Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نعمان یاور صوفی
لکھنے اور زندہ رہنے کے لیے رائٹر پیسہ کما سکتا ہے، لیکن پیسہ کمانے کی خاطر لکھنا اور زندہ رہنا درست نہیں‘۔یہ بات دنیا بھر کے مزدورں کو اپنے حقوق باور کرانے اور اس جدوجہد کے لیے تیار کرنے والے دانشور، فلسفی اور نظریہ ساز کارل مارکس نے کہی تھی جو دو سو دوسال پہلے پانچ مئی 1818ء میں جرمنی کےشہر ٹرائیر میں پیداہوا جس نے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کو بنایا اور اپنے افکار کے ذریعے مشینوں کےآنےسےسرمایہ دارانہ صنعت کی بڑے پیمانے پر ترقی سے متاثر کسانوں اور دستکاروں کو حوصلہ دیا۔
کیمونزم کا بانی کہلانے والے مارکس کو دنیا میں اقتصادی ماہر، سیاسی مفکر، فلسفی اور تاریخ دان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک پیشہ ور صحافی تھے جنہوں نے اوائل عمری سے ہی صحافت میں قدم رکھا۔وہ 24 سال کی عمر میں اخبار ’رنشے زیؤنگ‘سے وابستہ ہوئے اور اسی سال یعنی 1842ء کے اکتوبر میں اخبار کےایڈیٹر بن گئے۔انہوں نے اخبار میں انقلابی اور جمہوری سوچ کی ترویج کی اور سماجی اور سیاسی بالادستی اور جبر کے خلاف بے باک مضامین تحریر کیے۔اخبار میں کام کرنے، جرمنی کے عوام کی مشکلات کو محسوس کرنے اور دوسرے ملکوں میں چلنے والی مزدور تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد نوجوان مارکس کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہو ئے۔
حکومت اخبار کے رجحان اور اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ ہو گئی۔ اُس نے اخبارپر سنسرشپ کی پابندی سخت کردی اور یکم اپریل 1943ء سے اس کی ضبطی کی ڈگری جاری کردی۔ مارکس اس سے پہلے 17 مارچ کو ہی مستعفی ہو چکے تھے جب اخبار کے حصہ داروں نے ان پر پالیسی نرم کر نے کے لیے زور دیا تھا۔ مارکس نے نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کرلیا۔ مقصد تھا کہ باہر سے ایک انقلابی پرچہ شائع کرکے جرمنی کے اندر بھیجا جائے۔اگست 1844ء کے آخر میں اینگلز پیرس آیا جہاں ان دونوں ہستیوں کی یاد گار ملاقات ہوئی۔ ان کے نظریات میں مکمل ہم آہنگی تھی۔ یہ ملاقات ان کے مابین تخلیقی ساجھے داری کا آغاز تھی، جس کی تاریخ میں نظیرنہیں ملتی۔
مارکس ایک پیشہ ور مصنف اور صحافی تھے جنہوں نے ٹربیون اخبار کے لیے اینگلز کے ساتھ ملکر 500 آرٹیکلز لکھے۔ بعد میں یہ تحریریں سات جلدوں میں شائع ہوئیں۔ انہی کی آمدن درحقیقت مارکس کی پونجی یا گزربسر تھی۔ مارکس نے سنسرشپ کے خلاف آواز بلند کی، ان کا کہنا تھا سنسر شپ کی بنیاد جن بہانوں پر کھڑی کی گئی ہے اس سے انسان واپس پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔مارکس نے کہا کہ کپڑے میں لپٹے بچے کو جھولنے سےنکال کر چلناسکھائیں تو پہلے پہل وہ گرتا ہے اور پھر چلتاہے، گرنے کے ڈر سے چلنے کاعمل ترک نہیں کیاجاسکتا۔
مارکس اور اینگلز کےخیال میں نئے اخبار نیو رنشچے زیتونگ کا ابتدائی کام یہ تھا کہ وہ اس فریب کا پردہ چاک کرے جو مارچ کی لڑائیوں(مارچ انقلاب)کےمتعلق عام کیا گیا تھا کہ انقلاب مکمل ہو گیا اور اب اس سے فائدہ اٹھانے کا وقت آ گیاہے۔اخبار نے عام لوگوں کو بتایا کہ فیصلہ کن جنگ ابھی باقی ہے اور سرمایہ داری نظام جبر کی پالیسی پر کاربند ہے۔ مارکس کا اخبار ترقی پسندوں اورجمہوری اقدار کے حامیوں کا مددگار بن گیا۔اخبار کا مزدور نواز رویہ جون 1848ء میں پیرس میں مزدوروں کی بغاوت کےدوران اور نمایاں ہوگیا۔ مارکس نے اس شورش کی تاریخی اہمیت کاذکر کیا اور اسے سرمایہ داری اور مزدورتحریک کے مابین اولین خانہ جنگی قرار دیا۔
