صدف مرزا صاحبہ نے میری آمد پہ رضامندی کی خبر اپنے ادارے کو بھیجی اور پروگرام کی تیاری میں مصروف ہوگئیں۔ نو فروری کی دوپہر کو آدھا دن کام کرکے ائرپورٹ چلی گئی ۔ جہاز تھوڑا لیٹ تھا مگر پائیلٹ نے ہوا کے گھوڑے کو بھی پیچھے چھوڑ کر نہایت تیز رفتاری ہے چالیس منٹ میں کوپن ہیگن پہچا دیا۔ کوپن ہیگن اس سے قبل بھی ایک بار آنے کا اتفاق چونکہ ہوچکا تھا اس لیے شہر دیکھنے کی آرزو نہیں تھی ۔ہم بچوں کی فرمائش پر ڈنمارک کے دوسرے شہروں میں بھی گئے تھے ۔ لیکن اصل ڈنمارک کی رونق اس کا دارالحکومت شہر کوپن ہیگن ہی لگا۔ ہم جہاں ٹھہرے تھے وہاں سے شہر کے مرکز میں ٹیوولی کا تفریحی پارک قریب ہی تھا ۔ یہ تفریحی پارک ایک سو پچھتر سال پرانا ہے اوراس پارک کو آج بھی ہر سال لاکھوں افراد دیکھنے آتے ہیں۔ اس پارک کے جھولے، پریڈ اور خوش گوار ماحول سیاحوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے رہائشیوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ یورپ کے سیاح اس پارک کی سیاحت کے بغیر کوپن ہیگن کی سیر کو ادھورا تصور کرتے ہیں۔ اس معاملے میں نہ ہمارے بچے جھولوں اور میلوں کے دلدادہ ہیں اور نہ ہی میں اور میرے شوہر اس میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں ۔ صرف پارک کی شہرت سن کر اور سیاحت کا مرکزی حصہ مان کر ہم نے ایک شام وہاں بھی گزاری تھی ۔ سوائے وہاں قائم کردہ ایک میوزیم اور آرٹ گیلری کے ہمیں کوئی چیز ڈھنگ کی نہ لگی تھی۔ جھولوں پر بچے اور بڑے وحشیانہ چیخ و پکار کے ساتھ نہ جانے کون سا لطف حاصل کر رہے تھے اور لاٹری کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ البتہ ایک تھیٹر ہم نے دیکھا جس میں گئے وقت کے ایک شہنشاہ اور اس کی مضحکہ خیز حرکتوں کو تفریحی تمثیل کا نام دیا گیا تھا۔ جو ڈینش زبان میں کھیلا گیا تھا۔ ہم اپنی عقل و دانش اور زبان فہمی کی حد تک جتنا سمجھ سکے تو وہ اتنا برا نہیں لگا ۔ اس کے علاوہ بھی کوپن ہیگن میں درجنوں میوزیم اور تفریحی گاہیں ہیں جو یہاں آنے والے ہزاروں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔
ہوائی جہاز کے اس مختصر ترین سفر کے بعد ہم ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن ائر پورٹ پر پہنچ گئے ۔صدف مرزا اور زبیر صاحب ائر پورٹ پہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ چند تصاویر لینے کے بعد ائر پورٹ پارکنگ میں موجود کار کے ذریعے ہم صدف کے گھر پہنچے۔ ایک کھلے علاقے میں سمندری ہواؤں سے ٹکراتی ہوئی عمارت جس کے ارد گرد زندگی کی تمام آسائش کا اہتمام موجود تھا صدف مرزا کی جنت تھی۔ جہاں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں ۔ بیٹی، داماد اور نواسی کے علاوہ صدف مرزا کے کئی دوست اور ساتھی اس شہر میں ان کی مصروفیت اور ملنساری کا منہ بولتا ثبوت نظر آئے۔ زبیر صاحب ہمیں گھر پہ اُتار کر شام کو آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ گھر میں صدف نے گرما گرم نان اور چکن تیار کیا ہوا تھا ساتھ ہی کوفتے اور دہی بھلےبھی تیار تھے۔ مجھے سخت بھوک لگی تھی۔ ابھی کھانے کا آغاز کیاہی تھا کہ دروازے پہ گھنٹی بجی۔ صدف کی نواسی آئمہ صوفیہ اور بیٹی عالیہ دروازے پہ موجود تھیں ۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد عالیہ اپنی بیٹی کو اس کی نانو کے پاس چھوڑ کر چلی گئی۔ پھر نانو اور نواسی کے شغل شروع ہوگئے۔ میں کھانے کے بعد نماز پڑھنے اور کچھ دیر آرام کی غرض سےسفید براق بڑے بڑے آئینے والے کمرے میں لگے جہازی بستر پہ لیٹ گئی۔کمرے کے باہر سے مسلسل آوازیں آرہی تھیں ” ہاتھی آیا ہاتھی آیا سونڈھ میں بھر کر پانی لایا ” آئمہ اور نانو کی مصروفیت اچھی لگی۔
میں نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا کہ کہیں یہ نانی نواسی مجھ کو تو نہیں یاد کر رہی ہیں ۔ نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھیل میں مصروف تھیں ۔
مغرب کی نماز کے لیے کمرے سے باہر نکلی تو آئمہ صوفیہ کو اس کا تحفہ پیش کیا مگر پھر بھی ہمارے درمیان اجنبیت برقرار رہی۔ اُس کی نگاہیں بتارہی تھیں کہ میری آمد اُسے زیادہ پسند نہیں آئی ۔ وہ اپنی نانو کی مکمل توجہ کی حقدار تھی ایسے میں میرا آنا پھر اس کی نانو کے کمرے اور بستر پہ قبضہ کر لینا اسے بالکل نہیں بھا رہا تھا۔ جب میں وضو کرکے اس کے ماموں کے کمرے میں بچھی جائے نماز پہ نماز پڑھنے کی غرض سے داخل ہونے لگی تو وہ اپنا کھلونا صوفے پہ پھینک کر میرے تعاقب میں چلی آئی۔ میں نے صدف کی جوتی پہن رکھی تھی اس کی نگاہ مسلسل میرے پاؤں اور اپنے ماموں کے کمرے پہ تھی۔ میں نے جیسے ہی جوتی اتار کر کمرے میں قدم رکھا وہ بے صبری سے آگے بڑھی اور اپنی نانو کی چپل بغل میں دبا کر اُلٹے قدموں دوڑی اور ڈرائینگ روم میں گھس گئی۔ مجھے اس ننھی سی پری کی اس معصوم حرکت پہ ہنسی آگئی۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ ننھی سی گڑیا اپنی نانو کی محبت اور قربت میں بٹوارے کے احساس سے خود کو کچھ غیر محفوظ صورتحال میں محسوس کر رہی ہے۔نماز کے بعد میں نے اس سے دوستی کی بہت کوشش مگر ناکام رہی۔ وہ اپنی نانو کے باورچی خانے سے ملحقہ اپنے کچن میں چائے بناتی رہی اور مسلسل صرف اپنی نانو کو ہی پیش کرتی رہی۔ بچے اپنے جذبات کا برملا اظہار کرنا بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس مہمان کو چائے کی میز تک رسائی دینی ہے اور کس کو نظر انداز کر کے جتلانا ہے کہ آپ نے بلاوجہ زحمت کی اور ہماری نجی مصروفیات کو متاثر کیا۔ مگر میں بھی آئمہ صوفیہ سے مسلسل چائے مانگ کر یہ ثابت کرتی رہی کہ “بچے ! ہم شاعر و ادیب حساس اپنی جگہ لیکن اچھے خاصے ڈھیٹ بھی ہوتے ہیں۔ ایک بار چپک جائیں تو چھوٹی موٹی نظر اندازی اور بد اخلاقی ہماری طبیعت پر گراں نہیں گزرتی “ آخر کار آئمہ نے اپنی امی کی آمد کے بعد ان کی تنبیہ پر مجبوراً ہمیں چائے پیش کر ہی دی اور گھر جانے سے قبل ہمارا لایا ہوا تحفہ بھی بغل میں دبا کر اپنے ابو کی گود میں سوار ہوکر چل دیں۔
(جاری)