار دیا جاتا ہے لیکن جنس کی بات آتے ہی سماج کی دُکھتی رگ پر ہاتھ جا پڑتا ہے اور اس کی خود ساختہ شریعت انگڑائی لے کر بے دار ہو جاتی ہے اور اعلان کرنے لگتی ہے کہ جو اپنے جنسی جذبات پر قابورکھے گا، انہیں دباکر رکھے گا وہی اس معاشرے میں باحیا اور باعزت قرار پائے گا۔جنس کے معاملے میں سماج کی یہ شریعت، فطرت کے قانون کو رد کردیتی ہے اوراس بات سے بھی صرفِ نظر کر لیتی ہے کہ پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک بھی ایک طاقت ور ترین جذبہ ہے جس کی تکمیل کی خوہش اکثر تمام آداب بھلا دیتی ہے۔
کچھ واقعات تواتر سے ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ تحریر لکھنے پرمجھے اکسایا۔ جنسی معاملات پر لکھنا مشکل ترین کام ہے۔اس حوالے سے کسی ادیب کا کہا جملہ اس وقت میری سماعت میں گونج رہا ہے کہ جنس کے موضوع پر لکھتے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے صرف لذت کا سامان بن کر نہ رہ جائے۔ میں اس بات سے کلی طور پر اتفاق کرتی ہوں۔ لیکن جنس سے جڑے بے شمار واقعات اس قدر تکلیف کا باعث ہوتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان میں سے لذت کشید نہیں کی جاسکتی ۔مجھ تک پہنچنے والے ان واقعات میں سے کئی میں تو وہ عورتیں سسک رہی ہیں، جو نکاح نامی معاشرتی بندھن سے اس لیے نجات کی خواہاں ہیں کہ یہاں ان کے جنسی حقوق پورے نہیں کیے جاتے ۔ وہ چیخ چیخ کر تھک چکی ہیں کہ اب اور بھوک برداشت نہیں ہوتی ، رہائی دو کہ جینے کا دوسرا رستہ تو دیکھ سکیں ۔ لیکن سماج کے نزدیک یہ وجہ تو ” صرف اتنی سی بات ” ہے۔ کیوں کہ وہ اس معاملے پر ان عورتوں کو اپنا الگ ہی درس دیتا ہے ۔سماج کہتا ہے کہ اے عورت ! لب سی کر اسی دہلیز سے چمٹے رہنا ہی یہاں تیری عزت اور عظمت کا باعث ہے ۔تیری بڑائی بس یہی ہے کہ جنس کے فطری تقاضوں کو اپنے اندر پچھاڑے اور سرخرو کہلائے۔
ان ہی میں سے ایک عورت آج میرے سامنے رو رہی ہے ۔ یہ وہ ہے جس نے اس درس کو بھلا کرسماج سے بغاوت کر ڈالی ، جنسی بھوک سے بے تاب کسی لمحے میں شہوت بھری چیخ اندر سے نکلی اور وہ خوف زدہ ہوکر ایک مرد سے لپٹ گئی۔ اس وقت جنسی بھوک سے وہ اس قدر نڈھال تھی کہ یہ بھی نہ سوچا کہ جس مرد کے گلے لگی ہے اس کا دستخط نکاح نامے میں نہیں ۔ عورت کے اس ” گناہ ” نے سماج کی اندھی روایتوں کو یکایک بیناکرڈالا۔ جنس کی وہ بھوک جس سے نڈھال ہو کر اس عورت نے اندر ہی اندر گھٹ کر مرنے کے بجائے خود کو زندہ رکھنے کا ایک چور دروازہ تلاش کیا تھا ، اس پر تو گویا سماج کے ضبط کے سارے بندھن ہی ٹوٹ گئے ۔ وہ بندھن جوعورت کو اس بھوک میں تڑپتا دیکھ کر کبھی نہ ٹوٹے ۔ اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں ۔ لیکن آج بھی وہ عورت در بدر ہے۔ جنسی بھوک مٹانے کی سزا میں، عمر بھر کا جنسی فاقہ اس کا مقدر بنایا جا چکا ہے۔ اب تو اس کو اتنی بھی اجازت نہیں کہ اپنے کمرے کی کنڈی لگا کر سوہی جایا کرے ۔ ایک دہائی سے وہ یہ سزا کاٹ رہی ہے۔ محض ایک واقعہ اب تک اس کے کردار کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ۔ ایسی لعنت ملامت اور پھٹکار اس کا مقدر بنی ہوئی ہے، جسے دیکھ کر سماج سے زیادہ شکوہ خدا سے کر رہی ہوں جس نے جنس کی بھوک کو فطرت کا ایسا زور آور حصہ اگر بنانا ہی تھا تو پیٹ کی بھوک کی طرح اس کو مٹانے کے لیے بھی اضطرار کا کوئی راستہ تو چھوڑا ہوتا ۔
جنسی ناآسودگی کی یہ کہانیاں ہمارے اطراف آکاس کی بیلوں کی طرح بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ نا آسودگی صرف عورتوں کا نہیں بلکہ اکثر مردوں کا مقدر بھی بن جاتی ہے ۔ ایسے جوڑوں کی بھی بہتات ہے، جن کاازدواجی تعلق سماج کی طرف سے عورتوں کو دی جانے والی شرم وحیا کی اوور ڈوز کی وجہ سے کبھی چادر سے باہر کی دنیا میں جسموں کا باہمی فاصلہ پاٹ ہی نہ سکا، یوں ان میں سے اکثر مردوں کو اپنی بیویوں کے بجائے دوسری عورتوں تک رسائی قدرے آسان اور باعثِ سکون محسوس ہونے لگی، جس کو اخلاقی گراوٹ قرار دے کر سماج پھر خود ہی نوحہ گر بھی ہوا۔
یہ بات کہنے کے لیے کسی دعوے کی ضرورت نہیں کہ پیٹ اور جنس کی بھوک جب زوروں پر ہو تو انسان بلا تخصیص مرد یا عورت، کوئی کام یکسوئی، دل جمعی اور توجہ سے کر ہی نہیں سکتا۔ بد قسمتی سے یہ دونوں قسم کی بھوک ہمارے سماج میں پوری شدت سے بڑھ رہی ہیں۔کبھی مغرب کی ترقی کی جانب دیکھتی ہوں تو ماننا پڑتا ہے کہ پیٹ بھر روٹی میسرہو اور جنسی آسودگی سے دامن بھرا ہو تو ترقی کا سفر بڑی بے فکری اور تیزی سے طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کو شاید اس رنگینی کی ضرورت ہی نہیں جوپیٹ بھر کرجنسی بھوک مٹنے سے جذبات اور احساسات میں پیدا ہوتی ہے، اسی لیے نفرت بھرے تعلقات کو گھسیٹنے کی روایت کو اقدار کا نام دے کر ناآسودگی کی دلدل میں دھنسے انسان کے سر پہ ایک کیل اور ٹھونک دی جاتی ہے۔ فطری تعلقات میں بھی خود ساختہ انسانی اصولوں اور قوانین کا تڑکا لگا کر جانے اس سماج کو کیسا سکون ملتا ہے۔