مارکس نے اس دوران سنسرشپ کو معاشرے کی ترقی کی راہ میں زہر قاتل قرار دیا، ان کا کہنا تھا صحافت کا مقصد حقیقی سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورت حال کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ عوام کی اکثریت کو اپنے اردگرد سے آگاہی حاصل ہو۔مارکس کا کہنا تھا فری پریس (آزادی صحافت)ایک کھلی اور چوکس آنکھ کی طرح ہے، یہ لوگوں کی صاف گوئی اور خود اعترافی کی مثال ہے۔ وہ آزاد صحافت کو ایک روحانی آئینہ قرار دیتا جس میں لوگ اپنے آپ کو سمجھ پاتے ہیں۔مارکس صحافت کو کاروبار بنانے کے سخت مخالف تھے۔انہوں نے کہا آزادی صحافت کا ہرگز مطلب کاروبار نہیں۔ ان کی کوشش تھی کہ عملی صحافت پر کاروباری رنگ نہ چڑھنے پائے۔ان کی رائے میں صحافیوں کو عوام، سرکاری و نجی حکام، حتیٰ کہ اخبار مالکان کے ساتھ تعلقات بنانے کا حق ہے۔مگر انہیں کسی جبر یابیرونی مداخلت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
جرمن حکومت مارکس کےاخبار سمیت متعدد اخباروں کی اشاعت روک دی۔اینگلز اور کئی دوسروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے اور وہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔کولون میں مارشل لا کے خلاف بڑے پیمانے پر اجتماعی مہم کی وجہ سےان کا اخبار ایک بار پھر تین اکتوبر کو شہر کے کوچہ وبا زار میں بک رہا تھا۔ اخبار کی اشاعت جاری رکھنے کی خاطرمارکس کو اس اثاثے کی قربانی دینا پڑی جو اسے اپنے باپ کی طرف سےورثےمیں ملاتھا۔
اینگلز کی رخصتی کے بعد مارکس کا زیادہ وقت اخبار کی ادارت میں صرف ہونے لگا۔ انہوں نے جمہوری سوسائٹی اور مزدور لیگ میں بھی کام کیا۔مارکس لیگ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے مزدوروں کو ویانا میں بغاوت کی صورت حال سے آگاہ کیا۔’وی آنا کی شکست ‘کے عنوان سے چھ نومبر 1848ء کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں مارکس نے بغاوت کی ناکامی کی وجہ سرمایہ داروں کی سازش کو قرار دیا۔اگست 1851ء میں مارکس نے نیو یارک کے روزنامہ ٹربیون کی پیش کش قبول کرلی اور یورپ میں اس کے نمائند ہ خصوصی بن گئے۔یہ امریکا کامشہور اور ترقی پسند اخبار تھا۔مارکس نے دس سال تک ٹربیون کے لیے کام کیا۔ اس دوران اینگلزبھی باقاعدگی سے مضامین لکھ کران کی مدد کرتے رہے۔
1857ء میں جب ہندوستان میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت ہوئی تو مارکس نے ہندوستان کے محکوم طبقے کے حق میں آواز بلند کی۔برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کاتجزیہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ ہندوستان کے لوگ اس وقت تک اپنی غربت اورافلاس پر قابو پانے کے قابل نہیں ہوں گےجب تک برطانیا میں مزدور طبقے کی حکومت نہیں آجاتی۔
کارل مارکس کی صحافت اور خصوصاً فری پریس کیلئے کام کو دنیابھر میں نہ صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ کئی ممالک کے نصاب میں بھی شامل ہے۔مگر سرد جنگ کے دوران ہونے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے پاکستان کا صحافی اور صحافت کا طالبعلم مارکس کی آزادی اظہار کے لیے جدوجہد اور تحریروں سے لاعلم ہے۔ہم دنیا کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ عقل کے اندھے کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔
نعمان یاور صوفی
لکھنے اور زندہ رہنے کے لیے رائٹر پیسہ کما سکتا ہے، لیکن پیسہ کمانے کی خاطر لکھنا اور زندہ رہنا درست نہیں‘۔یہ بات دنیا بھر کے مزدورں کو اپنے حقوق باور کرانے اور اس جدوجہد کے لیے تیار کرنے والے دانشور، فلسفی اور نظریہ ساز کارل مارکس نے کہی تھی جو دو سو دوسال پہلے پانچ مئی 1818ء میں جرمنی کےشہر ٹرائیر میں پیداہوا جس نے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کو بنایا اور اپنے افکار کے ذریعے مشینوں کےآنےسےسرمایہ دارانہ صنعت کی بڑے پیمانے پر ترقی سے متاثر کسانوں اور دستکاروں کو حوصلہ دیا۔
کیمونزم کا بانی کہلانے والے مارکس کو دنیا میں اقتصادی ماہر، سیاسی مفکر، فلسفی اور تاریخ دان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک پیشہ ور صحافی تھے جنہوں نے اوائل عمری سے ہی صحافت میں قدم رکھا۔وہ 24 سال کی عمر میں اخبار ’رنشے زیؤنگ‘سے وابستہ ہوئے اور اسی سال یعنی 1842ء کے اکتوبر میں اخبار کےایڈیٹر بن گئے۔انہوں نے اخبار میں انقلابی اور جمہوری سوچ کی ترویج کی اور سماجی اور سیاسی بالادستی اور جبر کے خلاف بے باک مضامین تحریر کیے۔اخبار میں کام کرنے، جرمنی کے عوام کی مشکلات کو محسوس کرنے اور دوسرے ملکوں میں چلنے والی مزدور تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد نوجوان مارکس کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہو ئے۔
حکومت اخبار کے رجحان اور اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ ہو گئی۔ اُس نے اخبارپر سنسرشپ کی پابندی سخت کردی اور یکم اپریل 1943ء سے اس کی ضبطی کی ڈگری جاری کردی۔ مارکس اس سے پہلے 17 مارچ کو ہی مستعفی ہو چکے تھے جب اخبار کے حصہ داروں نے ان پر پالیسی نرم کر نے کے لیے زور دیا تھا۔ مارکس نے نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کرلیا۔ مقصد تھا کہ باہر سے ایک انقلابی پرچہ شائع کرکے جرمنی کے اندر بھیجا جائے۔اگست 1844ء کے آخر میں اینگلز پیرس آیا جہاں ان دونوں ہستیوں کی یاد گار ملاقات ہوئی۔ ان کے نظریات میں مکمل ہم آہنگی تھی۔ یہ ملاقات ان کے مابین تخلیقی ساجھے داری کا آغاز تھی، جس کی تاریخ میں نظیرنہیں ملتی۔
مارکس ایک پیشہ ور مصنف اور صحافی تھے جنہوں نے ٹربیون اخبار کے لیے اینگلز کے ساتھ ملکر 500 آرٹیکلز لکھے۔ بعد میں یہ تحریریں سات جلدوں میں شائع ہوئیں۔ انہی کی آمدن درحقیقت مارکس کی پونجی یا گزربسر تھی۔ مارکس نے سنسرشپ کے خلاف آواز بلند کی، ان کا کہنا تھا سنسر شپ کی بنیاد جن بہانوں پر کھڑی کی گئی ہے اس سے انسان واپس پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔مارکس نے کہا کہ کپڑے میں لپٹے بچے کو جھولنے سےنکال کر چلناسکھائیں تو پہلے پہل وہ گرتا ہے اور پھر چلتاہے، گرنے کے ڈر سے چلنے کاعمل ترک نہیں کیاجاسکتا۔
مارکس اور اینگلز کےخیال میں نئے اخبار نیو رنشچے زیتونگ کا ابتدائی کام یہ تھا کہ وہ اس فریب کا پردہ چاک کرے جو مارچ کی لڑائیوں(مارچ انقلاب)کےمتعلق عام کیا گیا تھا کہ انقلاب مکمل ہو گیا اور اب اس سے فائدہ اٹھانے کا وقت آ گیاہے۔اخبار نے عام لوگوں کو بتایا کہ فیصلہ کن جنگ ابھی باقی ہے اور سرمایہ داری نظام جبر کی پالیسی پر کاربند ہے۔ مارکس کا اخبار ترقی پسندوں اورجمہوری اقدار کے حامیوں کا مددگار بن گیا۔اخبار کا مزدور نواز رویہ جون 1848ء میں پیرس میں مزدوروں کی بغاوت کےدوران اور نمایاں ہوگیا۔ مارکس نے اس شورش کی تاریخی اہمیت کاذکر کیا اور اسے سرمایہ داری اور مزدورتحریک کے مابین اولین خانہ جنگی قرار دیا۔
مارکس نے اس دوران سنسرشپ کو معاشرے کی ترقی کی راہ میں زہر قاتل قرار دیا، ان کا کہنا تھا صحافت کا مقصد حقیقی سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورت حال کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ عوام کی اکثریت کو اپنے اردگرد سے آگاہی حاصل ہو۔مارکس کا کہنا تھا فری پریس (آزادی صحافت)ایک کھلی اور چوکس آنکھ کی طرح ہے، یہ لوگوں کی صاف گوئی اور خود اعترافی کی مثال ہے۔ وہ آزاد صحافت کو ایک روحانی آئینہ قرار دیتا جس میں لوگ اپنے آپ کو سمجھ پاتے ہیں۔مارکس صحافت کو کاروبار بنانے کے سخت مخالف تھے۔انہوں نے کہا آزادی صحافت کا ہرگز مطلب کاروبار نہیں۔ ان کی کوشش تھی کہ عملی صحافت پر کاروباری رنگ نہ چڑھنے پائے۔ان کی رائے میں صحافیوں کو عوام، سرکاری و نجی حکام، حتیٰ کہ اخبار مالکان کے ساتھ تعلقات بنانے کا حق ہے۔مگر انہیں کسی جبر یابیرونی مداخلت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
جرمن حکومت مارکس کےاخبار سمیت متعدد اخباروں کی اشاعت روک دی۔اینگلز اور کئی دوسروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے اور وہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔کولون میں مارشل لا کے خلاف بڑے پیمانے پر اجتماعی مہم کی وجہ سےان کا اخبار ایک بار پھر تین اکتوبر کو شہر کے کوچہ وبا زار میں بک رہا تھا۔ اخبار کی اشاعت جاری رکھنے کی خاطرمارکس کو اس اثاثے کی قربانی دینا پڑی جو اسے اپنے باپ کی طرف سےورثےمیں ملاتھا۔
اینگلز کی رخصتی کے بعد مارکس کا زیادہ وقت اخبار کی ادارت میں صرف ہونے لگا۔ انہوں نے جمہوری سوسائٹی اور مزدور لیگ میں بھی کام کیا۔مارکس لیگ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے مزدوروں کو ویانا میں بغاوت کی صورت حال سے آگاہ کیا۔’وی آنا کی شکست ‘کے عنوان سے چھ نومبر 1848ء کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں مارکس نے بغاوت کی ناکامی کی وجہ سرمایہ داروں کی سازش کو قرار دیا۔اگست 1851ء میں مارکس نے نیو یارک کے روزنامہ ٹربیون کی پیش کش قبول کرلی اور یورپ میں اس کے نمائند ہ خصوصی بن گئے۔یہ امریکا کامشہور اور ترقی پسند اخبار تھا۔مارکس نے دس سال تک ٹربیون کے لیے کام کیا۔ اس دوران اینگلزبھی باقاعدگی سے مضامین لکھ کران کی مدد کرتے رہے۔
1857ء میں جب ہندوستان میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت ہوئی تو مارکس نے ہندوستان کے محکوم طبقے کے حق میں آواز بلند کی۔برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کاتجزیہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ ہندوستان کے لوگ اس وقت تک اپنی غربت اورافلاس پر قابو پانے کے قابل نہیں ہوں گےجب تک برطانیا میں مزدور طبقے کی حکومت نہیں آجاتی۔
کارل مارکس کی صحافت اور خصوصاً فری پریس کیلئے کام کو دنیابھر میں نہ صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ کئی ممالک کے نصاب میں بھی شامل ہے۔مگر سرد جنگ کے دوران ہونے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے پاکستان کا صحافی اور صحافت کا طالبعلم مارکس کی آزادی اظہار کے لیے جدوجہد اور تحریروں سے لاعلم ہے۔ہم دنیا کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ عقل کے اندھے کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔
ADVERTISEMENT
نعمان یاور صوفی
لکھنے اور زندہ رہنے کے لیے رائٹر پیسہ کما سکتا ہے، لیکن پیسہ کمانے کی خاطر لکھنا اور زندہ رہنا درست نہیں‘۔یہ بات دنیا بھر کے مزدورں کو اپنے حقوق باور کرانے اور اس جدوجہد کے لیے تیار کرنے والے دانشور، فلسفی اور نظریہ ساز کارل مارکس نے کہی تھی جو دو سو دوسال پہلے پانچ مئی 1818ء میں جرمنی کےشہر ٹرائیر میں پیداہوا جس نے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کو بنایا اور اپنے افکار کے ذریعے مشینوں کےآنےسےسرمایہ دارانہ صنعت کی بڑے پیمانے پر ترقی سے متاثر کسانوں اور دستکاروں کو حوصلہ دیا۔
کیمونزم کا بانی کہلانے والے مارکس کو دنیا میں اقتصادی ماہر، سیاسی مفکر، فلسفی اور تاریخ دان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک پیشہ ور صحافی تھے جنہوں نے اوائل عمری سے ہی صحافت میں قدم رکھا۔وہ 24 سال کی عمر میں اخبار ’رنشے زیؤنگ‘سے وابستہ ہوئے اور اسی سال یعنی 1842ء کے اکتوبر میں اخبار کےایڈیٹر بن گئے۔انہوں نے اخبار میں انقلابی اور جمہوری سوچ کی ترویج کی اور سماجی اور سیاسی بالادستی اور جبر کے خلاف بے باک مضامین تحریر کیے۔اخبار میں کام کرنے، جرمنی کے عوام کی مشکلات کو محسوس کرنے اور دوسرے ملکوں میں چلنے والی مزدور تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد نوجوان مارکس کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہو ئے۔
حکومت اخبار کے رجحان اور اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ ہو گئی۔ اُس نے اخبارپر سنسرشپ کی پابندی سخت کردی اور یکم اپریل 1943ء سے اس کی ضبطی کی ڈگری جاری کردی۔ مارکس اس سے پہلے 17 مارچ کو ہی مستعفی ہو چکے تھے جب اخبار کے حصہ داروں نے ان پر پالیسی نرم کر نے کے لیے زور دیا تھا۔ مارکس نے نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کرلیا۔ مقصد تھا کہ باہر سے ایک انقلابی پرچہ شائع کرکے جرمنی کے اندر بھیجا جائے۔اگست 1844ء کے آخر میں اینگلز پیرس آیا جہاں ان دونوں ہستیوں کی یاد گار ملاقات ہوئی۔ ان کے نظریات میں مکمل ہم آہنگی تھی۔ یہ ملاقات ان کے مابین تخلیقی ساجھے داری کا آغاز تھی، جس کی تاریخ میں نظیرنہیں ملتی۔
مارکس ایک پیشہ ور مصنف اور صحافی تھے جنہوں نے ٹربیون اخبار کے لیے اینگلز کے ساتھ ملکر 500 آرٹیکلز لکھے۔ بعد میں یہ تحریریں سات جلدوں میں شائع ہوئیں۔ انہی کی آمدن درحقیقت مارکس کی پونجی یا گزربسر تھی۔ مارکس نے سنسرشپ کے خلاف آواز بلند کی، ان کا کہنا تھا سنسر شپ کی بنیاد جن بہانوں پر کھڑی کی گئی ہے اس سے انسان واپس پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔مارکس نے کہا کہ کپڑے میں لپٹے بچے کو جھولنے سےنکال کر چلناسکھائیں تو پہلے پہل وہ گرتا ہے اور پھر چلتاہے، گرنے کے ڈر سے چلنے کاعمل ترک نہیں کیاجاسکتا۔
مارکس اور اینگلز کےخیال میں نئے اخبار نیو رنشچے زیتونگ کا ابتدائی کام یہ تھا کہ وہ اس فریب کا پردہ چاک کرے جو مارچ کی لڑائیوں(مارچ انقلاب)کےمتعلق عام کیا گیا تھا کہ انقلاب مکمل ہو گیا اور اب اس سے فائدہ اٹھانے کا وقت آ گیاہے۔اخبار نے عام لوگوں کو بتایا کہ فیصلہ کن جنگ ابھی باقی ہے اور سرمایہ داری نظام جبر کی پالیسی پر کاربند ہے۔ مارکس کا اخبار ترقی پسندوں اورجمہوری اقدار کے حامیوں کا مددگار بن گیا۔اخبار کا مزدور نواز رویہ جون 1848ء میں پیرس میں مزدوروں کی بغاوت کےدوران اور نمایاں ہوگیا۔ مارکس نے اس شورش کی تاریخی اہمیت کاذکر کیا اور اسے سرمایہ داری اور مزدورتحریک کے مابین اولین خانہ جنگی قرار دیا۔
مارکس نے اس دوران سنسرشپ کو معاشرے کی ترقی کی راہ میں زہر قاتل قرار دیا، ان کا کہنا تھا صحافت کا مقصد حقیقی سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورت حال کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ عوام کی اکثریت کو اپنے اردگرد سے آگاہی حاصل ہو۔مارکس کا کہنا تھا فری پریس (آزادی صحافت)ایک کھلی اور چوکس آنکھ کی طرح ہے، یہ لوگوں کی صاف گوئی اور خود اعترافی کی مثال ہے۔ وہ آزاد صحافت کو ایک روحانی آئینہ قرار دیتا جس میں لوگ اپنے آپ کو سمجھ پاتے ہیں۔مارکس صحافت کو کاروبار بنانے کے سخت مخالف تھے۔انہوں نے کہا آزادی صحافت کا ہرگز مطلب کاروبار نہیں۔ ان کی کوشش تھی کہ عملی صحافت پر کاروباری رنگ نہ چڑھنے پائے۔ان کی رائے میں صحافیوں کو عوام، سرکاری و نجی حکام، حتیٰ کہ اخبار مالکان کے ساتھ تعلقات بنانے کا حق ہے۔مگر انہیں کسی جبر یابیرونی مداخلت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
جرمن حکومت مارکس کےاخبار سمیت متعدد اخباروں کی اشاعت روک دی۔اینگلز اور کئی دوسروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے اور وہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔کولون میں مارشل لا کے خلاف بڑے پیمانے پر اجتماعی مہم کی وجہ سےان کا اخبار ایک بار پھر تین اکتوبر کو شہر کے کوچہ وبا زار میں بک رہا تھا۔ اخبار کی اشاعت جاری رکھنے کی خاطرمارکس کو اس اثاثے کی قربانی دینا پڑی جو اسے اپنے باپ کی طرف سےورثےمیں ملاتھا۔
اینگلز کی رخصتی کے بعد مارکس کا زیادہ وقت اخبار کی ادارت میں صرف ہونے لگا۔ انہوں نے جمہوری سوسائٹی اور مزدور لیگ میں بھی کام کیا۔مارکس لیگ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے مزدوروں کو ویانا میں بغاوت کی صورت حال سے آگاہ کیا۔’وی آنا کی شکست ‘کے عنوان سے چھ نومبر 1848ء کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں مارکس نے بغاوت کی ناکامی کی وجہ سرمایہ داروں کی سازش کو قرار دیا۔اگست 1851ء میں مارکس نے نیو یارک کے روزنامہ ٹربیون کی پیش کش قبول کرلی اور یورپ میں اس کے نمائند ہ خصوصی بن گئے۔یہ امریکا کامشہور اور ترقی پسند اخبار تھا۔مارکس نے دس سال تک ٹربیون کے لیے کام کیا۔ اس دوران اینگلزبھی باقاعدگی سے مضامین لکھ کران کی مدد کرتے رہے۔
1857ء میں جب ہندوستان میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت ہوئی تو مارکس نے ہندوستان کے محکوم طبقے کے حق میں آواز بلند کی۔برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کاتجزیہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ ہندوستان کے لوگ اس وقت تک اپنی غربت اورافلاس پر قابو پانے کے قابل نہیں ہوں گےجب تک برطانیا میں مزدور طبقے کی حکومت نہیں آجاتی۔
کارل مارکس کی صحافت اور خصوصاً فری پریس کیلئے کام کو دنیابھر میں نہ صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ کئی ممالک کے نصاب میں بھی شامل ہے۔مگر سرد جنگ کے دوران ہونے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے پاکستان کا صحافی اور صحافت کا طالبعلم مارکس کی آزادی اظہار کے لیے جدوجہد اور تحریروں سے لاعلم ہے۔ہم دنیا کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ عقل کے اندھے کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔
نعمان یاور صوفی
لکھنے اور زندہ رہنے کے لیے رائٹر پیسہ کما سکتا ہے، لیکن پیسہ کمانے کی خاطر لکھنا اور زندہ رہنا درست نہیں‘۔یہ بات دنیا بھر کے مزدورں کو اپنے حقوق باور کرانے اور اس جدوجہد کے لیے تیار کرنے والے دانشور، فلسفی اور نظریہ ساز کارل مارکس نے کہی تھی جو دو سو دوسال پہلے پانچ مئی 1818ء میں جرمنی کےشہر ٹرائیر میں پیداہوا جس نے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کو بنایا اور اپنے افکار کے ذریعے مشینوں کےآنےسےسرمایہ دارانہ صنعت کی بڑے پیمانے پر ترقی سے متاثر کسانوں اور دستکاروں کو حوصلہ دیا۔
کیمونزم کا بانی کہلانے والے مارکس کو دنیا میں اقتصادی ماہر، سیاسی مفکر، فلسفی اور تاریخ دان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک پیشہ ور صحافی تھے جنہوں نے اوائل عمری سے ہی صحافت میں قدم رکھا۔وہ 24 سال کی عمر میں اخبار ’رنشے زیؤنگ‘سے وابستہ ہوئے اور اسی سال یعنی 1842ء کے اکتوبر میں اخبار کےایڈیٹر بن گئے۔انہوں نے اخبار میں انقلابی اور جمہوری سوچ کی ترویج کی اور سماجی اور سیاسی بالادستی اور جبر کے خلاف بے باک مضامین تحریر کیے۔اخبار میں کام کرنے، جرمنی کے عوام کی مشکلات کو محسوس کرنے اور دوسرے ملکوں میں چلنے والی مزدور تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد نوجوان مارکس کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہو ئے۔
حکومت اخبار کے رجحان اور اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ ہو گئی۔ اُس نے اخبارپر سنسرشپ کی پابندی سخت کردی اور یکم اپریل 1943ء سے اس کی ضبطی کی ڈگری جاری کردی۔ مارکس اس سے پہلے 17 مارچ کو ہی مستعفی ہو چکے تھے جب اخبار کے حصہ داروں نے ان پر پالیسی نرم کر نے کے لیے زور دیا تھا۔ مارکس نے نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کرلیا۔ مقصد تھا کہ باہر سے ایک انقلابی پرچہ شائع کرکے جرمنی کے اندر بھیجا جائے۔اگست 1844ء کے آخر میں اینگلز پیرس آیا جہاں ان دونوں ہستیوں کی یاد گار ملاقات ہوئی۔ ان کے نظریات میں مکمل ہم آہنگی تھی۔ یہ ملاقات ان کے مابین تخلیقی ساجھے داری کا آغاز تھی، جس کی تاریخ میں نظیرنہیں ملتی۔
مارکس ایک پیشہ ور مصنف اور صحافی تھے جنہوں نے ٹربیون اخبار کے لیے اینگلز کے ساتھ ملکر 500 آرٹیکلز لکھے۔ بعد میں یہ تحریریں سات جلدوں میں شائع ہوئیں۔ انہی کی آمدن درحقیقت مارکس کی پونجی یا گزربسر تھی۔ مارکس نے سنسرشپ کے خلاف آواز بلند کی، ان کا کہنا تھا سنسر شپ کی بنیاد جن بہانوں پر کھڑی کی گئی ہے اس سے انسان واپس پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔مارکس نے کہا کہ کپڑے میں لپٹے بچے کو جھولنے سےنکال کر چلناسکھائیں تو پہلے پہل وہ گرتا ہے اور پھر چلتاہے، گرنے کے ڈر سے چلنے کاعمل ترک نہیں کیاجاسکتا۔
مارکس اور اینگلز کےخیال میں نئے اخبار نیو رنشچے زیتونگ کا ابتدائی کام یہ تھا کہ وہ اس فریب کا پردہ چاک کرے جو مارچ کی لڑائیوں(مارچ انقلاب)کےمتعلق عام کیا گیا تھا کہ انقلاب مکمل ہو گیا اور اب اس سے فائدہ اٹھانے کا وقت آ گیاہے۔اخبار نے عام لوگوں کو بتایا کہ فیصلہ کن جنگ ابھی باقی ہے اور سرمایہ داری نظام جبر کی پالیسی پر کاربند ہے۔ مارکس کا اخبار ترقی پسندوں اورجمہوری اقدار کے حامیوں کا مددگار بن گیا۔اخبار کا مزدور نواز رویہ جون 1848ء میں پیرس میں مزدوروں کی بغاوت کےدوران اور نمایاں ہوگیا۔ مارکس نے اس شورش کی تاریخی اہمیت کاذکر کیا اور اسے سرمایہ داری اور مزدورتحریک کے مابین اولین خانہ جنگی قرار دیا۔
مارکس نے اس دوران سنسرشپ کو معاشرے کی ترقی کی راہ میں زہر قاتل قرار دیا، ان کا کہنا تھا صحافت کا مقصد حقیقی سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورت حال کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ عوام کی اکثریت کو اپنے اردگرد سے آگاہی حاصل ہو۔مارکس کا کہنا تھا فری پریس (آزادی صحافت)ایک کھلی اور چوکس آنکھ کی طرح ہے، یہ لوگوں کی صاف گوئی اور خود اعترافی کی مثال ہے۔ وہ آزاد صحافت کو ایک روحانی آئینہ قرار دیتا جس میں لوگ اپنے آپ کو سمجھ پاتے ہیں۔مارکس صحافت کو کاروبار بنانے کے سخت مخالف تھے۔انہوں نے کہا آزادی صحافت کا ہرگز مطلب کاروبار نہیں۔ ان کی کوشش تھی کہ عملی صحافت پر کاروباری رنگ نہ چڑھنے پائے۔ان کی رائے میں صحافیوں کو عوام، سرکاری و نجی حکام، حتیٰ کہ اخبار مالکان کے ساتھ تعلقات بنانے کا حق ہے۔مگر انہیں کسی جبر یابیرونی مداخلت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
جرمن حکومت مارکس کےاخبار سمیت متعدد اخباروں کی اشاعت روک دی۔اینگلز اور کئی دوسروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے اور وہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔کولون میں مارشل لا کے خلاف بڑے پیمانے پر اجتماعی مہم کی وجہ سےان کا اخبار ایک بار پھر تین اکتوبر کو شہر کے کوچہ وبا زار میں بک رہا تھا۔ اخبار کی اشاعت جاری رکھنے کی خاطرمارکس کو اس اثاثے کی قربانی دینا پڑی جو اسے اپنے باپ کی طرف سےورثےمیں ملاتھا۔
اینگلز کی رخصتی کے بعد مارکس کا زیادہ وقت اخبار کی ادارت میں صرف ہونے لگا۔ انہوں نے جمہوری سوسائٹی اور مزدور لیگ میں بھی کام کیا۔مارکس لیگ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے مزدوروں کو ویانا میں بغاوت کی صورت حال سے آگاہ کیا۔’وی آنا کی شکست ‘کے عنوان سے چھ نومبر 1848ء کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں مارکس نے بغاوت کی ناکامی کی وجہ سرمایہ داروں کی سازش کو قرار دیا۔اگست 1851ء میں مارکس نے نیو یارک کے روزنامہ ٹربیون کی پیش کش قبول کرلی اور یورپ میں اس کے نمائند ہ خصوصی بن گئے۔یہ امریکا کامشہور اور ترقی پسند اخبار تھا۔مارکس نے دس سال تک ٹربیون کے لیے کام کیا۔ اس دوران اینگلزبھی باقاعدگی سے مضامین لکھ کران کی مدد کرتے رہے۔
1857ء میں جب ہندوستان میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت ہوئی تو مارکس نے ہندوستان کے محکوم طبقے کے حق میں آواز بلند کی۔برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کاتجزیہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ ہندوستان کے لوگ اس وقت تک اپنی غربت اورافلاس پر قابو پانے کے قابل نہیں ہوں گےجب تک برطانیا میں مزدور طبقے کی حکومت نہیں آجاتی۔
کارل مارکس کی صحافت اور خصوصاً فری پریس کیلئے کام کو دنیابھر میں نہ صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ کئی ممالک کے نصاب میں بھی شامل ہے۔مگر سرد جنگ کے دوران ہونے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے پاکستان کا صحافی اور صحافت کا طالبعلم مارکس کی آزادی اظہار کے لیے جدوجہد اور تحریروں سے لاعلم ہے۔ہم دنیا کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ عقل کے اندھے کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔
نعمان یاور نے تین دہائی پہلے 1989 میں معروف صحافی حسین نقی کی ترغیب پر پنجابی اخبار میں صحافت کا آغازکیا، روزنامہ جنگ میں طویل مدت تک نیوز روم سے وابستہ رہے،رپورٹنگ، فیچر رائٹنگ اور کالم نگاری بھی کی، روزنامہ ایکسپریس کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ 2004 سے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہوگئے، آج ٹی وی میں اینکر، رپورٹر اور نیوز ڈیسک کے فرائض انجام دیئے، ایک نیوز چینل میں سنیئر پروڈیوسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں، کالم نگاری کے علاوہ مختلف ویب سائٹس پر بلاگ بھی لکھتے ہیں، زمانہ طالبعلمی میں بائیں بازو کی سیاست کے سرگرم رکن رہے اور 1985 سے 1988 تک پولیٹیکل تھیٹر سے بھی وابستہ رہے۔